اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق (پر مبنی حکمت) کے ساتھ پیدا فرمایا اور اس لئے کہ ہر جان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے جو اس نے کمائے ہیں اور اُن پر ظلم نہیں کیا جائے گا،
English Sahih:
And Allah created the heavens and earth in truth and so that every soul may be recompensed for what it has earned, and they will not be wronged.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ نے تو آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے اور اس لیے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اُس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے لوگوں پر ظلم ہرگز نہ کیا جائے گا
2 Ahmed Raza Khan
اور اللہ نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا اور اس لیے کہ ہر جان اپنے کیے کا بدلہ پائے اور ان پر ظلم نہ ہوگا،
3 Ahmed Ali
اور الله نے آسمانوں اور زمین کو جسے چاہئیں بنایا ہے اور تاکہ ہر نفس کو اس کا بدلہ دیا جائے جو اس نے کمایا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہ ہوگا
4 Ahsanul Bayan
اور آسمانوں اور زمین کو اللہ نے بہت ہی عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کام کا پورا پورا بدلہ دیا جائے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت سے پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص اپنے اعمال کا بدلہ پائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
6 Muhammad Junagarhi
اور آسمانوں اور زمین کو اللہ نے بہت ہی عدل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے کام کا پورا بدلہ دیا جائے اور ان پر ﻇلم نہ کیا جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دیاجائے اور ان پر (ہرگز) ظلم نہیں کیا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اللہ نے آسمان و زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس لئے بھی کہ ہر نفس کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جاسکے اور یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت سے پیدا کیا ہے اور تاکہ ہر شخص اپنے اعمال کا بدلہ پائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا آیت نمبر 22 تا 26 ترجمہ : آسمانوں اور زمینوں کو اللہ تعالیٰ نے حکمت کے ساتھ پیدا فرمایا بالحقِّ ، خلَقَ کے متعلق ہے تاکہ اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرے اور تاکہ ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے کام کا خواہ از قبیل معاصی ہو یا از قبیل طاعات پورا پورا بدلہ دے تو کافر اور مومن برابر نہ ہوں گے اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا، بھلا بتاؤ تو کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشات ہی کو معبود بنا رکھا ہے یعنی جس پتھر کو یکے بعد دیگرے پسند کرتا ہے (معبود بنا لیتا ہے) اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے علم (ازلی) کے مطابق گمراہ کردیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس کی پیدائش سے پہلے ہی جانتا ہے کہ وہ اہل ضلالت میں سے ہے اور اس کے کام اور دل پر مہر لگا دی ہے جس کی وجہ سے اس نے ہدایت کو نہ سنا اور نہ سمجھا اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈالدیا ہے جس کی وجہ سے ہدایت کو نہیں دیکھ سکتا یہاں رأیتَ کا مفعول ثانی أیھدی مقدر ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے سوا کون ہدایت دے سکتا ہے ؟ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس کو گمراہ کرنے کے بعد (کون ہدایت دے سکتا ہے ؟ ) یعنی کوئی ہدایت نہیں دت سکتا، کیا اب بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے، اس میں دو تاؤں میں سے ایک کا ذال میں ادغام ہے، اور منکرین بعث نے کہا ہماری زندگی تو صرف وہی زندگی ہے جو دنیا میں ہے، ہم مرتے ہیں اور جتنے ہیں یعنی ایک مرتا ہے تو دوسرا جیتا ہے، بایں طور کہ پیدا ہوتا ہے اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارتا ہے یعنی اس کا مرور اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں اس بات کا کچھ علم نہیں یہ صرف اٹکل سے کام لیتے ہیں، اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے یعنی قرآنی آیتوں کی جو ہماری قدرت علی البعث پر دلالت کرتی ہیں تو ان کے پاس اس بات کے سوا کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ ہم کو زندہ کیا جائے گا تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کر لاؤ (بینات) حال ہے آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے جبکہ تم (بےجان) نطفے تھے پھر تم کو موت دے گا، پھر تم کو قیامت کے دن زندہ کرے جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر لوگ جو مذکور کے قائل ہیں نہیں سمجھتے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : افرأیت، اخبرنی اس میں سبب بول کر مسبب مراد لیا گیا ہے اس لئے کہ رویت، سبب اخبار ہے، لہٰذا رویت سبب اور اخبار اس کا مسبب اور اطلاق از قبیل مجاز ہے، اور استفہام بمعنی امر ہے، اور جامع طلب ہے، اس لئے کہ امر اور استفہام دونوں طلب میں، مشترک ہیں۔ (جمل) قولہ : اضَلَّہُ اللہُ علیٰ علمٍ ، علیٰ علم، اضلَّہٗ کے فاعل اللہ سے بھی حال ہوسکتا ہے اور ہٗ ضمیر مفعول سے بھی حال ہوسکتا ہے، مفسر علام نے فاعل سے ھال قرار دیکر مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کی وجہ سے اس کے گمراہ ہونے کو جاننے کی وجہ سے اس کو گمراہ کردیا، اور جن حضرات نے علی علم کو اضَلَّہٗ کی ضمیر سے حال قرار دیا ہے، ان کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کو اس کی سمجھ بوجھ کے باوجود گمراہ کردیا، ای اضَلَّہٗ وھو عالم بالحق اس میں شدید ترین مذمت ہے۔ (جمل) قولہ : وما لھم بذٰلک المقول، ذٰلک المقول سے منکرین خدا کا قول وما یُھلِکُنا الاَّ الدَّھر مراد ہے یعنی ان کے پاس اپنے اس قول پر کوئی دلیل نہیں ہے نہ عقلی اور نہ نقلی، بلکہ وہ اٹکل اور اندازے سے باتیں کرتے ہیں۔ تفسیر و تشریح افرأیت۔۔۔ ھواہُ (الآیۃ) بھلا بتائیے کہ وہ شخص جس نے اپنی خواہشات نفسانی کو اپنا معبود بنا لیا، یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی کافر بھی اپنی نفسانی خواہشات کو اپنا خدایا معبود نہیں کہتا، مگر قرآن کریم کی اس آیت نے یہ بتلایا کہ عبادت درحقیقت اطاعت کا نام ہے جو شخص خدا کی اطاعت کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی اطاعت اختیار کرے تو وہی اس کا معبود کہلائے گا، مطلب یہ کہ ایسا شخص اسی کو اچھا سمجھتا ہے جس کو اس کا نفس اچھا سمجھتا ہے اور اسی کو برا سمجھتا ہے جس کو اسکا نفس برا سمجھتا ہے یعنی اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلہ میں اپنی نفسانی خواہشات کو ترجیح دیتا ہے یا اپنی عقل کو اہمیت دیتا ہے، حالانکہ عقل بھی ماحول سے متاثر خواہش سے مغلوب اور مفادات کی اسیر ہوکر، خواہش نفس کی طرح غلط فیصلہ کرسکتی ہے، حضرت ابو امامہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ زیر آسمان دنیا میں جتنے معبودوں کی عبادت کی گئی ہے، ان میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے نزدیک ہوائے نفس ہے، حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دانشمند شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور ما بعد الموت کے لئے عمل کرے اور فاجروہ ہے کہ جو اپنے نفس کو اپنی خواہشات کے پیچھے چھوڑ دے، اور اس کے باوجود اللہ سے آخرت کی بھلائی کی تمنا کرے اور بعض حضرات نے اس سے ایسا شخص مراد لیا ہے جو پتھر کو پوجتا تھا، جب اس سے زیادہ خوبصورت پتھر مل جاتا تو وہ پہلے پتھر کو پھینک کر دوسرے پتھر کو معبود بنا لیتا۔ وقالوا۔۔۔ الدنیا (الآیۃ) یہ دہریہ اور اس کے ہمنوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی پہلی اور آخری زندگی ہے اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت وحیات کا سلسلہ محض زمانہ کی گردش کا نتیجہ ہے، جیسے فلاسفہ کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آتی ہے اور یہ سلسلہ بغیر صانع اور مدبر کے از خود یوں ہی چل رہا ہے، اور چلتا رہے گا، نہ اس کی کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہاء، اس کو کر وہ دوریہ کہتے ہیں (ابن کثیر) ظاہر بات ہے کہ یہ نظریہ عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے، حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں خود زمانہ ہوں میرے ہی ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں، رات دن بھی میں ہی بدلتا ہوں۔ (بخاری شریف تفسیر سورة جاثیہ)
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ تخلیق فرمایا تاکہ اسی اکیلے کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں، پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا محاسبہ کرے گا جن کو اس نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور انہیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا کہ آیا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں یا کفر کا رویہ اختیار کر کے کفار کی سزا کے مستحق بنتے ہیں؟
11 Mufti Taqi Usmani
Allah ney saray aasmano aur zameen ko bar-haq maqsad kay liye peda kiya hai , aur iss liye kiya hai kay her shaks ko uss kay kiye huye kamon ka badla diya jaye , aur detay waqt unn per koi zulm naa kiya jaye .