المائدہ آية ۱۱۴
قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَاۤٮِٕدَةً مِّنَ السَّمَاۤءِ تَكُوْنُ لَـنَا عِيْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰيَةً مِّنْكَۚ وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ
طاہر القادری:
عیسٰی ابن مریم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لئے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لئے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لئے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو، اور ہمیں رزق عطا کر اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے،
English Sahih:
Said Jesus, the son of Mary, "O Allah, our Lord, send down to us a table [spread with food] from the heaven to be for us a festival for the first of us and the last of us and a sign from You. And provide for us, and You are the best of providers."
1 Abul A'ala Maududi
اس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی "خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق ہے"
2 Ahmed Raza Khan
عیسیٰ بن مریم نے عرض کی، اے اللہ! اے رب ہمارے! ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے،
3 Ahmed Ali
عیسیٰ مریم کے بیٹے نے کہا اے اللهرب ہمارے ہم پر بھرا ہوا خوان آسمان سے اتار جو ہمارے پہلوں اور پچھلوں کیلئے عید ہو اور تیری طرف سےایک نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما کہ وہ ہمارے لئے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور جو بعد کے ہیں سب کے لئے ایک خوشی کی بات ہو جائے (١) اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو جائے اور تو ہم کو رزق عطا فرما دے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے۔
١١٤۔١ اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب یہ نہیں رہا کہ قومی تہوار کا ایک دن ہو جس میں تمام اخلاقی قیود اور شریعت کے ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بےہنگم طریقے سے طرب و مسرت کا اظہار کیا جائے، چراغاں کیا جائے اور جشن منایا جائے، جیسا کہ آجکل اس کا یہی مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس دن عید منانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اس سے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم تعریف و تمجید اور تکبیر و تحمید کریں۔ بعض اہل بدعت اس عید مائدہ سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں حالانکہ اول تو یہ ہماری شریعت سے پہلے کی شریعت کا واقعہ ہے جسے اگر اسلام برقرار رکھنا چاہتا تو وضاحت کردی جاتی دوسرے یہ پیغمبر کی زبان سے عید بتانے کی خواہش کا اظہار ہوا تھا اور پیغمبر بھی اللہ کے حکم سے شرعی احکام بیان کرنے کا مجاز ہوتا ہے تیسرے عید کا مفہوم و مطلب بھی وہ ہوتا ہے جو مذکورہ بالا سطروں میں بیان کیا گیا ہے جب کہ عید میلاد میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے لہذا عید میلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں، عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ ان کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(تب) عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کے لیے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے تو بہتر رزق دینے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما! کہ وه ہمارے لئے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور جو بعد کے ہیں سب کے لئے ایک خوشی کی بات ہوجائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور تو ہم کو رزق عطا فرمادے اور تو سب عطا کرنے والوں سے اچھا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
عیسیٰ بن مریم(ع) نے (دعا کرتے ہوئے) کہا اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے عید قرار پائے اور تیری طرف سے قدرتی نشانی بن جائے۔ اور ہمیں روزی عطا فرما تو بہترین روزی عطا کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
عیسٰی بن مریم نے کہا خدایا پروردگار !ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل کردے کہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہوجائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور ہمیں رزق دے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
تب عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لئے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کیلئے۔ اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے تو بہتر رزق دینے والا ہے۔
آیت نمبر ١١٦ تا ١٢٠
ترجمہ : اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) سے اس کی قوم کو سرزنش کرنے کیلئے فرمائیگا، کہ اے عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کیا تم نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی اللہ کے علاوہ معبود قرار دے لو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نپتے ہوئے عرض کریں گے آپ تو ہر اس چیز (یعنی) شریک وغیرہ سے پاک ہیں جو آپ کی شایان شان نہیں، اور میرے لئے کسی طرح ایسی بات کہنا لائق نہیں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں (بحق) لیس کی خبر ہے اور (لی) تبیین کیلئے (زائد) ہے اگر میں نے (یہ بات) کہی ہوگی تو آپ کو اس کا علم ہوگا اس لئے کہ تو تو میرے دل کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے دل کی بات کو نہیں جانتا، یعنی تیری مخفی معلومات کا مجھے علم نہیں، تمام مغیبات کے جاننے والے آپ ہی ہیں میں نے تو ان سے صرف وہی بات کہی جس کو کہنے کا تو نے حکم فرمایا وہ یہ کہ تم اللہ کی بندگی اختیار کرو جو کہ میرا اور تمہارا (سب کا) رب ہے، میں ان کا نگران تھا جب تک میں ان کے درمیان تھا ان کو ایسی بات کہنے سے روکے رہا اور جب آپ نے مجھے رفع آسمانی کے ذریعہ واپس بلا لیا تو آپ ان کے اعمال کے نگہبان تھے اور آپ تو ہر چیز سے واقف ہیں (خواہ) میری بات ہو جو میں نے ان سے کہی یا ان کی بات جو انہوں نے میرے بعد کہی وغیرہ وغیرہ، ان میں سے جو کفر پر قائم رہا اگر آپ ان کو سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور آپ ان کے مالک ہیں ان میں جس طرح چاہیں تصرف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں آپ پر کوئی اعتراض نہیں، اور اگر آپ انہیں معاف کردیں تو آپ اس پر غالب ہیں اور اپنی صنعت میں باحکمت ہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہ قیامت کا دن وہ دن ہے کہ اس دن میں دنیا میں سچائی اختیار کرنے والوں کی سچائی نفع پہنچائیگی جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ، اسلئے کہ یہ صلہ دینے کا دن ہے، ان کو ایسے باغات ملیں گے کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے اللہ ان سے ان کی اطاعت کی وجہ سے خوش اور وہ اس سے اس کے اجر پر راضی، یہی بڑی کامیابی ہے اور دنیا میں جھوٹوں کو قیامت میں ان کی سچائی کچھ نفع نہ دے گی، جیسا کہ کفار، جبکہ عذاب کو دیکھ کر ایمان لائیں گے، زمین اور آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کی بادشاہت اللہ ہی کی ہے (یعنی) بارش اور نباتات اور رزق وغیرہ کے خزانے سب اسی کی ملک میں ہیں (بجائے مَنْ کے) ما، کا استعمال غیر ذوی العقول کو غلبہ دینے کی وجہ ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ان ہی میں سے سچے کو اجر عطا کرنا اور جھوٹے کو سزا دینا بھی ہے، اور عقل نے باری تعالیٰ کو (تحت القدرۃ) ہونے سے خاص کردیا چناچہ وہ اپنی ذات پر قدرت نہیں رکھتا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای یَقُوْلُ ، قَالَ ماضی کی تفسیر یَقُوْلُ مضارع سے کرکے اس سوال کا جواب دیدیا کہ سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مکالمہ قیامت کے دن ہوگا اور قال سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ہوچکا قال کی تفسیر یقول سے کرکے بتادیا کہ ماضی بمعنی مضارع ہے
قولہ : تَوْبِیْخاً لِقَوْمِہ، اس اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے اس سے کوئی شئ مخفی نہیں ہے ان ہی میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی امت سے کہنا یا نہ کہنا بھی ہے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ سوال برائے استفہام نہیں ہے بلکہ توبیخ کیلئے ہے، لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔
قولہ : لِقَوْمِہٖ ، کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ تقصیر اور کوتاہی قوم کی تھی نہ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی۔
قولہ : اُرْعِدَ لرزید از ترس، عیسیٰ (علیہ السلام) خوف کی وجہ سے لرزہ بر اندام ہوگئے۔
قولہ : ولِیْ ، للِتَّبْیِیْن، اس میں ان لوگوں پر رد ہے جو، لی، کو حق سے متعلق مانتے ہیں اور وجہ ردیہ ہے کہ جار پر مجرور کے صلہ کی تقدیم ممتنع ہے۔
قولہ : بالرَّفْعِ الی السَّمَاءِ ، اس عبارت میں اشارہ ہے کہ یہاں توفّٰی کے معنی موت کے نہیں ہیں اس لئے کہ توفّٰی کے معنی اخذ الشئ وافیا، کسی چیز کو پورا پورا لینا کے ہیں، موت بھی اس کی ایک نوع ہے نہ کہ عین موت، لہٰذا اب یہ اعتراض ختم ہوگیا کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ توفَّیْتَنِی سے مراد موت ہو حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال نہیں ہوا ہے۔
قولہ : وخصَّ العقلُ ذاتَہ تعالی، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ ” علی کل شئ قدیر “ میں خود اللہ تعالیٰ بھی شئی میں داخل ہے اسلئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو شئ میں داخل نہ مانیں تو اللہ تعالیٰ کا لاشئ ہونا لازم آتا ہے جو ظاہر البطلان ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کو اشیاء کا ایک فرد ماننا ضروری ہے اور کل شئی ھالک سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شئی ہلاک ہونے والی ہے۔
جواب : کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شئی تو ہے مگر دیگر اشیاء کے مانند نہیں، لہٰذا عقل نے ذات باری تعالیٰ کو اشیاء سے خاص کرلیا یعنی اللہ تعالیٰ ہر شئی پر قادر ہے مگر اپنی ذات پر قادر نہیں ہے اسلئے کہ قدرت کا تعلق ممکنات سے ہوتا ہے نہ کہ واجبات اور محالات سے لہٰذا شئی سے مراد کل موجود یمکن ایجادہ ہے۔ (جمل)
تفسیر و تشریح
وَاِذْ قَالَ اللہ یٰعیسٰی ابن مریمء اَنْتَ قلتَ للَناس الخ عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال روز قیامت میں ہوگا جس کو یقینی الوقوع ہونے کی وجہ سے ماضی سے تعبیر کردیا ہے، خطاب اگرچہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہے مگر مقصد ان لوگوں کو زجر و توبیخ کرنا ہے جنہوں نے غیر اللہ کو معبود بنا لیا تھا، اسلئے کہ جن کو معبود بنایا گیا ہے وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی والدہ مریم کو بھی معبود بنایا تھا، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ من دون اللہ میں صرف سونے چاندی یا پتھر لوہے وغیرہ کے بت ہی شامل نہیں ہیں بلکہ اللہ کے وہ نیک بندے بھی مِنْ دَوْنِ اللہ میں شامل ہیں جن کو لوگوں نے کسی انداز سے عبادت کی، جیسے حضرت عیسیٰ و مریم اور حضرت عزیز (علیہم السلام) وغیرہ۔
مسیحیوں کا شرک : عیسائیوں نے اللہ کے ساتھ صرف مسیح (علیہ السلام) اور روح القدس ہی کو خدا بنانے پر اکتفاء نہیں
کیا بلکہ مسیح (علیہ السلام) کی والدی ماجدہ حضرت مریم (علیہما السلام) کو بھی ایک مستقل معبود بنا ڈالا، حضرت مریم کی الوہیت یا قدوسیت کے متعلق کوئی اشارہ تک بائبل میں موجود نہیں ہے مسیح (علیہ السلام) کے بعد ابتدائی تین سو سالوں تک عیسائی دنیا اس تخیل سے بالکل نا آشنا تھی، تیسری صدی عیسوی کے آخر میں اسکندریہ کے بعض علماء نے پہلی مرتبہ حضرت مریم کیلئے، ” ام اللہ “ مادرِ خدا، کے الفاظ استعمال کئے، اس کے بعد بتدریج الوہیت مریم کا عقیدہ اور مریم پرستی کا طریقہ عیسائیوں میں پھیلنا شروع ہوا، لیکن اول اول چرچ اس عقیدہ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کیلئے تیار نہ تھا، بلکہ مریم پرستوں کو فاسد العقیدہ قرار دیتا تھا، پھر جب نسطور لَیْس کے اس عقیدہ پر کہ مسیح کی واحد ذات میں دو مستقل جدا گانہ شخصیتیں جمع تھیں، مسیحی دنیا میں بحث وجدال کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو اس کا تصفیہ کرنے کیلئے ٤٣١ ء میں شہر افسوس میں ایک کونسل منعقد ہوئی اور اس کونسل میں پہلی مرتبہ کلیسا کی سرکاری زبان میں حضرت مریم کیلئے مادر خدا، کا لقب استعمال کیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مریم پرستی کا جو مرض اب تک کلیسا کے باہر پھیل رہا تھا وہ اس کے بعد کلیسا کے اندر بھی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا، حتی کہ نزول قرآن کے زمانہ تک پہنچتے پہنچتے حضرت مریم اتنی بڑی دیوی بن گئیں کہ باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں اس کے سامنے ہیچ ہوگئے، ان کے مجسمے جگہ جگہ کلیساؤں میں نصب کئے ہوئے تھے، ان کے آگے عبادت کے جملہ مراسم ادا کئے جاتے تھے، ان ہی سے دعائیں مانگی جاتی تھیں اور ان ہی کو فریاد رس اور مشکل کشا سمجھا جاتا تھا۔
توفیتنی کا مطلب : توفیتنی کا مطلب یہ ہے کہ جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا، تَوقَّیْتَنِیْ کا مادہ وَفِیٌّ ہے جس کے اصل معنی پورا پورا لینے کے ہیں انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے وہ اسی لئے بولا جاتا ہے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پر معطل کر دئیے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصلی معنی پورا پورا لینے کے ہیں بعض نے اس کے مجازی معنی مشہور استعمال کے مطابق موت ہی کے کئے ہیں لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کہا ہے کہ الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے یعنی رَافِعُکَ ، کے معنی مقدم ہیں اور مُتَوَفِّیْک، کے معنی متاخر ہیں، یعنی میں تم کو آسمان پر اٹھالوں گا اور پھر جب دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا، یعنی یہود کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر، ابن کثیر)
10 Tafsir as-Saadi
جب عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی یہ بات سنی اور ان کا مقصود انہیں معلوم ہوگیا تو انہوں نے ان کی درخواست قبول فرما کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی ﴿اللّٰهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ﴾ ” اے اللہ ! ہم پر آسمان سے بھرا ہوا خوان اتار، یہ ہمارے پہلے اور پچھلے لوگوں کے لئے خوشی کا باعث اور تیری طرف سے نشانی ہو“ یعنی اس کھانے کے نازل ہونے کا وقت ہمارے لئے عید اور یادگار بن جائے تاکہ اس عظیم معجزے کو یاد رکھا جائے اور مرور ایام کے ساتھ اس کی حفاظت کی جائے اور ہم اس کو بھول نہ جائیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عیدیں اور عبادت کے دن مقرر فرمائے ہیں جو اس کی آیات کی یاد دلاتے ہیں اور انبیاء و مرسلین کی سنن اور ان کی سیدھی راہ اور ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں۔﴿وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾ ” اور ہمیں روزی دے اور تو وہی سب سے بہتر روزی دینے والا ہے“ یعنی اسے ہمارے لئے رزق بنا۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان دو مصلحتوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے دستر خوان کے اترنے کی دعا کی تھی۔ دینی مصلحت، یعنی یہ نشانی کے طور پر باقی رہے اور دنیاوی مصلحت، یعنی یہ رزق ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( chunacheh ) essa ibn-e-maryam ney darkhuwast ki kay : ya Allah ! hum per aasman say aik khuwan utaar dijiye jo humaray liye aur humaray aglon aur pichlon kay liye aik khushi ka moaqa ban jaye , aur aap ki taraf say aik nishani ho . aur hamen yeh naimat ata farma hi dijiye , aur aap sabb say behtar ata farmaney walay hain .