المائدہ آية ۲
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۤٮِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَـرَامَ وَلَا الْهَدْىَ وَلَا الْقَلَۤاٮِٕدَ وَلَاۤ اٰۤمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَـرَامَ يَبْـتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۗ وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ۗ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَـرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ۘ وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰىۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۗ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! اﷲ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرمِ کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا قصد کرکے آنے والوں (کے جان و مال اور عزت و آبرو) کی (بے حرمتی کرو کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے رب کا فضل اور رضا تلاش کر رہے ہیں، اور جب تم حالتِ اِحرام سے باہر نکل آؤ تو تم شکار کرسکتے ہو، اور تمہیں کسی قوم کی (یہ) دشمنی کہ انہوں نے تم کو مسجدِ حرام (یعنی خانہ کعبہ کی حاضری) سے روکا تھا اس بات پر ہرگز نہ ابھارے کہ تم (ان کے ساتھ) زیادتی کرو، اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, do not violate the rites of Allah or [the sanctity of] the sacred month or [neglect the marking of] the sacrificial animals and garlanding [them] or [violate the safety of] those coming to the Sacred House seeking bounty from their Lord and [His] approval. But when you come out of ihram, then [you may] hunt. And do not let the hatred of a people for having obstructed you from al-Masjid al-Haram lead you to transgress. And cooperate in righteousness and piety, but do not cooperate in sin and aggression. And fear Allah; indeed, Allah is severe in penalty.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خد ا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کر لو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ اُن جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں، نہ اُن لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جا رہے ہوں ہاں جب احرام کی حالت ختم ہو جائے تو شکار تم کرسکتے ہو اور دیکھو، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تواس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو نہیں! جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! حلال نہ ٹھہرالو اللہ کے نشان اور نہ ادب والے مہینے اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ جن کے گلے میں علامتیں آویزاں اور نہ ان کا مال و آبرو جو عزت والے گھر کا قصد کرکے آئیں اپنے رب کا فضل اوراس کی خوشی چاہتے اور جب احرام سے نکلو تو شکار کرسکتے ہو اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر نہ ابھارے اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو اور نہ حرمت والے مہینے کو اور نہ حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو اور نہ ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں اور نہ حرمت والے گھر کی طرف آنے والوں کو جو اپنے رب کا فضل اور اس کی خوشی ڈھونڈتے ہیں اور جب تم احرام کھول دو پھر شکار کرو اور تمہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں نیک کام اور پرہیز گاری پر مدد کرو اورگناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو اور الله سے ڈرو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! اللہ تعالٰی کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو (١) نہ ادب والے مہینوں کی (٢) نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں (٣) اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالٰی کے فضل اور اس کی رضا جوئی کی نیت سے جا رہے ہوں (٤) ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو (٥) جن لوگوں نے تمہیں مسجد احرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر امادہ نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ (٦) نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو (٧) اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالٰی سخت سزا دینے والا ہے۔
٢۔١ شعائر شعیرۃ کی جمع ہے اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسے عام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بےحرمتی اور بےتوقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج عمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ مت بنو، کہ یہ بےحرمتی ہے۔
٢۔٢ (اشھر الحرام) مراد حرمت والے چاروں مہینے (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ مراد یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم سے منسوخ مانا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں دونوں احکام اپنے اپنے دائرے میں ہیں جن میں تعارض نہیں۔
٢۔٣ ھَدی' ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے تھے اور گلے میں پٹہ باندھتے تھے جو کے نشانی کے طور پر ہوتا تھا، مزید تاکید ہے کہ ان جانوروں کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔
٢۔٤ یعی حج عمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو اور نہ انہیں تنگ کرو، بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکھٹے حج عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت انما المشرکون نجس الخ نازل ہوئی تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔
٢۔٥ یہاں مراد اباحت یعنی جواز بتلانے کے لئے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے۔
٢۔٦ یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے ٦ ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جا رہا ہے۔
٢۔٧ یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کر دیا گیا ہے جو ایک مسلمان کے لئے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کر سکتا ہے، کاش مسلمان اس اصول کو اپنا لیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت الله) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو نہ ادب والے مہینوں کی نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضاجوئی کی نیت سے جا رہے ہوں، ہاں جب تم احرام اتار ڈالو تو شکار کھیل سکتے ہو، جن لوگوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا ان کی دشمنی تمہیں اس بات پر آماده نہ کرے کہ تم حد سے گزر جاؤ، نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناه اور ﻇلم و زیادتی میں مدد نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! خدا کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو۔ اور نہ حرمت والے مہینہ کی اور نہ قربانی والے جانور کی اور نہ گلے میں پٹے ڈالے ہوئے جانوروں کی اور نہ ان لوگوں کی (بے حرمتی کرو) جو اپنے پروردگار کا فضل و کرم اور اس کی رضامندی کے طلبگار بن کر بیت الحرام (مقدس گھر) کی طرف جا رہے ہیں اور جب احرام ختم ہو جائے (یا حرم سے باہر نکل جاؤ) تو شکار کر سکتے ہو۔ اور خبردار، تمہیں کسی قوم سے عداوت کہ اس نے تمہیں مسجد الحرام سے روک دیا تھا۔ اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم (اس پر) ظلم و زیادتی کرو۔ اور نیکی و پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو !خبردار خدا کی نشانیوں کی حرمت کو ضائع نہ کرنا اور نہ محترم مہینے. قربانی کے جانور اور جن جانوروں کے گلے میں پٹےّ باندھ دیئے گئے ہیں اور جو لوگ خانہ خدا کا ارادہ کرنے والے ہیں اور فرض پروردگار اور رضائے الٰہی کے طلبگار ہیں ان کی حرمت کی خلاف ورزی کرنا اور جب احرام ختم ہوجائے تو شکار کرو اور خبردار کسی قوم کی عداوت فقط اس بات پر کہ اس نے تمہیں مسجدالحرام سے روک دیا ہے تمہیں ظلم پر آمادہ نہ کردے --نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور تعدّی پر آپس میں تعاون نہ کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کریئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹّے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اسکی خوشنودی کے طلبگار ہوں۔ اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو۔ اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے۔
شان نزول : یٰایَّھَا الذین آمنوا لا تُحِلُّوْا شَعائر اللہ، (الآیۃ) ابن جریر نے عکرمہ اور سدی سے روایت کی ہے کہ ایک شخص شریح بن ہند مدینہ آکر مسلمان ہوگیا تھا اور اپنے وطن جا کر پھر مرتد ہوگیا، اس واقعہ کے ایک سال بعد اس نے حج کا قصد کیا صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو شریح بن ہند کے ساتھ جو نیاز کعبہ کے جانور اور تجارت کا مال ہے اس کو لوٹ لیں، آپ نے فرمایا یہ کیونکر ہوسکتا ہے وہ تو نیاز کے جانور لے کر حج کے ارادہ سے جا رہا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ مشرکین خود کو ملت ابراہیمی کا پابند سمجھ کر حالت شرک میں بھی حج کیا کرتے تھے، سورة براءت میں مشرکین کو حج بیت اللہ سے روکنے کے حکم سے پہلے روکنے کی ممانعت تھی، سورة براءت میں جب یہ حکم نازل ہوا کہ مشرکین نجس ہیں آئندہ سال سے وہ لوگ مسجد حرام کے پاس نہ آئیں جس سے سورة مائدہ کی اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا، ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے منسوخ ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، مفسرین کی ایک جماعت اس آیت سے منسوخ ہونے کی قائل نہیں ہے، اور شاہ ولی اللہ (رح) تعالیٰ نے بھی فوز الکبیر میں اس آیت کے نسخ کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ حکم میں تخصیص قرار دیا ہے، یعنی پہلے مشرکین اور مسلمین سب کو حج کی اجازت تھی سورة براءت کے اس حکم سے تخصیص ہوگئی کہ آئندہ مشرکین مسجد حرام کے پاس نہ آیا کریں، اور شاہ صاحب تخصیص کو نسخ نہیں مانتے۔
حالت احرام میں محرم کے لئے خشکی کے جانوروں کے شکار کی ممانعت کردی گئی تھی جو احرام سے فارغ ہونے کے بعد باقی رہی اور غیر محرم کا، محرم کو شکار کا گوشت دینا اور محرم کے لئے لینا اور کھانا جائز ہے بشرطیکہ محرم کی خاطر شکار نہ کیا گیا ہو اور محرم اس شکار میں اشارة یا دلالۃ شریک نہ ہو۔
شان نزول کا دوسرا واقعہ : بعض مفسرین نے مذکورہ آیت کے شان نزول میں ایک دوسرا واقعہ نقل کیا ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
یمامہ کا ایک دولت مند حطیم نامی تاجر بڑے کروفر کے ساتھ مدینہ آیا، ابھی یہ شخص مسجد نبوی تک نہ پہنچا تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا، تمہارے پاس قبیلہ یمامہ کا ایک شخص آرہا ہے جو شیطان کی طرح باتیں بناتا ہے، ادھر حطیم نے یہ کیا کہ اہل قافہ کو مدینہ کے باہر چھوڑ کر تنہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا آپ کس بات کی دعوت دیتے ہیں ارشاد ہوا کہ خدائے پاک کو ایک ماننا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغمبر تسلیم کرنا نماز پڑھنا، زکوٰة دینا، حطیم نے عرض کیا کہ کچھ اور لوگ بھی میرے شریک معاملہ ہیں جن کے بغیر میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا میں خود بھی اسلام قبول کرلوں گا اور بقیہ اصحاب کو بھی جناب کی خدمت میں حاضر کر دوں گا تاکہ وہ بھی مشرف باسلام ہو سکیں، گفتگو کے بعد جب یہ شخص باہر نکلا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ یہ شخص آیا تو تھا کافر ہو کر اور گیا ہے دھوکہ باز ہو کر، چناچہ فوراً مع قافلہ واپس ہوگیا اور جاتے وقت مدینہ کی چراگاہ کے سارے مویشی ہانک لے گیا، اتنی تیزی سے واپس چلا گیا کہ تعاقب کے باوجود ہاتھ نہ آیا، اگلے سال آپۖ صحابہ کے ہمراہ عمرة القضا کے لئے تشریف لے جا رہے تھے تو راستہ میں یمامہ کے مشرک حاجیوں کے قافلہ کی آوازیں آئیں، آپ نے فرمایا یہ حطیم اور اس کے قافلہ والے آرہے ہیں تحقیق سے یہ بات صحیح ثابت ہوئی۔ حطیم قافلہ کے ساتھ اس طرح مکہ جا رہا تھا کہ مشرک حاجیوں کا ایک ہجوم ہے اور اونٹوں پر تجارتی سامان لدا ہوا ہے جو جانور مدینہ سے لوٹ کر لایا تھا ان کے گلے میں پٹے ڈال کر کعبۃ اللہ کی نذرکیلئے ہدی بنا کرلے جا رہا ہے۔
صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اگر ہمیں اجازت ملے تو ہم اس دغا باز کو مزا چکھا دیں اور اپنے مویشی واپس لے لیں۔ ارشاد ہوا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ وہ خود حاجی بن کر جا رہا ہے اور جانور نیاز بیت کے لئے لے جا رہا ہے آپ نے صحابہ کو اس کی اجازت نہ دی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ھدایت القرآن ملخصا)
10 Tafsir as-Saadi
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّـهِ ﴾ ” اے ایمان والو ! اللہ کی نشانیوں کو حلال نہ سمجھو“ یعنی اللہ تعالیٰ کی ان محرمات کو حلال نہ ٹھہرا لو جن کی تعظیم کا اور ان کے عدم فعل کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے۔ پس یہ ممانعت، ان کے فعل کی ممانعت اور ان کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کی ممانعت پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ ممانعت فعل قبیح اور اس کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنے کو شامل ہے اس ممانعت میں محرمات احرام اور محرمات حرم بھی داخل ہیں۔ اس میں وہ امور بھی داخل ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں آتا ہے ﴿وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ ﴾ ” اور نہ ادب کے مہینے کی۔“ یعنی حرمت کے مہینے میں لڑائی اور دیگر مظالم کا ارتکاب کر کے اس کی ہتک حرمت نہ کرو، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّـهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّـهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ﴾(التوبة:9؍36) ” بے شک اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینے گنتی میں بارہ ہیں، اس روز سے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں۔ یہی مضبوط دین ہے۔ تم ان مہینوں میں (نا حق لڑائی کر کے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔ “
جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں لڑائی کی تحریم منسوخ ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ﴾(التوبہ :9؍5) ” جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ ان کو قتل کرو“ اور اس کے علاوہ دیگر آیات جو عموم پر دلالت کرتی ہیں جن میں کفار کے ساتھ مطلق قتال کا حکم دیا گیا ہے اور اس قتال سے پیچھے رہ جانے پر وعید سنائی ہے، نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذیقعد کے مہینے میں اہل طائف کے خلاف جنگ کی اور ذیقعد حرام مہینوں میں سے ہے۔
دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ حرمت کے مہینوں میں لڑائی کی ممانعت منسوخ نہیں ہے اس کی دلیل یہی مذکورہ آیت کریمہ ہے۔ جس میں خاص طور پر لڑائی کی ممانعت کی گئی ہے اور انہوں نے اس بارے میں وارد مطلق نصوص کو مقید پر محمول کیا ہے۔
اور بعض علماء نے اس میں یہ تفصیل بیان کی ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتدا کرنا جائز نہیں، البتہ اگر جنگ پہلے سے جاری ہو جبکہ اس کی ابتدا حلال مہینوں میں ہوئی ہو تو حرمت کے مہینوں میں اس کی تکمیل جائز ہے اور انہوں نے اہل طائف کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کو اسی پر محمول کیا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ جنگ کی ابتدا حنین میں ہوئی جو شوال کے مہینے میں ہوئی تھی۔ یہ سب اس جنگ کے بارے میں ہے جس میں مدافعت مقصود نہ ہو۔ جہاں تک دفاعی جنگ کا معاملہ ہے جبکہ وہ کفار کی طرف سے شروع کی گئی ہو تو مسلمانوں کو اپنے دفاع میں حرمت والے مہینوں میں بھی جنگ لڑنا جائز ہے اور اس پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔
﴿وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ ﴾ ” اور نہ قربانی کے جانوروں کی“ یعنی تم اس ﴿ الْهَدْيَ ﴾ ” قربانی“ کو جو حج یا عمرہ یا دیگر ایام میں بیت اللہ کو بھیجی جا رہی ہو، حلال نہ ٹھہرا لو۔ اس کو قربان گاہ تک پہنچنے سے مت روکو، نہ اسے چوری وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرو، نہ اس کے بارے میں کوتاہی کرو اور نہ اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ لادو۔ مباداکہ وہ قربان گاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی تلف ہوجائے بلکہ اس ہدی کی اور اس کو لانے والے کی تعظیم کرو۔
﴿وَلَا الْقَلَائِدَ﴾” اور نہ ان جانوروں کی (جو اللہ کی راہ میں نذر کر دئیے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں۔“ یہ ہدی کی ایک خاص قسم ہے یہ ہدی کا وہ جانور ہے جس کے لئے قلادے غیرہ تیار کر کے صرف اس لئے اس کی گردن میں ڈالے گئے ہوں تاکہ اس سے ظاہر ہو کہ یہ اللہ کے شعائر ہیں نیز اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں اور اس سے سنت کی تعلیم بھی مقصود ہے۔ تاکہ لوگ پہچان لیں کہ یہ ہدی کا جانور ہے لہٰذا حرمت کا حامل ہے۔ بنا بریں ہدی کو علامت کے طور پر قلادے وغیرہ پہنانا سنت ہے اور شعائر مسنونہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
﴿وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ ﴾ ” اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جا رہے ہوں۔“ یعنی جو بیت اللہ کا قصد رکھتے ہیں ﴿يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ﴾ ” اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہوں“ یعنی جو بیت اللہ پہنچنے کا قصد رکھتا ہے اور وہ تجارت اور جائز ذرائع اکتساب کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کا ارادہ لئے ہوئے ہے یا وہ حج، عمرہ، طواف، بیت اللہ، نماز اور مختلف انواع کی دیگر عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے، اس کے ساتھ برائی سے پیش آؤ نہ اس کی اہانت کرو، بلکہ اس کی تکریم کرو اور تمہارے رب کے گھر کی زیارت کے لئے جانے والوں کی تعظیم کرو۔ اس حکم میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ بیت اللہ کی طرف جانے والے تمام راستوں کو پرامن بنایا جائے تاکہ بیت اللہ کو جانے والے بڑے اطمینان سے اللہ کے گھر کو جا سکیں، انہیں راستے میں قتل و غارت اور اپنے اموال کے بارے میں کسی چوری ڈاکے اور کسی ظلم کا خوف نہ ہو۔
اس آیت کریمہ کے عموم کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ ارشاد خاص کرتا ہے : ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا ﴾(التوبة:9؍28)” اے ایمان لانے والے لوگو ! مشرک تو ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔“ لہٰذا مشرک حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اس آیت کریمہ میں بیت اللہ کی طرف جانے والے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رضا کا قصد رکھنے والے سے تعرض کرنے کی ممانعت کی تخصیص اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اس نیت سے بیت اللہ کا قصد کرتا ہے کہ گناہوں کے ذریعے سے اس کی ہتک حرمت کا ارتکاب کرے، اس کو اللہ تعالیٰ کے گھر میں فساد پھیلانے سے روکا جائے کیونکہ اسے اس فعل سے روکنا حرم کے احترام کی تکمیل ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيم﴾ٍ(الحج:22؍25)” اور جو کوئی اس میں ظلم سے کج روی کرنا چاہے ہم اسے درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ “
چونکہ اللہ تعالیٰ نے حالت احرام میں شکار کرنے سے منع کیا ہے، اس لئے فرمایا :﴿وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ﴾ ” اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔“ یعنی جب تم حج اور عمرہ کے احرام کھول دو تو تمہارے لئے شکار کرنا جائز ہے اور اب اس کی تحریم ختم ہوگئی ہے۔ تحریر کے بعد کا حکم محرمہ اشیاء کو ان کی اس حالت کی طرف لوٹا دیتا ہے جو تحریم کے حکم سے پہلے تھی۔
﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُواۘ ﴾” اور لوگوں کی دشمنی، اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا، تمہیں زیادتی کرنے پر آمادہ نہ کرے۔“ یعنی کسی قوم کا بغض، عداوت اور تم پر ان کا ظلم و تعدی کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام تک جانے سے روکا تھا تمہیں ان پر ظلم و تعدی کرنے پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان سے بدلہ لے کر اپنے غصے کو ٹھنڈا کرو، کیونکہ بندے پر ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام کرنا اور عدل و انصاف کا راستہ اختیار کرنا فرض ہے۔ خواہ اس کے خلاف جرم، ظلم یا زیادتی کا ارتکاب ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ جس نے اس پر جھوٹا الزام لگایا، اس پر جھوٹا الزام لگانا اور جس نے اس کے ساتھ خیانت کی، اس کے ساتھ خیانت کرنا کسی حالت میں جائز نہیں۔
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ﴾ ” نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔“ یعنی تم نیکیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ یہاں ﴿ الْبِرِّ ﴾ ” نیکی“ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ضمن میں ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور وہ ان پر راضی ہے۔ اس مقام پر تقویٰ ان تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو ترک کرنے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہیں بھلائی کی ہر خصلت جس کے فعل کا حکم یا برائی کی ہر خصلت جسے ترک کرنے کا حکم ہے بندہ خود بھی اس کے فعل پر مامور ہے اور اسے اپنے مومن بھائیوں کے ساتھ، اپنے قول و فعل کے ذریعے سے جو ان کو اس بھلائی پر آمادہ کرے یا اس میں نشاط پیدا کرے، تعاون کرنے کا حکم ہے۔
﴿وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ ﴾ ” اور گناہ پر ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو“ اور یہ ان گناہوں پر جسارت ہے جن کے ارتکاب سے انسان گناہگار اور ناقابل اعتبار ہوجاتا ہے ﴿وَالْعُدْوَانِ﴾ ” اور نہ زیادتی پر“ یہ مخلوق کے ساتھ ان کی جان و مال اور ان کی عزت و ناموس کے بارے میں ظلم اور زیادتی ہے۔ پس بندے پر واجب ہے کہ وہ ہر گناہ اور ظلم و تعدی سے اپنے آپ کو بھی روکے اور دوسروں کے ساتھ بھی اس ظلم و تعدی کو ترک کرنے پر تعاون کرے۔ ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴾ ” اور اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو سزا دے گا جو اس کی نافرمانی کرے گا اور محارم کے ارتکاب کی جسارت کرے گا۔ پس ہتک محارم سے بچو مبادا (ایسا نہ ہو) کہ تم اس کی دنیاوی یا آخروی سزا کے مستحق بن جاؤ۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! naa Allah ki nishaniyon ki bey hurmati kero , naa hurmat walay maheenay ki , naa unn janweron ki jo qurbani kay liye haram ley jaye jayen , naa unn patton ki jo unn kay galay mein parray hon , aur naa unn logon ki jo Allah ka fazal aur uss ki raza-mandi hasil kernay ki khatir bait-e-haraam ka irada ley ker jarahey hon . aur jab tum ehraam khol do to shikar ker-saktay ho . aur kissi qoam kay sath tumhari yeh dushmani kay unhon ney tumhen masjid-e-haram say roka tha tumhen iss baat per aamada naa keray kay tum ( unn per ) ziyadti kernay lago . aur naiki aur taqwa mein aik doosray kay sath taawwun kero , aur gunah aur zulm mein taawwun naa kero , aur Allah say dartay raho . beyshak Allah ka azab bara sakht hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
آیت نمبر\0\03کی تفسیر
حلال و حرام کی وضاحتیں
ان آیتوں میں اللہ ان کا بیان فرما رہا ہے '' جن کا کھانا اس نے حرام کیا ہے، یہ خبر ان چیزوں کے نہ کھانے کے حکم میں شامل ہے '' میتہ وہ ہے جو از خود اپنے آپ مرجائے، نہ تو اسے ذبح کیا جائے، نہ شکار کیا جائے۔ اس کا کھانا اس لئے حرام کیا گیا کہ اس کا وہ خون جو مضر ہے اسی میں وہ جاتا ہے، ذبح کرنے سے تو بہ جاتا ہے اور یہ خون دین اور بدن کو مضر ہے، ہاں یہ یاد رہے ہر مردار حرام ہے مگر مچھلی نہیں۔ کیونکہ موطا مالک، مسند شافعی، مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجو، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سمندر کے پانی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے اور اسی طرح، مڈی بھی گو خود ہی مرگئی ہو، حلال ہے۔ اس کی دلیل کی حدیث آرہی ہے۔ دم سے مراد دم مسفوح یعنی وہ خون ہے جو بوقت ذبح بہتا ہے۔ حضرت ابن عباس سے سوال ہوتا ہے کہ آیا تلی کھا سکتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہاں، لوگوں نے کہا وہ تو خون ہے، آپ نے فرمایا ہاں صرف وہ خون حرام ہے جو بوقت ذبح بہا ہو۔ حضرت عائشہ بھی یہی فرماتی ہیں کہ صرف بہا ہوا خون حرام ہے۔ امام شافعی حدیث لائے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمارے لئے دو قسم کے مردے اور دو خون حلال کئے گئے ہیں، مچھلی، ٹڈی، کلیجی اور تلی۔ یہ حدیث مسند احمد، ابن ماجہ، دار قطنی اور بیہقی میں بھی بروایت عبد الرحمن بن زید بن اسلم مروی ہے اور وہ ضعیف ہیں، حافظ بیہقی فرماتے ہیں '' عبد الرحمان کے ساتھ ہی اسے اسماعیل بن ادریس اور عبداللہ بھی روایت کرتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں یہ دونوں بھی ضعیف ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے ضعف میں کمی بیشی ہے۔ '' لیمان بن بلال نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور وہ ہیں بھی ثقہ لیکن اس روایت کو بعض نے ابن عمر پر موقوف رکھا ہے۔ حافظ ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے۔ ابن ابی حاتم میں حضرت سدی بن عجلان سے مروی ہے کہ مجھے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم کی طرف بھیجا کہ میں انہیں اللہ کی طرف بلاؤں اور احکام اسلام ان کے سامنے پیش کروں۔ میں وہاں پہنچ کر اپنے کام میں مشغول ہوگیا، اتفاقاً ایک روز وہ ایک پیالہ خون کا بھر کر میرے سامنے آ بیٹھے اور حلقہ باندھ کر کھانے کے ارادے سے بیٹھے اور مجھے سے کہنے لگے آؤ سدی تم بھی کھالو میں نے کہا۔ تم غضب کر رہے ہو میں تو ان کے پاس سے آ رہا ہوں جو اس کا کھانا ہم سب پر حرام کرتے ہیں، تب تو وہ سب کے سب میری طرف متوجہ ہوگئے اور کہا پوری بات کہو تو میں نے یہی آیت حرمت علیکم المیتتہ والدم الخ، پڑھ کر سنا دی، یہ روایت ابن مردویہ میں بھی ہے اس میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ میں وہاں بہت دنوں تک رہا اور انہیں پیغام اسلام پہنچاتا رہا لیکن وہ ایمان نہ لائے، ایک دن جبکہ میں سخت پیاسا ہوا اور پانی بالکل نہ ملا تو میں نے ان سے پانی مانگا اور کہا کہ پیاس کے مارے میرا برا حال ہے، تھوڑا سا پانی پلا دو ، لیکن کسی نے مجھے پانی نہ دیا، بلکہ کہا ہم تو تجھے یونہی پیاسا ہی تڑپا تڑپا کر مار ڈالیں گے، میں غمناک ہو کر دھوپ میں تپتے ہوئے انگاروں جیسے سنگریزوں پر اپنا کھردرا کمبل منہ پر ڈال کر اسی سخت گرمی میں میدان میں پڑا رہا، اتفاقاً میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بہترین جام لئے ہوئے اور اس میں بہترین خوش ذائقہ مزیدار پینے کی چیز لئے ہوئے میرے پاس آیا اور جام میرے ہاتھ میں دے دیا، میں نے خوب پیٹ بھر کر اس میں سے پیا، وہیں آنکھ کھل گئی تو اللہ کی قسم مجھے مطلق پیاس نہ تھی بلکہ اس کے بعد سے لے کر آج تک مجھے کبھی پیاس کی تکلیف ہی نہیں ہوئی، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پیاس ہی نہیں لگی۔ یہ لوگ میرے جاگنے کے بعد آپس میں کہنے لگے کہ آخر تو یہ تمہاری قوم کا سردار ہے، تمہارا مہمان بن کر آیا ہے، اتنی بےرخی بھی ٹھیک نہیں کہ ایک گھونٹ پانی بھی ہم اسے نہ دیں، چناچہ اب یہ لوگ میرے پاس کچھ لے کر آئے، میں نے کہا اب تو مجھے کوئی حاجت نہیں، مجھے میرے رب نے کھلا پلا دیا، یہ کہہ کر میں نے انہیں اپنا بھرا ہوا پیٹ دکھا دیا، اس کرامت کو دیکھ کر وہ سب کے سب مسلمان ہوگئے '' اعشی نے اپنے قصیدے میں کیا ہی خواب کہا ہے کہ مردار کے قریب بھی نہ ہو اور کسی جانور کی رگ کاٹ کر خون نکال کر نہ پی اور پرستش گاہوں پر چڑھا ہوا نہ کھا اور اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کر، صرف اللہ ہی کی عبادت کیا کر لحکم الحنزیر حرام ہے خواہ وہ جنگلی ہو، لفظ لحکم شامل ہے اس کے تمام اجزاء کو، جس میں چربی بھی داخل ہے پس ظاہر یہ کی طرح تکلفات کرنے کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ دوسری آیت میں سے فانہ رجس لے کر ضمیر کا مرجع خنزیر کو بتلاتے ہیں تاکہ اس کے تمام اجزاء حرمت میں آجائیں۔ در حقیقت یہ لغت سے بعید ہے مضاف الیہ کی طرف سے ایسے موقعوں پر ضمیر پھرتی ہی نہیں، صرف مضاف ہی ضمیر کا مرجع ہوتا ہے۔ صاف ظاہر بات یہی ہے کہ لفظ لحم شامل ہے تمام اجزاء کو۔ لغت عرب کا مفہوم اور عام عرف یہی ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق '' شطرنج کھیلنے والا اپنے ہاتھوں کو سور کے گوشت و خون میں رنگنے والا ہے۔ خیال کیجئے کہ صرف چھونا بھی شرعاً کس قدر نفرت کے قابل ہے، تو پھر کھانے کیلئے بیحد برا ہونے میں کیا شک رہا ؟ '' اور اس میں یہ دلیل بھی ہے کہ لفظ لحم شامل ہے تمام اجزاء کو خواہ چربی ہو خواہ اور بخاری و مسلم میں ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے شراب، مردار، خنزیر بتوں کی تجارت کی ممانعت کردی ہے، پوچھا گیا کہ '' یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردار کی چربی کے بارے میں کیا ارشاد ہے ؟ '' وہ کشتیوں پر چڑھائی جاتی ہے، کھالوں پر لگائی جاتی ہے اور چراغ جلانے کے کام بھی آتی ہے۔ آپ نے فرمایا '' نہیں ! وہ حرام ہے '' صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ابو سفیان نے ہرقل سے کہا '' وہ (نبی) ہمیں مردار سے اور خون سے روکتا ہے۔ '' وہ جانور بھی حرام ہے جس کو ذبح کرنے کے وقت اللہ کے سوا دوسرے کا نام لیا جائے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر اسے فرض کردیا وہ اسی کا نام لے کر جانور کو ذبح کرے، پس اگر کوئی اس سے ہٹ جائے اور اس کے نام پاک کے بدلے کسی بت وغیرہ کا نام لے، خواہ وہ مخلوق میں سے کوئی بھی ہو تو یقینا وہ جانور بالا جماع حرام ہوجائے گا، ہاں جس جانور کے ذبیحہ کے وقت بسم اللہ کہنا رہ جائے، خواہ جان بوجھ کر خواہ بھولے چوکے سے وہ حرام ہے یا حلال ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے جس کا بیان سورة ئ انعام میں آئیگا۔ حضرت ابو الطفیل فرماتے ہیں '' حضرت آدم کے وقت سے لے کر آج تک یہ چاروں چیزیں حرام رہیں، کس وقت ان میں سے کوئی بھی حلال نہیں ہوئی \0\01 مردار \0\02 خون \0\03 سور کا گوشت \0\04 اور اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی چیز۔ البتہ بنو اسرائیل کے گناہگاوں کے گناہوں کی وجہ سے بعض غیر حرام چیزیں بھی ان پر حرام کردی گئی تھیں۔ پھر حضرت عیسیٰ کے ذریعہ وہ دوبارہ حلال کردی گئیں، لیکن بنو اسرائیل نے آپ کو سچا نہ جانا اور آپ کی مخالفت کی '' (ابن ابی حاتم) یہ اثر غرب ہے۔ حضرت علی جب کوفے کے حاکم تھے اس وقت ابن نائل نامی قبیلہ بنو رباح کا ایک شخص جو شاعر تھا، فرزوق کے دادا غالب کے مقابل ہوا اور یہ شرط ٹھہری کہ دونوں آمنے سامنے ایک ایک سو اونٹوں کی کوچیں کاٹیں گے، چناچہ کوفے کی پشت پر پانی کی جگہ پر جب ان کے اونٹ آئے تو یہ اپنی تلواریں لے کر کھڑے ہوگئے اور اونٹوں کی کوچیں کاٹنی شروع کیں اور دکھاوے، سناوے اور فخریہ ریاکاری کیلئے دونوں اس میں مشغول ہوگئے کو فیوں کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ اپنے گدھوں اور خچروں پر سوار ہو کر گوشت لینے کیلئے آنا شروع ہوئے، اتنے میں جناب علی مرتضیٰ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفید خچر پر سوار ہو کر یہ منادی کرتے ہوئے وہاں پہنچے کہ لوگو یہ گوشت نہ کھانا یہ جانور ما اہل بھالغیر اللہ میں شامل ہیں۔ (ابن ابی حاتم) یہ اثر بھی غریب ہے ہاں اس کی صحت کی شاہد وہ حدیث ہے جو ابو داؤد میں ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعراب کی طرف مقابلہ میں کوچیں کاٹنے سے ممانعت فرما دی، پھر ابو داؤد نے فرمایا کہ محمد بن جعفر نے اسے ابن عباس پر وقف کیا ہے۔ ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں شخصوں کا کھانا کھانا منع فرما دیا جو آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا اور ریا کاری کرنا چاہتے ہوں۔ مخنقہ جس کا گلا گھٹ جائے خواہ کسی نے عمداگلا گھونٹ کر گلا مروڑ کر اسے مار ڈالا ہو، خواہ از خود اس کا گلا گھٹ گیا ہو۔ مثلاً اپنے کھوٹنے میں بندھا ہوا ہے اور بھاگنے لگا، پھندا گلے میں پڑگیا اور کھچ کھچاؤ کرتا ہوا مرگیا پس یہ حرام ہے۔ موقودہ وہ ہے جس جانور کو کسی نے ضرب لگائی، لکڑی وغیرہ ایسی چیز سے جو دھاری دار نہیں لیکن اسی سے وہ مرگیا، تو وہ بھی حرام ہے، جاہلیت میں یہ بھی دستور تھا کہ جانور کو لٹھ سے مار ڈالتے اور پھر کھاتے۔ لیکن قرآن نے ایسے جانور کو حرام بتایا۔ صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عدی بن حاتم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کی کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں معراض سے شکار کھیلتا ہوں تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا جب تو اسے پھینکے اور وہ جانور کو زخم لگائے تو کھا سکتا ہے اور اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگے تو وہ جانور کی جانب سے لگا ہو فرق کیا۔ اول کو حلال اور دوسرے کو حرام۔ فقہا کے نزدیک بھی یہ مسئلہ متفق علیہ ہے۔ ہاں اختلاف اس میں ہے کہ جب کسی زخم کرنے والی چیز نے شکار کو صدمہ تو پہنچایا لیکن وہ مرا ہے اس کے بوجھ اور چوڑائی کی طرف سے تو آیا یہ جانور حلال ہے یا حرام۔ امام شافعی کے اس میں دونوں قول ہیں، ایک تو حرام ہونا اوپر والی حدیث کو سامنے رکھ کر۔ دوسرے حلال کرنا کتے کے شکار کی حلت کو مدنظر رکھ کر۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل ملا حظہ ہو۔ (فصل) علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی شخص نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا اور کتے نے اسے اپنی مار سے اور بوجھ سے مار ڈالا، زخمی نہیں کیا تو وہ حلال ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ یہ حلال ہے کیونکہ قرآن کے الفاظ عام ہیں فکلوا مما امسکن علیکم یعنی وہ جن جانوروں کو روک لیں تم انہیں کھا سکتے ہو۔ اسی طرح حضرت عدی وغیرہ کی صحیح حدیثیں بھی عام ہی ہیں۔ امام شافعی کے ساتھیوں نے امام صاحب کا یہ قول نقل کیا ہے اور متاخرین نے اس کی صحت کی ہے، جیسے نووی اور رافعی مگر میں کہتا ہوں کہ گو یوں کہا جاتا ہے لیکن امام صاحب کے کلام سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا۔ ملاحظہ ہو کتاب الام اور مختصر ان دونوں میں جو کلام ہے وہ دونوں معنی کا احتمال رکھتا ہے۔ پس دونوں فریقوں نے اس کی توجیہہ کرکے دونوں جانب علی الاطلاق ایک قول کہہ دیا۔ ہم تو بصد مشکل صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس بحث میں حلال ہونے کے قول کی حکایت کچھ قدرے قلیل زخم کا ہونا بھی ہے۔ گو ان دونوں میں سے کسی کی تصریح نہیں، اور وہ کسی کی مضبوط رائے، ابن الصباح نے امام ابوحنیفہ سے حلال ہونے کا قول نقل کیا ہے اور دوسرا کوئی قول ان سے نقل نہیں کیا اور امام ابن جریر ابن اپنی تفسیر میں اس قوت کو حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوہریرہ، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت ابن عمر نے نقل کیا ہے لیکن یہ بہت غریب ہے اور دراصل ان بزرگوں سے صراحت کے ساتھ یہ اقوال نہیں پائے جاتے۔ یہ صرف اپنا تصرف ہے واللہ اعلم۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ حلال نہیں، حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول یہ ہے، مزنی نے روایت کیا ہے اور یہی مشہور ہے امام احمد بن حنبل سے اور یہی قول ٹھیک ہونے سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے واللہ اعلم۔ اس لئے کہ اصولی قواعد اور احکام شرعی کے مطابق یہی جاری ہے۔ ابن الصباغ نے حضرت رافع بن خدیج کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کل دشمنوں سے بھڑنے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں تو کیا ہم تیز بانس سے ذبح کرلیا کریں ؟ آپ نے فرمایا جو چیز خون بہائے اور اس کے اوپر اللہ کا نام ذکر کیا جائے اسے کھالیا کرو (بخاری مسلم) یہ حدیث گو ایک خاص موقعہ کیلئے ہے لیکن عام الفاظ کا حکم ہوگا، جیسے کہ جمہور علماء اصول و فروغ کا فرمان ہے۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ تبع جو شہد کی نبیذ سے ہے، اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا ہر وہ پینے کی چیز جو نشہ لائے حرام ہے، پس یہاں سوال ہے شہد کی نبیذ سے لیکن جو اب کے الفاظ عام ہیں اور مسئلہ بھی ان سے عام سمجھا گیا، اسی طرح اوپر والی حدیث ہے کہ گو سوال ایک خاص نوعیت میں ذبح کرنے کا ہے لیکن جواب کے الفاظ اسی اور اس کے سوا کی عام نوعیتوں پر مشتمل ہیں، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بھی ایک خاص معجزہ ہے کہ الفاظ تھوڑے اور معافی بہت، اسے ذہن میں رکھنے کے بعد اب غور کیجئے کہ کتے کے صدمے سے جو شکار مرجائے یا اس کے بوجھ یا تھپڑ کی وجہ سے شکار کا دم نکل جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کا خون کسی چیز سے نہیں بہا، پس اس حدیث کے مفہوم کی بناء پر وہ حلال نہیں ہوسکتا، اس پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس حدیث کو کتے کے شکار کے مسئلہ سے دور کا تعلق بھی نہیں، اس لئے کہ سائل نے ذبح کرنے کے ایک آلے کی نسبت سوال کیا تھا۔ ان کا سوال اس چیز کی نسبت نہ تھا، جس سے ذبح کیا جائے، اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دانت اور ناخن کو مستثنیٰ کی دلالت جنس مستثنیٰ منہ پر ہوا کرتی ہے، ورنہ متصل نہیں مانا جاسکتا، پس ثابت ہوا کہ سوال آلہ ذبح کا ہی تھا تو اب کوئی دلالت تمہارے قول پر باقی نہیں رہی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جواب کے جملے کو دیکھو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ جو چیز خون بہا دے اور اس پر نام اللہ بھی لیا گیا ہو، اسے کھالو۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس کے ساتھ ذبح کرلو۔ پس اس جملہ سے دو حکم ایک ساتھ معلوم ہوتا ہیں، ذبح کرنے کے آلہ کا حکم بھی اور خود ذبیحہ کا حکم بھی اور یہ کہ اس جانور کا خون کسی آلہ سے بہانا ضروری ہے، جو دانت اور ناخن کے سوا ہو۔ ایک مسلک تو یہ ہے۔ دوسرا مسلم جو مزنی کا ہے وہ یہ کہ تیر کے بارے میں صاف لفظ آچکے کہ اگر وہ اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہے اور جانور مرگیا ہے تو نہ کھاؤ اور اگر اس نے اپنی دھار اور انی سے زخم کیا ہے پھر مرا ہے تو کھالو اور کتے کے بارے میں علی الاطلاق احکام ہیں پس چونکہ موجب یعنی شکار دونوں جگہ ایک ہی ہے تو مطلق کا حکم بھی مقید پر محمول ہوگا گو سبب الگ الگ ہوں۔ جیسے کہ ظہار کے وقت آزادگی گردن جو مطلق ہے محمول کی جاتی ہے قتل کی آزادگی گردن پر جو مقید ہے ایمان کے ساتھ۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرورت شکار کے اس مسئلہ میں ہے یہ دلیل ان لوگوں پر یقینا بہت بڑی حجت ہے جو اس قاعدہ کی اصل کو مانتے ہیں اور چونکہ ان لوگوں میں اس قاعدے کے مسلم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں تو ضروری ہے کہ یا تو وہ اسے تسلیم کریں ورنہ کوئی پختہ جواب دیں۔ علاوہ ازیں فریق یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ چونکہ اس شکار کو کتے نے بوجہ اپنے ثقل کے مار ڈالا ہے اور یہ ثابت ہے کہ تیر جب اپنی چوڑائی سے لگ کر شکار کو مار ڈالے تو وہ حرام ہوجاتا ہے پس اس پر قیاس کر کے کتے کا یہ شکار بھی حرام ہوگیا کیونکہ دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ دونوں شکار کے آلات ہیں اور دونوں نے اپنے بوجھ اور زور سے شکار کی جان لی ہے اور آیت کا عموم اس کے معارض نہیں ہوسکتا کیونکہ عموم پر قیاس مقدم ہے جیسا کہ چاروں اماموں اور جمہور کا مذہب ہے۔ یہ مسلک بھی بہت اچھا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان آیت ( فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5 ۔ المائدہ :4) یعنی شکار کتے جس جانور کو روک رکھیں اس کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے، یہ عام نوعیت پر یعنی اسے بھی جسے زخم کیا ہو اور اس کے سوا کو بھی، لیکن جس صورت پر اس وقت بحث ہے وہ یا تو ٹکر لگا ہوا ہے یا اس کے حکم پر یا گلا گھونٹا ہوا ہے یا اس کے حکم میں، بہر صورت اس آیت کی تقدیم ان وجوہ پر ضرور ہوگی۔ اولاً تو یہ کہ شارع نے اس آیت کا حکم شکار کی حالت میں معتبر مانا ہے۔ کیونکہ حضرت عدی بن حاتم سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فرمایا اگر وہ چوڑائی کی طرف سے لگا ہے تو وہ لٹھ مارا ہوا ہے اسے نہ کھاؤ۔ جہاں تک ہمارا علم ہے ہم جانتے ہیں کہ کسی عالم نے یہ نہیں کہا کہ لٹھ سے اور مار سے مرا ہوا تو شکار کی حالت میں معتبر ہو اور سینگ اور ٹکر لگا ہوا معتبر نہ ہو۔ پس جس صورت میں اس وقت بحث ہو رہی ہے اس جانور کو حلال کہنا اجماع کو توڑنا ہوگا، جسے کوئی بھی جائز نہیں کہہ سکتا بلکہ اکثر علماء اسے ممنوع بتاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ آیت ( فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ) 5 ۔ المائدہ :4) اپنے عموم پر باقی نہیں اور اس پر اجتماع ہے، بلکہ آیت سے مراد صرف حلال حیوان ہیں۔ تو اس کے عام الفاظ سے وہ حیوان جن کا کھانا حرام ہے بالاتفاق نکل گئے اور یہ قاعدہ ہے کہ عموم محفوظ عموم غیر محفوظ پر مقدم ہوتا ہے۔ ایک تقریر اسی مسئلہ میں اور بھی گوش گزار کرلیجئے کہ اس طرح کا شکار میتہ کے حکم میں ہے، پس جس وجہ سے مردار حرام ہے، وہی وجہ یہاں بھی ہے تو یہ بھی اسی قیاس سے حلال نہیں۔ ایک اور وجہ بھی سنئے کہ حرمت کی آیت (حرمت) الخ، بالکل محکم ہے، اس میں کسی طرح نسخ کا دخل نہیں، نہ کوئی تخصیص ہوئی ہے، ٹھیک اسی طرح آیت تحلیل بھی محکم ہی ہونی چاہئے۔ یعنی فرمان باری تعالیٰ آیت (يَسْـــَٔلُوْنَكَ مَاذَآ اُحِلَّ لَهُمْ ۭقُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ ) 5 ۔ المائدہ :4) لوگ تجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کیلئے حلال کیا ہے تو کہہ دے کہ تمام طیب چیزیں تمہارے لئے حلال ہیبں۔ جب دونوں آیتیں محکم اور غیر منسوخ ہیں تو یقینا ان میں تعارض نہ ہونا چاہئے لہذا حدیث کو اس کی وضاحت کیلئے سمجھنا چاہئے اور تیر کا واقعہ اسی کی شہادت دیتا ہے، جس میں یہ بیان کیا ہے کہ اس آیت میں یہ صورت واضح طور پر شامل ہے کہ آنی اور دھار تیزی کی طرف سے زخم کرے تو جانور حلال ہوگا، کیونکہ وہ (طیبات) میں آگیا۔ ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی بیان کردیا گیا کہ آیت تحریم میں کونسی صورت شامل ہے۔ یعنی وہ صورت جس میں جانور کی موت تیر کی چوڑائی کی چوٹ سے ہوئی ہے، وہ حرام ہوگیا جسے کھایا نہیں جائیگا۔ اس لئے کہ وہ وقیذ ہے اور وقیذ آیت تحریم کا ایک فرد ہے، ٹھیک اسی طرح اگر شکاری کتے نے جانور کو اپنے دباؤ زور بوجہ اور سخت پکڑ کی وجہ سے مار ڈالا ہے تو وہ نطیح ہے یا فطیح یعنی ٹکر اور سینگ لگے ہوئے کے حکم میں ہے اور حلال نہیں، ہاں اگر اسے مجروح کیا ہے تو وہ آیت تحلیل کے حکم میں ہے اور یقینا حلال ہے۔ اس پر اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر یہی مقصود ہوتا تو کتے کے شکار میں بھی تفصیل بیان کردی جاتی اور فرما دیا جاتا کہ اگر وہ جانور کو چیرے پھاڑے، زخمی کرے تو حلال اور اگر زخم نہ لگائے تو حرام۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ کتے کا بغیر زخمی کئے قتل کرنا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اس کی عادت یہ نہیں بلکہ عادت تو یہ ہے کہ اپنے پنجوں یا کچلیوں سے ہی شکار کو مارے یا دونوں سے، بہت کم کبھی کبھی شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے دباؤ اور بوجھ سے شکار کو مار ڈالے، اس لئے اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ اس کا حکم بیان کیا جائے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب آیت تحریم میں میتہ، موقوذہ، متردیہ، نطیحہ کی حرمت موجود ہے تو اس کے جاننے والے کے سامنے اس قسم کے شکار کا حکم بالکل ظاہر، تیر اور معراض میں اس حکم کو اس لئے الگ بیان کردیا کہ وہ عموماً خطا کرجاتا ہے بالخصوص اس شخص کے ہاتھ سے جو قادر تیر انداز نہ ہو یا نشانے میں خطا کرتا ہو، اس لئے اس کے دونوں حکم تفصیل وار بیان فرما دیئے واللہ اعلم۔ دیکھئے چونکہ کتے کے شکار میں یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے وہ اپنے کئے ہوئے شکار میں سے کچھ کھالے، اس لئے یہ حکم صراحت کے ساتھ الگ بیان فرما دیا اور ارشاد ہوا کہ اگر وہ خود کھالے تو تم اسے نہ کھاؤ، ممکن ہے کہ اس نے خود اپنے لئے ہی شکار کو روکا ہو۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے اور یہ صورت اکثر حضرات کے نزدیک آیت تحلیل کے عموم سے مخصوص ہے اور ان کا قول ہے کہ جس شکار کو کتا کھالے اس کا کھانا حلال نہیں، حضرت ابوہریرہ حضرت ابن عباس سے یہی روایت کیا جاتا ہے۔ حضرت حسن، شعبی اور نخعی کا قول بھی یہی ہے اور اسی کی طرف ابو حنیفہ، ان کے دونوں اصحاب، احمد بن حنبل اور مشہور روایت میں شافعی بھی گئے ہیں۔ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں علی، سعد، سلمان، ابوہریرہ، ابن عمر اور ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ گو کتے نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تاہم اسے کھا لینا جائز ہے، بلکہ حضرت سعد، حضرت سلمان، حضرت ابوہریرہ وغیرہ فرماتے ہیں گو کتا آدھا حصہ کھا گیا ہو تاہم اس شکار کا کھا لینا جائز ہے۔ امام مالک اور شافعی بھی اپنے قدیم قول میں اسی طرف گئے ہیں اور قول جدید میں دونوں قولوں کی طرف اشارہ کیا ہے، جیسے کہ امام ابو منصور بن صباغ وغیرہ نے کہا ہے۔ ابو داؤد میں قوی سند سے مروی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا '' جب تو اپنے کتے کو چھوڑے اور اللہ کا نام تو نے لے لیا ہو تو کھالے، گو اس نے بھی اس میں سے کھالیا ہو اور کھالے اس چیز کو جسے تیرا ہاتھ تیری طرف لوٹا لائے '' نسائی میں بھی یہ روایت ہے۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کسی شخص نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا، اس نے شکار کو پکڑا اور اس کا کچھ گوشت کھالیا تو اسے اختیار ہے کہ باقی جانور یہ اپنے کھانے کے کام میں لے۔ اس میں اتنی علت ہے کہ یہ موقوفاً حضرت سلمان کے قول سے مروی ہے، جمہور نے عدی والی حدیث کو اس پر مقدم کیا ہے اور ابو عجلہ وغیرہ کی حدیث کو ضعیف بتایا ہے۔ بعض علماء کرام نے اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے، جب کتے نے شکار پکڑا اور دیر تک اپنے مالک کا انتظار کیا، جب وہ نہ آیا تو بھوک وغیرہ کے باعث اس نے کچھ کھالیا اس صورت میں یہ حکم ہے کہ باقی کا گوشت مالک کھالے کیونکہ ایسی حالت میں یہ ڈر باقی نہیں رہتا کہ شاید کتا ابھی شکار کا سدھارا ہوا نہیں، ممکن ہے اس نے اپنے لئے ہی شکار کیا ہو، بخلاف اس کے کہ کتے نے پکڑتے ہی کھانا شروع کردیا تو اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس نے اپنے لئے ہی شکار دبوچا ہے واللہ اعلم۔ اب رہے شکاری پرند تو امام شافعی نے صاف کہا ہے کہ یہ کتے کے حکم میں ہیں۔ تو اگر یہ شکار میں سے کچھ کھا لیں تو شکار کا کھانا جمہور کے نزدیک تو حرام ہے اور دیگر کے نزدیک حلال ہے، ہاں مزنی کا مختار یہ ہے کہ گوشکاری پرندوں نے شکار کا گوشت کھالیا ہو تاہم وہ حرام نہیں۔ یہی مذہب ابوحنیفہ اور احمد کا ہے۔ اس لئے کہ پرندوں کو کتوں کی طرح مار پیٹ کر سدھا بھی نہیں سکتے اور وہ تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتا جب تک اسے کھائے نہیں، یہاں بات معاف ہے اور اس لئے بھی کہ نص کتے کے بارے میں وارد ہوئی ہے