الاحقاف آية ۲۱
وَاذْكُرْ اَخَا عَادٍۗ اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَهٗ بِالْاَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖۤ اَ لَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ ۗ اِنِّىْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ
طاہر القادری:
اور (اے حبیب!) آپ قومِ عاد کے بھائی (ہود علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، جب انہوں نے (عُمان اور مَہرہ کے درمیان یمن کی ایک وادی) اَحقاف میں اپنی قوم کو (اَعمالِ بد کے نتائج سے) ڈرایا حالانکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد (بھی کئی) ڈرانے والے (پیغمبر) گزر چکے تھے کہ تم اﷲ کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کرنا، مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم پر بڑے (ہولناک) دن کا عذاب (نہ) آجائے،
English Sahih:
And mention, [O Muhammad], the brother of Aad, when he warned his people in [the region of] al-Ahqaf – and warners had already passed on before him and after him – [saying], "Do not worship except Allah. Indeed, I fear for you the punishment of a terrible day."
1 Abul A'ala Maududi
ذرا اِنہیں عاد کے بھائی (ہودؑ) کا قصہ سناؤ جبکہ اُس نے احقاف میں اپنی قوم کو خبردار کیا تھا اور ایسے خبردار کرنے والے اُس سے پہلے بھی گزر چکے تھے اور اس کے بعد بھی آتے رہے کہ "اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، مجھے تمہارے حق میں ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے"
2 Ahmed Raza Khan
اور یاد کرو عاد کے ہم قوم کو جب اس نے ان کو سرزمینِ احقاف میں ڈرایا اور بیشک اس سے پہلے ڈر سنانے والے گزر چکے اور اس کے بعد آئے کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پُوجو، بیشک مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے،
3 Ahmed Ali
اور قوم عاد کے بھائی کا ذکر کر جب اس نے اپنی قوم کو (وادی) احقاف میں ڈرایا اور اس سے پہلے اورپیچھے کئی ڈرانے والے گزرے کہ سوائے الله کے کسی کی عبادت نہ کرو بے شک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
4 Ahsanul Bayan
اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا (۱) اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالٰی کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں (۲)۔
۲۱۔۱ احقاف حقف کی جمع ہے ریت کا بلند مستطیل ٹیلہ بعض نے اس کے معنی پہاڑ اور غار کے کیے ہیں یہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم عاد اولی کے علاقے کا نام ہے جو حضر موت (یمن) کے قریب تھا کفار کہ کی تکذیب کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔
٢١۔۲یوم عظیم سے مراد قیامت کا دن ہے، جسے اس کی ہولناکیوں کی وجہ سے بجا طور پر بڑا دن کہا گیا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (قوم) عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کرو کہ جب انہوں نے اپنی قوم کو سرزمین احقاف میں ہدایت کی اور ان سے پہلے اور پیچھے بھی ہدایت کرنے والے گزرچکے تھے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا ڈر لگتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کی عبادت نہ کرو، بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) قومِ عاد کے بھائی (جنابِ ہود(ع)) کاذکر کیجئے جبکہ انہوں نے اپنی قوم کو مقامِ احقاف (ریت کے ٹیلوں والی بستی) میں ڈرایا تھا جبکہ بہت سے ڈرانے والے ان سے پہلے بھی گزر چکے اوران کے بعد بھی (جنابِ ہود(ع) نے کہا کہ) اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو (ورنہ) مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے (ہولناک) دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور قوم عاد کے بھائی ہود کو یاد کیجئے کہ انہوں نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا .... اور ان کے قبل و بعد بہت سے پیغمبر علیھ السّلام گزر چکے ہیں .... کہ خبردار اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو میں تمہارے بارے میں ایک بڑے سخت دن کے عذاب سے خوفزدہ ہوں
9 Tafsir Jalalayn
اور (قوم) عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم کو سرزمین احقاف میں ہدایت کی اور ان سے پہلے اور پیچھے بھی ہدایت کرنے والے گزر چکے تھے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا ڈر لگتا ہے
ترجمہ :۔ عاد کے بھائی (علیہ السلام) کا ذکر کرو جب کہ انہوں نے اپنی قوم کو جب وہ احقاف میں مقیم تھی ڈرایا (خبر دار کیا) (اذ) سے لیکر ٓخر تک (اخا عاد) سے بدل الاشتمال ہے، احقاف یمن میں ایک وادی ہے اسی میں ایک وادی ہے اسی میں ان کے مکانات تھے اور یقینا اس سے پہلے بھی ڈرانے والے یعنی رسول گذر چکے تھے اور اس کے بعد بھی یعنی ہود سے پہلے بھی اور ان کے بعد بھی اپنی قوموں کی طرف یہ کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور قدخلت جملہ معترضہ ہے، اگر تم غیر اللہ کی بندگ کرتے رہے تو مجھے تمہارے اوپر ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے، قوم نے جواب دیا کہ کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم کو ہمارے معبودوں کی بندگی سے برگشتہ کردو اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ عذاب ہمارے اوپر آئے گا تو وہ عذاب جس کا تم بتوں کی عبادت کرنے پر ہم سے عدہ کرتے ہولے آئو، تو ہود (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے وہی جانتا ہے کہ تمہارے اوپر کب عذاب آئے گا، مجھے تو جو پیغام دے کر تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ عذاب کے بارے میں جلدی کر کے نادانی کر رہے ہو لیکن جب انہوں نے اس کو یعنی عذاب کو جو بادل کی صورت میں افق آسمان پر پھیل گیا تھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگ یہ ایسا بادل ہے کہ ہم کو سیراب کرے گا یعنی ہم پر برسے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (نہیں) بلکہ یہ وہی عذاب ہے جس کی تم جلدی مچاتے تھے (یعنی ہوا کا طوفن ہے) ریح، ما سے بدل ہے، جس میں درد ناک عذاب ہے یہ (عذاب) ہر اس چیز کو اپنے رب کے حکم سے تہس نہس کر دے گا جس پر وہ گذرے گا یعنی ہر اس شئی کو برباد کردے گا جس کو اس عذاب کے ذریعہ اللہ برباد کرنے کا ارادہ کرے گا چناچہ اس (طوفانی عذاب) نے ان کے مردوں کو ان کی عورتوں کو ان کے چھوٹوں کو ان کے بڑوں کو اور ان کے اموال کو ہلاک کردیا، اس طریقہ سے کہ ان چیزوں کو آسمان اور زمین کے درمیان لے کر اڑ گیا، اور ان کو ریزہ ریزہ کردیا اور ہود (علیہ السلام) اور جو ان پر ایمان لائے تھے صحیح سلامت بچ گئے، چناچہ وہ ایسے ہوگئے کہ ان کے گھروں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا اسی طرح جس طرح ان کو سزا دی ان کے علاوہ ہر مجرم قوم کو سزا دیتے ہیں اور یقینا ہم نے ان کو وہ قوت اور مال دیا تھا اے اہل مکہ ! جو تم کو تو دیا بھی نہی، ان نافیہ ہے یا زائدہ ہے اور ہم نے ان کو ان سمع بمعنی اسماع ہے، آنکھ اور دل سب کچھ دیئے تھے مگر ان کے نہ وہ کان کچھ کام آئے اور نہ آنکھیں اور نہ دل یعنی کچھ کام نہ آئے من زائدہ ہے (اذ) اغنی کا معمول ہے اور تعلیل کے معنی پر مشتمل ہے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں یعنی اس کی واضح حجتوں کا انکار کرنے لگے اور جس عذاب کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہی عذاب ان پر الٹ پڑا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اخاعاد عاد حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم میں ایک شخص گذرا ہے جس کا سلسلہ نسب تین واسطوں سے حضرت نوح (علیہ السلام) سے جا ملتا ہے، بعد میں اس کی نسل بھ اسی نام سے موسوم ہوئی جو طوفان نوح (علیہ السلام) کے بعد ملک عرب میں سب سے پہلی با اقتدار قوم تھی، عاد اگر شخص کے معنی میں ہو تو منصرف ہوگا اور اگر قبیلہ کے معنی میں ہو تو غیر منصرف ہوگا (لغات القرآن) اور یہاں، اخ سے مراد نسبت اخوت ہے نہ کہ دینی، بالاحقاف یہ حقف کی جمع ہے ریت کے دراز و بنلد و خمدار ٹیلوں کو کہتے ہیں مزید تحقیق ابتداء سورت میں گذر چکی ہے۔
قولہ : بالاحقاف یہ انذر کا صلہ نہیں ہے جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے بلکہ یہ عاد سے حال ہے ای حال کو نھم مقیمین بالاحقاف اب رہا انذر کا صلہ ت وہ لاتعبدوا الا اللہ ہے کما یاتی (جمل) بان شارح نے اشارہ کردیا کہ ان مصدریہ یا مخففہ ہے اور باء تصویر یہ ہے یعنی گزرنے کی صورت میں حال اور کیفیت کو بیان کرنے کے لئے ہے یعنی وہ انبیاء و رسل اس حال اور صورت میں گزرے کہ اپنی اپنی قوموں کو ڈرانے والے تھے۔
قولہ : تافکنا (ض، س) سے افکا اس کے معنی جھوٹ بولنے کے ہیں مگر جب اس کا صلہ عن آتا ہے تو اس کے معنی برگشتہ کرنے اور پھیرنے کے ہوتے ہیں یہ برگشتگی اور پھیرنا خواہ اعتقاد کے اعتبار سے ہو یا عمل کے اعتبار سے۔
قولہ : ماھو العذاب اس اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ راوہ کی ضمیر اس ما کی طرف لوٹ رہی ہے جو ماتعدنا میں ہے اور زمخشری نے کہا ہے کہ راوہ کی ضمیر مبہم بھی جائز ہے جس کے ابہام کو عارضاً سے رفع کردیا خواہ تمیز ہوکنے کی وجہ سے یا حال ہونے کی وجہ سے اور فرمایا کہ یہ اعربا افصح ہے، اس لئے کہ اس میں بیان بعد الابہام ہے۔
سوال : مستقبل او دیتھم، عارضاً کی صفت ہیغ حالانکہ موصوف عارضاً نکرہ ہے اور مستقبل اودیتھم اضافت کی وجہ سے معرفہ اسی طرح ممطرنا، عارض کی صفت ہے، حالانکہ ممطرنا اضافت کی وجہ سے معرفہ اور عارض نکرہ ہے۔
جواب : دونوں جگہ صفت میں اضافت لفظیہ ہے جو تعریف کا فائدہ نہیں دیتی لہٰذا صفت بننے میں کوئی قباحت نہیں ہے، شارح علیہ الرحمۃ نے ممطر ایانا محذوف مان کر اسی جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قولہ : فاھلکت کے اضافہ کا مقصد فاصبحوا کے عطف کو درست کرنا ہے۔
قولہ : اوزائدۃ (فیہ مافیہ) اس لئے کہ ما کو زائدہ ماننے کی صورت میں عنی ہوں گے کہ ہم نے ان کو ویسی قدرت دی جیسی تم کو قدرت دی ہے اس میں قوم عاد کی قدرت مشبہ اور قریش کی قدرت مشبہ بہ ہے اور مشبہ بہ مشبہ سے اوقیٰ ہوتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ قریش کو قدرت اور تمکین قوم عاد سے زیادہ دی تھی اس سے قریش کی عظمت سمجھ میں آتی ہے جو کہ خلاف مقصود ہے، لہٰذا شارح علیہ الرحمتہ کا او زائدۃ کہنا زائد معلم ہوتا ہے (جمل) واشربت معنی التعلیل زمخشری نے کہا ہے، اذ ظریفہ ہے جاری مجریٰ تعلیل کے ہے اور اشربت بمعنی غلبت ہے یقال اشرب الابیض حمرۃ، واشرب فی قلبھم ای غلب علی قلوبھم
تفسیر و تشریح
اذکر اخاعاد (آلایۃ) احقاف، حقف کی جمع ہے ریت کے مستطیل، بلند اور خمدار ٹیلوں کو کہتے ہیں، حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد اولیٰ اسی علاقہ میں رہتی تھی، یہ حضرموت (یمن) کے قریب کا علاقہ ہے، آج کل یہاں کوئی آبادی نہیں، اغلب یہ ہے کہ ہزاروں سال پہلے یہ ایک شاداب اور کشت زار علاقہ ہوگا بعد میں آب و ہوا کی تبدیلی نے اسے ریگزار بنادیا ہوگا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کفار مکہ کی تکذیب کے پیش نظر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے گزشتہ انبیاء اور سابقہ قوموں کے واقعات سنائے جا رہے ہیں، اس کے علاہ چونکہ سردار قریش اپنی بڑائی کا زعم رکھتے تھے اور اپنی ثروت و مشیخت پر پھولے نہ سماتے تھے، نیز انہیں اپنی طاقت و قوت پر بڑا گھمنڈ اور غرور تھا وہ اپنے آگے کسی کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتے تھے اس لئے یہاں ان کو قوم عاد اور ان کی طاقت و زور آوری کا قصہ سنایا جا رہا ہے، قوم عاد قدیم زمانہ میں سب سے زیادہ طاقتور اور سرمایہ دار نیز مہذب قوم تھی قوم عاد کا قصہ سنا کر اہل مکہ کو خود فریبی سے نکالنا اور ان کی خوش فہمی کو دور کرنا ہے، اس لئے کہ اونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے سے نہیں نکلتا اس وقت تک اس پر اپنی حقیقت آشکار انہیں ہوتی کنوئیں کا مینڈک کنوئیں ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔
حضرت ہود علیہ الصلاوۃ والسلام کی قوم جو بت پرستی اور مظاہر پرستی کی خوگر و دل دادہ تھی توحید اور خدا پرستی کے آثار و نشانات تک ان سے معدوم ہوچکے تھے انبیاء سابقین کی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا تھا، حضرت ہود (علیہ السلام) کو انبیاء سابقین کی تعلیمات اور توحید کی تبلیغ کے لئے قوم عاد کی طرف مبعوث کیا گیا تھا، حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو مجھے تمہارے حق میں یوم عظیم (روز قیامت) کے عذاب کا اندیشہ ہے، قوم بجائے اس کے کہ اس معقول بات کو سنجیدگی سے لیتی الٹا اس کا مذاق اڑانا شروع کردیا اور کہنے لگے وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرا رہے ہو جلدی لے آئو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو، ہمیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم ہم کو بہا کر ہمارے معبودوں سے برگشتہ کرنا چاہتے ہو، حضرت ہود (علیہ السلام) نے جواب دیا یہ بات تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ تم پر عذاب کب آئے گا، اس کا فیصلہ کرنا میرا کام نہیں ہے، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ تم میرے انذار و تنبیہ کو مذاق سمجھ کر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو، تمہیں اندازہ نہیں کہ خدا کا عذاب کیا ہوتا ہے اور تمہاری نازیبا حرکتوں کی وجہ سے وہ کس قدر قریب آچکا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَاذْكُرْ ﴾ یعنی ثنائے جمیل کے ساتھ ذکر کر ﴿ أَخَا عَادٍ ﴾ ” قوم عاد کے بھائی کا“ اس سے مراد ہود علیہ السلام ہیں کیونکہ ان کا شمار ان مرسلین کرام میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی طرف دعوت اور اس کی طرف مخلوق کی راہ نمائی کی وجہ سے فضیلت دی ﴿ا إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ ﴾ ” جب انہوں نے اپنی قوم کو ڈرایا۔“ اور وہ تھے قوم عاد ﴿بِالْاَحْقَافِ﴾ یعنی ان کے وہ گھر جو وادی احقاف میں معروف ہیں۔ (الاحقاف)سے مراد ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں جو ارض یمن میں واقع ہیں۔ ﴿ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ ﴾ ” اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی ” یعنی حضرت ہود علیہ السلام ان میں سے کوئی انوکھے نبی نہ تھے اور نہ گزشتہ انبیاء کی مخالفت کرنے والے تھے۔ ان سے پہلے بھی بہت سے ہدایت کرنے والے گزرے ہیں۔
حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو یہ کہتے ہوئے ڈرایا : ﴿ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللّٰـهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ یعنی ان کو اللہ کی عبادت حکم کا دیا جو راست گوئی اور قابل ستائش عمل کی جامع ہے، انہیں شرک اور خدا سازی سے منع کیا اور انہیں اس بات سے ڈرایا کہ اگر انہوں نے ان کی اطاعت نہ کی تو ان پر سخت عذاب نازل ہوگا، مگر اس دعوت نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur qoam-e-aad kay bhai ( hazrat Hood aleh-assalam ) ka tazkarah kero , jab unhon ney apni qoam ko kham daar teelo ki sarzameen mein khabrdar kiya tha aur aesay khabrdar kernay walay unn say pehlay bhi guzar chukay hain , aur unn kay baad bhi kay : Allah kay siwa kissi ki ibadat naa kero , mujhay tum per aik zabardast din kay azab ka andesha hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
قوم عاد کی تباہی کے اسباب
جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے تو آپ اگلے انبیاء کے واقعات یاد کرلیجئے کہ ان کی قوم نے بھی ان کی تکذیب کی عادیوں کے بھائی سے مراد حضرت ہود پیغمبر ہیں (علیہ السلام) والصلوۃ۔ انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے عاد اولیٰ کی طرف بھیجا تھا جو احقاف میں رہتے تھے احقاف جمع ہے حقف کی اور حقف کہتے ہیں ریت کے پہاڑ کو۔ مطلق پہاڑ اور غار اور حضرموت کی وادی جس کا نام برہوت ہے جہاں کفار کی روحیں ڈالی جاتی ہیں یہ مطلب بھی احقاف کا بیان کیا گیا ہے قتادہ کا قول ہے کہ یمن میں سمندر کے کنارے ریت کے ٹیلوں میں ایک جگہ تھی جس کا نام شہر تھا یہاں یہ لوگ آباد تھے امام ابن ماجہ نے باب باندھا ہے کہ جب دعا مانگے تو اپنے نفس سے شروع کرے اس میں ایک حدیث لائے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہم پر اور عادیوں کے بھائی پر رحم کرے پھر فرماتا ہے کہ اللہ عزوجل نے ان کے اردگرد کے شہروں میں بھی اپنے رسول مبعوث فرمائے تھے۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ 66) 2 ۔ البقرة :66) اور جیسے اللہ جل وعلا کا فرمان ہے آیت ( فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ ) 41 ۔ فصلت :13) ، پھر فرماتا ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم موحد بن جاؤ ورنہ تمہیں اس بڑے بھاری دن میں عذاب ہوگا۔ جس پر قوم نے کہا کیا تو ہمیں ہمارے معبودوں سے روک رہا ہے ؟ جا جس عذاب سے تو ہمیں ڈرا رہا ہے وہ لے آ۔ یہ تو اپنے ذہن میں اسے محال جانتے تھے تو جرات کر کے جلد طلب کیا۔ جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا 18) 42 ۔ الشوری :18) یعنی ایمان نہ لانے والے ہمارے عذابوں کے جلد آنے کی خواہش کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں ان کے پیغمبر نے کہا کہ اللہ ہی کو بہتر علم ہے اگر وہ تمہیں اسی لائق جانے گا تو تم پر عذاب بھیج دے گا۔ میرا منصب تو صرف اتنا ہی ہے کہ میں اپنے رب کی رسالت تمہیں پہنچا دوں لیکن میں جانتا ہوں کہ تم بالکل بےعقل اور بیوقوف لوگ ہو اب اللہ کا عذاب آگیا انہوں نے دیکھا کہ ایک کالا ابر ان کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے چونکہ خشک سالی تھی گرمی سخت تھی یہ خوشیاں منانے لگے کہ اچھا ہوا ابر چڑھا ہے اور اسی طرف رخ ہے اب بارش برسے گی۔ دراصل ابر کی صورت میں یہ وہ قہر الہی تھا جس کے آنے کی وہ جلدی مچا رہے تھے اس میں وہ عذاب تھا جسے حضرت ہود سے یہ طلب کر رہے تھے وہ عذاب ان کی بستیوں کی تمام ان چیزوں کو بھی جن کی بربادی ہونے والی تھی تہس نہس کرتا ہوا آیا اور اسی کا اسے اللہ کا حکم تھا جیسے اور آیت میں ہے آیت ( مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ 42ۭ ) 51 ۔ الذاریات :42) یعنی جس چیز پر وہ گذر جاتی تھی اسے چورا چورا کردیتی تھی۔ پس سب کے سب ہلاک و تباہ ہوگئے ایک بھی نہ بچ سکا۔ پھر فرماتا ہے ہم اسی طرح ان کا فیصلہ کرتے ہیں جو ہمارے رسولوں کو جھٹلائیں اور ہمارے احکام کی خلاف ورزی کریں ایک بہت ہی غریب حدیث میں ان کا جو قصہ آیا ہے وہ بھی سن لیجئے۔ حضرت حارث کہتے ہیں میں علا بن حضرمی کی شکایت لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جا رہا تھا ربذہ میں مجھے بنو تمیم کی ایک بڑھیا ملی جس کے پاس سواری وغیرہ نہ تھی مجھ سے کہنے لگی اے اللہ کے بندے میرا ایک کام اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے کیا تو مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا دے گا ؟ میں نے اقرار کیا اور انہیں اپنی سواری پر بٹھا لیا اور مدینہ شریف پہنچا میں نے دیکھا کہ مسجد شریف لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہے سیاہ رنگ جھنڈا لہرا رہا ہے اور حضرت بلال تلوار لٹکائے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑے ہیں میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ تو لوگوں نے مجھ سے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرو بن عاص کو کسی طرف بھیجنا چاہتے ہیں میں ایک طرف بیٹھ گیا جب آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی منزل یا اپنے خیمے میں تشریف لے گئے تو میں بھی گیا اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر آپ کی خدمت میں باریاب ہوا اسلام علیک کی تو آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اور بنو تمیم کے درمیان کچھ رنجش تھی ؟ میں نے کہا ہاں اور ہم ان پر غالب رہے تھے اور اب میرے اس سفر میں بنو تمیم کی ایک نادار بڑھیا راستے میں مجھے ملی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اسے اپنے ساتھ آپ کی خدمت میں پہنچاؤں چناچہ میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں اور وہ دروازہ پر منتظر ہے آپ نے فرمایا اسے بھی اندر بلا لو چناچہ وہ آگئیں میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ ہم میں اور بنو تمیم میں کوئی روک کرسکتے ہیں تو اسے کر دیجئے اس پر بڑھیا کو حمیت لاحق ہوئی اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بول اٹھی کہ پھر یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا مضطر کہاں قرار کرے گا ؟ میں نے کہا سبحان اللہ میری تو وہی مثل ہوئی کہ " اپنے پاؤں میں آپ ہی کلہاڑی ماری " مجھے کیا خبر تھی کہ یہ میری ہی دشمنی کرے گی ؟ ورنہ میں اسے لاتا ہی کیوں ؟ اللہ کی پناہ واللہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی مثل عادیوں کے قاصد کے ہوجاؤں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ عادیوں کے قاصد کا واقعہ کیا ہے ؟ باوجودیکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس واقعہ سے بہ نسبت میرے بہت زیادہ واقف تھے لیکن آپ کے فرمان پر میں نے وہ قصہ بیان کیا کہ عادیوں کی بستیوں میں جب سخت قحط سالی ہوئی تو انہوں نے اپنا ایک قاصد قیل نامی روانہ کیا، یہ راستے میں معاویہ بن بکر کے ہاں آکر ٹھہرا اور شراب پینے لگا اور اس کی دونوں کنیزوں کا گانا سننے میں جن کا نام جرادہ تھا اس قدر مشغول ہوا کہ مہینہ بھر تک یہیں پڑا رہا پھر چلا اور جبال مہرہ میں جا کر اس نے دعا کی کہ اللہ تو خوب جانتا ہے میں کسی مریض کی دوا کے لئے یا کسی قیدی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے تو آیا نہیں الہٰی عادیوں کو وہ پلا جو تو نے انہیں پلانے والا ہے چناچہ چند سیاہ رنگ بادل اٹھے اور ان میں سے ایک آواز آئی کہ ان میں سے جسے تو چاہے پسند کرلے چناچہ اس نے سخت سیاہ بادل کو پسند کرلیا اسی وقت ان میں سے ایک آواز آئی کہ اسے راکھ اور خاک بنانے والا کر دے تاکہ عادیوں میں سے کوئی باقی نہ رہے۔ کہا اور مجھے جہاں تک علم ہوا ہے یہی ہے کہ ہواؤں کے مخزن میں سے صرف پہلے ہی سوراخ سے ہوا چھوڑی گئی تھی جیسے میری اس انگوٹھی کا حلقہ اسی سے سب ہلاک ہوگئے۔ ابو وائل کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک نقل ہے عرب میں دستور تھا کہ جب کسی قاصد کو بھیجتے تو کہہ دیتے کہ عادیوں کے قاصد کی طرح نہ کرنا۔ یہ روایت ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔ جیسے کہ سورة اعراف کی تفسیر میں گذرا مسند احمد میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کھل کھلا کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے مسوڑھے نظر آئیں۔ آپ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے اور جب ابر اٹھتا اور آندھی چلتی تو آپ کے چہرے سے فکر کے آثار نمودار ہوجاتے۔ چناچہ ایک روز میں نے آپ سے کہا یارسول اللہ لوگ تو ابروباد کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بارش برسے گی لیکن آپ کی اس کے بالکل برعکس حالت ہوجاتی ہے ؟ آپ نے فرمایا عائشہ میں اس بات سے کہ کہیں اس میں عذاب ہو کیسے مطمئن ہوجاؤں ؟ ایک قوم ہوا ہی سے ہلاک کی گئی ایک قوم نے عذاب کے بادل کو دیکھ کہا تھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کبھی آسمان کے کسی کنارے سے ابر اٹھتا ہوا دیکھتے تو اپنے تمام کام چھوڑ دیتے اگرچہ نماز میں ہوں اور یہ دعا پڑھتے (اللھم انی اعوذ بک من شرما فیہ) اللہ میں تجھ سے اس برائی سے پناہ چاہتا ہوں جو اس میں ہے۔ پس اگر کھل جاتا تو اللہ عزوجل کی حمد کرتے اور اگر برس جاتا تو یہ دعا پڑھتے (اللھم صیبا نافعا) اے اللہ اسے نفع دینے والا اور برسنے والا بنا دے۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جب ہوائیں چلتیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا پڑھتے (اللھم انی اسألک خیرھا وخیر ما فیھا وخیر ما ارسلت بہ واعوذ بک من شرھا ما فیھا وشر ما ارسلت بہ) یا اللہ میں تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس کے یہ ساتھ لے کر آئی ہے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور تجھ سے اس کی اور اس میں جو ہے اس کی اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ چاہتا ہوں۔ اور جب ابر اٹھتا تو آپ کا رنگ متغیر ہوجاتا کبھی اندر کبھی باہر آتے کبھی جاتے۔ جب بارش ہوجاتی تو آپ کی یہ فکرمندی دور ہوجاتی۔ حضرت عائشہ نے اسے سمجھ لیا اور آپ سے ایک بار سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ عائشہ خوف اس بات کا ہوتا ہے کہ کہیں یہ اسی طرح نہ ہو جس طرح قوم ہود نے اپنی طرف بادل بڑھتا دیکھ کر خوشی سے کہا تھا کہ یہ ابر ہمیں سیراب کرے گا۔ سورة اعراف میں عادیوں کی ہلاکت کا اور حضرت ہود کا پورا واقعہ گذر چکا ہے اس لئے ہم اسے یہاں نہیں دوہراتے (فللہ الحمد والمنہ) طبرانی کی مرفوع حدیث میں ہے کہ عادیوں پر اتنی ہی ہوا کھولی گئی تھی جتنا انگوٹھی کا حلقہ ہوتا ہے یہ ہوا پہلے دیہات والوں اور بادیہ نشینوں پر آئی وہاں سے شہری لوگوں پر آئی جسے دیکھ کر یہ کہنے لگے کہ یہ ابر جو ہماری طرف بڑھا چلا آرہا ہے یہ ضرور ہم پر بارش برسائے گا لیکن یہ جنگلی لوگ تھے جو ان شہریوں پر گرا دئیے گئے اور سب ہلاک ہوگئے ہوا کے خزانچیوں پر ہوا کی سرکشی اس وقت اتنی تھی کہ دروازوں کے سوراخوں سے وہ نکلی جا رہی تھی واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔