بس دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے، اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقوٰی اختیار کرو تو وہ تمہیں تمہارے (اعمال پر کامل) ثواب عطا فرمائے گا اور تم سے تمہارے مال طلب نہیں کرے گا،
English Sahih:
[This] worldly life is only amusement and diversion. And if you believe and fear Allah, He will give you your rewards and not ask you for your properties.
1 Abul A'ala Maududi
یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے اگر تم ایمان رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہارے اجر تم کو دے گا اور وہ تمہارے مال تم سے نہ مانگے گا
2 Ahmed Raza Khan
دنیا کی زندگی تو یہی کھیل کود ہے اور اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو وہ تم کو تمہارے ثواب عطا فرمائے گا اور کچھ تم سے تمہارے مال نہ مانگے گا
3 Ahmed Ali
بلاشبہ دنیا کی زندگی تو کھیل اور تماشا ہے اور اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیزگاری اختیار کرو تو تمہیں تمہارے اجر دے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگے گا
4 Ahsanul Bayan
واقعی زندگانی دنیا صرف کھیل کود ہے (١) اور اگر تم ایمان لے آؤ گے اور تقوٰی اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں تمہارے اجر دے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگتا (٢)
٣٦۔١ یعنی ایک فریب اور دھوکا ہے، اس کی کسی چیز کی بنیاد ہے نہ اس کو ثبات اور نہ اس کا اعتبار۔ ٣٦۔٢ یعنی وہ تمہارے مالوں سے بےنیاز ہے۔ اسی لئے اس نے تم سے زکوۃ میں کل مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک نہایت قلیل حصے صرف ڈھائی فیصد کا اور وہ بھی ایک سال کے بعد اپنی ضرورت سے زیادہ ہونے پر، علاوہ ازیں اس کا مقصد بھی تمہارے اپنے ہی بھائی بندوں کی مدد اور خیر خواہی ہے نہ کہ اللہ اس مال سے اپنی حکومت کے اخراجات پورے کرتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے۔ اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور پرہیزگاری کرو گے تو وہ تم کو تمہارا اجر دے گا۔ اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا
6 Muhammad Junagarhi
واقعی زندگانیٴ دنیا تو صرف کھیل کود ہے اور اگر تم ایمان لے آؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں تمہارے اجر دے گا اور وه تم سے تمہارے مال نہیں مانگتا
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ دنیا کی زندگی تو بس کھیل اور تماشا ہے اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو وہ (خدا) تمہیں تمہارے اجر عطا کرے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ زندگانی دنیا تو صرف ایک کھیل تماشہ ہے اور اگر تم نے ایمان اور تقویٰ اختیار کرلیا تو خدا تمہیں مکمل اجر عطا کرے گا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا
9 Tafsir Jalalayn
دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور پرہیزگاری کرو گے تو وہ تم کو تمہارا اجر دے گا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا انما الحیوۃ الدنیا اوپر جہاد کا ذکر تھا اور چونکہ جہاد سے روکنے والی چیز انسان کے لئے دنیا کی محبت ہوسکتی ہے جس میں اپنی جان کی محبت اہل و عیال کی محبت مال و دولت کی محبت سب داخل ہیں، اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سب چیزیں بہرحال ختم اور فنا ہونے والی ہیں، اس وقت اگر ان کو بچا بھی لیا تو کیا فائدہ ؟ آخر کار یہ سب چیزیں ہاتھ سے نکلنے ہی والی ہیں، اس لئے ان فانی اور ناپائیدار چیزوں کی محبت کو آخرت کی دائمی پائیدار نعمتوں کی محبت پر غالب نہ آنے دو ۔ ولایسئلکم اموالکم اللہ تعالیٰ تمہارے اموال سے بےنیاز ہے اسی لئے اس نے تم سے زکوۃ میں کل مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک نہایت ہی قلیل حصے کا یعنی صرف ڈھائی فیصد کا مطالبہ رکھا اور وہ بھی ایک سال کے بعد اپنی ضرورت سے زیادہ ہونے پر، علاوہ ازیں اس کا مقصد بھی تمہارے اپنے بھائی بندوں کی مدد اور خیر خواہی ہے نہ کہ اللہ اس مال سے اپنی حکومت کے اخراجات پورے کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ زائد از ضرورت کل مال کا مطالبہ کرتا اور وہ بھی اصرار کے ساتھ اور زور دیکر تو تم بخل کرنے گتے اور بخل کی وجہ سے جو ناگواری اور کراہت تمہارے دلوں میں ہوتی وہ لا محالہ ظاہر ہوجاتی اس لئے اس نے تمہارے اموال میں سے ایک حقیر و قلیل حصہ تم پر فرض کیا ہے تم اس میں بھی بخل کرنے لگے۔
10 Tafsir as-Saadi
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو اس دنیا کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے، کہ دنیا محض لہو و لعب ہے یعنی بدن کے لئے لعب اور قلوب کے لئے لہو، اس میں زہد کی ترغیب ہے۔ پس بندہ اپنے مال و متاع، اولاد، اپنی زیب و زینت، اپنی بیویوں، ماکو لات و مشروبات سے حصول لذت، اپنے مساکن و مجالس، مناظر اور ریاست میں مگن ہو کر غافل اور ہر بے فائدہ عمل میں کھیلتا رہتا ہے بلکہ وہ بے کاری، غفلت اور گناہوں کے دائرے میں گھرا رہتا ہے، یہاں تک کہ اپنی دنیا کی زندگی کو مکمل کرلیتا ہے اور اس کی اجل آجاتی ہے۔ جب یہ تمام چیزیں منہ موڑ کر بندے سے جدا ہوجاتی ہیں اور بندے کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس کا خسارہ اور محرومی واضح ہوجاتی ہے اور اس کا عذاب آموجود ہوتا ہے تو یہ چیز خردمند شخص کے لئے، دنیا میں زہد، عدمِ رغبت اور اس کے معاملے میں اہتمام کی موجب ہے۔ وہ کام جو ہر چیز سے زیادہ اہتمام کے لائق ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا ﴾ ” اور اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لاؤ اور تقویٰ پر قائم رہو جو ایمان کے لوازم اور اس کے تقاضوں میں سے ہے اور تقویٰ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو ترک کرتے ہوئے، دائمی طور پر اس کی رضا کے مطابق عمل کرنا۔ تو یہ عمل بندے کو فائدہ دیتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جو اس لائق ہے کہ اس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت کر جائے اور اس کی طلب میں اپنے عزم وارادے اور اپنی جدوجہد کو صرف کیا جائے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے، ان پر رحمت اور لطف و کرم کی بنا پر مطلوب و مقصود ہے، تاکہ انہیں بے پایاں ثواب عطا کرے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ﴾ ” اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہیں تمہارا اجر دے گا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی ایسی تکلیف نہیں دینا چاہتا جو تمہارے لئے مشقت اور مشکل کا باعث ہو، مثلاً وہ تم سے مال لے کر تمہیں مال کے بغیر نہیں چھوڑنا چاہتا یا تمہیں کسی ایسے نقصان سے دور چار نہیں کرنا چاہتا جس سے تمہیں ضرور پہنچے۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh dunyawi zindagi to bus khel tamasha hai , aur agar tum emaan lao , aur taqwa ikhtiyar kero to Allah tumharay ajar tumhen dey ga , aur tumharay maal tum say nahi maangay ga .
12 Tafsir Ibn Kathir
سخاوت کے فائدے اور بخل کے نقصانات دنیا کی حقارت اور اس کی قلت و ذلت بیان ہو رہی ہے کہ اس سے سوائے کھیل تماشے کے اور کچھ حاصل نہیں ہاں جو کام اللہ کے لئے کئے جائیں وہ باقی رہ جاتے ہیں پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی ذات بےپرواہ ہے تمہارے بھلے کام تمہارے ہی نفع کیلئے ہیں وہ تمہارے مالوں کا بھوکا نہیں اس نے تمہیں جو خیرات کا حکم دیا ہے وہ صرف اس لئے کہ تمہارے ہی غرباء، فقراء کی پرورش ہو اور پھر تم دار آخرت میں مستحق ثواب بنو۔ پھر انسان کے بخل اور بخل کے بعد دلی کینے کے ظاہر ہونے کا حال بیان فرمایا فال کے نکالنے میں یہ تو ہوتا ہی ہے کہ مال انسان کو محبوب ہوتا ہے اور اس کا نکالنا اس پر گراں گذرتا ہے۔ پھر بخیلوں کی بخیلی کے وبال کا ذکر ہو رہا ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے مال کو روکنا دراصل اپنا ہی نقصان کرنا ہے کیونکہ بخیلی کا وبال اسی پر پڑے گا۔ صدقے کی فضیلت اور اسکے اجر سے محروم بھی رہے گا۔ اللہ سب سے غنی ہے اور سب اس کے در کے بھکاری ہیں۔ غناء اللہ تعالیٰ کا وصف لازم ہے اور احتیاج مخلوق کا وصف لازم ہے۔ نہ یہ اس سے کبھی الگ ہوں نہ وہ اس سے پھر فرماتا ہے اگر تم اس کی اطاعت سے روگرداں ہوگئے اس کی شریعت کی تابعداری چھوڑ دی تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور قوم لائے گا جو تم جیسی نہ ہوگی بلکہ وہ سننے اور ماننے والے حکم بردار، نافرمانیوں سے بیزار ہوں گے۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ نے پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کون لوگ ہیں جو ہمارے بدلے لائے جاتے اور ہم جیسے نہ ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ حضرت سلمان فارسی کے شانے پر رکھ کر فرمایا یہ اور ان کی قوم اگر دین ثریا کے پاس بھی ہوتا تو اسے فارس کے لوگ لے آتے، اس کے ایک راوی مسلم بن خالد زنجی کے بارے میں بعض ائمہ جرح تعدیل نے کچھ کلام کیا ہے واللہ اعلم۔ الحمد للہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورة قتال کی تفسیر ختم ہوئی۔