مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ۛ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِى الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا ۗ وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا ۗ وَلَـقَدْ جَاۤءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِى الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ "جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی" مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں
English Sahih:
Because of that, We decreed upon the Children of Israel that whoever kills a soul unless for a soul or for corruption [done] in the land – it is as if he had slain mankind entirely. And whoever saves one – it is as if he had saved mankind entirely. And Our messengers had certainly come to them with clear proofs. Then indeed many of them, [even] after that, throughout the land, were transgressors.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ "جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی" مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا سب لوگوں کو جلالیا، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے پھر بیشک ان میں بہت اس کے بعد زمین میں زیادتی کرنے والے ہیں
احمد علی Ahmed Ali
اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی اورہمارے رسولوں ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں سے بہت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا (١) اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے (٢)۔
٣٢۔١ اس قتل ناحق کے بعد اللہ تعالٰی نے انسانی جان کی قدر وقیمت کو واضح کرنے کے لئے بنو اسرائیل پر یہ حکم نازل فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے ہاں انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے اور یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے نہیں تھا، اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لئے ہے۔ سلیمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (بصری) سے پوچھا یہ آیت ہمارے لئے بھی ہے جس طرح بنو اسرائیل کے لئے تھی، انہوں نے فرمایا، ہاں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بنو اسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے (تفسیر ابن کثیر)
٣٢۔٢ اس میں یہود کو تنبیہ اور ملامت ہے کہ ان کے پاس انبیاء دلائل لے کر آتے رہے۔ لیکن ان کا رویہ ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والا ہی رہا اس میں گویا نبی کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ آپ کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کی جو سازش کرتے رہتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، ان کی ساری تاریخ ہی مکرو وفساد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ بہرحال اللہ پر بھروسہ رکھیں جو خیرالماکرین ہے۔ تمام سازشوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حدِ اعتدال سے نکل جاتے ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وه کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے واﻻ ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے، اس نے گویا تمام لوگوں کو زنده کردیا اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ﻇاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں کے اکثر لوگ زمین میں ﻇلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کسی انسان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد برپا کیا ہو، تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک جان کو بچا لیا، تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس نے تمام انسانوں کو بچا لیا اور بے شک ان (بنی اسرائیل) کے پاس ہمارے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے۔ پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں ظلم و تعدی کرنے والے ہی رہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اسی بنا پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو .... کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی اور بنی اسرائیل کے پاس ہمارے رسول کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے مگر اس کے بعد بھی ان میں کے اکثر لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہی رہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
ایک بےگناہ شخص کا قتل تمام انسانوں کا قتل
فرمان ہے کہ حضرت آدم کے اس لڑکے کے قتل بیجا کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل سے صاف فرما دیا ان کی کتاب میں لکھ دیا اور ان کیلئے اس حکم کو حکم شرعی کردیا کہ " جو شخص کسی ایک کو بلا وجہ مار ڈالے نہ اس نے کسی کو قتل کیا تھا نہ اس نے زمین میں فساد پھیلایا تھا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا، اس لئے کہ اللہ کے نزدیک ساری مخلوق یکساں ہے اور جو کسی بےقصور شخص کے قتل سے باز رہے اسے حرام جانے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندگی، اس لئے کہ یہ سب لوگ اس طرح سلامتی کے ساتھ رہیں گے "۔ امیر المومنین حضرت عثمان کو جب باغی گھیر لیتے ہیں، تو حضرت ابوہریرہ ان کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں میں آپ کی طرف داری میں آپ کے مخالفین سے لڑنے کیلئے آیا ہوں، آپ ملاحظہ فرمایئے کہ اب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے، یہ سن کر معصوم خلیفہ نے فرمایا، کیا تم اس بات پر آمادہ ہو کہ سب لوگوں کو قتل کردو، جن میں ایک میں بھی ہوں۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا نہیں نہیں، فرمایا سنو ایک کو قتل کرنا ایسا برا ہے جیسے سب کو قتل کرنا۔ جاؤ واپس لوٹ جاؤ، میری یہی خواہش ہے اللہ تمہیں اجر دے اور گناہ نہ دے، یہ سن کر آپ واپس چلے گئے اور نہ لڑے۔ مطلب یہ ہے کہ قتل کا اجر دنیا کی بربادی کا باعث ہے اور اس کی روک لوگوں کی زندگی کا سبب ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں " ایک مسلمان کا خون حلال کرنے والا تمام لوگوں کا قاتل ہے اور ایک مسلم کے خون کو بچانے والا تمام لوگوں کے خون کو گویا بچا رہا ہے "۔ ایک مسلمان کا خون حلال کرنے والا تمام لوگوں کا قاتل ہے اور ایک مسلم کے خون کو بچانے والا تمام لوگوں کے خون کو گویا بچا رہا ہے "۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ " نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور عادل مسلم بادشاہ کو قتل کرنے والے پر ساری دنیا کے انسانوں کے قتل کا گناہ ہے اور نبی اور امام عادل کے بازو کو مضبوط کرنا دنیا کو زندگی دینے کے مترادف ہے " (ابن جریر) ایک اور روایت میں ہے کہ " ایک کو بےوجہ مار ڈالتے ہی جہنمی ہوجاتا ہے گویا سب کو مار ڈالا "۔ مجاہد فرماتے ہیں " مومن کو بےوجہ شرعی مار ڈالنے والا جہنمی دشمن رب، ملعون اور مستحق سزا ہوجاتا ہے، پھر اگر وہ سب لوگوں کو بھی مار ڈالتا تو اس سے زیادہ عذاب اسے اور کیا ہوتا ؟ جو قتل سے رک جائے گویا کہ اس کی طرف سے سب کی زندگی محفوظ ہے "۔ عبد الرحمن فرماتے ہیں " ایک قتل کے بدلے ہی اس کا خون حلال ہوگیا، یہ نہیں کہ کئی ایک کو قتل کرے، جب ہی وہ قصاص کے قابل ہو، اور جو اسے زندگی دے یعنی قاتل کے ولی سے درگزر کرے اور اس نے گویا لوگوں کو زندگی دی "۔ اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ جس نے انسان کی جان بچا لی مثلاً ڈوبتے کو نکال لیا، جلتے کو بچا لیا، کسی کو ہلاکت سے ہٹا لیا۔ مقصد لوگوں کو خون ناحق سے روکنا اور لوگوں کی خیر خواہی اور امن وامان پر آمادہ کرنا ہے۔ حضرت حسن سے پوچھا گیا کہ " کیا بنی اسرائیل جس طرح اس حکم کے مکلف تھے، ہم بھی ہیں، فرمایا ہاں یقینا اللہ کی قسم ! بنو اسرائیل کے خون اللہ کے نزدیک ہمارے خون سے زیادہ بوقعت نہ تھے، پس ایک شخص کا بےسبب قتل سب کے قتل کا بوجھ ہے اور ایک کی جان کے بچاؤ کا ثواب سب کو بچا لینے کے برابر ہے "۔ ایک مرتبہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ میری زندگی با آرام گزرے۔ آپ نے فرمایا کیا کسی کو مار ڈالنا تمہیں پسند ہے یا کسی کو بچا لینا تمہیں محبوب ہے ؟ جواب دیا بچا لینا، فرمایا " بس اب اپنی اصلاح میں لگے رہو "۔ پھر فرماتا ہے ان کے پاس ہمارے رسول واضح دلیلیں اور روشن احکام اور کھلے معجزات لے کر آئے لیکن اس کے بعد بھی اکثر لوگ اپنی سرکشی اور دراز دستی سے باز نہ رہے۔ بنو قینقاع کے یہود و بنو قریظہ اور بنو نضیر وغیرہ کو دیکھ لیجئے کہ اوس اور خزرج کے ساتھ مل کر آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے تھے اور لڑائی کے بعد پھر قیدیوں کے فدیئے دے کر چھڑاتے تھے اور مقتول کی دیت ادا کرتے تھے۔ جس پر انہیں قرآن میں سمجھایا گیا کہ تم سے عہد یہ لیا گیا تھا کہ نہ تو اپنے والوں کے خون بہاؤ، نہ انہیں دیس سے نکالو لیکن تم نے باوجود پختہ اقرار اور مضبوط عہد پیمان کے اس کے خلاف گو فدیئے ادا کئے لیکن نکالنا بھی تو حرام تھا، اس کے کیا معنی کہ کسی حکم کو مانو اور کسی سے انکار کر، ایسے لوگوں کو سزا یہی ہے کہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہوں اور آخرت میں سخت تر عذابوں کا شکار ہوں، اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں۔ (محاربہ) کے معنی حکم کے خلاف کرنا، برعکس کرنا، مخالفت پر تل جانا ہیں۔ مراد اس سے کفر، ڈاکہ زنی، زمین میں شورش و فساد اور طرح طرح کی بدامنی پیدا کرنا ہے، یہاں تک کہ سلف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سکے کو توڑ دینا بھی زمین میں فساد مچانا ہے۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے جب وہ کسی اقتدار کے مالک ہوجاتے ہیں تو فساد پھیلا دیتے ہیں اور کھیت اور نسل کو ہلاک کرنے لگتے ہیں اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس لئے کہ اس میں یہ بھی ہے کہ جب ایسا شخص ان کاموں کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہونے سے پہلے ہی توبہ تلا کرلے تو پھر اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں، برخلاف اس کے اگر مسلمان ان کاموں کو کرے اور بھاگ کر کفار میں جا ملے تو حد شرعی سے آزاد نہیں ہوتا۔ ابن عباس فرماتے ہیں " یہ آیت مشرکوں کے بارے میں اتری ہے، پھر ان میں سے جو کئی مسلمان کے ہاتھ آجانے سے پہلے توبہ کرلے تو جو حکم اس پر اس کے فعل کے باعث ثابت ہوچکا ہے وہ ٹل نہیں سکتا "۔
فساد اور قتل و غارت
حضرت ابی سے مروی ہے کہ اہل کتاب کے ایک گروہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ ہوگیا تھا لیکن انہوں نے اسے توڑ دیا اور فساد مچا دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا کہ اگر آپ چاہیں تو انہیں قتل کردیں، چاہیں تو الٹے سیدھے ہاتھ پاؤں کٹوا دیں۔ حضرت سعد فرماتے ہیں " یہ حروریہ خوارج کے بارے میں نازل ہوئی ہے "۔ صحیح یہ ہے کہ جو بھی اس فعل کا مرتکب ہو اس کیلئے یہ حکم ہے۔ چناچہ بخاری مسلم میں ہے کہ " قبیلہ عکل کے آٹھ آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، آپ نے ان سے فرمایا اگر تم چاہو تو ہمارے چرواہوں کے ساتھ چلے جاؤ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب تمہیں ملے گا چناچہ یہ گئے اور جب ان کی بیماری جاتی رہی تو انہوں نے ان چرواہوں کو مار ڈالا اور اونٹ لے کر چلتے بنے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے صحابہ کو ان کے پیچھے دوڑایا کہ انہیں پکڑ لائیں، چناچہ یہ گرفتار کئے گئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کئے گئے۔ پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے اور آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں اور دھوپ میں پڑے ہوئے تڑپ تڑپ کر مرگئے "۔ مسلم میں ہے یا تو یہ لوگ عکل کے تھے یا عرینہ کے۔ یہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہ دیا گیا نہ ان کے زخم دھوئے گئے۔ انہوں نے چوری بھی کی تھی، قتل بھی کیا تھا، ایمان کے بعد کفر بھی کیا تھا اور اللہ رسول سے لڑتے بھی تھے۔ انہوں نے چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں بھی پھیری تھیں، مدینے کی آب و ہوا اس وقت درست نہ تھی، سرسام کی بیماری تھی، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پیچھے بیس انصاری گھوڑ سوار بھیجے تھے اور ایک کھوجی تھا، جو نشان قدم دیکھ کر رہبری کرتا جاتا تھا۔ موت کے وقت ان کی پیاس کے مارے یہ حالت تھی کہ زمین چاٹ رہے تھے، انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ ایک مرتبہ حجاج نے حضرت انس سے سوال کیا کہ سب سے بڑی اور سب سے سخت سزا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو دی ہو، تم بیان کرو تو آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ یہ لوگ بحرین سے آئے تھے، بیماری کی وجہ سے ان کے رنگ زرد پڑگئے تھے اور پیٹ بڑھ گئے تھے تو آپ نے انہیں فرمایا کہ جاؤ اونٹوں میں رہو اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔ حضرت انس فرماتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ حجاج نے تو اس روایت کو اپنے مظالم کی دلیل بنا لی تب تو مجھے سخت ندامت ہوئی کہ میں نے اس سے یہ حدیث کیوں بیان کی ؟ اور روایت میں ہے کہ ان میں سے چار شخص تو عرینہ قبیلے کے تھے اور تین عکل کے تھے، یہ سب تندرست ہوگئے تو یہ مرتد بن گئے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ راستے بھی انہوں نے بند کردیئے تھے اور زنا کار بھی تھے، جب یہ آئے تو اب سب کے پاس بوجہ فقیری پہننے کے کپڑے تک نہ تھے، یہ قتل و غارت کر کے بھاگ کر اپنے شہر کو جا رہے تھے۔ حضرت جریر فرماتے ہیں کہ یہ اپنی قوم کے پاس پہنچنے والے تھے جو ہم نے انہیں جا لیا۔ وہ پانی مانگتے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے، اب تو پانی کے بدلے جہنم کی آگ ملے گی۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا اللہ کو ناپسند آیا، یہ حدیث ضعیف اور غریب ہے لیکن اس سے یہ معلوم ہوا کہ جو لشکر ان مرتدوں کے گرفتار کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا، ان کے سردار حضرت جریر تھے۔ ہاں اس روایت میں یہ فقرہ بالکل منکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا مکروہ رکھا۔ اس لئے کہ صحیح مسلم میں یہ موجود ہے کہ انہوں نے چرواہوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا، پس یہ اس کا بدلہ اور ان کا قصاص تھا جو انہوں نے ان کے ساتھ کیا تھا وہی ان کے ساتھ کیا گیا واللہ اعلم۔ اور روایت میں ہے کہ یہ لوگ بنو فزارہ کے تھے، اس واقعہ کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سزا کسی کو نہیں دی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک غلام تھا، جس کا نام یسار تھا چونکہ یہ بڑے اچھے نمازی تھے، اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں آزاد کردیا تھا اور اپنے اونٹوں میں انہیں بھیج دیا تھا کہ یہ ان کی نگرانی رکھیں، انہی کو ان مرتدوں نے قتل کیا اور ان کی آنکھوں میں کانٹے گاڑ کر اونٹ لے کر بھاگ گئے، جو لشکر انہیں گرفتار کر کے لایا تھا، ان میں ایک شاہ زور حضرت کرز بن جابر فہری تھے۔ حافظ ابوبکر بن مردویہ نے اس روایت کے تمام طریقوں کو جمع کردیا اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ ابو حمزہ عبد الکریم سے اونٹوں کے پیشاب کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ ان محاربین کا قصہ بیان فرماتے ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ یہ لوگ منافقانہ طور پر ایمان لائے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینے کی آب و ہوا کی ناموافقت کی شکایت کی تھی، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی دغا بازی اور قتل و غارت اور ارتداد کا علم ہوا، تو آپ نے منادی کرائی کہ اللہ کے لشکریو اٹھ کھڑے ہو، یہ آواز سنتے ہی مجاہدین کھڑے ہوگئے، بغیر اس کے کہ کوئی کسی کا انتظار کرے ان مرتد ڈاکوؤں اور باغیوں کے پیچھے دوڑے، خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کو روانہ کر کے ان کے پیچھے چلے، وہ لوگ اپنی جائے امن میں پہنچنے ہی کو تھے کہ صحابہ نے انہیں گھیر لیا اور ان میں سے جتنے گرفتار ہوگئے، انہیں لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کردیا اور یہ آیت اتری، ان کی جلاوطنی یہی تھی کہ انہیں حکومت اسلام کی حدود سے خارج کردیا گیا۔ پھر ان کو عبرتناک سزائیں دی گئیں، اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کے بھی اعضاء بدن سے جدا نہیں کرائے بلکہ آپ نے اس سے منع فرمایا ہے، جانوروں کو بھی اس طرح کرنا منع ہے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ قتل کے بعد انہیں جلا دیا گیا، بعض کہتے ہیں یہ بنو سلیم کے لوگ تھے۔ بعض بزرگوں کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو سزا انہیں دی وہ اللہ کو پسند نہ آئیں اور اس آیت سے اسے منسوخ کردیا۔ ان کے نزدیک گویا اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سزا سے روکا گیا ہے۔ جیسے آیت (عفا اللہ عنک) میں اور بعض کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثلہ کرنے سے یعنی ہاتھ پاؤں کان ناک کاٹنے سے جو ممانعت فرمائی ہے، اس حدیث سے یہ سزا منسوخ ہوگئی لیکن یہ ذرا غور طلب ہے پھر یہ بھی سوال طلب امر ہے کہ ناسخ کی تاخیر کی دلیل کیا ہے ؟ بعض کہتے ہیں حدود اسلام مقرر ہوں اس سے پہلے کا یہ واقعہ ہے لیکن یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا، بلکہ حدود کے تقرر کے بعد کا واقعہ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اس حدیث کے ایک راوی حضرت جریر بن عبداللہ ہیں اور ان کا اسلام سورة مائدہ کے نازل ہو چکنے کے بعد کا ہے۔ بعض کہتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنی چاہی تھیں لیکن یہ آیت اتری اور آپ اپنے ارادے سے باز رہے، لیکن یہ بھی درست نہیں۔ اس لئے کہ بخاری و مسلم میں یہ لفظ ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں سلائیں پھروائیں۔ محمد بن عجلان فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو سخت سزا انہیں دی، اس کے انکار میں یہ آیتیں اتری ہیں اور ان میں صحیح سزا بیان کی گئی ہے جو قتل کرنے اور ہاتھ پاؤں الٹی طرف سے کاٹنے اور وطن سے نکال دینے کے حکم پر شامل ہے چناچہ دیکھ لیجئے کہ اس کے بعد پھر کسی کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنی ثابت نہیں، لیکن " اوزاعی کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں کہ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فعل پر آپ کو ڈانٹا گیا ہو، بات یہ ہے کہ انہوں نے جو کیا تھا اس کا وہی بدلہ مل گیا، اب آیت نازل ہوئی جس نے ایک خاص حکم ایسے لوگوں کا بیان فرمایا اور اس میں آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے کا حکم نہیں دیا "۔ اس آیت سے جمہور علماء نے دلیل پکڑی ہے کہ راستوں کی بندش کر کے لڑنا اور شہروں میں لڑنا دونوں برابر ہے کیونکہ لفظ (ویسعون فی الارض فسادا) کے ہیں۔ مالک، اوزاعی، لیث، شافعی، ، احمد رحمہم اللہ اجمعین کا یہی مذہب ہے کہ باغی لوگ خواہ شہر میں ایسا فتنہ مچائیں یا بیرون شہر، ان کی سزا یہی ہے کہ بلکہ امام مالک تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو اس کے گھر میں اس طرح دھوکہ دہی سے مار ڈالے تو اسے پکڑ لیا جائے اور اسے قتل کردیا جائے اور خود امام وقت ان کاموں کو از خود کرے گا، نہ کہ مقتول کے اولیاء کے ہاتھ میں یہ کام ہوں بلکہ اگر وہ درگزر کرنا چاہیں تو بھی ان کے اختیار میں نہیں بلکہ یہ جرم، بےواسطہ حکومت اسلامیہ کا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا مذہب یہ نہیں، وہ کہتے ہیں کہ " مجاربہ اسی وقت مانا جائے گا جبکہ شہر کے باہر ایسے فساد کوئی کرے، کیونکہ شہر میں تو امداد کا پہنچنا ممکن ہے، راستوں میں یہ بات ناممکن سی ہے " جو سزا ان محاربین کی بیان ہوئی ہے اس کے بارے میں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں " جو شخص مسلمانوں پر تلوار اٹھائے، راستوں کو پُر خطر بنا دے، امام المسلمین کو ان تینوں سزاؤں میں سے جو سزا دینا چاہے اس کا اختیار ہے "۔ یہی قول اور بھی بہت سوں کا ہے اور اس طرح کا اختیار ایسی ہی اور آیتوں کے احکام میں بھی موجود ہے جیسے محرم اگر شکار کھیلے تو اس کا بدلہ شکار کے برابر کی قربانی یا مساکین کا کھانا ہے یا اس کے برابر روزے رکھنا ہے، بیماری یا سر کی تکلیف کی وجہ سے حالت احرام میں سر منڈوانے اور خلاف احرام کام کرنے والے کے فدیئے میں بھی روزے یا صدقہ یا قربانی کا حکم ہے۔ قسم کے کفارے میں درمیانی درجہ کا کھانا دیں مسکینوں کا یا ان کا کپڑا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے۔ تو جس طرح یہاں ان صورتوں میں سے کسی ایک کے پسند کرلینے کا اختیار ہے، اسی طرح ایسے محارب، مرتد لوگوں کی سزا بھی یا تو قتل ہے یا ہاتھ پاؤں الٹی طرح سے کاٹنا ہے یا جلا وطن کرنا۔ اور جمہور کا قول ہے کہ یہ آیت کئی احوال میں ہے، جب ڈاکو قتل و غارت دونوں کے مرتکب ہوتے ہوں تو قابل دار اور گردن وزنی ہیں اور جب صرف قتل سرزد ہوا ہو تو قتل کا بدلہ صرف قتل ہے اور اگر فقط مال لیا ہو تو ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کاٹ دیئے جائیں گے اور اگر راستے پُر خطر کردیئے ہوں، لوگوں کو خوف زدہ کردیا ہو اور کسی گناہ کے مرتکب نہ ہوئے ہوں اور گرفتار کر لئے جائیں تو صرف جلاوطنی ہے۔ اکثر سلف اور ائمہ کا یہی مذہب ہے پھر بزرگوں نے اس میں بھی اختلاف کیا ہے کہ آیا سولی پر لٹکا کر یونہی چھوڑ دیا جائے کہ بھوکا پیاسا مرجائے ؟ یا نیزے وغیرہ سے قتل کردیا جائے ؟ یا پہلے قتل کردیا جائے پھر سولی پر لٹکایا جائے تاکہ اور لوگوں کو عبرت حاصل ہو ؟ اور کیا تین دن تک سولی پر رہنے دے کر پھر اتار لیا جائے ؟ یا یونہی چھوڑ دیا جائے لیکن تفسیر کا یہ موضوع نہیں کہ ہم ایسے جزئی اختلافات میں پڑیں اور ہر ایک کی دلیلیں وغیرہ وارد کریں۔ ہاں ایک حدیث میں کچھ تفصیل سزا ہے، اگر اس کی سند صحیح ہو تو وہ یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان محاربین کے بارے میں حضرت جبرائیل سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا " جنہوں نے مال چرایا اور راستوں کو خطرناک بنادیا ان کے ہاتھ تو چوری کے بدلے کاٹ دیجئے اور جس نے قتل اور دہشت گردی پھیلائی اور بدکاری کا ارتکاب کیا ہے، اسے سولی چڑھا دو ۔ فرمان ہے کہ زمین سے الگ کردیئے جائیں یعنی انہیں تلاش کر کے ان پر حد قائم کی جائے یا وہ دار الاسلام سے بھاگ کر کہیں چلے جائیں یا یہ کہ ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے سے تیسرے شہر انہیں بھیج دیا جاتا رہے یا یہ کہ اسلامی سلطنت سے بالکل ہی خارج کردیا جائے "۔ شعبی تو نکال ہی دیتے تھے اور عطا خراسانی کہتے ہیں " ایک لشکر میں سے دوسرے لشکر میں پہنچا دیا جائے یونہی کئی سال تک مارا مارا پھرایا جائے لیکن دار الاسلام سے باہر نہ کیا جائے "۔ ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں " اسے جیل خانے میں ڈال دیا جائے "۔ ابن جریر کا مختار قول یہ ہے کہ " اسے اس کے شہر سے نکال کر کسی دوسرے شہر کے جیل خانے میں ڈال دیا جائے "۔ " ایسے لوگ دنیا میں ذلیل و رذیل اور آخرت میں بڑے بھاری عذابوں میں گرفتار ہوں گے "۔ آیت کا یہ ٹکڑا تو ان لوگوں کی تائید کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ آیت مشرکوں کے بارے میں اتری ہے اور مسلمانوں کے بارے وہ صحیح حدیث ہے جس میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے ویسے ہی عہد لئے جیسے عورتوں سے لئے تھے کہ " ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنی اولادوں کو قتل نہ کریں، ایک دوسرے کی نافرمانی نہ کریں جو اس وعدے کو نبھائے، اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جو ان میں سے کسی گناہ کے ساتھ آلودہ ہوجائے پھر اگر اسے سزا ہوگئی تو وہ سزا کفارہ بن جائے گی اور اگر اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی کرلی تو اس امر کا اللہ ہی مختار ہے اگر چاہے عذاب کرے، اگر چاہے چھوڑ دے "۔ اور حدیث میں ہے " جس کسی نے کوئی گناہ کیا پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ڈھانپ لیا اور اس سے چشم پوشی کرلی تو اللہ کی ذات اور اس کا رحم و کرم اس سے بہت بلند وبالا ہے، معاف کئے ہوئے جرائم کو دوبارہ کرنے پہ اسے دنیوی سزا ملے گی، اگر بےتوبہ مرگئے تو آخرت کی وہ سزائیں باقی ہیں جن کا اس وقت صحیح تصور بھی محال ہے ہاں توبہ نصیب ہوجائے تو اور بات ہے "۔ پھر توبہ کرنے والوں کی نسبت جو فرمایا ہے " اس کا اظہار اس صورت میں تو صاف ہے کہ اس آیت کو مشرکوں کے بارے میں نازل شدہ مانا جائے۔ لیکن جو مسلمان مغرور ہوں اور وہ قبضے میں آنے سے پہلے توبہ کرلیں تو ان سے قتل اور سولی اور پاؤں کاٹنا تو ہٹ جاتا ہے لیکن ہاتھ کا کٹنا بھی ہٹ جاتا ہے یا نہیں، اس میں علماء کے دو قول ہیں، آیت کے ظاہری الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ ہٹ جائے، صحابہ کا عمل بھی اسی پر ہے۔ چناچہ جاریہ بن بدر تیمی بصری نے زمین میں فساد کیا، مسلمانوں سے لڑا، اس بارے میں چند قریشیوں نے حضرت علی سے سفارش کی، جن میں حضرت حسن بن علی، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن جعفر بھی تھے لیکن آپ نے اسے امن دینے سے انکار کردیا۔ وہ سعید بن قیس ہمدانی کے پاس آیا، آپ نے اپنے گھر میں اسے ٹھہرایا اور حضرت علی کے پاس آئے اور کہا بتایئے تو جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑے اور زمین میں فساد کی سعی کرے پھر ان آیتوں کی (قبل ان تقدروا علیھم) تک تلاوت کی تو آپ نے فرمایا میں تو ایسے شخص کو امن لکھ دوں گا، حضرت سعید نے فرمایا یہ جاریہ بن بدر ہے، چناچہ جاریہ نے اس کے بعد ان کی مدح میں اشعار بھی کہے ہیں۔ قبیلہ مراد کا ایک شخص حضرت ابو موسیٰ اشعری کے پاس کوفہ کی مسجد میں جہاں کے یہ گورنر تھے، ایک فرض نماز کے بعد آیا اور کہنے لگا اے امیر کوفہ فلاں بن فلاں مرادی قبیلے کا ہوں، میں نے اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی لڑی، زمین میں فساد کی کوشش کی لیکن آپ لوگ مجھ پر قدرت پائیں، اس سے پہلے میں تائب ہوگیا اب میں آپ سے پناہ حاصل کرنے والے کی جگہ پر کھڑا ہوں۔ اس پر حضرت ابو موسیٰ کھڑے ہوگئے اور فرمایا اے لوگو ! تم میں سے کوئی اب اس توبہ کے بعد اس سے کسی طرح کی لڑائی نہ کرے، اگر یہ سچا ہے تو الحمدللہ اور یہ جھوٹا ہے تو اس کے گناہ ہی اسے ہلاک کردیں گے۔ یہ شخص ایک مدت تک تو ٹھیک ٹھیک رہا لیکن پھر بغاوت کر گیا، اللہ نے بھی اس کے گناہوں کے بدلے اسے غارت کردیا اور یہ مار ڈالا گیا۔ علی نامی ایک اسدی شخص نے بھی گزر گاہوں میں دہشت پھیلا دی، لوگوں کو قتل کیا، مال لوٹا، بادشاہ لشکر اور رعایا نے ہرچند اسے گرفتار کرنا چاہا، لیکن یہ ہاتھ نہ لگا۔ ایک مرتبہ یہ جنگل میں تھا، ایک شخص کو قرآن پڑھتے سنا اور وہ اس وقت یہ آیت تلاوت کر رہا تھا آتی (قل یا عبادی الذین اسرفوا) الخ، یہ اسے سن کر رک گیا اور اس سے کہا اے اللہ کے بندے یہ آیت مجھے دوبارہ سنا، اس نے پھر پڑھی اللہ کی اس آواز کو سن کر وہ فرماتا ہے اے میرے گنہگار بندو تم میری رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، میں سب گناہوں کو بخشنے پر قادر ہوں میں غفور و رحیم ہوں۔ اس شخص نے جھٹ سے اپنی تلوار میان میں کرلی، اسی وقت سچے دل سے توبہ کی اور صبح کی نماز سے پہلے مدینے پہنچ گیا، غسل کیا اور مسجد نبوی میں نماز صبح جماعت کے ساتھ ادا کی اور حضرت ابوہریرہ کے پاس جو لوگ بیٹھے تھے، ان ہی میں ایک طرف یہ بھی بیٹھ گیا۔ جب دن کا اجالا ہوا تو لوگوں نے اسے دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو سلطنت کا باغی، بہت بڑا مجرم اور مفرور شخص علی اسدی ہے، سب نے چاہا کہ اسے گرفتار کرلیں۔ اس نے کہا سنو بھائیو ! تم مجھے گرفتار نہیں کرسکتے، اس لئے کہ مجھ پر تمہارے قابو پانے سے پہلے ہی میں تو توبہ کرچکا ہوں بلکہ توبہ کے بعد خود تمہارے پاس آگیا ہوں، حضرت ابوہریرہ نے فرمایا ! یہ سچ کہتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مروان بن حکم کے پاس لے چلے، یہ اس وقت حضرت معاویہ کی طرف سے مدینے کے گورنر تھے، وہاں پہنچ کر فرمایا کہ یہ علی اسدی ہیں، یہ توبہ کرچکے ہیں، اس لئے اب تم انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ چناچہ کسی نے اس کے ساتھ کچھ نہ کیا، جب مجاہدین کی ایک جماعت رومیوں سے لڑنے کیلئے چلی تو ان مجاہدوں کے ساتھ یہ بھی ہو لئے، سمندر میں ان کی کشتی جا رہی تھی کہ سامنے سے چند کشتیاں رومیوں کی آگئیں، یہ اپنی کشتی میں سے رومیوں کی گردنیں مارنے کیلئے ان کی کشتی میں کود گئے، ان کی آبدار خارا شگاف تلوار کی چمک کی تاب رومی نہ لاسکے اور نامردی سے ایک طرف کو بھاگے، یہ بھی ان کے پیچھے اسی طرف چلے چونکہ سارا بوجھ ایک طرف ہوگیا، اس لئے کشتی الٹ گئی جس سے وہ سارے رومی کفار ہلاک ہوگئے اور حضرت علی اسدی بھی ڈوب کر شہید ہو گے (اللہ ان پر اپنی رحمتیں ناز فرمائے)