پس جان لیجئے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ (اظہارِ عبودیت اور تعلیمِ امت کی خاطر اﷲ سے) معافی مانگتے رہا کریں کہ کہیں آپ سے خلافِ اولیٰ (یعنی آپ کے مرتبہ عالیہ سے کم درجہ کا) فعل صادر نہ ہو جائے٭ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی طلبِ مغفرت (یعنی ان کی شفاعت) فرماتے رہا کریں (یہی ان کا سامانِ بخشش ہے)، اور (اے لوگو!) اﷲ (دنیا میں) تمہارے چلنے پھرنے کے ٹھکانے اور (آخرت میں) تمہارے ٹھہرنے کی منزلیں (سب) جانتا ہے، ٭ (خواہ وہ فعل اپنی جگہ شرعاً جائز اور مستحسن ہی کیوں نہ ہو مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام و مرتبہ اتنا بلند اور ارفع و اعلٰی ہے کہ کئی اعمال صالحہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے لحاظ سے کمتر ہیں۔)
English Sahih:
So know, [O Muhammad], that there is no deity except Allah and ask forgiveness for your sin and for the believing men and believing women. And Allah knows of your movement and your resting place.
1 Abul A'ala Maududi
پس اے نبیؐ، خوب جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی اللہ تمہاری سرگرمیوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے ٹھکانے سے بھی واقف ہے
2 Ahmed Raza Khan
تو جان لو کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں اور اے محبوب! اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو اور اللہ جانتا ہے دن کو تمہارا پھرنا اور رات کو تمہارا آرام لینا
3 Ahmed Ali
پس جان لو کہ سوائے الله کے کوئی معبود نہیں اور اپنے اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگیئے اور الله ہی تمہارے لوٹنے اور آرام کرنے کی جگہ کو جانتا ہے
4 Ahsanul Bayan
سو (اے نبی!) آپ یقین کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (۱) اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی (۲) اللہ تم لوگوں کے آمد ورفت کی اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔ (۳)
۱۹۔۱ یعنی اس عقیدے پر ثابت اور قائم رہیں کیونکہ یہی توحید اور اطاعت الہی مدار خیر ہے اور اس سے انحراف یعنی شرک اور معصیت مدار شر ہے۔ ١٩۔۲ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے، اپنے لئے بھی اور مومنین کے لئے بھی استغفار کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ احادیث میں بھی اس پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یَا اّیُّھَا النَّاسُ! تُوْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ فَاِنِّی اَسْتَغْعِرُ اللّٰہَ وَ اَتُوْبُ اِلَیہِ فِی الیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً (صحیح بخا ری) لوگو! استغفار کیا کرو، میں بھی اللہ کے حضور روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ استغفار کرتا ہوں۔ بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کرتا ہوں۔ ۱۹۔۳ یعنی دن کو تم جہاں پھرتے اور جو کچھ کرتے ہو اور رات کو جہاں آرام کرتے اور استقرار پکڑتے ہو اللہ تعالٰی جانتا ہے مطلب ہے شب وروز کی کوئی سرگرمی اللہ سے مخفی نہیں ہے ۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور (اور) مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی۔ اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھیرنے سے واقف ہے
6 Muhammad Junagarhi
سو (اے نبی!) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی، اللہ تم لوگوں کی آمد ورفت کی اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) خوب جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی خدانہیں ہے اور خدا سے اپنے ذنب اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی مغفرت طلب کریں۔ اللہ تمہاری گردش (چلنے پھر نے) کی جگہ کو اور تمہارے ٹھکانے کو جانتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تو یہ سمجھ لو کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور اپنے اور ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے استغفار کرتے رہو کہ اللہ تمہارے چلنے پھرنے اور ٹہرنے سے خوب باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
پس جان رکھو کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے بھی اور خدا تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے سے واقف ہے واستغفر لذنبک والمومنین والمومنات (الآیۃ) اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے اپنے لئے بھی اور مومنین کے لئے بھی، یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) تو معصوم ہوتے ہیں پھر ان کو استغفار کا کیوں حکم دیا گیا ہے ؟ جواب :۔ بوجہ عصمت اگرچہ انبیاء (علیہم السلام) سے گناہ کے سر زد ہونے کا احتمال نہیں تھا مگر عصمت کے باوجود بعض اوقات خطا اجتہادی سر زد ہوجاتی ہے، خطاء اجتہادی اگرچہ قانون شرع میں گناہ نہیں ہے بلکہ اس پر بھی اجر ملتا ہے انبیاء مدعلیہم السلام کو ان کی خطا اجتہادی سر زد ہوجاتی ہے، خطاء اجتہادی اگرچہ قانون شرع میں گناہ نہیں ہے بلکہ اس پر بھی اجر ملتا ہے انبیاء (علیہم السلام) کو ان کی خطا پر متنبہ کردیا جاتا ہے مگر ان کی شان عالی کے اعتبار سے اس کو ذنب سے تعبیر کردیا جاتا ہے جیسا کہ سورة عبس میں آپ پر ایک قسم کا عتاب فرمایا وہ بھی اسی خطاء اجتہادی کی مثال تھی جس کی تفصیل (انشاء اللہ) سورة عبس میں آئیگی۔ (معارف) اور بعض حضرانت نے ” ذنب “ سے مراد خلاف اولیٰ لیا ہے جس کا انبیاء سے سر زد ہونا ممکن ہے اور نہ یہ عصمت کے خلاف ہے، بعض اوقات امت کی سہولت اور بیان جواز کے لئے نبی خلاف اولیٰ کو اختیار کرلیتا ہے، اس کے علاوہ اسلام نے جو اخلاق انسان کو سکھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی بجا لانے میں اداء حق کی خاطر جان لڑانے میں خواہ اپنی حد تک کتنی ہی کوشش کرتا رہا ہو، بندہ کو اس زعم میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ جو کچھ مجھے کرنا چاہئیت ھا وہ میں نے کردیا ہے اس لئے کہ کسی بھی نبدے سے اس کی شایان شان حق ادا ہو ہی نہیں سکتا، اس لئے کہ بندہ جس قدر بھی شکر کرے گا توفیق شکر کا شکر لازم ہوگا اور بندہ جتنا بھی شکر کرے گا یہ سلسلہ بڑھتا ہی رہے گا اداء شکر میں اگر جان بھی دیدے پھر بھی اس کا حق ادا نہ ہوگا آخر میں یہی کہتا ہوگا۔ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں کہ اس بات کا اقرار کرے کہ اے میرے مالک، تیرا جو میرے اوپر حق تھا میں کما حقہ نہیں کرسکا ہوں اور ہمہ وقت اپنے قصور کا اعتراف کرتا رہے، یہی روح ہے اللہ کے اس ارشاد کی کہ اے نبی اپنے قصور کی معاونت مانگو، اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاذ اللہ نبی نے فی الواقع جان بوجھ کر کوئی قصور کیا تھا۔
10 Tafsir as-Saadi
علم میں اقرار قلب اور اس معنی کی معرفت، جو علم اسے طلب کرتا ہے، لازمی امر ہے اور علم کی تکمیل یہ ہے کہ اس کے تقاضے کے مطابع عمل کیا جائے اور یہ علم جس کے حصول کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم ہے اور ہر انسان پر فرض عین ہے اور کسی پر بھی، خواہ وہ کوئی بھی ہو، ساقط نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کے لئے اس کا حصول ضروری ہے۔ اس علم کے حصول کا طریق کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، چند امور پر مبنی ہے : (1) سب سے بڑا امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال میں تدبر کیا جائے جو اس کے کمال اور اس کی عظمت و جلال پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ اسماء و صفات میں تدبر و عبادت میں کوشش صرف کرنے اور رب کامل کے لئے تعبد کا موجب ہوتا ہے جو ہر قسم کی حمدو مجد اور جلال و جمال کا مالک ہے۔ (2) اس حقیقت کا علم کہ اللہ تعالیٰ تخلیق و تدبیر میں متفرد ہے، اس کے ذریعے سے اس بات کا علم حاصل ہوگا کہ وہ الوہیت میں میں بھی متفرد ہے۔ (3) اس امر کا علم کہ ظاہری اور باطنی، دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا کرنے میں وہ متفرد ہے۔ یہ علم دل کے اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے، اس سے محبت کرنے، اس اکیلے کی عبادت کرنے کا موجب بنتا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ (4) ہم یہ جو دیکھتے اور سنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کے لئے، جو اس کی توحید کو قائم کرتے ہیں، فتح و نصرت اور دنیاوی نعمتیں ہیں اور اس کے دشمن مشرکین کے لئے سزا اور عذاب ہے۔۔۔ یہ چیز اس علم کے حصول کی طرف دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور تمام تر عبادت کا وہی مستحق ہے۔ (5) ان بتوں اور خود ساختہ ہم سروں کے اوصاف کی معرفت، جن کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے اور انہیں معبود بنا لیا گیا ہے، کہ یہ ہر لحاظ سے ناقص اور بالذات محتاج ہیں، یہ خود اپنے لئے اور اپنے عبادت گزاروں کے لئے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، ان کے اختیار میں زندگی ہے نہ موت اور نہ یہ دوبارہ زندگی ہی عطا کرسکتے ہیں، یہ ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے جو ان کی عبادت کرتے ہیں، بھلائی عطاکرنے اور شر کو دور کرنے میں ان کے ذرہ بھر کام نہیں آ سکتے جیونکہ ان اوصاف کا علم، اس حقیقت کے علم کا موجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی عبادت کی مستحق نہیں، نیز یہ علم اللہ کے ماسوا کی الوہیت کے بطلان کا موجب ہے۔ (6) حقیقت توحید پر اللہ تعالیٰ کی تمام کتابیں اتفاق کرتی ہیں۔ (7) اللہ تعالیٰ کے خاص بندے، جو اخلاق، عقل، رائے، صواب اور علم کے اعتبار سے اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ کامل ہیں، یعنی انبیاء و مرسلین اور علمائے ربانی، اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں۔ (8) اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو دلائل افقیہ اور نفسیہ قائم کیے ہیں، جو توحید الٰہی پر سب سے بڑی دلیل ہیں، اپنی زبان سے حال سے پکار پکار کر اس کی باریک کاریگری، اس کی عجیب وغریب حکمتوں اور اس کی انوکھی تخلیق کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقے ہیں، جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو کثرت سے اس امر کی دعوت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، ان کو اپنی کتاب میں نمایاں طور پر بیان کیا ہے اور بار بار ان کا اعادہ کیا ہے۔ ان میں سے بعض پر غوروفکر کرنے سے بندے کو علم اور یقین حاصل ہونا ایک لازمی امر ہے، تب بندے کو کیوں کر علم اور یقین حاصل نہ ہوگا جب دلائل ہر جانب سے مجتمع اور متفق ہو کر توحید پر دلالت کرتے ہوں۔ یہاں بندۂ مومن کے دل میں توحید پر ایمان اور اس کا عل راسخ ہو کر پہاڑوں کی مانند بن جاتے ہیں، شبہات و خیالات انہیں متزلزل نہیں کرسکتے اور باطل اور شبہات کے بار بار وارد ہونے سے ان کی نشونما اور ان کے کمال میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ اس عظیم دلیل اور بہت بڑے معاملے کو دیکھیں۔۔۔ اور وہ ہے قرآن عظیم میں تدبر اور اس کی آیات میں غوروفکر۔۔۔ تو یہ علم توحید تک پہنچنے کے لئے بہت بڑا دروازہ ہے، اس کے ذریعے سے توحید کی وہ تفاصیل حاصل ہوتی ہیں جو کسی دوسرے طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتیں۔ ﴿ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ ﴾ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی بخشش طلب کیجئے، یعنی توبہ، مغفرت کی دعا، گناہوں کو مٹا دینے والی نیکیوں اور گناہوں اور جرائم کو ترک کرکے مغفرت کے اسباب پر عمل کیجئے۔ ﴿ وَ ﴾ ” اور“ اسی طرح بخشش طلب کیجئے ﴿ َلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ ’’مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے۔“ کیونکہ وہ اپنے ایمان کے سبب سے ہر مسلمان مرد اور عورت پر حق رکھتے ہیں اور ان کے جملہ حقوق میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ ان کے لئے دعا کی جائے اور ان کے گناہوں کی بخشش مانگی جائے۔ جب آپ ان کے لئے استغفار پر مامور ہیں، جو ان سے گناہوں اور ان کی سزا کے ازالے کو متضمن ہے، تب اس کے لوازم میں سے ہے کہ ان کی خیر خواہی کی جائے، ان کے لئے بھلائی کو پسند کریں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں، ان کے لئے برائی کو ناپسند کریں جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں، انہیں ان کاموں کا حکم دیں جن میں ان کے لئے بھلائی ہے اور ان کاموں سے روکیں جن سے ان کو ضرور پہنچتا ہے، ان کی کوتاہیوں اور عیبوں کو معاف کردیں، ان کے ساتھ اس طرح اکٹھے رہنے کی خواہش رکھیں جس سے ان کے دل اکٹھے رہیں اور ان کے درمیان کینہ اور بغض زائل ہو جو عدوات اور ایسی مخالفت کا سبب بنتا ہے جس سے ان کے گناہ اور معاصی زیادہ ہوجاتے ہیں۔ ﴿ وَاللّٰـهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ حرکات و تصرفات اور تمہاری آمدروفت کو خوب جانتا ہے۔ ﴿ وَمَثْوَاكُمْ ﴾ اور تمہاری رہائش کی جگہ کو بھی جانتا ہے۔ جہاں تم ٹھہرتے ہو۔ وہ تمہاری حرکات و سکنات کو جانتا ہے وہ تمہیں اس کی پوری پوری جزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
lehaza ( aey payghumber ! ) yaqeen jano kay Allah kay siwa koi ibadat kay laeeq nahi hai , aur apney qusoor per bhi bakhshish ki dua maangtay raho , aur musalman mardon aur aurton ki bakhshish ki bhi , aur Allah tum sabb ki naqal o harkat aur tumhari qayam gaah ko khoob janta hai .