Skip to main content

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَاۡ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰۤى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوْۤا اِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِيْنَ ۙ

Say
قُلْ
کہہ دیجیے
"Only
إِنَّمَآ
بیشک میں
I am
أَنَا۠
میں
a man
بَشَرٌ
ایک انسان ہوں
like you
مِّثْلُكُمْ
تمہاری مانند
it is revealed
يُوحَىٰٓ
وحی کی جاتی ہے
to me
إِلَىَّ
میری طرف
that
أَنَّمَآ
بیشک
your god
إِلَٰهُكُمْ
الہ تمہارا
(is) God
إِلَٰهٌ
الہ
One;
وَٰحِدٌ
ایک ہی ہے
so take a Straight Path
فَٱسْتَقِيمُوٓا۟
تو سیدھے چلو
to Him
إِلَيْهِ
اس کی طرف
and ask His forgiveness"
وَٱسْتَغْفِرُوهُۗ
اور بخشش مانگو اس سے
And woe
وَوَيْلٌ
اور ہلاکت ہے
to the polytheists
لِّلْمُشْرِكِينَ
مشرکوں کے لیے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اے نبیؐ، اِن سے کہو، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے، لہٰذا تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو تباہی ہے اُن مشرکوں کے لیے

English Sahih:

Say, [O Muhammad], "I am only a man like you to whom it has been revealed that your god is but one God; so take a straight course to Him and seek His forgiveness." And woe to those who associate others with Allah

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اے نبیؐ، اِن سے کہو، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے، لہٰذا تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو تباہی ہے اُن مشرکوں کے لیے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تم فرماؤ آدمی ہونے میں تو میں تمہیں جیسا ہوں مجھے وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے، تو اس کے حضور سیدھے رہو اور اس سے معافی مانگو اور خرابی ہے شرک والوں کو،

احمد علی Ahmed Ali

آپ ان سے کہہ دیں کہ میں بھی تم جیسا ایک آدمی ہوں میری طرف یہی حکم آتا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے پھراس کی طرف سیدھے چلے جاؤ اور اس سے معافی مانگو اور مشرکوں کے لیے ہلاکت ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

آپ کہہ دیجئے! کہ میں تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے (۱) کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے سو تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو، اور ان مشرکوں کے لئے (بڑی ہی) خرابی ہے۔

٦۔۱ یعنی میرے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے بجز وحی الہی کے پھر یہ بعد وحجاب کیوں؟ علاوہ ازیں میں جو دعوت توحید پیش کر رہا ہوں وہ بھی ایسے نہیں کہ عقل وفہم میں نہ آ سکے پھر اس سے اعراض کیوں؟

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

کہہ دو کہ میں بھی آدمی ہوں جیسے تم۔ (ہاں) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود خدائے واحد ہے تو سیدھے اسی کی طرف (متوجہ) رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور مشرکوں پر افسوس ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

آپ کہہ دیجیئے! کہ میں تو تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے سو تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو، اور ان مشرکوں کے لیے (بڑی ہی) خرابی ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ میں بھی تمہاری ہی طرح بشر ہوں (مگر فرق یہ ہے) کہ مجھے وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا الٰہ (خدا) بس ایک ہی الٰہ (خدا) ہے تو تم سیدھے اسی کی طرف رخ رکھو اور اس سے مغفرت طلب کرو اور بربادی ہے ان مشرکوں کیلئے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

آپ کہہ دیجئے کہ میں بھی تمہارا ہی جیسا بشر ہوں لیکن میری طرف برابر وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا ایک ہے لہٰذا اس کے لئے استقامت کرو اور اس سے استغفارکرو اور مشرکوں کے حال پر افسوس ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

(اِن کے پردے ہٹانے اور سننے پر آمادہ کرنے کے لئے) فرما دیجئے: (اے کافرو!) بس میں ظاہراً آدمی ہونے میں تو تم ہی جیسا ہوں (پھر مجھ سے اور میری دعوت سے اس قدر کیوں گریزاں ہو) میری طرف یہ وحی بھیجی گئی ہے کہ تمہارا معبود فقط معبودِ یکتا ہے، پس تم اسی کی طرف سیدھے متوجہ رہو اور اس سے مغفرت چاہو، اور مشرکوں کے لئے ہلاکت ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

حصول نجات اور اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔
اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ان جھٹلانے والے مشرکوں کے سامنے اعلان کر دیجئے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ مجھے بذریعہ وحی الٰہی کے حکم دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود ایک اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ تم جو متفرق اور کئی ایک معبود بنائے بیٹھے ہو یہ طریقہ سراسر گمراہی والا ہے۔ تم ساری عبادتیں اسی ایک اللہ کیلئے بجا لاؤ۔ اور ٹھیک اسی طرح جس طرح تمہیں اس کے رسول سے معلوم ہو۔ اور اپنے اگلے گناہوں سے توبہ کرو۔ ان کی معافی طلب کرو۔ یقین مانو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہلاک ہونے والے ہیں، جو زکوٰۃ نہیں دیتے۔ یعنی بقول ابن عباس لا الہ الا اللہ کی شہادت نہیں دیتے۔ عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝۽) 91 ۔ الشمس ;9) یعنی اس نے فلاح پائی جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا۔ اور وہ ہلاک ہوا جس نے اسے دبا دیا۔ اور آیت میں فرمایا ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 14 ۝ ۙ ) 87 ۔ الأعلی ;14) یعنی اس نے نجات حاصل کرلی جس نے پاکیزگی کی اور اپنے رب کا نام ذکر کیا پھر نماز ادا کی۔ اور جگہ ارشاد ہے (هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى 18؀ۙ ) 79 ۔ النازعات ;18) کیا تجھے پاک ہونے کا خیال ہے ؟ ان آیتوں میں زکوٰۃ یعنی پاکی سے مطلب نفس کو بےہودہ اخلاق سے دور کرنا ہے اور سب سے بڑی اور پہلی قسم اس کی شرک سے پاک ہونا ہے، اسی طرح آیت مندرجہ بالا میں بھی زکوٰۃ نہ دینے سے توحید کا نہ ماننا مراد ہے۔ مال کی زکوٰۃ کو زکوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت سے پاک کردیتی ہے۔ اور زیادتی اور برکت اور کثرت مال کا باعث بنتی ہے۔ اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ کی توفیق ہوتی ہے۔ لیکن امام سعدی، ماویہ بن قرہ، قتادہ اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مال زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے امام ابن جریر بھی اسی کو مختار کہتے ہیں۔ لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ اس لئے کہ زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مدینے میں جاکر ہجرت کے دوسرے سال۔ اور یہ آیت اتری ہے مکہ شریف میں۔ زیادہ سے زیادہ اس تفسیر کو مان کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدقے اور زکوٰۃ کی اصل کا حکم تو نبوت کی ابتدا میں ہی تھا، جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے (وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ\014\01ۙ ) 6 ۔ الانعام ;141) جس دن کھیت کاٹو اس کا حق دے دیا کرو۔ ہاں وہ زکوٰۃ جس کا نصاب اور جس کی مقدار من جانب اللہ مقرر ہے وہ مدینے میں مقرر ہوئی۔ یہ قول ایسا ہے جس سے دونوں باتوں میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔ خود نماز کو دیکھئے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ابتداء نبوت میں ہی فرض ہوچکی تھی۔ لیکن معراج والی رات ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے پانچوں نمازیں باقاعدہ شروط و ارکان کے ساتھ مقرر ہوگئیں۔ اور رفتہ رفتہ اس کے تمام متعلقات پورے کردیئے گئے واللہ اعلم، اس کے بعد اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے۔ کہ اللہ کے ماننے والوں اور نبی کے اطاعت گزاروں کیلئے وہ اجر وثواب ہے جو دائمی ہے اور کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔ جیسے اور جگہ ہے ( مَّاكِثِيْنَ فِيْهِ اَبَدًا ۝ ۙ ) 18 ۔ الكهف ;3) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور فرماتا ہے (عَطَاۗءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ\010\08 ) 11 ۔ ھود ;108) انہیں جو انعام دیا جائے گا وہ نہ ٹوٹنے والا اور مسلسل ہے۔ سدی کہتے ہیں گویا وہ ان کا حق ہے جو انہیں دیا گیا نہ کہ بطور احسان ہے۔ لیکن بعض ائمہ نے اس کی تردید کی ہے۔ کیونکہ اہل جنت پر بھی اللہ کا احسان یقینا ہے۔ خود قرآن میں ہے۔ (بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 17؀) 49 ۔ الحجرات ;17) یعنی بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ وہ تمہیں ایمان کی ہدایت کرتا ہے۔ جنتیوں کا قول ہے۔ ( فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَاب السَّمُوْمِ 27؀) 52 ۔ الطور ;27) پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور آگ کے عذاب سے بچا لیا۔ رسول کریم علیہ افضل اصلوۃ والتسلیم فرماتے ہیں مگر یہ کہ مجھے اپنی رحمت میں لے لے اور اپنے فضل و احسان میں۔