جب تم (خیبر کے) اَموالِ غنیمت کو حاصل کرنے کی طرف چلو گے تو (سفرِ حدیبیہ میں) پیچھے رہ جانے والے لوگ کہیں گے: ہمیں بھی اجازت دو کہ ہم تمہارے پیچھے ہو کر چلیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اﷲ کے فرمان کو بدل دیں۔ فرما دیجئے: تم ہرگز ہمارے پیچھے نہیں آسکتے اسی طرح اﷲ نے پہلے سے فرما دیا تھا۔ سو اب وہ کہیں گے: بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، بات یہ ہے کہ یہ لوگ (حق بات کو) بہت ہی کم سمجھتے ہیں،
English Sahih:
Those who remained behind will say when you set out toward the war booty to take it, "Let us follow you." They wish to change the words of Allah. Say, "Never will you follow us. Thus did Allah say before." So they will say, "Rather, you envy us." But [in fact] they were not understanding except a little.
1 Abul A'ala Maududi
جب تم مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑے جانے والے لوگ تم سے ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے فرمان کو بدل دیں اِن سے صاف کہہ دینا کہ "تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اللہ پہلے ہی یہ فرما چکا ہے" یہ کہیں گے کہ "نہیں، بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کر رہے ہو" (حالانکہ بات حسد کی نہیں ہے) بلکہ یہ لوگ صحیح بات کو کم ہی سمجھتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اب کہیں گے پیچھے بیٹھ رہنے والے جب تم غنیمتیں لینے چلو تو ہمیں بھی اپنے پیچھے آنے دو وہ چاہتے ہیں اللہ کا کلام بدل دیں تم فرماؤ ہرگز ہمارے ساتھ نہ آؤ اللہ نے پہلے سے یونہی فرمادیا تو اب کہیں گے بلکہ تم ہم سے جلتے ہو بلکہ وہ بات نہ سمجھتے تھے مگر تھوڑی
3 Ahmed Ali
عنقریب کہیں گے وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے جب تم غنیمتوں کی طرف ان کے لینے کے لیے جانے لگو گے کہ ہمیں چھوڑو ہم تمہارے ساتھ چلیں وہ چاہتے ہیں کہ الله کا حکم بدل دیں کہہ دو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہ چلو گے الله نے اس سے پہلے ہی ایسا فرما دیا ہے پس وہ کہیں گے کہ (نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو بلکہ وہ لوگ بات ہی کم سمجھتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، (۱) وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے کلام کو بدل دیں (۲) آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالٰی ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے (۳) وہ اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو (٤) (اصل بات یہ ہے) کہ وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں (۵)
۱۵۔۱ اس میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے جس کی فتح کی نوید اللہ تعالٰی نے حدیبیہ میں دی تھی نیز اللہ تعالٰی نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہاں سے جتنا بھی مال غنیمت حاصل ہوگا وہ صرف حدیبیہ میں شریک ہونے والوں کا حصہ ہے چنانچہ حدیبیہ سے واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی مسلسل عہد شکنی کی وجہ سے خیبر پر چڑھائی کا پروگرام بنایا تو مذکورہ متخلفین نے بھی محض مال غنیمت کے حصول کے لیے ساتھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا جسے منظور نہیں کیا گیا آیت میں مغانم سے مراد مغانم خیبر ہی ہیں ۔ ١٥۔۲ اللہ کے کلام سے مراد، اللہ کا خیبر کی غنیمت کو اہل حدیبیہ کے لئے خاص کرنے کا وعدہ ہے، منافقین اس میں شریک ہو کر اللہ کے کلام یعنی اس کے وعدے کو بدلنا چاہتے تھے۔ ١٥۔۳یہ نفی بمعنی نہی ہے یعنی تمہیں ہمارے ساتھ چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی کا حکم بھی یہی ہے۔ ١٥۔٤ یعنی یہ متخلفین کہیں گے کہ تم ہمیں حسد کی بنا پر ساتھ لے جانے سے گریز کر رہے ہو تاکہ مال غنیمت میں ہم تمہارے ساتھ شریک نہ ہوں۔ ١٥۔۵ یعنی بات یہ نہیں ہے جو وہ سمجھ رہے ہیں، بلکہ یہ پابندی ان کے پیچھے رہنے کی پا داش میں ہے۔ لیکن اصل بات ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب تم لوگ غنیمتیں لینے چلو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دیجیئے کہ آپ کے ساتھ چلیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے قول کو بدل دیں۔ کہہ دو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسی طرح خدا نے پہلے سے فرما دیا ہے۔ پھر کہیں گے (نہیں) تم تو ہم سے حسد کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہی نہیں مگر بہت کم
6 Muhammad Junagarhi
جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، وه چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیں آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے، وه اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، (اصل بات یہ ہے) کہ وه لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
جب تم (جنگِ خیبر میں) غنیمتیں حاصل کرنے کیلئے چلوگے تو جو پیچھے چھوڑ دئیے گئے وہ ضرور کہیں گے کہ ہمیں بھی اجازت دو کہ ہم آپ کے پیچھے آئیں وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی بات کو بدل دیں۔ آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ تم اب کبھی ہمارے پیچھے نہیں آسکتے! اللہ پہلے ہی ایسی بات کہہ چکا ہے اس پر وہ ضرور کہیں گے کہ بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو بلکہ یہ (کم عقل) بہت ہی کم بات سمجھتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے تم سے کہیں گے جب تم مال غنیمت لینے کے لئے جانے لگو گے کہ اجازت دو ہم بھی تمہارے ساتھ چلے چلیں یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو تبدیل کر دیں تو تم کہہ دو کہ تم لو گ ہمارے ساتھ نہیں آسکتے ہو اللہ نے یہ بات پہلے سے طے کردی ہے پھر یہ کہیں گے کہ تم لوگ ہم سے حسد رکھتے ہو حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بات کو بہت کم سمجھ پاتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جب تم لوگ غنیمتیں لینے چلو گے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ چلیں یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے قول کو بدل دیں کہہ دو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے اسی طرح خدا نے پہلے تو فرما دیا ہے پھر کہیں گے (نہیں) تم تو ہم سے حسد کرتے ہو بات یہ ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہی نہیں مگر بہت کم
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مذمت کی، تو یہ بھی ذکر فرمایا کہ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام، ایسی غنیمتیں حاصل کرنے لئے آگے بڑھیں گے، جس میں جنگ نہیں ہوگی، تو یہ لوگ ان سے صحبت اور مشارکت کی درخواست کریں گے۔ وہ کہیں گے۔ ﴿ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ يُرِيدُونَ ﴾ ” ہمیں بھی اجازت دیں کہ ہم آپ کے ساتھ چلیں، وہ چاہتے ہیں“ اس سے ﴿أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللّٰـهِ ﴾ ” کہ وہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔“ کیونکہ اس نے ان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان غنائم کو شرعاً اور قدر اً صحابہ کرام یعنی اہل ایمان سے مختص کیا ہے۔ ﴿قُل﴾ ان سے کہہ دیجئے ﴿لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللّٰـهُ مِن قَبْلُ﴾ ” تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اسی طرح اللہ نے پہلے فرما دیا ہے۔“ تمہیں اس جرم کی پاداش میں جس کا ارتکاب تم نے اپنے آپ پر کیا، غنائم سے محروم کیا جاتا ہے، نیز اس جرم کی پاداش میں کہ تم نے پہلے مرتبہ جہاد کو ترک کیا۔ ﴿فَسَيَقُولُونَ﴾ تو وہ اس بات کا جواب دیتے ہوئے، جس کی بنا پر انہیں جنگ کے لئے نکلنے سے منع کیا گیا ہے، کہیں گے : ﴿بَلْ تَحْسُدُونَنَا﴾ یعنی تم مال غنیمت کے بارے میں ہمارے ساتھ حسد کرتے ہو۔ اس مقام پر یہ ان کا منتہائے علم ہے، اگر انہوں نے رشدو فہم سے کام لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ ان کی محرومی کا سبب، ان کی نافرمانی ہے، گناہوں کی کچھ دنیاوی اور کچھ دینی سزا ہوتی ہے اسی لئے فرمایا : ﴿بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” بلکہ یہ بہت کم سمجھتے ہیں۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
. ( musalmano ! ) jab tum ghaneemat kay maal lenay kay liye chalo gay to yeh ( hudaibia kay safar say ) peechay rehney walay tum say kahen gay kay : hamen bhi apney sath chalney do . woh chahen gay kay Allah ki baat ko badal den . tum keh dena kay : tum hergiz humaray sath nahi chalo gay . Allah ney pehlay say yun hi farma rakha hai . iss per woh kahen gay kay : darasal aap log hum say hasad rakhtay hain . nahi ! balkay haqeeqat yeh hai kay yeh log khud hi aesay hain kay boht kam baat samajhtay hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
مال غنیمت کے طالب ارشاد الہٰی ہے کہ جن بدوی لوگوں نے حدیبیہ میں اللہ کے رسول اور صحابہ کا ساتھ نہ دیا وہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ان صحا بہ کو خیبر کی فتح کے موقع پر مال غنیمت سمیٹنے کے لئے جاتے ہوئے دیکھیں گے تو آرزو کریں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے لو، مصیبت کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے راحت کو دیکھ کر شامل ہونا چاہتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ انہیں ہرگز ساتھ نہ لینا جب یہ جنگ سے جی چرائیں تو پھر غنیمت میں حصہ کیوں لیں ؟ اللہ تعالیٰ نے خیبر کی غنیمتوں کا وعدہ اہل حدیبیہ سے کیا ہے نہ کہ ان سے جو کٹھن وقت پر ساتھ نہ دیں اور آرام کے وقت مل جائیں ان کی چاہت ہے کہ کلام الٰہی کو بدل دیں یعنی اللہ نے تو صرف حدیبیہ کی حاضری والوں سے وعدہ کیا تو یہ چاہتے ہیں کہ باوجود اپنی غیر حاضری کے اللہ کے اس وعدے میں مل جائیں تاکہ وہ بھی بدلا ہوا ثابت ہوجائے ابن زید کہتے ہیں مراد اس سے یہ حکم الہی ہے ( فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَاۗىِٕفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِيَ اَبَدًا وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِيَ عَدُوًّا 83) 9 ۔ التوبہ :83) ، یعنی اے نبی اگر تمہیں اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد کے لئے نکلنے کی اجازت مانگیں تو تم ان سے کہہ دینا کہ تم میرے ساتھ ہرگز نہ نکلو اور میرے ساتھ ہو کر کسی دشمن سے نہ لڑو تم وہی ہو کہ پہلی مرتبہ ہم سے پیچھے رہ جانے میں ہی خوش رہے پس اب ہمیشہ بیٹھے رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو لیکن اس قول میں نظر ہے اس لئے کہ یہ آیت سورة برات کی ہے جو غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور غزوہ تبوک غزوہ حدیبیہ کے بہت بعد کا ہے ابن جریج کا قول ہے کہ مراد اس سے ان منافقوں کا مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ ملا کر جہاد سے باز رکھنا ہے فرماتا ہے کہ انہیں ان کی اس آرزو کا جواب دو کہ تم ہمارے ساتھ چلنا چاہو اس سے پہلے اللہ یہ وعدہ اہل حدیبیہ سے کرچکا ہے اس لئے تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے اب وہ طعنہ دیں گے کہ اچھا ہمیں معلوم ہوگیا تم ہم سے جلتے ہو تم نہیں چاہتے کہ غنیمت کا حصہ تمہارے سوا کسی اور کو ملے اللہ فرماتا ہے دراصل یہ ان کی ناسمجھی ہے اور اسی ایک پر کیا موقوف ہے یہ لوگ سراسر بےسمجھ ہیں۔