الجاثیہ آية ۱۲
اَللّٰهُ الَّذِىْ سَخَّرَ لَـكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِىَ الْفُلْكُ فِيْهِ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَۚ
طاہر القادری:
اللہ ہی ہے جس نے سمندر کو تمہارے قابو میں کر دیا تاکہ اس کے حکم سے اُس میں جہاز اور کشتیاں چلیں اور تاکہ تم (بحری راستوں سے بھی) اُس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کر سکو، اور اس لئے کہ تم شکر گزار ہو جاؤ،
English Sahih:
It is Allah who subjected to you the sea so that ships may sail upon it by His command and that you may seek of His bounty; and perhaps you will be grateful.
1 Abul A'ala Maududi
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اُس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو
2 Ahmed Raza Khan
اللہ ہے جس نے تمہارے بس میں دریا کردیا کہ اس میں اس کے حکم سے کشتیاں چلیں اور اس لیے کہ اس کا فضل تلاش کرو اور اس لیے کہ حق مانو
3 Ahmed Ali
الله ہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو تابع کر دیا تاکہ ا س میں اس کے حکم سے جہاز چلیں اورتاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اس کا شکر کرو
4 Ahsanul Bayan
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے دریا (١) کو تابع بنا دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔
١٢۔١ یعنی اس کو ایسا بنا دیا کہ تم کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے اس پر سفر کر سکو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا ہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے قابو کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو
6 Muhammad Junagarhi
اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے دریا کو تابع بنادیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجاﻻؤ
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کومسخر کر دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل (رزق) تلاش کرو۔ اور تاکہ تم شکر کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ ہی نے تمہارے لئے دریا کو لَسخّر کیا ہے کہ اس کے حکم سے کشتیاں چل سکیں اور تم اس کے فضل و کرم کو تلاش کرسکو اور شاید اس کا شکریہ بھی ادا کرسکو
9 Tafsir Jalalayn
خدا ہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے قابو میں کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو
آیت نمبر 12 تا 21
ترجمہ : اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے دریا کو تابع کردیا کہ اس میں اس کے حکم اجازت سے کشتیاں چلیں اور تم تجارت کے ذریعہ اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ شکر بجالاؤ شمس و قمر ستارے اور پانی وغیرہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جانور اور درخت اور گھاس اور نہریں وغیرہ جو کچھ زمین میں ہے اس نے اپنی طرف سے سب کو تمہارے تابع کردیا یعنی مذکورہ چیزوں کو اس نے انسانوں کے نفع کے لئے پیدا فرمایا جمیعًا تاکید ہے، اور مِنْہُ حال ہے یعنی ان چیزوں کو تابع کردیا حال یہ ہے کہ یہ اس کی طرف سے ہے، بلاشبہ اس تابع کرنے میں ان لوگوں کے لئے جو ان میں غور (وفکر) کریں بہت سی نشانیاں ہیں کہ ایمان لے آئیں، آپ ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ ان لوگوں سے درگذر کریں جو اللہ کے دنوں واقعات سے خوف نہیں رکھتے یعنی کفار کی جانب سے تم کو تکلیف پہنچی اس کو معاف کردیں اور یہ ان کو جہاد کا حکم دینے سے قبل کا حکم ہے تاکہ اللہ (مومن) قوم کو ان کے عمل کا اچھا بدلہ دے یعنی کافروں کی ایذارسانی کو معاف کرنے کا بدلہ، جو نیکی کرے گا وہ اپنے ہی نفع کے لئے کرے گا، اور جو برے عمل کرے گا اس کا وبال اسی پر ہے پھر تم کو تمہارے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تاکہ وہ نیکو کار وبد کار کو بدلہ دے اور یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب تورات، اور حکمت کہ جب کے ذریعہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں اور انہیں میں سے موسیٰ و ہارون کو نبوت دی تھی اور ہم نے ان کو پاکیزہ حلال روزی دی تھی جیسا کہ من وسلویٰ اور ہم نے ان کو ان کے زمانہ کے اہل جہان عقلاء پر فضیلت دی تھی اور ہم نے ان کو دین کے معاملہ میں یعنی حلال اور حرام اور بعثت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں واضح اور صاف دلیلیں دیں تھیں، پھر انہوں نے علم آنے کے بعد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بارے میں اختلاف کیا بوجہ آپس کی ضدّ اضدّی کے یعنی اس عداوت کے باعث جو ان کے درمیان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حسد کی وجہ سے پیدا ہوئی، جن چیزوں میں یہ اختلاف کررہے ہیں تیرا رب ان کے درمیان قیامت کے دن (عملی) فیصلہ کردے گا پھر ہم نے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو دین کے ایک خاص طریقہ پر کردیا سو آپ اسی طریقہ پر چلتے رہئے، اور غیر اللہ کی عبادت کے معاملہ میں ان جہلاء کی خواہشوں پر نہ چلئے (یاد رکھئے) کہ یہ لوگ آپ سے اللہ کے عذاب کو پر گز دفع نہیں کرسکتے اور (سمجھ لیں) کہ ظالم کافر لوگ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہوتے ہیں اور پرہیز گاروں مومنین کا کار ساز اللہ ہے اور یہ قرآن لوگوں کے لئے بصیرت اور ہدایت و رحمت ہے بعث (بعد الموت) پر ایمان رکھنے والوں کے لئے کیا ان لوگوں کا بدی کفر و معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں یہ خیال ہے کہ ہم ان کو ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے کہ ان کا جینا مرنا یکساں ہوجائے (اَمْ ) ہمزۂ انکار کے معنی میں سے سواء خبر (مقدم) ہے، اور مَحْیَاھُمْ ومَمَاتُھُمْ مبتداء معطوف ہے، اور جملہ کاف سے بدل ہے، اور دونوں ضمیریں کافروں کے لئے ہیں (آیت کے) معنی یہ ہیں کیا یہ کافر یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کو آخرت میں خیر میں مومنین کے مانند کردیں گے یعنی عیش کی خوشگواری میں کہ ان کے عیش کے مساوی ہوگا دنیا میں، اس لئے کہ انہوں نے مومنین سے کہا کہ اگر (بالفرض) ہم کو زندہ کیا گیا تو ہم کو ایسی ہی خیر عطا کی جائے گی جیسی کہ تم عطا کی جائے گی، ہمزہ کو انکاری ماننے کی صورت میں فرمایا برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کررہے ہیں یعنی بات ایسی نہیں وہ تو آخرت میں اپنے دینوی عیش کے برخلاف عذاب میں ہوں گے اور مومن آخرت میں اپنے دنیا میں کئے گئے اپنے اعمال صالحہ مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ وغیرہ ذٰلک کے بدولت ثواب میں ہوں گے (مَا یَحکمُونَ ) میں ما مصدریہ ہے یعنی ان کا یہ فیصلہ نہایت برا ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السّمٰوٰتِ وَمَافِی الْارْضِ جمِیْعًا مِنْہُ واو عاطفہ ہے اس جملہ کا عطف سابقہ جملے پر ہے۔
قولہ : جمیعًا، ما سے حال ہے اور مِنْہُ سَخَّرھا کی ضمیر سے حال ہے ای سَخَّرھَا کائِنۃً مِنْہُ تعالیٰ علامہ محلی نے جمیعًا کو ماموصولہ کی تاکید قرار دیا ہے جو کہ سخّرَ کا مفعول ہے، غالبًا یہ علامہ (رح) تعالیٰ کا وہم ہے اگر جمیعاً ما موصولہ کی تاکید ہوتی تو جَمِیْعَہٗ کہا جاتا علامہ محلی نے غالباً اسمیں ابن مالک کا اتباع کیا ہے اسکے علاوہ جمیعاً کے ذریعہ تاکید قلیل الاستعمال ہے لہٰذا قرآن کو اس پر محمول کرنا بہتر نہیں ہے
قولہ : مِنْہُ حال ہے ای سَخَّرَھَا کائِنّۃً مِنْہُ تعالیٰ ۔ (اعراب القرآن)
قولہ : لِیجزی قَومًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ مذکورہ جملہ عفو و درگذر کرنے کی علت ہے، اور قومًا سے مراد قوم مومن ہے اور مَاکانُوا یَکْسِبُوْنَ سے مراد درگذر کرنے اور معاف کرنے کا عمل ہے، مطلب یہ ہے کہ کفار کی جانب سے ایذاء رسانی کو درگذر کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے دن درگذر کرنے والے مومنوں کو اچھا بدلہ دے مگر یہ حکم جہاد کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔
آیت کے دوسرے معنی : قوماً سے مراد کفار ہیں اور ماکسبُوْا سے مراد مشرکین کے وہ کرتوت اور نازیبا حرکتیں ہیں، جو وہ مومنین کے ساتھ ایذاء رسانی کی شکل میں کرتے تھے، اور جزاء سے مراد سزا ہے، مطلب یہ ہے کہ اے مومنو ! تم انتقام اور بدلہ لینے کی کوشش نہ کرو بلکہ ہم خود ان سے انتقام لے لیں گے، اول معنی راجح ہیں۔ (فتح القدیر)
قولہ : قُل لِلذین آمنوا یَغْفِرُوا قُلْ کا مقولہ جو کہ اغفرُوْا ہے جواب امر یعنی یَغْفِرُوْا للذین کے دلالت کرنے کی وجہ سے محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے قُلْ لَھُمْ اِغٌفِروا یَغْفِرُوا اور لِیَجْزِیَ امر مقدر اغفروا کی علت ہے علامہ محلی نے مَا کَانُو ایکسِبُوْنَ کی تفسیر مِنَ الغَفْرِلکفار اذاھم سے کرکے اشارہ کردیا کہ اول معنی واجح ہیں،
قولہ : وَلَقَدْ اٰتِیْنا بنی اِسْرائِیلَ الکتاب بنی اسرائیل کی تین کتابیں ہیں زبور، تورات، انجیل مگر ان میں چونکہ تورات اصل ہے جو دیگر کتابوں سے کفایت کرتی ہے، اس لئے یہاں تورات پر اکتفا کیا ہے۔
قولہ : العُقلاء مناسب ہوتا اگر مفسر (رح) تعالیٰ العُقلاء کے بجائے الثقلین کہتے، اس لئے کہ العقلاء میں ملائکہ بھی داخل ہیں حالانکہ ملائکہ کتب سماویہ کے مکلف نہیں ہیں، بیضاوی کی عبارت وَفَضَّلْنَا ھُمْ عَلَی العٰلمِین حیْثُ اٰتینَا ھُمْ مَا لَمْ تؤتہ احدًا غیر ھم قاضی بیضاوی کے قول حیث اٰتَیْناھم الخ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عالمی زمانھم کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ مراد ان فضائل میں خصوصیت کو بیان کرنا ہے جو واقعۃً دوسروں کو حاصل نہیں تھیں اور جزوی فضیلت سے کلی فضیلت ثابت نہیں ہوتی، مثلاً بنی اسرائیل میں انبیاء کا بکثرت ہونا، اس سے معلوم ہوا کہ اجر وثواب کے اعتبار سے فضیلت مراد نہیں ہے۔ (جمل ملخصًا)
قولہ : وبِعثۃ محمد اس کا عطف الدین پر ہے ای امربعثۃِ محمد۔
قولہ : لِبَغْیٍ حَدَثَ اس میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے اول یہ کہ بَغْیًا اختلاف کی علت ہے اور دوسرے یہ کہ بنی اسرائیل کے درمیان اختلاف کا سبب ان کی آپس کی ضد اور ہٹ دھرمی تھی۔ قولہ : ھٰذا بَصَائر للناس۔
سوال : ھٰذا مبتداء ہے جو کہ واحد ہے اور بصائر جمع ہے دونوں میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب : ھٰذا سے مراد آیات متعددہ اور براہین مختلفہ ہیں، اس لئے معنی کے اعتبار سے مبتداء خبر میں مطابقت ہے۔
قولہ : فی عبادۃِ غیر اللہ اس کا تعلق لاَتَتَّبِعُوْا سے ہے۔
قولہ : مَعَالِمْ ، معْلَمٌ کی جمع ہے اس نشان کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ راستہ کی طرف رہنمائی حاصل کیجائی ہے یعنی یہ آیتیں احکام کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔
قولہ : الَّذِیْن اجترَحُوا السیئات، حسب کا فاعل ہے اور جملہ اَنْ نجعلھم الخ حسِبَ کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے۔
قولہ : سَوَاءٌ رفع کے ساتھ مَحْیَا ھُمْ ومَماتُھم مبتداء کی خبر مقدم ہے اور کسائی نے سواء کو کالذین آمنوا میں ضمیر مجرور سے حال واقع ہونے کی وجہ سے نصب کے ساتھ پڑھا ہے، یا اس لئے منصوب ہے کہ حسِبَ کا مفعول ثالث ہے، اور بعض حضرات نے نجعلھم کے مفعول سے الاشتمال واقع ہونے کی وجہ سے منصوب پڑھا ہے۔
قولہ : لیس الامر کذٰلک اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اَمْ حَسِبَ میں ہمزہ استفہام انکار کے لئے ہے مناسب یہ تھا کہ مفسر علام لیس الامر کذٰلک کو ساء ما یَحکُمونَ پر مقدم کرتے، اس لئے کہ یہ جملہ اسی سے مربوط ہے۔
قولہ : مَامصدریۃ، بئس ما یحکمون میں مامصدریہ ہے اور مایحکمون حکمُھُمْ کے معنی میں ہے اور بئسَ کا فاعل ہے جو کہ ظاہر ہے مگر جب فاعل ظاہر ہوتا ہے تو پھر تمیز نہیں ہوتی، شارح (رح) تعالیٰ کا بئسَ حکمًا کہنا، یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حکمًا تمیز ہے اور جب تمیز ہوتی ہے تو فاعل مستتر ہوتا ہے جو ما کے مصدریہ ہونے کے منافی ہے ابن عطیہ نے کہا ہے کہ مامصدریہ ہے ای ساء الحکم حکمھم اس صورت میں الحُکْمُ فاعل ہے اور حکمھم مخصوص بالذم۔ (جمل)
تفسیر و تشریح
اللہ الذی۔۔۔۔ بامرہٖ (الآیۃ) یعنی سمندر کو ایسا بنایا کہ تم کشتیوں کے ذریعہ اس پر سفر کرسکو، سمندروں اور دریاؤں میں کشتیوں کا چلنا یہ تمہارا کمال نہیں یہ اللہ کا حکم اور اس کی مشیئت ہے ورنہ اگر وہ چاہتا تو سمندر کی موجوں کو اتنا سرکش بنا دیتا کہ کوئی کشتی اور جہاز ان کے سامنے ٹھہر ہی نہ سکتا، جیسا کہ کبھی کبھی کبھی وہ اپنی قدرت کے اظہار کیلئے ایسا کردیتا ہے، اگر مستقل طور پر موجوں کی طغیانیوں کا یہی عالم رہتا تو تم کبھی بھی سمندروں میں سفر کرنے کے قابل نہ ہوتے۔
ولتبتغوا من فضلہ قرآن کریم میں فضل تلاش کرنے سے عموماً کسب معاش کی جدوجہد مراد ہوتی ہے، یہاں اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ تمہیں سمندر میں کشتی رانی پر اس لئے قدرت دی گئی تاکہ اس کے ذریعہ تم تجارت کرسکو۔
قل للذین۔۔۔ ایام اللہ، آپ ایمان والوں سے فرما دیجئے کہ ان لوگوں سے درگذر کریں جو اللہ تعالیٰ کے معاملات کا یقین نہیں رکھتے۔
شان نزول : اس آیت کے شان نزول میں دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ مکہ مکرمہ میں کسی مشرک نے حضرت عمر (رض) پر دشنام طرازی کی تھی، حضرت عمر (رض) نے اس کے بدلے میں اس کو کچھ تکلیف پہنچانے کا ارادہ فرمایا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کے مطابق یہ آیت مکی ہے۔
دوسری روایت یہ ہے کہ غزوۂ بنو مصطلق کے موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے مریسیع نامی ایک کنوئیں کے قریب پڑاؤ ڈالا، منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی بھی مسلمانوں کے ساتھ قافلہ میں شامل تھا، اس نے اپنے غلام کو کنوئیں سے پانی لانے کے لئے بھیجا، اسے واپسی میں تاخیر ہوگئی، عبد اللہ بن ابی نے وجہ معلوم کی تو اس نے کہا کہ حضرت عمر (رض) کا ایک غلام کنوئیں کے کنارے بیٹھا ہو اتھا، اس نے اس وقت تک کسی کو پانی بھرنے کی اجازت نہیں دی، جب تک کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کے مشکیزے نہیں بھرگئے، اس پر عبد اللہ بن ابی نے کہا کہ ہم پر اور ان لوگوں پر تو وہی مثل صادق آتی ہے سَمِّن کلبَکَ یا کلک اپنے کتے کو فربہ کرو تو وہ تم کو کھاجائے گا، حضرت عمر کو جب یہ اطلاع ملی تو تلوار سونت کر عبد اللہ بن ابی کی طرف چلے، اس پر آیت نازل ہوئی، اس روایت کے اعتبار سے یہ آیت مدنی ہے۔ (قرطبی، روح المعانی، معارف)
ان روایتوں کی اسناد اگر تحقیق سے صحیح ثابت ہوں تو دونوں میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ دراصل یہ آیت مکہ میں نازل ہوچکی تھی پھر جب غزوۂ بنی مصطلق کے موقع پر اسی سے ملتا جلتا واقعہ پیش آیا تو آنحضرت نے اس آیت کو اس موقع پر بھی تلاوت فرما کر اس واقعہ کو اس پر منطبق فرمایا، اور شان نزول کی روایات میں ایسا بکثرت ہوتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ غزوۂ بنی مصطلق کے موقع پر یہ آیت دوبارہ یاد دہانی کے طور پر نازل ہوئی ہو، اس کو اصول تفسیر میں نزول مکرر کہتے ہیں۔
ولقد اتینا بنی اسرائیل ” کتاب “ سے مراد تورات، ” حکم “ سے مراد حکومت و بادشاہت یا فہم و قضاء کی صلاحیت ہے جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ضروری ہے۔
ثم جعلناک علیٰ شریعۃ من الامر، ” شریعۃ “ کے لغوی معنی ہیں راستہ، ملت اور منہاج، شاہراہ، پس شریعت سے یہاں مراد وہ دین ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر فرمایا ہے تاکہ لوگ اس پر چل کر اللہ کی رضا کا مقصد حاصل کرلیں، یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دین اسلام کے کچھ تو دینی عقائد ہیں، مثلاً توحید و آخرت وغیرہ، اور کچھ عملی زندگی سے متعلق احکام ہیں، جہاں تک اصول عقائد کا تعلق ہے وہ تو ہر نبی کی امت میں یکساں رہے ہیں، ان میں کبھی ترمیم نہیں ہوتی، البتہ عملی احکام مختلف انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں میں اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے بدلتے رہے ہیں، آیت شریفہ میں انہی دوسری قسم کے احکام کو دین کے ایک خاص طریقہ سے تعبیر کیا ہے۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے فضل و احسان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے حکم سے آسانی پیدا کر کے جہازوں اور کشتیوں کو چلانے کے لئے سمندر کو مسخر کیا۔ ﴿لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ﴾ تاکہ تم مختلف قسم کی تجارتوں اور مکاسب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرسکو۔ ﴿ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ ” اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔“ اور جب تم اس کا شکر ادا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کرے گا اور تمہاری شکر گزاری پر بہت بڑے اجر سے نوازے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah woh hai jiss ney samandar ko tumharay kaam mein laga diya hai , takay uss kay hukum say uss mein kashtiyan chalen , aur takay tum uss ka fazal talash kero , aur takay tum shukar ada kero .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کے ابن آدم پر احسانات
اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں بیان فرما رہا ہے کہ اسی کے حکم سے سمندر میں اپنی مرضی کے مطابق سفر طے کرتے ہوئے بڑی بڑی کشتیاں مال اور سواریوں سے لدی ہوئی ادھر سے ادھر لے جاتے ہو تجارتیں اور کمائی کرتے ہو۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ تم اللہ کا شکر بجا لاؤ نفع حاصل کر کے رب کا احسان مانو پھر اس نے آسمان کی چیز جیسے سورج چاند ستارے اور زمین کی چیز جیسے پہاڑ نہریں اور تمہارے فائدے کی بیشمار چیزیں تمہارے لئے مسخر کردی، یہ سب اس کا فضل و احسان انعام و اکرام ہے اور اسی ایک کی طرف سے ہے، جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ 53ۚ ) 16 ۔ النحل :53) ، یعنی تمہارے پاس جو نعمتیں ہیں سب اللہ کی دی ہوئی ہیں اور ابھی بھی سختی کے وقت تم اسی کی طرف گڑگڑاتے ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ہر چیز اللہ ہی کی طرف سے ہے اور یہ نام اس میں نام ہے اس کے ناموں میں سے پس یہ سب اس کی جانب سے ہے کوئی نہیں جو اس سے چھینا چھپٹی یا جھگڑا کرسکے ہر ایک اس یقین پر ہے کہ وہ اسی طرح ہے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا کہ مخلوق کس چیز سے بنائی گئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نور سے اور آگ سے اور اندھیرے سے اور مٹی سے اور کہا جاؤ ابن عباس کو اگر دیکھو تو ان سے بھی دریافت کرلو۔ اس نے آپ سے بھی پوچھا یہی جواب پایا پھر فرمایا واپس ان کے پاس جاؤ اور پوچھا کہ یہ سب کس چیز سے پیدا کئے گئے ؟ وہ لوٹا اور سوال کیا تو آپ نے یہی سوال کیا تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ یہ اثر غریب ہے۔ اور ساتھ ہی منکر بھی ہے غور و فکر کی عادت رکھنے والوں کے لئے اس میں بھی بہت نشانیاں ہیں پھر فرماتا ہے کہ صبر و تحمل کی عادت ڈالو منکرین قیامت کی کڑوی کسیلی سن لیا کرو، مشرک اور اہل کتاب کی ایذاؤں کو برداشت کرلیا کرو۔ یہ حکم شروع اسلام میں تھا لیکن بعد میں جہاد اور جلا وطنی کے احکام نازل ہوئے۔ اللہ کے دنوں کی امید نہیں رکھتے یعنی اللہ کی نعمتوں کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ پھر فرمایا کہ ان سے تم چشم پوشی کرو ان کے اعمال کی سزا خود ہم انہیں دیں گے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر نیکی بدی کی جزا سزا پاؤ گے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔