الفتح آية ۲۹
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۗ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّاۤءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاۤءُ بَيْنَهُمْ تَرٰٮهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيْمَاهُمْ فِىْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۗ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِى التَّوْرٰٮةِ ۖ وَمَثَلُهُمْ فِى الْاِنْجِيْلِ ۚ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰى سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا
طاہر القادری:
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں۔ اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا اثر ہے (جو بصورتِ نور نمایاں ہے)۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں (بھی مذکور) ہیں اور ان کے (یہی) اوصاف انجیل میں (بھی مرقوم) ہیں۔ وہ (صحابہ ہمارے محبوبِ مکرّم کی) کھیتی کی طرح ہیں جس نے (سب سے پہلے) اپنی باریک سی کونپل نکالی، پھر اسے طاقتور اور مضبوط کیا، پھر وہ موٹی اور دبیز ہوگئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی (اور جب سرسبز و شاداب ہو کر لہلہائی تو) کاشتکاروں کو کیا ہی اچھی لگنے لگی (اﷲ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کو اسی طرح ایمان کے تناور درخت بنایا ہے) تاکہ اِن کے ذریعے وہ (محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جلنے والے) کافروں کے دل جلائے، اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے،
English Sahih:
Muhammad is the Messenger of Allah; and those with him are forceful against the disbelievers, merciful among themselves. You see them bowing and prostrating [in prayer], seeking bounty from Allah and [His] pleasure. Their sign is in their faces from the effect of prostration [i.e., prayer]. That is their description in the Torah. And their description in the Gospel is as a plant which produces its offshoots and strengthens them so they grow firm and stand upon their stalks, delighting the sowers – so that He [i.e., Allah] may enrage by them the disbelievers. Allah has promised those who believe and do righteous deeds among them forgiveness and a great reward.
1 Abul A'ala Maududi
محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں اِس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے
2 Ahmed Raza Khan
محمد اللہ کے رسول ہیں، اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے، ان کی علامت ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے، اور ان کی صفت انجیل میں جیسے ایک کھیتی اس نے اپنا پٹھا نکالا پھر اسے طاقت دی پھر دبیز ہوئی پھر اپنی ساق پر سیدھی کھڑی ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ ان سے کافروں کے دل جلیں، اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان اور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا،
3 Ahmed Ali
محمد الله کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت ہیں آپس میں رحم دل ہیں تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع و سجود کر رہے ہیں الله کا فضل اوراس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں ان کی شناخت ان کے چہرو ں میں سجدہ کا نشان ہے یہی وصف ان کا تو رات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اسے قوی کر دیا پھر موٹی ہوگئی پھر اپنے تنہ پر کھڑی ہوگئی کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ الله ان کی وجہ سے کفار کو غصہ دلائے الله ان میں سے ایمان داروں اورنیک کام کرنے والوں کے لیے بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
4 Ahsanul Bayan
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے (۱) مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا (۲) پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا (۳) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے (٤)، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے (۵)
۲۹۔۱ انجیل پر وقف کی صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ان کی یہ خوبیاں جو قران میں بیان ہوئی ہیں ان کی یہی خوبیاں تورات وانجیل میں مذکور ہیں اور آگے کزرع میں اس سے پہلے ھم محذوف ہوگا اور بعض فی التوراۃ پر وقف کرتے ہیں یعنی ان کی مذکرورہ صفت تورات میں ہے اور مثلھم فی الانجیل کو کزرع کے ساتھ ملاتے ہیں یعنی انجیل میں ان کی مثال مانند اس کھیتی کے ہے ۔ فتح القدیر ۔
٢٩۔۲ شَطْاَءُ سے پودے کا پہلا ظہور ہے جو دانہ پھاڑ کر اللہ کی قدرت سے باہر نکلتا ہے۔
٢٩۔۳ یہ صحابہ کرام کی مثال بیان فرمائی گئی ہے۔ ابتدا میں وہ قلیل تھے، پھر زیادہ اور مضبوط ہوگئے، جیسے کھیتی ابتدا میں کمزور ہوتی ہے، پھر دن بدن قوی ہوتی جاتی ہے حتٰی کہ مضبوط تنے پر وہ قائم ہو جاتی ہے۔
۲۹۔٤ یا کافر غیظ وغضب کا باعث تھی اس لیے کہ اس سے اسلام کا دائرہ پھیل رہا اور کفر کا دائرہ سمٹ رہا تھا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض وعناد رکھنے والوں کو کافر قرار دیا ہے علاوہ ازیں اس فرقہ ضالہ کے دیگر عقائد بھی ان کے کفر پر ہی دال ہیں ۔٢٩۔۵ اس پوری آیت کا ایک ایک جز صحابہ کرام کی عظمت و فضیلت، اخروی مغفرت اور اجر عظیم کو واضح کر رہا ہے، اس کے بعد بھی صحابہ کرام کے ایمان میں شک کرنے والا مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کیوں کر دعوائے مسلمانی میں سچا سمجھا جا سکتا ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
6 Muhammad Junagarhi
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اﺛر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ﺛواب کا وعده کیا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں تم انہیں دیکھو گے کہ وہ (کبھی) رکوع (اور کبھی) سجود کر رہے ہیں (اور) اللہ کے فضل و کرم اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں ان کی علامت ان کے چہروں پر سجدہ کے نشان سے نمایاں ہے ان کی توراۃ میں اور انجیل میں توصیف یوں ہے جیسے ایک کھیتی جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اس کو تقویت دی اور وہ مضبوط و موٹی ہوئی پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی وہ کسانوں کو خوش کرتی ہے تاکہ ان کے ذریعہ سے کفار کے دل جلائے اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، مغفرت اور بڑے اجرو ثواب کا وعدہ کر رکھا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
محمد(ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میںانتہائی رحمدل ہیں تم انہیں دیکھوگے کہ بارگاہ ِاحدیّت میںسر خم کئے ہوئے سجدہ ریز ہیںاور اپنے پروردگارسے فضل وکرم اور اس کی خوشنودی کے طلب گار ہیں ،کثرتِ سجود کی بنا پر ان کے چہروں پر سجدہ کے نشانات پائے جاتے ہیںیہی ان کی مثال تورےت میں ہے اور یہی ان کی صفت انجیل میں ہے جیسے کوئی کھیتی ہو جو پہلے سوئی نکالے پھر اسے مضبوط بنائے پھر وہ موٹی ہو جائے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے کہ کاشتکاروں کو خوش کرنے لگے تاکہ ان کے ذریعہ کفار کو جلایا جائے اور اللہ نے صاحبانِ ایمان وعمل صالح سے مغفرت اور عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل (اے دیکھنے والے) تو انکو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
محمد رسول اللہ قرآن پاک میں عموماً آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لینے کے بجائے آپ کا ذکر اوصاف و القاب کے ساتھ کیا گیا ہے، خصوصاً نداء کے موقع پر یا ایھا النبی، یا ایھا الرسول، یا ایھا الزمل وغیرہ سے خطاب کیا گیا ہے، بخلاف دیگر انبیاء کے کہ ان کے نام کے ساتھ ندا کی گئی ہے، مثلاً یا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام، یا موسیٰ (علیہ الصلوۃ والسلام) یا عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسالم پورے قرآن میں آپ کا اسم گرامی محمد کی صراحت کے ساتھ چار جگہ ذکر کیا گیا ہے، جہاں آپ کا نام لینے میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے، اس مقام پر مصلحت یہ تھی کہ حدیبیہ کے صلحنامہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کے ساتھ حضرت علی (رض) نے رسول اللہ لکھ دیا تو مشرکین نے اس کو مٹا کر محمد بن عبداللہ لکھوانے پر اصرا ر کیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحکم ربانی اس کو قبول کرلیا، حق تعالیٰ نے اس مقام پر خصوصیت سے آپ کے نام کے ساتھ رسول اللہ کا لفظ قرآن میں لا کر اس کو دائمی بنادیا جو قیامت تک اسی طرح پڑھا جائے گا۔ (معارف)
صحابہ کرام (رض) کے فضائل :
والذین معہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کے دین کے سب دینوں پر غالب کرنے کا ذکر فرما کر صحابہ کرام کے اوصاف و فضائل اور خاص علامات کا ذکر تفصیل سیف رمایا ہے، یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے فضائل کا بیان ہے اگرچہ اس سے پہلے اصلتہ اور براہ راست خطاب شرکاء سفر حدیبیہ اور بیعت رضوان کو تھا، لیکن الفاظ کے عموم میں سب ہی صحابہ کرام شامل ہیں، اس لئے کہ صحبت اور معیت سب کو حاصل ہے۔
محمد رسول اللہ والذین معہ (الآیۃ) میں چار امور مذکور ہیں (١) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت (٢) اصحاب کے فضاء و اخلاق (٣) صحابہ کے وہ اوصاف جو کتب سماوی قدیم میں مذکور ہیں (٤) عام مسلمانوں سے اجر عظیم کا وعدہ۔
یہ آیت، اہل سنت او الجماعت کے اس دعوعے پر قطعی حجت ہے کہ تمام صحابہ نہایت مخلص تھے اور ازوادل تا آخر ایمان و اخلاص پر قائم رہے اور ان حضرات کے خلاف کو جو صحابہ کے اعداء اور مخلاف ہیں برہان قوی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا محمد رسول اللہ والذین معہ اور جو آپ کے ساتھ ہیں کفار پر سخت اور آپس میں نرم ہیں تو انہیں رکوع اور سجدے میں دیکھتا ہے اس طریقہ پر کہ محض فضل و رضائے الٰہی مطلوب ہے، ان کے چہروں سے آثار سجود اور برکات نماز ظاہر ہیں، یہ مثال ان کی تورات میں ہے اور انجیل میں ان کی مثال ایک کھیت کی سی ہے جو سوئی اگائے پھر اسے مضبوط کرے پھر تناور اور قوی ہو پھر اپنے تنے پر استاذہ اور قائم ہوجائے، کسان کو یہ اگنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔
آیت باعتبار اپنے عموم خطاب کے تمام ائمہ ہدیٰ اور خلفاء حضرت مصطفیٰ کو شامل ہے، محمد مبتداء ہے، رسول اللہ جملہ کر خبر (مدارک) والذین اپنے صلہ سے مل کر مبتداء اور اوصاف ذیل اس کی خبر ہیں، پھر یہ عام ہے تمام امت کو جو اوصاف مذکورہ سے متصف ہو مگر اس کے چار طبقے ہیں (١) تمام امتی قیامت تک، مذکورہ اوصاف سے متصف ہونے کے بعد مگر تبعاً وضمناً (٢) اصحاب رسول عموماً یہ بھی اوصاف مذکورہ کے ساتھ متصف ہونے کے بعد اصالۃ و قصداً داخل ہیں، اس لئے کہ معیت حقیقی ان ہی کے لئے ہے (٣) اصحاب بیعت رضوان، شان نزول کا مصداق ہونے کی وجہ سے قطعاً یقینا ان اوصاف سے متصف اور ان انعامات کے موعود ہیں۔
قولہ : بعض ارباب تاریخ اور اہل خلاف کا ایسا دعویٰ جو اصحاب بیعت کو اوصاف مذکورہ سے عاری کرے وہ یقینا مردود ہے۔
تفاسیر مشہور کی رو سے معہ سے حضرت ابوبکر صدیق مراد ہیں جن کی معیت نص صریح سے ثابت ہے، فرمایا اذا قال لصاحبہ جب پیغمبر علی الصلوۃ والسلام نے اپنے صحاب سے کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر کے بارے میں فرمایا ولکن اخی و صاحبی (بخاری) پھر معیت سے مراد عام ہے خواہ آپ کی حیات مبارک ہمیں آپ کے ساتھ رہنا یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع سے کبھی جدا نہ ہونا، اس بناء پر قیامت تک جتنے مومن ہوں گے وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک درجہ کی معیت رکھتے ہیں اشداء یہ حضرت عمر (رض) سے کنایہ ہے جن کی شدت امر دین میں مسلم ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان عمر کے سایہ سے بھاگتا ہے (بخاری) اور شدت سے مرا جہاد و قتال میں سختی ہے، علی الکفار میں کفار عبارۃ اور نفس و شیطان دلالتۃ اور ہر نافرمان، فاس عاصی، قیاسا شامل ہے، علت مشترکہ کی وج ہ سے اس میں شامل ہے رحماء بڑے رحم دل اس میں حضرت عثمان غنی (رض) کی طرف اشارہ ہے جن کا حلم اور رحم ضرب المثل ہے، رحماء بڑے رحم دل اس میں حضرت عثمان غنی (رض) کی طرف اشارہ ہے جن کا حلم اور رحم ضرب المثل ہے، بینھم سے اگر مسلمان مراد ہوں تو عموم ترحم ظاہر ہے اور اگر اس میں تمام مخلوق کو شامل کرلیا جائے اور ماسوائے امور دین کے دوسری باتوں میں واجب الرحم ہوں تو بھی ہوسکتا ہے، فرمایا ارحموا من الارض یرحمکم من فی السماء کعا سجدا یہ کنایہ ہے حضرت علی (رض) سے جن کی نماز نے ان کی ہستی، ہستی لازوال میں نیست وفنا کردی تھی پھر ہر نمازی اس میں داخل ہے۔
نکتہ :” شطا ‘ سے مراد اوبکرب صدیق (رض) ہیں اور ” آزر “ سے حضرت عمر (رض) مراد ہیں اور ” استغلاظ “ سے حضرت عثمان (رض) تعالیٰ مراد ہیں اور ” استواء “ سے حضرت علی (رض) کی طرف اشارہ ہے۔ (خلاصۃ التفاسیر ملخصاً ) اس پوری آیت کا ایک ایک جز صحابہ کرام (رض) عنھم کی عظمت و فضیلت، اخروی مغفرت اور اجر عظیم کو واضح کر رہا ہے، اس کے بعد بھی صحابہ کرام کے انیان میں شک کرنے والا مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کیوں کر دعوائے مسلمانی میں سچا سمجھا جاسکتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ، جو مہاجرین و انصار میں سے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے کہ وہ کامل ترین صفات اور جلیل ترین احوال کے حامل ہیں اور وہ ﴿ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ ﴾ کفار کے ساتھ بہت سخت ہیں، فتح و نصرت میں جدو جہد اور اس بارے میں پوری کوشش کرنے والے ہیں۔ وہ کفار کے ساتھ صرف درشتی اور سختی سے پیش آتے ہیں۔ اسی لئے ان کے دشمن ان کے سامنے ذلیل ہوگئے، ان کی طاقت ٹوٹ گئی اور مسلمان ان پر غالب آگئے۔
﴿رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ﴾ یعنی صحابہ آپس میں محبت کرنے والے، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے والے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور عاطفت کے ساتھ پیش آنے والے ہیں۔ وہ جسد واحد کی مانند ہیں ان میں سے ہر کوئی اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرتا ہے، جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ یہ ہے ان کا مخلوق کے ساتھ معاملہ۔ رہا خالق کے ساتھ ان کا معاملہ، تو ﴿تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا ﴾ ” تم ان کو رکوع اور سجدے کی حالت میں دیکھو گے۔” یعنی ان کا وصف کثرت نماز ہے جس کے جلیل ترین ارکان رکوع اور سجود ہیں ﴿ يَبْتَغُونَ﴾ وہ اس عبادت کے ذریعے سے طلب گار ہیں ﴿ فَضْلًا مِّنَ اللّٰـهِ وَرِضْوَانًا﴾ ” اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا تک پہنچنا اور اس کا ثواب حاصل کرنا ان کا مطلوب و مقصود ہے۔
﴿سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ﴾ حسن عبادات اور اس کی کثرت نے ان کے چہروں پر اثر کیا ہے حتیٰ کہ وہ منور ہوگئے ہیں، چونکہ نماز کے نور سے ان کے باطن روشن ہیں، لہذا جلال سے ان کے ظاہر منور ہیں ﴿ذٰلِكَ﴾ یہ مذکورہ احوال ﴿مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ﴾ یعنی ان کا یہ وصف جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو موصوف کیا ہے، تو رات کریم میں اسی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ انجیل میں ان کو ایک اور وصف سے موصوف کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کمال اور باہم تعاون میں ﴿كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ﴾ ” گویا ایک کھیتی ہے جس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا۔“ یعنی اس نے اپنی جڑ سے شاخیں نکالیں پھر ان کو استوار و ثبات میں مضبوط کیا۔ ﴿ فَاسْتَغْلَظَ﴾ پس یہ کھیتی طاقت ور اور مضبوط ہوگئی۔ ﴿فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ﴾ ” پھر قوت کے ساتھ کھڑی ہوگئی اپنے تنے پر“ (سُوْق) جمع ہے ساق کی، یعنی اپنی جڑوں پر کھڑی ہوگئی۔ مراد یہ ہے کہ یہ کھیتی مضبوط اور قوی ہوگئی اور اس کے تنے کھڑے ہوگئے۔
﴿يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ ﴾ جو اپنے کامل طور پر سیدھا کھڑا ہونے اور اپنے حسن اعتدال کی بنا پر کاشتکاروں کو بھلی لگتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مخلوق کو نفع پہنچانے اور لوگوں کا ان کی طرف ضرورت مند ہونے کی وجہ سے، کھیتی کی مانند ہیں۔ ان کی قوت ایمان اور قوت عمل پودے کی رگوں اور اس کے تنوں کی مانند ہے۔ وہ کم عمر صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین اور جن کا اسلام متاخر تھا، جنہوں نے بزرگ صحابہ کرام کی پیروی کی، ان کے ہاتھ مضبوط کیے، اقامت دین اور دعوت دین میں ان کی مثال اس کھیتی کی مانند ہے جس نے اپنی جڑوں سے سوئے نکالے، پھر اس کو مضبوط کیا پھر وہ موٹی ہوگئی۔
بنابریں فرمایا : ﴿ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ﴾ ” تاکہ ان کی وجہ سے اللہ کافروں کو چڑائے“ جب کفار ان کے اجتماع اور دشمنان دین پر ان کی سختی کو دیکھتے ہیں نیز جب وہ دست بدست لڑائی اور جنگی معرکوں میں ان کی بہادری کو دیکھتے ہیں، تو یہ چیز ان کے دل کو جلاتی ہے۔ ﴿وَعَدَ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴾ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو جمع کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مغفرت، جس کا لازمہ دنیا وآخرت میں ہر قسم کے شر سے حفاظت ہے اور دنیا و آخرت کے اندر اجر عظیم کو جمع کیا۔
صلح حدیبیہ کے واقعات
ہم صلح حدیبیہ کے واقعات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں جیسا کہ امام شمس الدین ابن قیم رحمہ اللہ نے ” زاد المعاد“ (زادالمعاد:3؍286۔296)میں بیان کیے ہیں کیونکہ ان واقعات سے اس سورۃ مبارکہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ابن قیم رحمہ اللہ نے اس سورۃ مبارکہ کے اسر اور و معانی پر بھی بحث کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا : نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ذی قعد ٦ ھ میں پیش آیا اور یہی صحیح ہے۔ امام زہری، قتادہ، موسیٰ بن عقبہ اور محمد بن اسحاق رحمہم الله وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے۔
ہشام بن عروہ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان میں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے اور صلح حدیبیہ کا واقعہ شوال میں پیش آیا مگر یہ وہم ہے رمضان میں تو مکہ فتح ہوا تھا۔ ابو الا سود عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ صلح حدیبیہ ذی قعد میں ہوئی تھی۔ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار عمرے کیے، جو سب کے سب ذی قعد میں تھے۔ ان میں عمرہ حدیبیہ بھی ذکر کیا، آپ کے ساتھ پندرہ سو نفوس تھے۔ صحیحین میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیحین میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیحین ہی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چودہ سو نفوس تھے۔ صحیحین میں عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم تیرہ سو افراد تھے۔
قتادہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کتنے لوگوں کی جماعت تھی جو بیعت رضوان میں شریک ہوئی؟ انہوں نے جواب دیا ” پندرہ سو افراد تھے“ میں نے عرض کیا ” حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ وہ چودہ سو افراد تھے“ سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا :” اللہ ان پر رحم فرمائے، انہیں وہم ہوا ہے، انہی نے مجھے بتایا ہے کہ وہ پندرہ سو افراد تھے۔ “
میں(ابن قیم) کہتا ہوں :” حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے دونوں قول صحت کے ساتھ مروی ہیں اور ان سے یہ بھی مروی ہے کہ حدیبیہ والے سال ستر اونٹ قربان کیے، ایک اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کیا گیا۔ ان سے پوچھا گیا ” آپ کتنے افراد تھے؟“ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :” سوار اور پیدل دونوں ملا کر چودہ سو نفوس تھے“ یعنی ان کے سوار اور پیادے۔
میلان قلب بھی زیادہ اسی طرف ہے، براء بن عازب، معقل بن یسار اور سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہم سے بھی صحیح تر روایت کے مطابق یہی تعداد ہے اور مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ کا بھی ایک قول یہی ہے۔ شعبہ رحمہ اللہ قتادہ رحمہ اللہ سے، قتادۃ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ درخت کے نیچے (بیعت کرنے والے) چودہ سو افراد تھے۔
جس نے یہ کہا کہ وہ کل سات سو افراد تھے اس نے واضح طور پر غلطی کی ہے۔ سات سو افراد کہنے والے حضرات کا عذر یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس روز ستر اونٹ ذبح کیے تھے اونٹ کی قربانی کے بارے میں آتا ہے کہ اونٹ کی قربانی سات یا دس افراد کی طرف سے کافی ہے۔ مگر یہ بھی اس قائل کے دعویٰ پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ راوی نے تصریح کی ہے کہ اس غزوہ میں ایک اونٹ سات افراد کی طرف سے ذبح کیا گیا تھا۔ اگر قربانی کے ستر اونٹ سب کی طرف سے ہوتے تو کل چار سونوے افراد ہوتے۔ راوی مکمل حدیث اسی طرح بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کل چودہ سو نفوس تھے۔
فصل
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذی الحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانیوں کو ہار پہنائے اور علامتیں لگائیں اور عمرے کا احرام باندھا اور اپنے آگے بنو خزاعہ میں سے ایک جاسوس بھیجا جو قریش کے حالات کے بارے میں آگاہ کرے۔ جب آپ عسفان کے قریب پہنچے تو آپ کے جاسوس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا ” میں کعب بن لوی کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ انہوں نے آپ کے مقابلے کے لیے، مختلف قبیلوں سے لوگوں کو جمع کر رکھا ہے وہ سب جمع ہو کر آپ سے ضرور لڑیں گے اور بیت اللہ کی زیارت سے آپ کو روکیں گے۔
رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ آیا ہم ان قبائل کے پسماندگان پر حملہ کردیں جو قریش کی مدد کے لئے جمع ہوئے ہیں اور ان کو قیدی بنالیں، اگر وہ پھر بیٹھے رہے تو بدلہ لئے بغیر غم زدہ بیٹھے رہیں گے اور اگر وہ بچ نکلے تو وہ ایسی گردن ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے کاٹ دیا ہے۔۔۔ یا تمہارا خیال ہے کہ ہم بیت اللہ کا قصد جاری رکھیں، جو کوئی ہمیں روکنے کی کوشش کرے تو ہم اس سے جنگ کریں؟
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :” اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، ہم عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں، ہم کسی کے خلاف لڑنے کے لئے نہیں آئے۔ تاہم جو کوئی ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا ہم اس سے ضرور لڑیں گے۔ “
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” تو پھر کوچ کرو“! پس صحابہ کرام نے کوچ کیا، ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” خالد بن ولید قریش کے گھڑ سواروں کے ساتھ غمیم کے مقام پر پڑاؤ کیے ہوئے ہے اس لئے پہلو بچا کروائیں جانب کا راستہ اختیار کرو“ اللہ کی قسم ! خالد بن ولید کو صحابہ کرام کے نکل جانے کا پتہ تک نہ چلا، یہاں تک مسلمانوں کے لشکر کی گرد ان تک پہنچی تو مسلمانوں کی آمد کا ان کو علم ہوا تو وہ فوراً وقریش کو آگاہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ اس دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ آپ اس گھاٹی میں پہنچ گئے۔ جہاں سے ہو کر مکہ کی طرف اترتے ہیں، تو آپ کی سواری بیٹھ گئی۔ صحابہ نے کہا : (حَلْ حَلْ) مگر اونٹنی بیٹھی رہی۔ صحابہ نے کہا : ” قصواء تھک کر بیٹھ گئی“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” قصواء تھک کر نہیں بیٹھی اور نہ یہ اس کی عادت ہے بلکہ اس کو اس ہستی نے روک دیا ہے جس نے ہاتھ کو روکا تھا۔“ پھر فرمایا :” اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ قریش مجھ سے جس چیز کا سوال کریں، جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام ٹھہرائی ہوئی چیزوں کی حرمت کا لحاظ رکھا ہو، میں ان کو وہ چیز ضرور عطا کردوں گا۔“ پھر آپ نے اونٹنی کو جھڑکا، وہ فوراً جست لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس گھاٹی سے ایک طرف سے ہٹ کر روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ حدیبیہ کے کنویں کے پاس اتر پڑے جس میں بہت ہی تھوڑا پانی تھا۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی لیتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پانی ختم کردیا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور صحابہ سے کہا، کہ وہ اس تیر کو اس کنویں میں ڈال دیں۔ راوی کہتا ہے: اللہ کی قسم ! اور لشکر اس کنویں سے سیراب ہوتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے وہاں سے کوچ کیا۔ قریش آپ کی روانگی کا سن کر بہت گھبرائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کرام میں سے کسی شخص کو ایلچی بنا کر بھیجنا چاہتے تھے چنانچہ آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا تاکہ ان کو قریش کی طرف بھیجیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر مکہ میں مجھے کوئی تکلیف پہنچائی گئی تو بنو کعب بن لوی میں ایک بھی ایسا شخص نہیں جو میری خاطر ناراض ہو، اس لئے آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجئے، وہاں ان کا بہت بڑا قبیلہ ہے اور جو آپ چاہتے ہیں وہ آپ کا پیغام پہنچا دیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو سفیر بنا کر قریش کی طرف بھیجا اور فرمایا کہ قریش کو کہہ دو کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے، ہم تو عمرہ کے لئے آئے ہیں اور انہیں اسلام کی دعوت دو نیز آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مکہ مکرمہ میں جو مومن مرد اور عورتیں ہیں وہ ان کے پاس بھی جائیں اور ان کو فتح کی خوشخبری دیں۔ نیز ان کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ عنقریب مکہ میں اپنے دین کو غالب کرے گا حتیٰ کہ یہاں ایمان کو چھپایا نہیں جائے گا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے، بَلْدَحْ کے مقام پر ان کا گزر قریش کے پاس سے ہوا۔ قریش نے پوچھا ” عثمان ! کہاں کا ارادہ ہے؟“ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :” مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دوں اور ہم تمہیں آگاہ کرتے ہیں کہ ہم لڑنے کے لئے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔“ انہوں نے کہا ” تم نے جو کہا، ہم نے سن لیا، اب جاؤ اپنا کام کرو“ ابان بن سعید اٹھا، اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مرحبا کہا، اپنے گھوڑے پر زین رکھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو گھوڑے پر سوار کرایا اور ان کو پناہ دی، ابان بن سعید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ بٹھا کر مکہ آیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے واپس لوٹنے سے پہلے مسلمانوں نے کہا :” عثمان رضی اللہ عنہ ہم سے پہلے بیت اللہ پہنچ کر طواف کریں گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” میرا خیال ہے وہ اس حالت میں کہ ہم یہاں محصور ہیں، بیت اللہ کا طواف نہیں کریں گے۔“ صحابہ نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! وہ بیت اللہ پہنچ گئے ہیں، انہیں کون سی چیز بیت اللہ کے طواف سے روک سکتی ہے؟“ آپ نے فرمایا : ” عثمان کے بارے میں میرا یہ گمان ہے کہ وہ کعبہ کا طواف اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک ان کے ساتھ ہم نہ کریں۔ “
مسلمان صلح کے معاملے میں مشرکین کے ساتھ گھل مل گئے۔ فریقین میں سے کسی شخص نے دوسرے فریق کے کسی آدمی کو پتھرمارا، بس معرکہ برپا ہوگیا فریقین نے ایک دوسرے پر تیر چلانے اور پتھر پھینکنے شروع کردیے دونوں فریق چلائے اور ہر فریق اپنے اپنے آدمیوں کے فعل پر مجبور تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی افواہ پہنچی تو آپ نے بیعت کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درخت کے سائے میں تشریف فرما تھے مسلمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات پر بیعت کی کہ وہ آپ کو چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک پکڑا اور فرمایا :” یہ عثمان (رضی اللہ عنہ) کی طرف سے بیعت ہے۔ “
جب عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا :” میرے بارے میں تم نے بہت ہی برا گمان رکھا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر سال بھر بھی میں مکہ مکرمہ میں رہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیبیہ کے مقام پر فروکش ہوں، تو میں اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہ کرلیں۔ قریش نے مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے کی دعوت دی تھی میں نے انکار کردیا۔“ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا :” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہم سے زیادہ علم رکھتے ہیں اور ہم سے زیادہ اچھا گمان رکھتے ہیں۔ “
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درخت کے نیچے بیعت کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک تھامے رکھا اور جد بن قیس کے سوا تمام مسلمانوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ آپ پر سے درخت کی ٹہنیاں اٹھائے رہے۔
ابو سنان اسدی رضی اللہ عنہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، ایک دفعہ ابتدا میں، پھر درمیان میں اور ایک دفعہ آخر میں۔
بیعت کا سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ بدیل بن ورقاء خزاعی بنو خزاعہ کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، تہامہ کی پوری وادی میں صرف خزاعی آپ کے خیر خواہ تھے، بدیل نے کہا :” میں بنو کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی کو اس حال میں چھوڑ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے چشموں پر اترے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ دودھ دینے والی اونٹنیاں بھی ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ جانے سے روکیں گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” ہم کسی کے ساتھ لڑنے کے لئے نہیں آئے، ہم تو صرف عمرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ جنگ نے قریش کو کمزور کردیا ہے اور ان کو نقصان پہنچایا ہے، اس صورت میں اگر وہ چاہیں تو میں ایک مدت کے لئے ان کے ساتھ صلح کرلوں گا، وہ میرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں، اگر وہ چاہیں تو اس دین میں داخل ہوجائیں جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں، ورنہ آرام سے بیٹھیں اور اگر انہیں جنگ کے سوا کچھ منظور نہیں تو قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری زندگی ہے۔ میں اپنے اس دین پر ان سے ضرور لڑوں گا یہاں تک کہ میری گردن تن سے جدا ہوجائے، یا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو نافذ کردے۔ “
بدیل نے عرض کیا :” میں آپ کی بات قریش تک پہنچا دوں گا۔“ بدیل چلا گیا حتیٰ کہ وہ قریش کے پاس پہنچا اور ان سے کہنے لگا :” میں اس شخص کے پاس سے ہو کر آیا ہوں، میں نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو میں وہ بات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ “
قریش کے بیوقوف لوگوں نے کہا :” ہمیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہمیں کچھ سناؤ“ مگر ان میں سے اصحاب رائے نے کہا :” ہاں بتاؤ تم نے اس سے کیا سنا ہے؟“ بدیل نے کہا :” میں نے اس کو یہ کچھ کہتے سنا ہے۔ “
عروہ بن مسعود ثقفی نے کہا :” اس شخص نے تمہارے سامنے ایک اچھی بات پیش کی ہے، اس کو قبول کرلو اور مجھے اس کے پاس جانے دو“ قریش نے کہا :” ہاں تم اس کے پاس جاؤ۔ “
عروہ بن مسعود ثقفی آپ کے ساتھ مذاکرات کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عروہ بن مسعود سے بھی وہی بات کہی جو بدیل سے کہی تھی۔ اس پر عروہ بن مسعود نے کہا ” اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا تم قوم ہی کی جڑ کاٹو گے، کیا تم نے کسی عرب کے بارے میں سنا ہے کہ اس نے تم سے پہلے اپنی قوم کو نیست و نابود کیا ہو؟ اگر کوئی دوسری بات ہوئی تو اللہ کی قسم ! میں کچھ ایسے چہرے اور اس طرح کے لوگ دیکھ رہا ہوں جو تجھے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ “
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا :” تو لات کی شرم گاہ چوستارہ، کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟“ عروہ بن مسعود نے پوچھا :” یہ کون ہے؟“ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :” میں ابوبکر ہوں۔“ عروہ بن مسعود نے کہا : ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تیرا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ میں ابھی تک نہیں اتار سکا تو میں تجھے اس کا جواب دیتا۔ “
اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چیت شروع کی۔ جب وہ بات کرتا تو آپ کی ریش مبارک کو چھوتا، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ آپ کے سر پر کھڑے ہوئے تھے، ان کے ہاتھ میں تلوار تھی اور سر پر خود پہن رکھا تھا۔ جب بھی عروہ بن مسعود اپنا ہاتھ آپ کی ریش مبارک کی طرف بڑھاتا، تو مغیرہ رضی اللہ عنہ اپنی تلوار کا نعل اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے :” اپنے ہاتھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک سے دور رکھو۔ “
عروہ بن مسعود نے اپنا سراٹھا کر پوچھا :” یہ کون ہے؟“ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا :” میں مغیرہ بن شعبہ ہوں۔“ عروہ بن مسعود نے کہا :” ے بے وفا شخص ! کیا میں تیری بے وفائی کے انتقام کی کوشش میں نہیں ہوں؟“ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ایام جاہلیت میں کچھ لوگوں کے ساتھ مصاحبت رکھتے تھے، پس مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو قتل کردیا ان کا مال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے۔ آپ نے فرمایا :” میں تمہارا اسلام لانا تو قبول کرتا ہوں، لیکن مال کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں۔ “
پھر عروہ بن مسعود دیر تک اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا رہا، اللہ کی قسم ! جب کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تھوک پھینکا تو کسی نہ کسی شخص نے اسے اپنے ہاتھ پر لیا اور اسے اپنے جسم اور چہرے پر مل لیا آپ کوئی حکم دیتے تو صحابہ اس کی تعمیل کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے، جب آپ وضو فرماتے تو صحابہ آپ کے وضو کے مستعمل پانی پر گویا لڑتے تھے، جب آپ گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام آپ کے پاس اپنی آوازوں کو پست کرلیتے تھے، آپ کی تعظیم کی وجہ سے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔
عروہ بن مسعود اپنے ساتھیوں میں واپس آیا اور ان سے کہنے لگا :” اے لوگو ! میں کسریٰ، قیصر اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں، میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے مصاحبین اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی تھوک پھینکتے تو کوئی نہ کوئی شخص اپنے ہاتھ پر لے کر اپنے جسم اور چہرے پر مل لیتا تھا۔ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی حکم دیتے تو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعمیل کی کوشش کرتے، جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے تو وضو کے مستعمل پانی کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے۔ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو کرتے تو لوگ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کے طور پر ان کی طرف نظریں اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔ بے شک انہوں نے ایک نہایت اچھی بات تمہارے سامنے پیش کی ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ تم اسے قبول کرلو۔ “
بنو کنانہ میں سے ایک شخص نے کہا :” مجھے اس کے پاس جانے دو۔“ قریش نے کہا ” تم اس کے پاس جاؤ۔“ جب یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” یہ فلاں شخص ہے اور اس کا تعلق ایسی قوم سے ہے جو قربانی کے جانوروں کا بہت احترام کرتے ہیں، تم قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آؤ، پس لوگ قربانی کے جانور اس کے پاس لے کر آئے اور تلبیہ کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ جب اس نے یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگا :” سبحان اللہ ! ان لوگوں کو بیت اللہ سے روکنا مناسب نہیں۔“ پھر وہ اپنے لوگوں کی طرف واپس آیا اور ان سے کہا :” میں نے قربانی کے جانوروں کو دیکھا ہے کہ ان کو ہار پہنائے گئے ہیں اور ان کا اشعار کیا گیا ہے میری رائے ہے کہ ان کو بیت اللہ سے نہ روکا جائے۔ “
پھر مکرز بن حفص کھڑا ہوا اور اس نے کہا :” مجھے اجازت دو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤں“ جب مکرز ان کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” یہ مکرز بن حفص ہے اور یہ فاسق و فاجر شخص ہے۔“ مکرز بن حفص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو شروع کی۔ ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آگیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے تمہارا معاملہ آسان فرمادیا۔ “
سہیل بن عمرو نے کہا :” آپ ہمارے اور اپنے درمیان صلح کا معاہدہ لکھ دیجئے“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کاتب کو بلایا اور اس سے فرمایا :” لکھو (بِسْمِ اللہِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم) “۔
سہیل بن عمرو نے کہا :” رہا رحمٰن، تو اللہ کی قسم ! ہم نہیں جانتے کہ رحمن کیا ہے؟ بلکہ لکھو (بِاِسْمِکََ اللّٰھُمَّ) جیسا کہ تو لکھا کرتا تھا۔ “
مسلمانوں نے کہا :” اللہ کی قسم ! ہم تو ( بِسْمِ اللہِ الرّحْمٰنِ الرَّحِیْم ) ہی لکھیں گے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (بِاِسْمِکََ اللّٰھُمَّ) ہی لکھ دو،، پھر فرمایا :” لکھو، یہ وہ تحریر ہے، جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح کی۔“ اس پر سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا ” اگر ہم اعتراف کرتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ کی زیارت سے روکتے نہ آپ کے خلاف جنگ کرتے۔ بلکہ ” محمد بن عبد اللہ“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” بے شک میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم نے میری تکذیب کی ہے، تاہم ” محمد بن عبد اللہ۔ “
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” اس بات پر صلح ہے کہ تم بیت اللہ اور ہمارے درمیان سے ہٹ جاؤ گے اور ہم طواف کریں گے۔ “
سہیل بن عمرو نے کہا :” اللہ کی قسم ! ایسا نہیں ہوگا، کہیں عرب یہ نہ کہیں کہ ہمیں مجبور کردیا گیا، البتہ آپ آئندہ سال طواف کریں۔“ پس یہی لکھ دیا گیا۔
سہیل بن عمرو نے کہا :” یہ اس بات پر صلح نامہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی شخص (بھاگ کر) تمہارے پاس آجائے تو تم اسے واپس کردو گے خواہ وہ تمہارے دین ہی پر کیوں نہ ہو۔ “
مسلمانوں نے کہا :” سبحان اللہ ! جو شخص مسلمان ہو کر آیا ہو اسے کیسے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا،، ابھی وہ یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ابو جندل بن سہیل رضی اللہ عنہ اپنی بیڑیوں میں بڑی مشکل سے چلتے ہوئے، نشیب مکہ سے نکلے اور اپنے آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان ڈال دیا، سہیل بن عمرو نے کہا :” اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ پہلی شرط ہے جس پر میں نے تمہارے ساتھ صلح کی ہے، ابو جندل کو واپس کردو۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ابھی ہم نے تحریر ختم نہیں کی۔“ سہیل بن عمرو نے کہا :”اللہ کی قسم ! اگر یہ بات ہے تو میں تمہارے ساتھ کسی بات پر کبھی بھی صلح نہیں کروں گا۔“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرمایا :’’مجھے اس کی اجازت دے دو۔ “
سہیل بن عمرو نے کہا :” میں ہرگز اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ “
آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں ! اجازت دے دو۔ “
سہیل بن عمرو نے کہا :” میں اجازت نہیں دوں گا۔ “
مکرز نے کہا :” میں اجازت دیتا ہوں۔ “
ابو جندل رضی اللہ عنہ نے کہا :” اے مسلمانو ! کیا مجھے مشرکین کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا درآنحالیکہ میں مسلمان ہو کر تمہارے پاس آیا ہوں، کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مجھے کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے؟“۔۔۔ حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کو اللہ کے راستے میں سخت عذاب سے دو چار کیا گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں مجھے اسلام کی حقانیت پر، اس دن کے سوا، کبھی شک نہیں ہوا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! کیا آپ اللہ کے نبی نہیں ہیں؟“
آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں !“
میں نے عرض کیا :” کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟“
آپ نے فرمایا :” کیوں نہیں۔ “
میں نے عرض کیا :” میں اللہ کا رسول ہوں، وہی میرا مددگار ہے، میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” کیا میں نے تمہیں یہ خبر دی تھی کہ تم اسی سال آکر بیت اللہ کا طواف کرو گے؟“
میں نے عرض کیا :” نہیں“۔ آپ نے فرمایا :” تم ضرور بیت اللہ کی زیارت اور طواف کروگے۔ “
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اس کے بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے بھی وہی کچھ کہا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیا تھا اور مزید کہا :” مرتے دم تک ان کے امرو نہی کی اطاعت کی، اللہ کی قسم ! وہ حق پر ہیں“ حضرت عمر فرماتے ہیں :” میں نے اس سوال جواب کی گستاخی کی تلافی کے لئے کفارے کے طور پر بہت اعمال کئے۔ “
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح نامہ کی تحریر سے فارغ ہوئے تو فرمایا :” اٹھو قربانی کرو اور اپنا سر منڈاؤ۔“ اللہ کی قسم ! کوئی شخص نہ اٹھا حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ کہا۔ جب ان میں سے کوئی آدمی نہ اٹھا تو آپ اٹھ کرام سلمہ رضی اللہ عنہ کے خیمہ میں چلے گئے، جو کچھ لوگوں کی طرف سے پیش آیا تھا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہہ سنایا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! کیا آپ واقعی یہی چاہتے ہیں؟ اگر یہ بات ہے تو آپ باہر تشریف لے جائیے اور اس وقت تک کسی سے بات نہ کیجئے جب تک کہ آپ اپنی قربانی کو ذبح نہ کرلیں، پھر حجام کو بلائیے اور وہ آپ کا سرمونڈ دے۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور باہر نکل گئے، آپ نے کسی سے گفتگو نہ فرمائی، جب تک کہ یہ سب کچھ نہ کرلیا۔ آپ نے اپنے قربانی کے جانور ذبح کیے پھر حجام کو بلوایا، اس نے آپ کا سر مونڈا۔ جب صحابہ کرام نے یہ دیکھا تو وہ اٹھے اور انہوں نے بھی قربانی کے جانور ذبح کیے اور ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔ پھر ازدحام کی وجہ سے ایسے لگتا تھا کہ کہیں وہ ایک دوسرے کو قتل نہ کردیں۔
پھر مومن خواتین آئیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ اللّٰـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ ﴾ (الممتحنة: 60؍10) ” اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں تو ان کو آزما لیا کرو، ان کے ایمان کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف مت لوٹاؤ۔ وہ ان کفار کے لئے حلال نہ کفار ان کے لئے حلال ہیں اور انہوں نے جو کچھ ان پر خرچ کیا ہے انہیں دے دو، اور تم پر کوئی حرج نہیں اگر تم ان کے ساتھ مہر مقرر کرنے کے بعد نکاح کرلو اور کافر عورتوں کو اپنے پاس نہ رکھو۔ “
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس روز اپنی دو بیویوں کو طلاق دی تھی جو شرک کی حالت میں ان کے پاس تھیں۔ ان میں سے ایک کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے (اس وقت تک وہ ایمان نہیں لائے تھے) اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے نکاح کرلیا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس مدینہ لوٹ آئے، واپسی پر اللہ تعالیٰ نے آپ پر سورۃ فتح نازل فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :” یا رسول اللہ ! کیا یہ فتح ہے؟“ آپ نے فرمایا :” ہاں !“ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو، ہمارے لئے کیا حکم ہے؟“ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ﴿ هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (الفتح :48؍4)
11 Mufti Taqi Usmani
Muhammad ( SallAllaho-alehi-wa-aalihi-wasallam ) Allah kay Rasool hain , aur jo log unn kay sath hain , woh kafiron kay muqablay mein sakht hain , ( aur ) aapas mein aik doosray kay liye reham dil hain . tum unhen dekho gay kay kabhi rukoo mein hain , kabhi sajday mein , ( gharz ) Allah kay fazal aur khushnoodi ki talash mein lagay huye hain . unn ki alamaten sajday kay asar say unn kay chehron per numaya hain . yeh hain unn kay woh osaaf jo toraat mein mazkoor hain . aur injeel mein unn ki misal yeh hai kay jaisay aik kheti ho jiss ney apni konpal nikali , phir uss ko mazboot kiya , phir woh moti hogaee , phir woh apney taney per iss tarah seedhi kharri hogaee kay kaashtkaar uss say khush hotay hain , takay Allah unn ( ki iss taraqqi ) say kafiron ka dil jalaye . yeh log jo emaan laye hain , aur enhon ney naik amal kiye hain , Allah ney inn say maghfirat aur zabardast sawab ka wada kerliya hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
تصدیق رسالت بزبان الہ
ان آیتوں میں پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت و ثنا بیان ہوئی کہ آپ اللہ کے برحق رسول ہیں پھر آپ کے صحابہ کی صفت و ثنا بیان ہو رہی ہے کہ وہ مخالفین پر سختی کرنے والے اور مسلمانوں پر نرمی کرنے والے ہیں جیسے اور آیت میں ہے آیت (اذلتہ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین) مومنوں کے سامنے نرم کفار کے مقابلہ میں گرم، ہر مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ مومنوں سے خوش خلقی اور متواضع رہے اور کفار پر سختی کرنیوالا اور کفر سے ناخوش رہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ\012\03 ) 9 ۔ التوبہ :123) ایمان والو اپنے پاس کے کافروں سے جہاد کرو وہ تم میں سختی محسوس کریں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں آپس کی محبت اور نرم دلی میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر کسی ایک عضو میں درد ہو تو سارا جسم بیقرار ہوجاتا ہے کبھی بخار چڑھ آتا ہے کبھی نیند اچاٹ ہوجاتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں مومن مومن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت پہنچاتا ہے اور مضبوط کرتا ہے، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ملا کر بتائیں پھر ان کا اور وصف بیان فرمایا کہ نیکیاں بکثرت کرتے ہیں خصوصاً نماز جو تمام نیکیوں سے افضل و اعلیٰ ہے پھر ان کی نیکیوں میں چار چاند لگانے والی چیز کا بیان یعنی ان کے خلوص اور اللہ طلبی کا کہ یہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔ یہ اپنے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے چاہتے ہیں جو جنت ہے اور اللہ کے فضل سے انہیں ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی رضامندی بھی انہیں عطا فرمائے گا جو بہت بڑی چیز ہے جیسے فرمایا آیت (وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 72 ) 9 ۔ التوبہ :72) اللہ تعالیٰ کی ذرا سی رضا بھی سب سے بڑی چیز ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ چہروں پر سجدوں کے اثر سے علامت ہونے سے مراد اچھے اخلاق ہیں مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں خشوع اور تواضع ہے، حضرت منصور حضرت مجاہد سے کہتے ہیں میرا تو یہ خیال تھا کہ اس سے مراد نماز کا نشان ہے جو ماتھے پر پڑجاتا ہے آپ نے فرمایا یہ تو ان کی پیشانیوں پر بھی ہوتا ہے جن کے دل فرعون سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں حضرت سدی فرماتے ہیں نماز ان کے چہرے اچھے کردیتی ہے بعض سلف سے منقول ہے جو رات کو بکثرت نماز پڑھے گا اس کا چہرہ دن کو خوبصورت ہوگا۔ حضرت جابر کی روایت سے ابن ماجہ کی ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے بعض بزرگوں کا قول ہے کہ نیکی کی وجہ سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے چہرے پر روشنی آتی ہے روزی میں کشادگی ہوتی ہے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ امیرا لمومنین حضرت عثمان کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے اندرونی پوشیدہ حالات کی اصلاح کرے اور بھلائیاں پوشیدگی سے کرے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کی سلوٹوں پر اور اسکی زبان کے کناروں پر ان نیکیوں کو ظاہر کردیتا ہے الغرض دل کا آئینہ چہرہ ہے جو اس میں ہوتا ہے اس کا اثر چہرہ پر ہوتا ہے پس مومن جب اپنے دل کو درست کرلیتا ہے اپنا باطن سنوار لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی لوگوں کی نگاہوں میں سنوار دیتا ہے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں جو شخص اپنے باطن کی اصلاح کرلیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ظاہر کو بھی آراستہ و پیراستہ کردیتا ہے، طبرانی میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جو شخص جیسی بات کو پوشیدہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اڑھا دیتا ہے اگر وہ پوشیدگی بھلی ہے تو بھلائی کی اور اگر بری ہے تو برائی کی۔ لیکن اس کا ایک راوی عراقی متروک ہے۔ مسند احمد میں آپ کا فرمان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی ٹھوس چٹان میں گھس کر جس کا نہ کوئی دروازہ ہو نہ اس میں کوئی سوراخ ہو کوئی عمل کرے گا اللہ اسے بھی لوگوں کے سامنے رکھ دے گا برائی ہو تو یا بھلائی ہو تو۔ مسند کی اور حدیث میں ہے نیک طریقہ، اچھا خلق، میانہ روی نبوۃ کے پچیسویں حصہ میں سے ایک حصہ ہے۔ الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیتیں خالص تھیں اعمال اچھے تھے پس جس کی نگاہ ان کے پاک چہروں پر پڑتی تھی اسے ان کی پاکبازی جچ جاتی تھی اور وہ ان کے چال چلن اور ان کے اخلاق اور ان کے طریقہ کار پر خوش ہوتا تھا حضرت امام مالک کا فرمان ہے کہ جن صحابہ نے شام کا ملک فتح کیا جب وہاں کے نصرانی ان کے چہرے دیکھتے تو بےساختہ پکار اٹھتے اللہ کی قسم یہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں سے بہت ہی بہتر و افضل ہیں۔ فی الواقع ان کا یہ قول سچا ہے اگلی کتابوں میں اس امت کی فضیلت و عظمت موجود ہے اور اس امت کی صف اول ان کے بہتر بزرگ اصحاب رسول ہیں اور خود ان کا ذکر بھی اگلی اللہ کی کتابوں میں اور پہلے کے واقعات میں موجود ہے۔ پس فرمایا یہی مثال ان کی توراۃ میں ہے۔ پھر فرماتا ہے اور ان کی مثال انجیل کی مانند کھیتی کے بیان کی گئی ہے جو اپنا سبزہ نکالتی ہے پھر اسے مضبوط اور قوی کرتی ہے پھر وہ طاقتور اور موٹا ہوجاتا ہے اور اپنی بال پر سیدھا کھڑا ہوجاتا ہے اب کھیتی والے کی خوشی کا کیا پوچھنا ہے ؟ اسی طرح اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہ انہوں نے آپ کی تائید و نصرت کی پس وہ آپ کے ساتھ وہی تعلق رکھتے ہیں جو پٹھے اور سبزے کو کھیتی سے تھا یہ اس لئے کہ کفار جھینپیں۔ حضرت امام مالک نے اس آیت سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے۔ علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے صحابہ کرام کے فضائل میں اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کرنے میں بہت سی احادیث آئی ہیں خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریفیں بیان کیں اور ان سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے کیا ان کی بزرگی میں یہ کافی نہیں ؟ پھر فرماتا ہے ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے گناہ معاف اور انکا اجر عظیم اور رزق کریم ثواب جزیل اور بدلہ کبیر ثابت یاد رہے کہ (منھم) میں جو (من) ہے وہ یہاں بیان جنس کے لئے ہے اللہ کا یہ سچا اور اٹل وعدہ ہے جو نہ بدلے نہ خلاف ہو ان کے قدم بقدم چلنے والوں ان کی روش پر کاربند ہونے والوں سے بھی اللہ کا یہ وعدہ ثابت ہے لیکن فضیلت اور سبقت کمال اور بزرگی جو انہیں ہے امت میں سے کسی کو حاصل نہیں اللہ ان سے خوش اللہ ان سے راضی یہ جنتی ہوچکے اور بدلے پالئے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میرے صحابہ کو برا نہ کہو ان کی بےادبی اور گستاخی نہ کرو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے تین پاؤ اناج بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کے اجر کو بھی نہیں پاسکتا۔ الحمد اللہ سورة فتح کی تفسیر ختم ہوئی۔