الزخرف آية ۴۶
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَمَلَاۡ ٮِٕهٖ فَقَالَ اِنِّىْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
طاہر القادری:
اور یقیناً ہم نے موسٰی(علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا: بیشک میں سب جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں،
English Sahih:
And certainly did We send Moses with Our signs to Pharaoh and his establishment, and he said, "Indeed, I am the messenger of the Lord of the worlds."
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اُس کے اعیان سلطنت کے پاس بھیجا، اور اس نے جا کر کہا کہ میں رب العالمین کا رسول ہوں
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشایوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا تو اس نے فرمایا بیشک میں اس کا رسول ہوں جو سارے جہاں کا مالک ہے،
3 Ahmed Ali
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے امرائے دربار کی طرف بھیجا تھا سو اس نے کہا کہ میں پروردگار عالم کا رسول ہوں
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے امراء کے پاس بھیجا تو (موسیٰ علیہ السلام نے جاکر) کہا کہ میں تمام جہانوں کے رب کا رسول ہوں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا کہ میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا ہوں
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے امراء کے پاس بھیجا تو (موسیٰ علیہ السلام نے جاکر) کہا کہ میں تمام جہانوں کے رب کا رسول ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور بےشک ہم نے موسیٰ (ع) کو اپنی نشانیاں (معجزے) دے کر فرعون اور اس کے عمائدِ سلطنت کے پاس بھیجا۔ پس آپ(ع) نے (ان سے) کہا کہ میں عالمین کے پروردگار کا رسول(ع) ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے موسٰی علیھ السّلام کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے روسائ قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا کہ میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا میں اپنے پروردگار عالم کا بھیجا ہوا ہوں
آیت نمبر ٤٦ تا ٥٦
ترجمہ : اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے امراء یعنی قبطیوں کے پاس بھیجا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے (جا کر) کہا کہ میں سارے جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں، پس جب وہ اپنی رسالت پر دلالت کرنے والی ہماری نشانیاں لے کر ان کے پاس پہنچے تو وہ بےساختہ ان پر ہنسنے لگے، اور ہم انہیں جو عذاب کی نشانیاں دکھاتے تھے مثلاً طوفان کی نشانی اور وہ پانی تھا جو ان کے گھروں میں داخل ہوگیا تھا اور وہ بیٹھے لوگوں کے حلق تک پہنچ گیا تھا، اور یہ سات دن رہا، اور ٹڈیوں کی نشانی تو وہ سابقہ دوسری نشانی سے بڑھی چڑھی ہوتی تھی، اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا تاکہ وہ اپنے کفر سے باز آجائیں، جب انہوں نے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے اے عالم کامل اس لئے کہ سحر ان کے نزدیک عظیم علم تھا، تو ہمارے لئے اس کی دعاء کر جس کا اس نے تجھ سے وعدہ کر رکھا ہے یعنی عذاب کو دور کردینے کا اگر ہم ایمان لے آئیں یقین مانو، کہ ہم راہ پر لگ جائیں گے یعنی ایمان لے آئیں گے، پھر جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی بدولت وہ عذاب ان سے ہٹا لیا تو انہوں نے اسی وقت اپنا قول وقرار توڑ دیا، اور اپنے کفر پر اصرار کرنے لگے اور فرعون نے اپنی قوم میں فخریہ طور پر مناوی کرائی اور کہا اے میری قوم کیا ملک مصر میرا نہیں ؟ اور یہ نہریں (یعنی) نہر نیل (کی شاخیں) میرے محلوں کے نیچے بہہ رہی ہیں تم میری عظمت کو دیکھتے ہو یا نہیں دیکھتے، اور بایں حالت میں اس موسیٰ سے جو کہ وہ ضعیف و حقیر ہے بہتر ہوں، اور صاف بول بھی نہیں سکتا، یعنی واضح کلام نہیں کرسکتا، اس لکنت کی وجہ سے جو اس چنگاری کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی جو (اس نے) اپنے بچپن میں منہ میں رکھ لی تھی، اچھا تو اس (کے ہاتھوں) میں سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے اگر یہ (دعوائے) نبوت میں سچا ہے، اَسَاوِر اسوِرۃ کی جمع ہے جیسا کہ اَغْرِبۃ اور اَسْوِرۃ، سوار کی جمع ہے، جیسا کہ ان کا طریقہ تھا کہ جس شخص کو وہ سردار بناتے تھے تو اس کو سونے کے کنگن اور سونے کا ہار پہناتے تھے، یا اس کے ساتھ فرشتے مسلسل آکر اس کی سچائی کی گواہی دیتے، اس نے اپنی قوم کو بیوقوف بنادیا اور انہوں نے اس کی وہ بات مان لی جو وہ ان سے چاہتا تھا، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب، یقیناً یہ سارے ہی لوگ نافرمان تھے پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو غرق کردیا، پس ہم نے ان کو داستان پار ینہ بنادیا اور نمونہ عبرت بعد والوں کے لئے کہ بعد والے ان کے حال کو بطور مثال کرتے تاکہ ان کے جیسے اعمال کے اقدام کی جرأت نہ کریں۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : فَقَالَ اِنِّی رسول رب العالمین قصہ میں اختصار ہے تفصیل سورة طٰہٰ اور سورة القصص میں ہے، آیت کے معنی یہ ہیں فقال انّی رسول رب العالمین لِتؤمِنَ بہٖ وتُرسلَ معِی بنی اسرائیل۔
قولہ : فَلمَّا جَاء ھم بآیٰتِنا فاء عاطفہ ہے، اس کا مقدر پر عطف ہے ای فَطَلَبُوْا مِنْہُ آیَۃ ً تَدُلُّ علیٰ صِدقہٖ ۔
قولہ : یَنْکُثونَ ، نکْثٌ (ن) جمع مذکر غائب توڑنے لگتے ہیں، توڑ دیتے ہیں۔
قولہ : سَلَفًا مفسر علام نے جمع سالِفٍ کہہ کر اشارہ کردیا کہ سَلَفاً مصدر نہیں ہے کہ تاویل کی ضرورت پیش آئے بلکہ سَلَفاً ، سالِفٌ کی جمع ہے، جیسا کہ خَدَ مٌ، خادِ م کی جمع ہے۔
تفسیری وتشریح
ولقد اَرْسلنا موسیٰ باٰیٰتنا (الآیۃ) قریش مکہ نے کہا تھا کہ اللہ کو اگر کسی کو رسول بنا کر بھیجا ہی تھا تو مکہ اور طائف کے کسی ایسے شخص کو بھیجتا کہ جو صاحب مال وجاہ ہوتا، فرعون نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں یہی کہا تھا کہ میں موسیٰ سے بہتر ہوں اور یہ مجھ سے کمتر ہے یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا، مگر جس طرح فرعون کا یہ شبہ کچھ کام نہ آسکا، اور اپنی قوم سمیت غرق ہو کر رہا، اسی طرح کفار مکہ کا یہ اعتراض بھی انہیں دنیا وآخرت کے وبال سے نہ بچا سکے گا۔
فَاسْتَخَفَّ قومَہٗ اس کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ فرعون نے اپنی قوم کو آسانی سے اپنا تابع بنا لیا، اور دوسرے یہ کہ اس نے اپنی قوم کو بیوقوف بنا لیا بیوقوف بنا لیا یا بیوقوف پایا (روح) فَلَمَّا آسَفُوْنَا یہ اَسَفٌ سے مشتق ہے، اس کے لغوی معنی ہیں : افسوس، اور چونکہ غصہ میں عام طور پر افسوس ہوتا ہے اسی مناسبت سے غصہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس لئے کہ اس کا بامحاورہ ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ “ جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا ” اور اللہ تعالیٰ چونکہ غصہ اور افسوس کی انفعالی کیفیات سے پاک ہے اس لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایسے کام کئے کہ جس سے ہم نے انہیں سزا دینے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ (روح المعانی)
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَـٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ ﴾(الزخرف:43؍45) تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی دعوت کا ذکر فرمایا جو انبیاء و مرسلین کی دعوت میں سب سے زیادہ شہرت رکھتی ہے، نیز اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا سب سے زیادہ ذکر کیا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا حال بیان کیا، فرمایا : ﴿ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا ﴾ ” اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام)کو نشانیاں دے کر بھیجا۔“ جو قطعی طور پر دلالت کرتی ہیں کہ جو چیز حضرت موسیٰ علیہ السلام لے کر آئے ہیں وہ صحیح ہے، مثلاً عصا، سانپ، ٹڈی دل بھیجنا، جوئیں پڑنا اور دیگر تمام آیات اور معجزات وغیرہ ﴿إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴾ ” فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، تو اس نے کہا : میں رب العالمین کی طرف سے رسول ہوں۔“ سو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو اپنے رب کے اقرار کی دعوت دی اور انہیں غیر اللہ کی عبادت سے روکا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney musa ko apni nishaniyan dey ker firon aur uss kay sardaron kay paas bheja tha , chunacheh musa ney kaha kay : mein Rabb-ul-Aalameen ka bheja huwa payghumber hun .
12 Tafsir Ibn Kathir
قلاباز بنی اسرائیل
حضرت موسیٰ کو جناب باری نے اپنا رسول و نبی فرما کر فرعون اور اس کے امراء اور اس کی رعایا قبطیوں اور بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تاکہ آپ انہیں توحید سکھائیں اور شرک سے بچائیں آپ کو بڑے بڑے معجزے بھی عطا فرمائے جیسے ہاتھ کا روشن ہوجانا لکڑی کا اژدھا بن جانا وغیرہ۔ لیکن فرعونیوں نے اپنے نبی کی کوئی قدر نہ کی بلکہ تکذیب کی اور تمسخر اڑایا۔ اس پر اللہ کا عذاب آیا تاکہ انہیں عبرت بھی ہو۔ اور نبوت موسیٰ پر دلیل بھی ہو پس طوفان آیا ٹڈیاں آئیں جوئیں آئیں، مینڈک آئے اور کھیت، مال، جان اور پھل وغیرہ کی کمی میں مبتلا ہوئے۔ جب کوئی عذاب آتا تو تلملا اٹھتے حضرت موسیٰ کی خوشامد کرتے انہیں رضامند کرتے ان سے قول قرار کرتے آپ دعا مانگتے عذاب ہٹ جاتا۔ یہ پھر سرکشی پر اتر آتے پھر عذاب آتا پھر یہی ہوتا ساحر یعنی جادوگر سے وہ بڑا عالم مراد لیتے تھے ان کے زمانے کے علماء کا یہی لقب تھا اور انہی لوگوں میں علم تھا اور ان کے زمانے میں یہ علم مذموم نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا پس ان کا جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر خطاب کرنا بطور عزت کے تھا اعتراض کے طور پر نہ تھا کیونکہ انہیں تو اپنا کام نکالنا تھا ہر بار اقرار کرتے تھے کہ مسلمان ہوجائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے پھر جب عذاب ہٹ جاتا تو وعدہ شکنی کرتے اور قول توڑ دیتے۔ اور آیت ( فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ\013\03 ) 7 ۔ الاعراف :133) میں اس پورے واقعہ کو بیان فرمایا ہے۔