المائدہ آية ۱۰۸
ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يَّأْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰى وَجْهِهَاۤ اَوْ يَخَافُوْۤا اَنْ تُرَدَّ اَيْمَانٌۢ بَعْدَ اَيْمَانِهِمْۗ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاسْمَعُوْا ۗ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ
طاہر القادری:
یہ (طریقہ) اس بات سے قریب تر ہے کہ لوگ صحیح طور پر گواہی ادا کریں یا اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ (غلط گواہی کی صورت میں) ان کی قََسموں کے بعد (وہی) قَسمیں (زیادہ قریبی ورثاء کی طرف) لوٹائی جائیں گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور (اس کے احکام کو غور سے) سنا کرو، اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا،
English Sahih:
That is more likely that they will give testimony according to its [true] objective, or [at least] they would fear that [other] oaths might be taken after their oaths. And fear Allah and listen [i.e., obey Him]; and Allah does not guide the defiantly disobedient people.
1 Abul A'ala Maududi
اس طریقہ سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ لوگ ٹھیک ٹھیک شہادت دیں گے، یا کم از کم اس بات ہی کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد ددسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہو جائے اللہ سے ڈرو اور سنو، اللہ نافرمانی کرنے والوں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے
2 Ahmed Raza Khan
یہ قریب تر ہے اس سے کہ گواہی جیسی چاہیے ادا کریں یا ڈریں کہ کچھ قسمیں رد کردی جائیں ان کی قسموں کے بعد اور اللہ سے ڈرو اور حکم سنو، اور اللہ بے حکموں کو راہ نہیں دیتا،
3 Ahmed Ali
یہ اس امر کا قریب ذریعہ ہے کہ وہ لوگ واقع کو ٹھیک طور پر ظاہر کر دیں یہ اس بات سے ڈر جائیں کہ قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کی جائیں گی ارو الله سے ڈرتے رہو اور سنو اور الله نافرمانوں کو سیدھی راہ پر نہیں چلاتا
4 Ahsanul Bayan
یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وہ لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ظاہر کریں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان کے قسم لینے کے بعد قسمیں الٹی پڑ جائیں گی (١) اور اللہ تعالٰی سے ڈرو اور سنو! اور اللہ تعالٰی فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔
١٠٨۔١ یہ اس فائدے کا ذکر ہے جو اس حکم میں پنہاں ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا وہ یہ کہ یہ طریقہ اختیار کرنے میں اوصیا صحیح صحیح گواہی دیں گے کیونکہ انہیں خطرہ ہوگا کہ اگر ہم نے خیانت یا دروغ گوئی یا تبدیلی کا ارتکاب کیا تو یہ کاروائیاں خود ہم پر الٹ سکتی ہیں۔ اس واقعہ کی شان نزول میں بدیل بن ابی مریم کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شام تجارت کی غرض سے گئے، وہاں بیمار اور قریب المرگ ہوگئے، ان کے پاس سامان ایک چاندی کا پیالہ تھا جو انہوں نے دو عیسائیوں کے سپرد کر کے اپنے رشتہ داروں تک پہنچانے کی وصیت کر دی اور فوت ہوگئے، یہ دونوں وصی جب واپس آئے تو پیالہ تو انہوں نے بیچ کر پیسےآپس میں تقسیم کرلئے اور باقی سامان ورثا کو پہنچا دیا۔ سامان میں ایک رقعہ بھی تھا
جس میں سامان کی فہرست تھی جس کی رو سے چاندی کا پیالہ گم تھا، ان سے کہا گیا تو انہوں نے جھوٹی قسم کھالی لیکن بعد میں پتہ چل گیا کہ وہ پیالہ انہوں نے فلاں صراف کو بیچا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان غیر مسلموں کے مقابلے میں قسمیں کھا کر ان سے پیالے کی رقم وصول کی۔ یہ روایت تو سندا ضعیف ہے۔(ترمذی 3059به تحقيق أحمد شاکر) تاہم ایک دوسری سند سے حضرت ابن عباس سے بھی مختصراً یہ مروی ہے، جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے (صحیح ترندی)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت دیں یا اس بات سے خوف کریں کہ (ہماری) قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کر دی جائیں گی اور خدا سے ڈرو اور اس کے حکموں کو (گوشِ ہوش سے) سنو اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
6 Muhammad Junagarhi
یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وه لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ﻇاہر کریں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان سے قسمیں لینے کے بعد قسمیں الٹی پڑ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سنو! اور اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ طریقہ کار زیادہ قریب ہے اس کے کہ گواہ ٹھیک طریقہ پر گواہی دیں گے یا کم از کم وہ اس بات کا خوف تو کریں گے کہ ان کی قَسموں کے بعد کہیں اور قَسموں سے ان کی تردید نہ ہو جائے (یا انہیں یہ اندیشہ تو ہوگا کہ ان کی قَسموں کے بعد دوسرے گواہوں سے بھی قَسمیں لی جا سکتی ہیں) اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ اور سنو۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ بہترین طریقہ ہے کہ شہادت کو صحیح طریقہ سے پیش کریں یا اس بات سے ڈریں کہ کہیں ہماری گواہی دوسروں کی گواہی کے بعد رد نہ کردی جائے اوراللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی سنو کہ وہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح گواہی دیں یا اس بات سے خوف کریں کہ ہماری قسمیں اب کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی اور خدا سے ڈرو اور اس کی حکموں کو گوش وہوش سے سنو اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
آیت نمبر ١٠٨
ترجمہ : (مذکورہ دونوں آیتوں کا) مطلب یہ ہے کہ قریب المرگ شخص اپنی وصیت پر دو آدمیوں کو گواہ بنا لے اپنی ملت یا غیر ملت کے دو آدمیوں کو وصی بنالے اگر سفر وغیرہ کی وجہ سے اپنی ملت کے گواہ میسر نہ ہوں، اگر ورثاء وصیوں کے بارے میں شک و شبہ کریں اور دعویٰ کریں کہ ان دونوں نے (ترکہ میں سے) کوئی چیز لیکر یا ایسے شخص کو کچھ دیکر جس کے بارے میں وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میت نے اس کے لئے وصیت کی تھی تو ان دونوں سے قسم لی جائے اگر علامات سے ان دونوں وصیوں کی دروغ گوئی کا پتہ چلے بایں طور کہ وہ دونوں موصیٰ لہ کو دینے کا دعویٰ کریں تو ورثاء کا قریب ترین شخص ان کے کذب اور ورثاء کے دعوے کی صداقت پر قسم کھائے، اور حکم وصیوں کے بارے میں باقی ہے، اور شاہدین کے بارے میں منسوخ ہے، اسی طرح غیر اہل ملت کی شہادت کے بارے میں آیت منسوخ ہے، اور عصر کی نماز کے وقت کا تعین کے اعتبار تغلیظ کیلئے ہے اور (میت کے) قریب ترین ورثاء کی تخصیص اس مخصوص واقعہ کی وجہ سے ہے جس کے بارے میں آیت نازل ہوئی اور وہ (واقعہ) وہ ہے جس کو بخاری نے روایت کیا ہے، کہ بنی سہم کا ایک شخص تمیم داری اور عدی بن بدّاء کے ساتھ (تجارت کے لئے) نکلا اور یہ دونوں نصرانی تھے سہمی کا انتقال ایسی سرزمین میں ہوگیا کہ وہاں کوئی مسلمان نہیں تھا، تو (مذکورہ) آیت نازل ہوئی، چناچہ جب یہ دونوں حضرات (ملک شام سے) مرھوم کا ترکہ لے کر آئے تو چاندی کا ایک پیالہ جس پر سونے کے نقش و نگار تھے لے لیا یہ دونوں (تمیم داری اور عدی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کئے گئے تو اس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی، ان دونوں سے قسم لی گئی، بعد ازاں وہ پیالہ مکہ میں پایا گیا تو اس شخص نے (جس کے پاس پیالہ پایا گیا) کہا میں نے اس کو تمیم داری اور عدی سے خریدا ہے، تو مذکورہہ آیت نازل ہوئی، سہمی کے اولیاء میں سے دو آدمی کھڑے ہوئے اور قسم کھائی (کہ یہ پیالہ ہمارے مورث کا ہے) اور ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص اور ان میں کا ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا اور دونوں نے قسم کھائی اور یہ دونوں میت کے قریبی رشتہ دار تھے، (ترمذی کی) ایک (دوسری) روایت میں ہے کہ جب سہمی بیمار ہوئے تو دونوں کو وصی بنایا اور ان سے کہا کہ اس کا متروکہ مال اس کے ارثاء کو پہنچا دیں جب اس کا انتقال ہوا (میت کے متروکہ مال میں سے) ایک پیالہ لے لیا اور باقی ماندہ مال میت کے ورثاء کو پہنچا دیا یہ مذکورہ حکم یعنی قسم کے حق کو ورثاء کو لوٹا دینا اس بات کا قریبی ذریعہ ہے کہ شاہد یا اوصیاء اس شہادت کو جس کے وہ متحمل ہوئے ہیں ٹھیک ٹھیک بغیر کسی تحریف و خیانت کے ادا کریں گے یا اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ اس بات کا خوف کریں گے کہ کہیں (ان کی) قسموں کی جو مدعی ورثاء کے خلاف ہیں تردید کردی جائے بایں طور کہ ورثاء (اوصیاء کی) دروغ گوئی اور خیانت پر قسم کھالیں جس کی وجہ سے وہ رسوا ہوجائیں اور تاوان دینا پڑے، تو وہ جھوٹ نہ بولیں خیانت و کذب کو ترک کرکے اللہ سے ڈرو اور جس کا حکم دیا جائے اس کو قبولیت کے کان سے سنو اللہ فاسق لوگوں کی یعنی اس کی طاعت سے خارج ہونے والوں کی راہ خیر کی طرف رہنمائی نہیں کرتا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : المعنی یعنی مذکورہ دونوں آخری آیتوں کے معنی۔
قولہ : لِیُشھِد المحتضَر الخ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شَھَادۃُ بَیْنَکم مصدر بمعنی امر ہے، یعنی قریب المرگ شخص کو چاہیے کہ اپنی وصیت پر دو آدمیوں کو گواہ بنا لے۔
قولہ : او یُوْصِی اِلَیْھِمَا، اس اضافہ سے اشارہ کردیا کہ آیت کی دو تفسیریں ہیں، خازن کی عبارت یہ ہے، واختلفوا فی ھَذَیْبِ الاِثنین فقیل ھما الشاھد ان اللّذان یشھد ان علی وصیۃ الوصی وقیل ھما وصیان لِانِّ الآٰہ نزلتْ فیھما ولانہ تعالیٰ قال فیقسمان باللہ والشھد لا یلزمہ الیمین، مطلب یہ کہ شھادۃ اثنین سے کیا مراد ہے ؟ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اِثنٰن سے وہ دو شاہد مراد ہیں جن کو موصی نے بوقت مرگ وصیت پر گواہ بنایا ہو، بعض حضرات نے کہا ہے خود وصی مراد ہے، اس لئے کہ مذکورہ واقعہ اوصیاء ہی سے متعلق ہے، دوسری بات یہ کہ شاہدوں پر قسم لازم نہیں ہوئی، ثانی صورت میں شھادت بمعنی حضور ہوگا مثلاً تو کہے شھدت وَصِیْۃ فلانٍ ، بمعنی حضرتھا۔
تفسیر و تشریح
ترمذی، ابو داؤد تفسیر ابن جریر وغیرہ میں امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس سے جو روایتیں مروی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ تین شخص دو نصرانی اور ایک مسلمان تجارت کی غرض سے ملک شام کی طرف گئے مسلمان جس کا نام بزیل یا بُدَیْل سہمی تھا سخت بیمار ہو کر قریب المرگ ہوگیا تو اس نے اپنے مال سامان کی ایک فہرست بنا کر اپنے سامان میں رکھ دی اور وہ سامان اپنے دونوں نصرانی ساتھیوں کو دیکر وصیت کی کہ میرا یہ سامان میرے وارثوں کو دیدینا، اس سامان میں چاندی کا کٹورا (پیالہ) بھی تھا جس پر سونے کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے، یہ کٹورا نصرانیوں نے اس سامان میں سے نکال لیا اور باقی سامان مسلمان سہمی کے ورثاء کو دیدیا نصرانی ساتھیوں کی نظر اس فہرست پر نہیں پڑی، سہمی کے ورثاء نے جب سامان کھولا تو وہ فہرست برآمد ہوئی، اس فہرست کے مطابق وہ کٹورا موجود نہیں تھا، سہمی کے ورثاء نے اس کٹورے کا دعوی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو پیش کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان نصرانیوں کو قسم دی انہوں نے قسم کھالی کہ سہمی نے جو مال مرتے وقت ہمارے سپرد کیا تھا ہم نے وہ پورا مال اس کے ورثاء کو پہنچا دیا کچھ مدت بعد وہ کٹورا ایک سنار کے پاس ملا سہمی کے ورثاء نے پہچان لیا اور قسم کھائی کہ وہ کٹورا ان کے مورث کا ہے، چناچہ اس کٹورے کی قیمت سہمی کے ورثاء کو دلوا دی گئی۔
اس روایت کو اگرچہ ترمذی نے حسن غریب کہ ہے لیکن ابن جریر کی سند معتبر ہے، اس کے علاوہ یہ روایت علی بن مدینی
کے حوالہ سے صحیح بخاری میں بھی ہے علی بن مدینی نے جو یہ کہا ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی ابن ابی القاسم معلوم الحال ہے، یہ ابن ابی القاسم ہے جس کو یحییٰ بن معین اور ابو حاتم نے ثقہ کہا ہے جس کی وجہ سے ابن ابی القاسم کے نامعلوم ہونے کا شبہ رفع گیا۔ آیت کا حاصل یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان حالت سفر وغیرہ میں اپنے ورثاء سے دور ہو اور اس کے پاس کچھ مال ہو تو اس کو چاہیے کہ اس مال کو ورثاء تک پہنچانے کیلئے دو مسلمانوں کو وصی اور وصیت کا گواہ بنا دے، اگر یہ واقعہ ایسی سرزمین میں پیش آئے کہ جہاں مسلمان نہ ہوں جن کو وصی بنایا جاسکے تو پھر اسلام کی شرط باقی نہ رہے گی، اگر اوصیاء کے بیان پر ورثاء کو کوئی اعتراض نہ ہو اوصیاء کے بیان کے مطابق فیصلہ کردیا جائے گا اسلئے کہ یہ دونوں حضرات وصی بھی ہیں اور وصیت کے گواہ بھی، اور اگر ورثاء کو اوصیاء کے بارے میں کچھ بدظنی باقی ہے تو اگر ورثاء کے پاس اوصیاء کی غلط بیانی کا کوئی ثبوت ہو تو پیش کرنے کو کہا جائیگا، ورنہ اوصیاء کی غلط بیانی میت کے ورثاء سے حلف لیا جائیگا، اور اسی کے مطابق فیصلہ کردیا جائیگا، جن علماء نے مدعی اور گواہوں سے قسم لینے کی ممانعت کی ہے انہوں نے اوصیاء سے قسم لینے کے بارے میں مختلف قسم کے شبہات کا اظہار کیا ہے لیکن حقیقت میں فریقین کا یہ حلف اسی طرح کا ہے جس طرح لعان کے مسئلہ میں فریقین کو حلف دیا جاتا ہے۔
من بعد الصلوۃ کی تفسیر بعض علماء نے صلوۃ العصر سے کی ہے یہ تغلیظ اور شدت ظاہر کرنے کیلئے ہے اسلئے کہ عصر کے بعد کا وقت قبولیت دعاء کے بارے میں خا ص اہمیت رکھتا ہے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کے بعد جھوٹی قسم کو خافناک اور رحمت خداوندی سے دور ہونے کا سبب قرار دیا ہے۔
ورثاء کی قسم کی مصلحت : آگے فرمایا کہ ورثاء کو قسم کا حکم اسلئے ہے کہ جب وصیت کے گواہوں کو یہ خوف رہے گا کہ ورثاء کی قسم کے مقابلہ میں ان کی قسم جھوٹی ٹھہرائی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے انکی رسوائی ہوگی تو وہ گواہی میں دروغ گوئی کی جرأت نہ کریں گے
ابو موسیٰ اشعری کا واقعہ : ابو داؤد میں معتبر سند سے ابو موسیٰ اشعری کا واقعہ مذکور ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کوفہ کا رہنے والا ایک مسلمان شخص حالت سفر میں جب مرنے لگا تو اس نے اہل کتاب میں سے دو شخصوں کو اپنی وصیت کا گواہ قرار دیا، ابو موسیٰ اشعری کوفی کے حاکم تھے اسلئے یہ مقدمہ ان کی عدالت میں پیش ہوا، انہوں نے اس آیت کے مطابق گواہوں سے قسم لے کر مقدمہ کا فیصلہ کردیا، اس سے معلوم ہوا کہ بعض مفسرین نے اس آیت کو منسوخ العمل قرار نہیں دیا اسلئے کہ نسخ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدت حیات ہی میں ممکن تھا۔ (احسن التفاسیر ملخصاً )
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گواہی، اس کی تاکید اور دونوں گواہوں سے خیانت ظاہر ہونے پر گواہی کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹانے کی حکمت بیان کی ہے۔ ﴿ذٰلِكَ أَدْنَىٰ ﴾ ” اس طریق سے بہت قریب ہے۔“ یعنی یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے ﴿أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا ﴾” کہ وہ ادا کریں گواہی کو ٹھیک طریقے پر“ یعنی جب ان گواہوں کو مذکورہ تاکیدات کے ذریعے سے تاکید کی جائے گی ﴿أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ﴾ ” اس بات سے خوف کریں کہ ہماری قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی۔“ یعنی ان کو خوف ہوگا کہ ان کی قسمیں قبول نہیں کی جائیں گی اور ان قسموں کو میت کے اولیاء کی طرف لوٹا دیا جائے گا﴿ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴾ ” اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا“ یعنی وہ لوگ جن کا وصف فسق ہے جو ہدایت چاہتے ہیں نہ راہ راست پر چلنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔
ان آیات کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ سفر وغیرہ میں جب میت کی موت کا وقت آجائے اور وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں گمان یہ ہو کہ معتبر گواہ بہت کم ہوں گے، تو میت کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ دو مسلمان عادل گواہوں کے سامنے وصیت کرے اور اگر صرف دو کافر گواہ مہیا ہوسکیں تو ان کے پاس بھی وصیت کرنا جائز ہے۔
اگر ان گواہوں کے کفر کی وجہ سے میت کے اولیاء ان کے بارے میں شک کریں تو نماز کے بعد ان سے حلف لیں کہ انہوں نے خیانت کا ارتکاب کیا ہے نہ جھوٹ بوالا ہے اور نہ انہوں نے وصیت میں کوئی تغیر و تبدل کیا ہے۔ اس طرح وہ اس حق کی ذمہ داری سے بری ہوجائیں گے جو ان پر ڈال دی گئی تھی۔ اگر میت کے اولیاء میں سے دو گواہ کھڑے ہو کر قسم کھائیں کہ ان کی گواہی پہلے گواہوں کی گواہی سے صحیح ہے اور یہ کہ پہلے گواہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے جھوٹ بولا ہے تو وہ ان پہلے گواہوں کے مقابلے میں اپنے دعوے پر مستحق قرار پائیں گے۔
یہ آیات کریمہ تیمم داری رضی اللہ عنہ اور عدوی بن بداء کے قصہ میں نازل ہوئی ہیں جو بہت مشہور ہے اور قصہ یوں ہے کہ عدوی نے ان دونوں حضرات کے پاس وصیت کی تھی۔ واللہ اعلم۔
[مفسر موصوف کو سہو ہوا ہے۔ صحیح بخاری، ترمذی، ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک عدوی کی جگہ سہمی وارد ہوا ہے یعنی بنو سہم کا ایک آدمی۔]
[یہ قصہ اصل میں اس طرح ہے کہ حضرت تیمم داری (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) اور عدی بن بداء، یہ دونوں نصرانی تھے اور تجارت کے لئے شام گئے ہوئے تھے۔ ایک مسلمان بدیل بن ابی مریم بھی وہاں گئے ہوئے تھے، وہاں بدیل سخت بیمار ہوگئے حتیٰ کہ زندگی سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے ان دونوں کو وصیت کی اور اپنا سامان بھی ان کے سپرد کردیا کہ وہ اسے ان کے گھر پہنچا دیں۔ ان دونوں نے اس سامان میں سے چاندی کا ایک پیالہ نکال کر بیچ دیا اور اس کی رقم آپس میں بانٹ لی۔ بعد میں ورثاء کو اس کا علم ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حلف لیا۔ (صحیح بخاری، الوصایا، حدیث :2780۔ ترمذی، التفسیر، حدیث: 3059) (ص۔ ی) ]
ان آیات کریمہ سے متعدد احکام پر استدلال کیا جاتا ہے۔
(١) وصیت کرنا مشروع ہے جس کی موت کا وقت قریب آجائے تو اسے چاہئے کہ وصیت کرے۔
(٢) جب موت کے مقدمات و آثار نمودار ہوجائیں تو مرنے والے کی وصیت اس وقت تک معتبر ہے جب تک اس کے ہوش و حواس قائم ہیں۔
(٣) وصیت میں دو عادل گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔
(٤) وصیت اور اس قسم کے دیگر مواقع پر، بوقت ضرورت کفار کی گواہی مقبول ہے۔ یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ بہت سے اہل علم دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ مگر نسخ کے اس دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں۔
(٥) اس حکم کے اشارہ اور اس کے معنی سے مستفاد ہوتا ہے کہ مسلمان گواہوں کی عدم موجودگی میں وصیت کے علاوہ دیگر مسائل میں بھی کفار کی گواہی قابل قبول ہے۔ جیسا کہ یہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔
(٦) اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر خوف کی بات نہ ہو تو کفار کی معیت میں سفر جائز ہے۔
(٧) تجارت کے لئے سفر کرنا جائز ہے۔
(٨) اگر دونوں گواہوں کی گواہی کے بارے میں شک ہو مگر ایسا کوئی قرینہ موجود نہ ہو جو ان کی خیانت پر دلالت کرتا ہو اور وصیت کرنے والے کے اولیاء ان گواہوں سے قسم لینا چاہتے ہوں تو وہ انہیں نماز کے بعد روک لیں اور ان سے اس طریقے سے قسم لیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔
(٩) اگر ان دونوں کی گواہی میں کوئی شک اور تہمت نہ ہو تو ان کو روکنے اور ان سے قسم لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(١٠) یہ آیت کریمہ شہادت کے معاملے کی تعظیم پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شہادت کو اپنی طرف مضاف کیا ہے، نیز یہ کہ اس کو درخوراعتنا سمجھنا اور انصاف کے مطابق اس کو قائم کرنا واجب ہے۔
(١١) گواہوں کے بارے میں اگر شک ہو تو گواہوں کا امتحان اور ان کو علیحدہ علیحدہ کر کے گواہی لینا جائز ہے، تاکہ سچ اور جھوٹ کے اعتبار سے گواہی کی قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
(١٢) جب ایسے قرائن پائے جائیں جو اس مسئلے میں دونوں وصیوں (گواہوں) کے جھوٹ پر دلالت کرتے ہوں تو میت کے اولیاء میں سے دو آدمی کھڑے ہوں اور اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری قسم ان کی قسم سے زیادہ سچی ہے۔ انہوں نے خیانت کی ہے اور جھوٹ کہا ہے پھر جس چیز کا وہ دعویٰ کرتے ہیں ان کے حوالے کردی جائے گی۔ ان کی قسموں کے ساتھ، قرینہ، ثبوت کے قائم مقام ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
iss tareeqay mein iss baat ki ziyada umeed hai kay log ( shuroo hi mein ) theek theek gawahi den ya iss baat say daren kay ( jhooti gawahi ki soorat mein ) unn ki qasmon kay baad loata ker doosri qasmen li jayen gi ( jo humari tardeed kerden gi ) . aur Allah say daro , aur ( jo kuch uss ki taraf say kaha gaya hai ussay qubool kernay ki niyyat say ) suno . Allah nafarmano ko hidayat nahi deta .