بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے،
English Sahih:
Indeed, those who call you, [O Muhammad], from behind the chambers – most of them do not use reason.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، جو لوگ تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بیشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں
3 Ahmed Ali
بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں اکثر ان میں سے عقل نہیں رکھتے
4 Ahsanul Bayan
جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں اکثر (بالکل) بےعقل ہیں (١)۔
٤۔١ یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز میں یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد ٨٤۔٣١٨) اللہ تعالٰی نے فرمایا ان کی اکثریت بےعقل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اداب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بےعقلی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
6 Muhammad Junagarhi
جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (بالکل) بے عقل ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اے رسول(ص)) جو لوگ آپ کو حجروں میں باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان کی اکثریت کچھ نہیں سمجھتی ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں شان نزول : ان الذین ینادونک من وراء الحجرات یہ آیت بنو تمیم کے بعض گنوار قسم کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی، جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت جو کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیلو لے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز سے، یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی اکثریت بےعقل ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلالت شان اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا بےعقلی ہے، امام بغوی نے بروایت قتادہ رحمتہ اللہ تعالیٰ ذکر کیا ہے کہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ جو آپ کے خدمت میں حاضر ہوئے تھے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے، یہ لوگ دوپہر کے وقت مدینہ منورہ پہنچے جب آپ کسی حجرے میں آرام فرما رہے تھے یہ اعرابی، آداب معاشریت سے ناقواف تھے، انہوں نے حجروں کے باہر ہی سے پکارنا شروع کردیا (اخرج الینا یا محمد) اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی جس میں اس طرح پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ حجرات امہات المومنین : ابن سعد نے بروایت عطاء خراسانی لکھا ہے کہ یہ حجرے کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے اور ان کے دروازوں پر موسیاہ اون کے پردے پڑے ہوئے تھے، امام بخاری نے ادب المفرد میں اور بیہقی نے دائود بن قیس سے روایت کیا ہے وہ فرما ہیں کہ میں نے ان حجروں کی زیارت کی ہے میرا گمان یہ ہے کہ حجرے کے دروازے سے مسقف بیت تک چھ یا سات ہاتھ اور کمرہ دس ہاتھ اور چھت کی اونچائی سات یا آٹھ ہاتھ ہوگی، امہات المومنین کے یہ ہجرے ولید بن عبدالمالک کے دور حلو میں ان کے حکم سے مسجد نبوی میں شامل کردیئے گئے، مدینہ منورہ میں اس روز گریہ و بکا طاری تھا۔ (معارف)
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیت کریمہ، اعراب (یعنی عرب دیہاتیوں) میں سے، چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے جفا سے موصوف کیا ہے۔ وہ اس لائق ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حدود کو نہ جانیں جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں۔ یہ عرب دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں وفد بن کر آئے اور انہوں نے آپ کو اپنے گھر میں اپنی ازواج مطہرات کے پاس پایا تو انہوں نے ادب کو ملحوظ نہ رکھا اور آپ کے باہر تشریف لانے تک انتظار نہ کرسکے اور پکارنا شروع کردیا ” اے محمد ! اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آؤ“۔۔۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی عدم عقل کی بنا پر مذمت کی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول کے ساتھ ادب و احترام کو نہ سمجھ سکے۔ جیسا کہ ادب کا استعمال عقل مندی میں شمار ہوتا ہے، بندے کا بادب ہونا اس کی عقل کا عنوان ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) jo log tumhen hujron kay peechay say aawaz detay hain , unn mein say aksar ko aqal nahi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
آداب خطاب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت بیان کرتا ہے جو آپ کے مکانوں کے پیچھے سے آپ کو آوازیں دیتے اور پکارتے ہیں جس طرح اعراب میں دستور تھا تو فرمایا کہ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں پھر اس کی بابت ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ چاہیے تھا کہ آپ کے انتظار میں ٹھہر جاتے اور جب آپ مکان سے باہر نکلتے تو آپ سے جو کہنا ہوتا کہتے۔ نہ کہ آوازیں دے کر باہر سے پکارتے۔ دنیا اور دین کی مصلحت اور بہتری اسی میں تھی پھر حکم دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کو توبہ استغفار کرنا چاہیے کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ یہ آیت حضرت اقرع بن حابس تمیمی کے بارے میں نازل ہوئی ہے مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آپ کا نام لے کر پکارا یا محمد ! یا محمد ! آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا تو اس نے کہا سنئے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا تعریف کرنا بڑائی کا سبب ہے اور میرا مذمت کرنا ذلت کا سبب ہے آپ نے فرمایا ایسی ذات محض اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۔ بشر بن غالب نے حجاج کے سامنے بشر بن عطارد وغیرہ سے کہا کہ تیری قوم بنو تمیم کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ جب حضرت سعید بن جبیر سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اگر وہ عالم ہوتے تو اس کے بعد کی آیت ( يَمُنُّوْنَ عَلَيْكَ اَنْ اَسْلَمُوْا ۭ قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَيَّ اِسْلَامَكُمْ ۚ بَلِ اللّٰهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِيْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 17) 49 ۔ الحجرات :17) پڑھ دیتے وہ کہتے کہ ہم اسلام لائے اور بنو اسد نے آپ کو تسلیم کرنے میں کچھ دیر نہیں کی حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ کچھ عرب جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں اس شخص کے پاس لے چلو اگر وہ سچا نبی ہے تو سب سے زیادہ اس سے سعادت حاصل کرنے کے مستحق ہم ہیں اور اگر وہ بادشاہ ہے تو ہم اس کے پروں تلے پل جائیں گے میں نے آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان کیا پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے پیچھے سے آپ کا نام لے کر آپ کو پکارنے لگے اس پر یہ آیت اتری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا کان پکڑ کر فرمایا اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کردی اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کردی، (ابن جریر)