الشوریٰ آية ۴۴
وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ وَّلِىٍّ مِّنْۢ بَعْدِهٖ ۗ وَتَرَى الظّٰلِمِيْنَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ يَقُوْلُوْنَ هَلْ اِلٰى مَرَدٍّ مِّنْ سَبِيْلٍۚ
طاہر القادری:
اور جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اُس کے لئے اُس کے بعد کوئی کارساز نہیں ہوتا، اور آپ ظالموں کو دیکھیں گے کہ جب وہ عذابِ (آخرت) دیکھ لیں گے (تو) کہیں گے: کیا (دنیا میں) پلٹ جانے کی کوئی سبیل ہے؟،
English Sahih:
And he whom Allah sends astray – for him there is no protector beyond Him. And you will see the wrongdoers, when they see the punishment, saying, "Is there for return [to the former world] any way?"
1 Abul A'ala Maududi
جس کو اللہ ہی گمراہی میں پھینک دے اُس کا کوئی سنبھالنے والا اللہ کے بعد نہیں ہے تم دیکھو گے کہ یہ ظالم جب عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے اب پلٹنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟
2 Ahmed Raza Khan
اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کا کوئی رفیق نہیں اللہ کے مقابل اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب عذاب دیکھیں گے کہیں گے کیا واپس جانے کا کوئی راستہ ہے
3 Ahmed Ali
اور جسے الله گمراہ کر دے سو اس کے بعد اس کا کوئی کارساز نہیں اور ظالموں کو دیکھیں گے جب وہ عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے کیا واپس جانے کا بھی کوئی راستہ ہے
4 Ahsanul Bayan
اور جسے اللہ تعالٰی بہکا دے اس کا اس کے بعد کوئی چارہ ساز نہیں، اور تو دیکھے گا کہ ظالم لوگ عذاب کو دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے کہ کیا واپس جانے کی کوئی راہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جس شخص کو خدا گمراہ کرے تو اس کے بعد اس کا کوئی دوست نہیں۔ اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ (دوزخ کا) عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے کیا (دنیا میں) واپس جانے کی بھی کوئی سبیل ہے؟
6 Muhammad Junagarhi
اور جسے اللہ تعالیٰ بہکا دے اس کا اس کے بعد کوئی چاره ساز نہیں، اور تو دیکھے گا کہ ﻇالم لوگ عذاب کو دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے کہ کیا واپس جانے کی کوئی راه ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جس کو اللہ گمراہی میں چھوڑ دے تو اس کے بعد اس کا کوئی سرپرست و کارساز نہیں ہے اورتم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب دیکھیں گے تو (گھبرا کر) کہیں گے کہایا (دنیا میں) واپسی کا کوئی راستہ ہے؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جس کوخدا گمراہی میں چھوڑ دے اس کے لئے اس کے بعد کوئی ولی اور سرپرست نہیں ہے اورتم دیکھو گے کہ ظالمین عذاب کو دیکھنے کے بعد یہ کہیں گے کہ کیا واپسی کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جس شخص کو خدا گمراہ کرے تو اس کے بعد اس کا کوئی دوست نہیں اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ (دوزخ کا) عذاب دیکھیں گے تو کہیں گے کیا (دنیا میں) واپس جانے کی کوئی سبیل ہے ؟
آیت نمبر ٤٤ تا ٥٣
ترجمہ : اور اللہ جسے گمراہ کر دے اس کے بعد اس کا کوئی کارساز نہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے اس کو گمراہ کرنے کے بعد اس کی ہدایت کا کوئی ولی نہیں، اور (اے مخاطب) تو دیکھے گا کہ ظالم لوگ عذاب کو دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے کہ کیا دنیا کی طرف لوٹنے کی کوئی صورت ہے اور (اے مخاطب) تو دیکھے گا کہ وہ جہنم کے سامنے لا کھڑے کئے جائیں گے، خوف وذلت کے مارے جھکے جار ہے ہوں گے، اور کنکھیوں سے دزدیدہ نظروں سے اسے (جہنم کو) دیکھ رہے ہوں گے، مِنْ ابتدائیہ ہے یا بمعنی باء ہے مومنین کہیں گے کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جنہوں نے آج قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو دائمی عذاب میں مبتلا کر کے اور ان حوروں تک رسائی حاصل نہ کر کے جو ان کے لئے جنت میں تیار کی گئی ہیں، نقصان میں ڈالدیا، اگر وہ ایمان لاتے، اور موصول ان کی خبر ہے یاد رکھو کہ یقیناً ظالم کافر دائمی عذاب میں ہوں گے یہ اللہ تعالیٰ کا مقولہ ہے ان کا کوئی مددگار جو اللہ سے الگ ان کی مدد کرسکے یعنی اللہ کے سوا ان کا کوئی نہیں، جو ان کے عذاب کو دفع کرسکے، اور جس کو اللہ گمراہ کر دے اس کے لئے نہ دنیا میں حق کی طرف کوئی راستہ ہے اور نہ آخرت میں جنت کی طرف، اپنے رب کا توحید و عبادت کا حکم مان لو قبل اس کے کہ وہ دن آپہنچے اور وہ قیامت کا دن ہے کہ جس کے لئے اللہ کی جانب سے ہٹنا نہ ہوگا یعنی جب اللہ اس دن کو لے آئے گا تو (پھر) اس کو نہ ٹالے گا تمہیں اس روز نہ تو کوئی پناہ گاہ ملے گی کہ جس میں تم پناہ لے سکو اور نہ تم کو تمہارے گناہوں سے انکار کی کوئی صورت، پس اگر وہ قبول کرنے سے اعراض کریں تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا کہ آپ ان اعمال کی نگرانی کریں، کہ ان کے اعمال ان اعمال کے موافق ہوں جو ان سے مطلوب ہیں آپ کے ذمہ تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے کا ہے اور ہم جب کبھی انسان کو اپنی رحمت نعمت کا مثلاً غنا اور صحت کا مزا چکھا دیتے ہیں تو اس پر وہ اترانے لگتا ہے اور اگر انہیں ان کے اعمال کی بدولت کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو انسان اللہ کی نعمت کی ناشکری کرنے لگتا ہے (تُصِیْبُھمْ ) میں ضمیر جنس کے اعتبار سے انسان کی طرف راجع ہے قَدَّمَتْ اَیْدِیھم کا مطلب ہے قَدَّموہ اور ذات کو اَیْدی سے تعبیر اس لئے کیا ہے کہ اکثر اعمال ہاتھوں ہی کی شرکت سے وقوع پذیر ہوتے ہیں، آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اولاد میں سے بیٹی دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹا دیتا ہے یا دونوں کو جمع کردیتا ہے یعنی ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے نہ بیوی جنتی ہے اور نہ شوہر کے لئے جنا جاتا ہے، اور وہ جو پیدا کرتا ہے اس کے بارے میں بڑا علم والا ہے، اور جو چاہے اس پر (کامل) قدرت والا ہے اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ اللہ کسی بندے سے کلام کرے مگر اس کی طرف وحی بھیج کر خواہ خواب میں یا الہام کے ذریعہ یا حجاب کے پیچھے سے بایں طور کہ بندہ کو اپنا کلام سنائے اور بندہ اس کو نہ دیکھے جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا، یا کسی قاصد یعنی فرشتے کو بھیجے جیسا کہ جبرائیل (علیہ السلام) کو کہ وہ فرستادہ اللہ کی اجازت سے مرسل الیہ کو وحی کرے بایں طور کہ جو چاہے اس سے کلام کرے بلاشبہ وہ محدثین کی صفات سے برتر ہے، اپنی صنعت میں حکمت والا ہے اور اسی طرح یعنی دوسرے رسولوں کے مانند اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو بھیجا (یعنی) اس حکم کو کہ جس کی ہم آپ کی طرف وحی بھیجتے ہیں، اور وہ قرآن ہے جس سے قلوب زندہ ہوتے ہیں اور آپ کی طرف وحی بھیجنے سے پہلے آپ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب قرآن کیا چیز ہے ؟ اور نہ ایمان کو جانتے تھے یعنی ایمان (اسلام) کے احکام وشرائع کو نہیں جانتے تھے، اور استفہام فعل کو عمل سے مانع ہے یا استفہام کا ما بعد دو مفعولوں کے قائم مقام ہے لیکن ہم نے اس کو یعنی روح کو یا کتاب کو نور بنادیا جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں اس کے ذریعہ ہدایت دیتے ہیں، بیشک آپ اپنی طرف بھیجی ہوئی وحی کے ذریعہ صراط مستقیم یعنی دین اسلام کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اس اللہ کی راہ کی طرف کہ جس کی ملکیت میں آسمان اور زمین کی ہر چیز ہے ملک کے اعتبار سے اور تخلیق کے اعتبار اور مملوک ہونے کے اعتبار سے آگاہ رہو سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اَحَدٌ یَلِیْ ، مِنْ وَلِیٍّ کی تفسیر ہے اَیْ لَیْسَ لَہٗ وَلِیٌّ یَلِیْ ھدایتَہٗ بَعْدَ اِضْلاَ لِہٖ اس صورت میں مِن بَعْدِہٖ کی ضمیر اِضْلال کی طرف راجع ہوگی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعدہٖ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہو اور بعد اللہ، سِوَی اللہ کے معنی میں ہو، اس صورت میں ترجمہ ہوگا، اللہ کے اس کا کوئی ولی نہ ہوگا۔
قولہ : وَتَرَی الظّٰلِمِیْنَ جملہ حالیہ ہے، اور رویت سے رویت بصر یہ مراد ہے، اور مخاطب ہر وہ شخص ہے جس میں رویت کی صلاحیت ہو۔
قولہ : مَرَدٍّ ، رَدٌّ سے ظرف زمان ومکان، لوٹانے کا وقت، لوٹانے کا مقام۔
قولہ : عَلَیْھَا یہ ایک سوال کا جواب۔
سوال : عَلَیْھَا میں ھاء ضمیر کا مرجع کیا ہے ؟ اگر ماقبل میں مذکور نہیں ہے تو اضمار قبل الذکر لازم آتا ہے، اور اگر ماقبل میں مذکور، العذاب کی طرف راجع ہے تو ضمیر و مرجع میں مطابقت نہیں ہے اس لئے کہ عذاب مذکر ہے اور ھاء ضمیر مؤنث ہے۔
جواب : ھاء ضمیر کا مرجع نار ہے جیسا کہ شارح نے اشارہ کردیا ہے جس پر العذاب دلالت کر رہا ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔ (جمل)
قولہ : تَرَاھم، تَرَیٰ سے روایت بصری مراد ہے، یُعْرَضونَ اور خَاشِعِیْنَ دونوں ھُمْ ضمیر سے جملہ ہو کر حال ہیں۔
قولہ : مِن الذُّلِّ ، خاشعین سے متعلق ہیں۔
قولہ : مِنَ الطرفِ طرف سے مراد آنکھ ہے، بعض حضرات نے مصدری معنی یعنی دیکھنا بھی مراد لیا ہے، شارح کی عبارت کے مناسب اول معنی ہیں طرفٌ خَفِیٌّ چشم نیم باز، شرمندہ نظر کو کہتے ہیں، چشم ضعیف وچشم نیم باز، وچشم بیمار، تقریباً ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں :
بمژگان سیاہ کردی ہزاراں رخنہ در دینم بیا کز “ چشم بیمارت ” ہزاراں درد برچینم (حافظ)
شاعر شرمندہ نظر کو چشم بیمار سے تعبیر کر رہا ہے، قیامت کے روز جب مجرموں کو دوزخ کے روبرو پیش کیا جائے گا تو مارے شرم وذلت کے آنکھوں کو پوری طرح کھول بھی نہ سکیں گے بلکہ شہائے چشم کے ذریعہ دزدیدہ نظروں سے دیکھیں گے۔
قولہ : ینظرون اَلیْھا، اِلَیھَا کی ضمیر بھی، العذاب سے مفہوم، النار کی طرف راجع ہے مِن طرفٍ میں مِن ابتدائیہ ہے یا بمعنی باء ہے، دوسری صورت زیادہ واضح ہے۔
قولہ : اَلَّذِیّنَ خَسِرُوّا، اِنَّ کی خبر ہے، اور الخٰسِرِینَ اِنَّ کا اسم ہے۔
قولہ : یتَخْلِیدِھم فی النار وعدم وصولھم الی الحور اس میں لف ونشر مرتب ہے، بتخلید انفسھم کا تعلق اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنفُسَھم سے ہے اور عدم وصولھِمْ کا تعلق اَھْلِیھِمْ سے ہے، اور اہل کے بارے میں نقصان کا مطلب یہ ہے کہ جو حورغلمان ان کے لئے ایمان لانے کی صورت میں تیار کئے گئے تھے اب وہ ان سے محروم رہیں گے، اور بعض حضرات نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ ممکن ہے اہل سے دنیا کے اہل مراد ہوں، ان کے بارے میں نقصان کی یہ صورت ہوگی کہ وہ جنت میں دوسروں کے حوالہ کر دئیے جائیں گے۔ (حاشیہ جلالین)
مفسر علام نے ھُوَ مِن مقولِ اللہ تعالیٰ کہہ کر اشارہ کردیا کہ اَلاَ اِنّ الظّٰلِمِیْنَ فی عذابٍ مقیم اللہ تعالیٰ کا مقولہ ہے اور مومنین کے قول کی تصدیق ہے، اور بعض حضرات نے اس کلام کو مومنین کے کلام ہی کا تتمہ قرار دیا ہے۔
قولہ : لا یردہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ من اللہ، مردٌ کے متعلق ہے، اس کا تعلق یَاْتِیْ سے بھی جائز ہے۔
قولہ : انکارٍ لِذ ُ نُوبِکُمْ اس عبارت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نَکِیْرٌ خلاف قیاس اَنْکَرَ کا مصدر ہے یعنی مجرمین کو اپنے گناہوں کا انکار ممکن نہ ہوگا اس لئے کہ صحیفہ اعمال میں ان کے اعمال محفوظ ہوں گے، اور مجرمین کے اعضاء وجوارح ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ (جمل)
قولہ : فَمَا اَرْسَلنَاکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظاً یہ جملہ شرط کے جواب محذوف کی علت ہے یعنی اِنْ اَعْرضوا شرط ہے اور فَلاَ تَحْزَنْ جواب شرط محذوف ہے، لِاَننا ما اَرْسَلنَاکَ علَیھم حفیظاً یعنی مشرکین کے اعراض کرنے پر غمگین نہ ہوں، اس لئے کہ ہم نے آپ کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا، آپ کی ذمہ داری تبلیغ ہے اور بس، یعنی بلاوجہ اس فکر میں نہ پڑیں کہ ان کے اعمال ان سے مطلوب اعمال کے مطابق ہیں یا نہیں۔
قولہ : الضمیر للانسان باعتبار الجنس یہ ایک اعتراض کا جواب ہے۔
اعتراض : تُصِبْھُمْ کی ضمیر انسان کی طرف راجع ہے ضمیر و مرجع میں مطابقت نہیں ضمیر جمع ہے اور مرجع واحد ہے
جواب : انسان لفظ کے اعتبار سے اگرچہ واحد ہے مگر جنس ہونے کے اعتبار سے جمع ہے لہٰذا جمع کی ضمیر لانا درست ہے، اور فَرِحَ کو مفرد لایا گیا ہے، انسان کے لفظ کا اعتبار کر کے۔
قولہ : فاِنّ الانسان کفُوْرٌ اسم ضمیر کی جگہ اسم ظاہر لایا گیا ہے، اصل میں فاِنّہٗ کفورٌ ہے، کرخی نے کہا ہے کہ یہ جملہ جواب شرط ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ جواب محذوف کی علت ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وَاِن تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃ ٌ نسِی النِّعْمَۃَ رآسًا فَاِنّ الْاِنْسَانَ کَفُوْرٌ نَسِیَ النِعْمَۃَ راساً جواب شرط محذوف ہے، فَاِنّ الانسانَ کَفُوْرٌ جواب شرط کی علت ہے۔
قولہ : فلا یَلِدُ وَلاَیُولَدُ لہ، فلا یَلِدُ کا تعلق امراۃ سے ہے یعنی اگر بانجھ عورت ہو لا یَلِدُ بولا جائے گا مگر اس صورت میں تلِدُ تاء کے ساتھ ہونا چاہیے، البتہ کہا جاسکتا ہے کہ مَنْ کے لفظ کی رعایت سے یلِدُ مذکر لانا درست ہے بعض نسخوں میں تلد بھی ہے جو کہ زیادہ مناسب ہے، اور وَلاَ یُولَدُ لہ کا تعلق اس صورت سے ہے کہ جب (عُقم) بانجھ پن مرد میں ہو اور مصباح میں ہے کہ لاَ یُولَدُ لَہٗ دونوں صورتوں میں بولا جاتا ہے، عقم خواہ مرد میں ہو یا عورت میں۔ (حاشیہ جلالین)
قولہ : وَلاَ یَرَاہ اس عبارت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہاں حجاب کے لازم معنی یعنی عدم رویت مراد ہیں، اس لئے کہ اللہ کے لئے حجاب ممکن نہیں ہے، بلکہ حجاب بندے کی صفت ہے۔
قولہ : ما الکتابِ ، مَا استفہامیہ مبتداء ہے، الکتابُ اس کی خبر ہے، کلام حذف مضاف کے ساتھ ہے ای مَا کُنْتَ تدْرِیْ جواب مَا الکِتاَ بُ یعنی آپ اس سوال کا جواب بھی نہ جانتے تھے کتاب کیا ہے ؟ (جمل)
قولہ : ای شرائعہ ومعالمہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب دینا ہے۔
سوال : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو نبوت سے قبل ہی توحید کے مقر تھے اور اللہ کی توحید سے بخوبی واقف تھے، غار حراء میں اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ کی بندگی کرتے تھے تو پھر آپ کے بارے میں کہ آپ ایمان سے واقف نہیں تھے، اس کا کیا مطلب ہے ؟
جواب : ایمان سے مراد احکام وشرائع اور اس کی تفاصیل ہیں جن سے آپ نزول وحی سے پہلے واقف نہیں تھے۔
تفسیر وتشریح
وَتَرَاھُمْ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا (الآیۃ) آخرت میں مومنین جب مشرکین وکافرین کی حالت زار کو دیکھیں گے تو کہیں گے، یہ کافر ہمیں دنیا میں بیوقوف اور دنیوی خسارے کا حامل سمجھتے تھے، جبکہ ہم دنیا میں صرف آخرت کو ترجیح دیتے تھے، اور دنیا کے خساروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، آج دیکھ لو حقیقی خسارے سے کون دو چار ہے ؟ آیا وہ جنہوں نے دنیا کے عارضی خسارے کو نظر انداز کئے رکھا اور آج وہ جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں، یا وہ جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا تھا، اور آج ایسے عذاب میں گرفتار ہیں، جس سے اب چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔
مَا لَکُمْ مِنْ مَلْجَأ ً یَوْمَئِذٍ وَمَا لَکُمْ مِن نکِیْرٍ نکیر کے معنی انکار کے ہیں، یعنی اے مشرکو ! تم روز قیامت اپنے گناہوں کا انکار نہ کرسکو گے، کیونکہ اول تو سب لکھے ہوئے ہوں گے، دوسرے خود ان کے اعضاء بھی گواہی دیں گے، اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے کوئی ایسی جگہ نہیں ہوگی کہ جس میں تم چھپ کر انجان وبے نشان بن جاؤ اور پہچانے نہ جا سکو، یا نظر ہی نہ آسکو۔
فاِنْ اعرَضُوْا فما اَرْسَلنٰکَ علَیْھم حَفِیظاً یعنی اگر یہ لوگ آپ کی دعوت سے اعراض کریں تو آپ زیادہ فکر مند اور زیادہ رنجیدہ نہ ہوں، اس لئے کہ آپ کو ان پر نگہبان اور ان کے اعمال کا نگران بنا کر نہیں بھیجا گیا، مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذمہ داری صرف اور صرف اتنی ہے کہ آپ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں، مانیں نہ مانیں، آپ سے اس کی باز پرس نہیں ہوگی، اس لئے کہ ہدایت دینا آپ کے اختیار میں ہے ہی نہیں، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، اسی مضمون کو دوسری آیتوں میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے لَیْسَ عَلَیکَ ھُداھُمْ ولکن اللہ یَھْدی مَنْ یَشَاءُ (البقرۃ) فاِنّما علَیکَ البَلاغُ وعَلَینَا الحِساب (الرعد) فَذَکِّرْ اِنّما اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیطِرٍ (الغاشیۃ) ان تمام آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ آپ امت کو اپنا پیغام پہنچا دیں، اور بس۔
نکتہ : اِذَا اَذَقْنَا الانسَانَ مِنَّا رَحْمَۃ ً (الآیۃ) دنیوی نعمتیں اگرچہ کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں مگر سعادت اخروی کے مقابلہ میں ان کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسا کہ دریا کے مقابلہ میں ایک قطرہ، اور کھانے کے مقابلہ میں چکھنا، اسی وجہ سے مذکورہ آیت میں دنیوی نعمتوں کو چکھانے سے تعبیر فرمایا ہے۔ (جمل)
نکتہ : دنیوی نعمتوں کے حصول کو اذا سے تعبیر فرمایا ہے جو کہ یقیناً حصول پر دلالت کرتا ہے اور اخروی بلاء و مصیبت کو اِنْ سے تعبیر کیا ہے جو یقینی حصول پر دلالت نہیں کرتا، دونوں کی تعبیر میں فرق اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت، صفت غضب سے بہت بڑھی ہوئی ہے، گویا کہ رحمت ذات خداوندی کا تقاضہ ہے، وہ دنیا میں بڑے سے بڑے ملحدو مشرک کو دنیوی نعمتوں سے محروم نہیں کرتا، اور کسی کا بھی اس کے جرم وخطاء کی وجہ سے رزق بند نہیں کرتا بلکہ زیادہ تر گناہوں سے درگذر فرماتا ہے، اس لئے ہر جرم وخطاء کی سزا یقینی نہیں، اور غیر یقینی چیز کے لئے اِنْ کا استعمال ہوتا ہے۔
لِلّٰہِ مُلک السمٰوات والارض (الآیۃ) یعنی کائنات میں صرف اسی کی مشیت اور تدبیر چلتی ہے، وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا، کوئی دوسرا اس میں دخل اندازی کرنے کی قدرت اور اختیار نہیں رکھتا، جب یہ بات معلوم ہے کہ کائنات میں تصرف صرف اسی کا حق ہے کسی کی اس میں دخل اندازی کی گنجائش نہیں تو وہ اپنی مشیت اور اختیار کے ماتحت، جس کو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے لڑکی اور جس کو چاہتا ہے دونوں دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے دونوں سے محروم کرد یتا ہے، یہ تقسیم اولاد کے اعتبار سے ہے یعنی فروع کے اعتبار سے، اصول کے اعتبار سے بھی انسانوں کی چار قسمیں ہیں (١) بغیر ماں باپ کے جیسے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا، نہ ان کی ماں ہے اور نہ باپ (٢) بغیر ماں کے جیسے حضرت حوا کہ ان کو صرف مرد (آدم) سے پیدا کیا (٣) بغیر باپ کے جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) کو صرف عورت سے پیدا کیا ان کے باپ نہیں (٤) ماں باپ سے جیسے تمام انسان، مرد اور عورت سے، فسبحان اللہ العلیم القدیر (ابن کثیر) ان آیات میں بچوں کی اقسام بیان کرنے میں حق تعالیٰ نے پہلے لڑکیوں کا ذکر فرمایا ہے، لڑکوں کا ذکر بعد میں کیا ہے، اسی آیت کے اشارہ سے حضرت واثلہ بن اسقع نے فرمایا کہ جس عورت کے بطن سے پہلے لڑکی پیدا ہو وہ مبارک ہوتی ہے۔ (قرطبی، معارف)
شانِ نزول : وَمَا کَانَ لِبَشَرِ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہ اِلاَّ وَحْیاً یہ آیت یہود کے ایک معاندانہ مطالبہ کے جواب میں نازل ہوئی ہے، ایک روز یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم آپ پر کیسے ایمان لے آئیں، جبکہ آپ نہ خدا کو دیکھتے ہیں اور نہ بالمشافہ اس سے کلام کرتے ہیں، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کلام کرتے تھے، اور اللہ کو دیکھتے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حق تعالیٰ کو دیکھا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی، معارف) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی انسان کے لئے حق تعالیٰ سے بالمشافہ کلام کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں، خود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی بالمشافہ کلام نہیں سنا، بلکہ پس پردہ صرف آواز سنی۔
نزول وحی کی تین صورتیں : اس آیت میں نزول وحی الٰہی کی تین صورتیں بیان فرمائی گئی ہیں (١) دل میں کسی بات کا ڈالدینا یا خواب میں بتلا دینا اس یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے (٢) پردے کے پیچھے سے کلام کرنا، جیسے موسیٰ (علیہ السلام) سے کوہ طور پر کیا گیا (٣) فرشتے کے ذریعہ اپنی وحی بھیجنا جیسا کہ جبرئیل (علیہ السلام) پیغام لے کر آتے تھے اور پیغمبروں کو سناتے تھے، مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان سے رودررو کلام نہیں کرتا۔
شبہ : حدیث شریف میں وارد ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بدون حجاب کے کسی بشر سے کلام نہیں کرتا، مگر تمہارے والد عبد اللہ سے رودررو کلام فرمایا (یہ احد میں شہید ہوگئے تھے) لہٰذا آیت اور حدیث میں تعارض معلوم ہوتا ہے۔
دفع : یہ حدیث آیت مذکورہ کے مفہوم کے خلاف نہیں ہے اس لئے کہ نفی عالم دنیا سے متعلق ہے اور یہ رو در رو گفتگو عالم برزخ میں ہوئی۔ (خلاصۃ التفاسیر)
وَکذٰلک اَوْحَینَا الَیْکَ رُوْحاً مِنْ امْرِنَا الخ “ روح ” سے مراد قرآن ہے یعنی جس طرح آپ سے پہلے ہم سابق انبیاء پر وحی کرتے رہے ہیں اسی طرح ہم نے آپ پر وحی کی ہے، قرآن کو روح سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ قرآن سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے، جس طرح کہ روح میں انسانی زندگی کا راز مضمر ہے۔
کتاب اور ایمان کو نہ جاننے کا مطلب ہے ان کی تفصیلات سے واقف نہ ہونا، ورنہ نفس ایمان اور لازمی متعلقات سے ہر نبی مبعوث ہونے سے پہلے ہی واقف ہوتا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ آدم (علیہ السلام) آب وگل میں تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی مرسل، اس حدیث شریف میں سبقت آفرینش اور اعطائے صلاحیتِ نبوت کا ذکر ہے، نہ کہ تفصیلات شرائع نبوت کا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ ہدایت عطا کرنے اور اصلاح کرنے میں تنہا ہے۔ ﴿وَمَن يُضْلِلِ اللّٰـهُ﴾ جسے اللہ تعالیٰ اس کے ظلم کے سبب سے گمراہ کر دے ﴿فَمَا لَهُ مِن وَلِيٍّ مِّن بَعْدِهِ ﴾ ” تو اس کے بعد اس کا کوئی دوست نہیں۔“ جو اس کے معاملے کی سرپرستی کرے اور اس کی راہنمائی کرے۔ ﴿وَتَرَى الظَّالِمِينَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ﴾ اور تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب کا بہت ہی برا، بہت مشکل اور نہایت قبیح منظر دیکھیں گے تو وہ بہت زیادہ ندامت اور اپنے گزشتہ کرتوتوں پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ ﴿ يَقُولُونَ هَلْ إِلَىٰ مَرَدٍّ مِّن سَبِيلٍ﴾ اور کہیں گے : کیا دنیا میں دوبارہ جانے کا کوئی طریقہ یا کوئی حیلہ ہے تاکہ ہم ان کاموں سے مختلف کام کریں جو ہم پہلے کیا کرتے تھے؟ ان کی یہ درخواست ایک امر محال کے لئے ہوگی جس کا پورا ہونا ممکن نہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jissay Allah gumrah kerday , to uss kay baad koi nahi hai jo uss ka madadgaar banay . aur jab zalimon ko azab nazar aajaye ga to tum unhen yeh kehta huwa dekho gay kay : kiya wapis janey ka bhi koi raasta hai-?
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کو کوئی پوچھنے والا نہیں
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا اور نہ اسے کوئی کرسکتا ہے وہ جسے راہ راست دکھا دے اسے بہکا نہیں سکتا اور جس سے وہ راہ حق گم کر دے اسے کوئی اس راہ کو دکھا نہیں سکتا اور جگہ فرمان ہے آیت (وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ وَلِيًّا مُّرْشِدًا 17ۧ) 18 ۔ الكهف :17) جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی چارہ ساز اور رہبر نہیں۔ پھر فرماتا ہے یہ مشرکین قیامت کے عذاب کو دیکھ کر دوبارہ دنیا میں آنے کی تمنا کریں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27) 6 ۔ الانعام :27) ، کاش کہ تو انہیں دیکھتا جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم دوبارہ واپس بھیج دئیے جائیں تو ہم ہرگز اپنے رب کی آیتوں کو جھوٹ نہ بتائیں بلکہ ایمان لے آئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ جس چیز کو اس سے پہلے پوشیدہ کئے ہوئے تھے وہ ان کے سامنے آگئی۔ بات یہ ہے کہ اگر یہ دوبارہ بھیج بھی دیئے جائیں تب بھی وہی کریں گے جس سے منع کئے جاتے ہیں یقینا یہ جھوٹے ہیں پھر فرمایا یہ جہنم کے پاس لائے جائیں گے اور اللہ کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر ذلت برس رہی ہوگی عاجزی سے جھکے ہوئے ہوں گے اور نظریں بچاکر جہنم کو تک رہے ہوں گے۔ خوف زدہ اور حواس باختہ ہو رہے ہوں گے لیکن جس سے ڈر رہے ہیں اس سے بچ نہ سکیں گے نہ صرف اتنا ہی بلکہ ان کے وہم و گمان سے بھی زیادہ عذاب انہیں ہوگا۔ اللہ ہمیں محفوظ رکھے اس وقت ایمان دار لوگ کہیں گے کہ حقیقی نقصان یافتہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ اپنے والوں کو بھی جہنم واصل کیا یہاں کی آج کی ابدی نعمتوں سے محروم رہے اور انہیں بھی محروم رکھا آج وہ سب الگ الگ عذاب میں مبتلا ہیں دائمی ابدی اور سرمدی سزائیں بھگت رہے ہیں اور یہ ناامید ہوجائیں آج کوئی ایسا نہیں جو ان عذابوں سے چھڑا سکے یا تخفیف کرا سکے ان گمراہوں کو خلاصی دینے والا کوئی نہیں۔