Skip to main content

يَسْـَٔـــلُوْنَكَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْۗ قُلْ اُحِلَّ لَـكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَـوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۗ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ

They ask you
يَسْـَٔلُونَكَ
وہ سوال کرتے ہیں آپ سے
what
مَاذَآ
کیا کچھ
(is) made lawful
أُحِلَّ
حلال کیا گیا
for them
لَهُمْۖ
ان کے لیے
Say
قُلْ
کہہ دیجیے
"Are made lawful
أُحِلَّ
حلال کی گئیں
for you
لَكُمُ
تمہارے لیے
the good things
ٱلطَّيِّبَٰتُۙ
جو پاکیزہ چیزیں ہیں
and what
وَمَا
اور جو
you have taught
عَلَّمْتُم
سکھایا تم نے
of
مِّنَ
کو
(your) hunting animals
ٱلْجَوَارِحِ
شکاری جانوروں کو
ones who train animals to hunt
مُكَلِّبِينَ
شکار کی تعلیم دینے والے
you teach them
تُعَلِّمُونَهُنَّ
تم سکھاتے ہو ان کو
of what
مِمَّا
اس میں سے جو
has taught you
عَلَّمَكُمُ
سکھایا تم کو
Allah
ٱللَّهُۖ
اللہ نے
So eat
فَكُلُوا۟
تو کھاؤ
of what
مِمَّآ
اس میں سے جو
they catch
أَمْسَكْنَ
وہ روک رکھیں
for you
عَلَيْكُمْ
تم پر
but mention
وَٱذْكُرُوا۟
اور ذکر کرو
(the) name
ٱسْمَ
نام
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کا
on it
عَلَيْهِۖ
اس پر
and fear
وَٱتَّقُوا۟
اور ڈرو
Allah
ٱللَّهَۚ
اللہ سے
Indeed
إِنَّ
بیشک
Allah
ٱللَّهَ
اللہ تعالیٰ
is swift
سَرِيعُ
جلد لینے والا ہے
(in taking) account
ٱلْحِسَابِ
حساب

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھاسکتے ہو، البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو، اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی

English Sahih:

They ask you, [O Muhammad], what has been made lawful for them. Say, "Lawful for you are [all] good foods and [game caught by] what you have trained of hunting animals which you train as Allah has taught you. So eat of what they catch for you, and mention the name of Allah upon it, and fear Allah." Indeed, Allah is swift in account.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھاسکتے ہو، البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو، اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے محبوب! تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لئے کیا حلال ہوا تم فرمادو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں اور جو شکاری جانور تم نے سدھالیے انہیں شکار پر دوڑاتے جو علم تمہیں خدا نے دیا اس سے انہیں سکھاتے تو کھاؤ اس میں سے جو وہ مار کر تمہارے لیے رہنے دیں اور اس پر اللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کو حساب کرتے دیر نہیں لگتی،

احمد علی Ahmed Ali

تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا چیز حلال ہے کہہ دو تمہارے واسطے سب پاکیزہ چیزیں حلا ل کی گئی ہیں اور جو شکاری جانور جسے شکار پر دوڑنے کی تعلیم دو کہ انہیں سکھاتے ہو اس میں سے جو الله نے تمہیں سکھایا ہے سو اس میں سے کھاؤ جو وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں اور اس پر الله کا نا م لو اور الله سے ڈرتے رہو بیشک الله جلد حساب لینے والا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

آپ سے دریافت کرتے ہیں ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں (١) اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھار رکھا ہے، یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالٰی نے تمہیں دے رکھی ہے (۲) پس جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالٰی کا ذکر کر لیا کرو (۳) اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے۔

٤۔۱اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور ہر حرام خبیث۔
٤۔۲جوارح جارح کی جمع ہے جو کاسب کے معنی میں ہے۔ مراد شکار کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ مکلبین کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لیے سدھایا گیا ہو۔ سکھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے۔ جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آ جائے۔
٤۔۳ ایسے سدھارے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کر کے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کے اگر اس نے مار بھی ڈالا ہو،
تب بھی مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو (صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید مسلم، کتاب الصید)

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا کرو اور (شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا جلد حساب لینے والا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں، اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وه سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے پس جس شکار کو وه تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کر لیا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے واﻻ ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کون سی چیزیں حلال کی گئی ہیں؟ کہہ دیجیئے کہ تمہارے لئے سب پاک و پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو خدا کے سکھائے ہوئے طریقہ کے مطابق (شکار پکڑنے کا) طریقہ سکھایا ہو تو جسے وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں۔ اس میں سے بھی کھا سکتے ہو۔ اور اس پر (شکار پر چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لو۔ اور اللہ سے (اس کی معصیت کاری سے) ڈرو۔ بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

پیغمبر یہ تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال کیا گیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور جو کچھ تم نے شکاری کتوں کو سکھا رکھا ہے اور خدائی تعلیم میں سے کچھ ان کے حوالہ کر دیاہے تو جو کچھ وہ پکڑ کے لائیں اسے کھالو اور اس پر نام خدا ضرور لو اور اللہ سے ڈرو کہ وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ (ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں، سو تم اس (شکار) میں سے (بھی) کھاؤ جو وہ (شکاری جانور) تمہارے لئے (مار کر) روک رکھیں اور (شکار پر چھوڑتے وقت) اس (شکاری جانور) پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

شکاری کتے اور شکار
چونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نقصان پہنچانے والی خبیث چیزوں کی حرمت کا بیان فرمایا خواہ نقصان جسمانی ہو یا دینی یا دونوں، پھر ضرورت کی حالت کے احکامات مخصوص کرائے گئے جیسے فرمان ہے آیت (وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ) 6 ۔ الانعام ;119) یعنی تمام حرام جانوروں کا بیان تفصیل سے تمہارے سامنے آچکا ہے یہ اور بات ہے کہ تم حالات کی بناء پر بےبس اور بےقرار ہوجاؤ۔ تو اس کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ حلال چیزوں کے دریافت کرنیوالوں سے کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تم پر حلال ہیں، سورة اعراف میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ قبیلہ طلائی کے دو شخصوں حضرت عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ مردہ جانور تو حرام ہوچکا اب حلال کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت اتری۔ حضرت سعید فرماتے ہیں یعنی ذبح کئے ہوئے جانور حلال طیب ہیں۔ مقاتل فرماتے ہیں ہر حلال رزق طیبات میں داخل ہے۔ امام زہری سے سوال کیا گیا کہ دوا کے طور پر پیشاب کا پینا کیسا ہے ؟ جواب دیا کہ وہ طیبات میں داخل نہیں۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ اس مٹی کا بیچنا کیسا ہے جسے لوگ کھاتے ہیں فرمایا و طیبات میں داخل نہیں اور تمہارے لئے شکاری جانوروں کے ذریعہ کھیلا ہوا شکار بھی حلال کیا جاتا ہے مثلاً سدھائے ہوئے کتے اور شکرے وغیرہ کے ذریعے۔ یہی مذہب ہے جمہور صحابہ تابعین ائمہ وغیرہ کا۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ شکاری سدھائے ہوئے کتے، باز، چیتے، شکرے وغیرہ ہر وہ پرندہ جو شکار کرنے کی تعلیم دیا جاسکتا ہو اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہی مروی ہے کہ پھاڑنے والے جانوروں اور ایسے ہی پرندوں میں سے جو بھی تعلیم حاصل کرلے، ان کے ذریعہ شکار کھیلنا حلال ہے، لیکن حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں نے تمام شکاری پرندوں کا کیا ہوا شکار مکروہ کہا ہے اور دلیل میں آیت ( ۙوَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۡ فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ) 5 ۔ المائدہ ;4) پڑھا ہے سعید بن جبیر سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔ ضحاک اور سدی کا بھی یہی قول ابن جریر میں مروی ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں باز وغیرہ پرند جو شکار پکڑیں اگر وہ تمہیں زندہ مل جائے تو تم ذبح کر کے کھالو ورنہ نہ کھاؤ، لیکن جمہور علماء اسلام کا فتویٰ یہ ہے کہ شکاری پرندوں کے ذریعہ جو شکار ہو، اس کا اور شکاری کتوں کے کئے ہوئے شکار کا ایک ہی حکم ہے، ان میں تفریق کرنے کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ چاروں اماموں وغیرہ کا مذہب بھی یہی ہے، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی دلیل میں اس حدیث کو لاتے ہیں کہ حضرت عدی بن حاتم نے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باز کے کئے ہوئے شکار کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا " جس جانور کو وہ تیرے لئے روک رکھے تو اسے کھالے " امام احمد نے سیاہ کتے کا کیا ہوا شکار بھی مستثنیٰ کرلیا ہے، اس لئے کہ ان کے نزدیک اس کا قتل کرنا واجب ہے اور پالنا حرام ہے، کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " نماز کو تین چیزیں توڑ دیتی ہیں، گدھا، عورت اور سیاہ کتا۔ اس پر حضرت ابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیاہ کتے کی خصوصیت کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ نے فرمایا " شیطان ہے۔ " دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا پھر فرمایا انہیں کتوں سے کیا واسطہ ؟ ان کتوں میں سے سخت سیاہ کتوں کو مار ڈالا کرو۔ شکاری حیوانات کو جوارح اس لئے کہا گیا کہ جرح کہتے ہیں کسب اور کمائی کو، جیسے عرب کہتے ہیں (فلان جرح اہلہ خیرا) یعنی فلاں شحص نے اپنی اہل کیلئے بھلائی حاصل کرلی اور عرب کہتے ہیں (فلان لا جارح لہ فلاں) شخص کا کوئی کماؤ نہیں، قرآن میں بھی لفظ جرح کسب اور کمائی اور حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے فرمان ہے آیت (وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ) 6 ۔ الانعام ;60) یعنی دن کو جو بھلائی برائی تم حاصل کرتے ہو اور اسے بھی اللہ جانتا ہے۔ اس آیت کریمہ کے اترنے کی وجہ ابن ابی حاتم میں یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کے قتل کرنے کا حکم دیا اور وہ قتل کئے جانے لگے تو لوگوں نے آکر آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس امت کے قتل کا حکم آپ نے دیا ان سے ہمارے لئے کیا فائدہ حلال ہے ؟ آپ خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری۔ پس آپ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار کے پیچھے چھوڑے اور بسم اللہ بھی کہے پھر وہ شکار پکڑ لے اور روک رکھے تو جب تک وہ نہ کھائے یہ کھالے۔ ابن جریر میں ہے " جبرائیل نے حضور سے اندر آنے کی اجازت چاہی، آپ نے اجازت دی لیکن وہ پھر بھی اندر نہ آئے تو آپ نے فرمایا اے قاصد رب ہم تو تمہیں اجازت دے چکے پھر کیوں نہیں آتے ؟ اس پر فرشتے نے کہا ! ہم اس گھر میں نہیں جاتے، جس میں کتا ہو، اس پر آپ نے حضرت رافع کو حکم دیا کہ مدینے کے کل کتے مار ڈالے جائیں، ابو رافع فرماتے ہیں، میں گیا اور سب کتوں کو قتل کرنے لگا، ایک بڑھیا کے پاس کتا تھا، جو اس کے دامن میں لپٹنے لگا اور بطور فریاد اس کے سامنے بھونکنے لگا، مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی آپ نے حکم دیا کہ اسے بھی باقی نہ چھوڑو، میں پھر واپس گیا اور اسے بھی قتل کردیا، اب لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ جس امت کے قتل کا آپ نے حکم دیا ہے، ان سے کوئی فائدہ ہمارے لئے حلال بھی ہے یا نہیں ؟ اس پر آیت (یسألونک) الخ، نازل ہوئی۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مدینے کے کتوں کو قتل کر کے پھر ابو رافع آس پاس کی بستیوں میں پہنچے اور مسئلہ دریافت کرنیوالوں کے نام بھی اس میں ہیں یعنی حضرت عاصم بن عذی حضرت سعید بن خیثمہ حضرت عمویمر بن ساعدرہ۔ محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ آیت کا شان نزول کتوں کا قتل ہے (مکلبین) کا لفظ ممکن ہے کہ ( علمتم) کی ضمیر یعنی فاعل کا حال ہو اور ممکن ہے کہ جوارح یعنی مقتول کا حاصل ہو۔ یعنی جن شکار حاصل کرنے والے جانوروں کو تم نے سدھایا ہو اور حالانکہ وہ شکار کو اپنے پنجوں اور ناخنوں سے شکار کرتے ہوں، اس سے بھی یہ استدلال ہوسکتا ہے کہ شکاری جانور جب شکار کو اپنے صدمے سے ہی دبوچ کر مار ڈالے تو وہ حلال نہ ہوگا جیسے کہ امام شافعی کے دونوں قولوں میں سے ایک قول ہے اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے۔ اسی لئے فرمایا تم نے انہیں اس سے کچھ سکھا دیا ہو جو اللہ نے تمہیں لکھا رکھا ہے " یعنی جب تم چھوڑو، جائے، جب تم روک لو رک جائے اور شکار پکڑ کر تمہارے لئے روک رکھے۔ تاکہ تم جا کر اسے لے لو، اس نے خود اپنے لئے اسے شکار نہ کیا ہو، اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جب شکاری جانور سدھایا ہوا ہو اور اس نے اپنے چھوڑنے والے کیلئے شکار کیا ہو اور اس نے بھی اس کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو وہ شکار مسلمانوں کیلئے حلال ہے گو وہ شکار مر بھی گیا ہو، اس پر اجماع ہے۔ اس آیت کے مسئلہ کے مطابق ہی بخاری و مسلم کی یہ حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اللہ کا نام لے کر اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں تو آپ نے فرمایا جس جانور کو وہ پکڑ رکھے تو اسے کھالے اگرچہ کتے نے اسے مار بھی ڈالا ہو، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے ساتھ شکار کرنے میں دوسرا کتا نہ ملا ہو اس لئے کہ تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہے دوسرے کو بسم اللہ پڑھ کر نہیں چھوڑا میں نے کہا کہ میں نوکدار لکڑی سے شکار کھیلتا ہوں فرمایا اگر وہ اپنی تیزی کی طرف سے زخمی کرے تو کھالے اور اگر اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہو تو نہ کھا کیونکہ وہ لٹھ مارا ہوا ہے، دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جب تو اپنے کتے کو چھوڑے تو اللہ کا نام پڑھ لیا کر پھر وہ شکار کو تیرے لئے پکڑ رکھے اور تیرے پہنچ جانے پر شکار زندہ مل جائے تو تو اسے ذبح کر ڈال اور اگر کتے نے ہی اسے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تو اسے بھی کھا سکتا ہے اس لئے کہ کتے کا اسے شکار کرلینا ہی اس کا ذبیحہ ہے اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ " اگر اس نے کھالیا ہو تو پھر اسے نہ کھا، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اس نے اپنے کھانے کیلئے شکار نہ پکڑا ہو ؟ " یہی دلیل جمہور کی ہے اور حقیقتاً امام شافعی کا صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ جب کتا شکار کو کھالے تو وہ مطلق حرام ہوجاتا ہے اس میں کوئی گنجاش نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ہاں سلف کی ایک جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ مطلقاً حلال ہے۔ ان کے دلائل یہ ہیں۔ سلمان فارسی فرماتے ہیں تو کھا سکتا ہے اگرچہ کتے نے تہائی حصہ کھالیا ہو، حضرت سعید بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ گو ایک ٹکڑا ہی باقی رہ گیا ہو پھر بھی کھا سکتے ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاض فرماتے ہیں گو دو تہائیاں کتا کھا گیا ہو پھر بھی تو کھا سکتا ہے، حضرت ابوہریرہ کا بھی یہی فرمان ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں جب بسم اللہ کہہ کر تو نے اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑا ہو تو جس جانور کو اس نے تیرے لئے پکڑ رکھا ہے تو اسے کھالے کتے نے اس میں سے کھایا ہو یا نہ کھایا ہو، یہی مروی ہے حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے۔ حضرت عطاء اور حضرت حسن بصری سے اس میں مختلف اقوال مروی ہیں، زہری ربیعہ اور مالک سے بھی یہی روایت کی گئی ہے، اسی کی طرف امام شافعی اپنے پہلے قول میں گئے ہیں اور نئے قول میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت سلمان فارسی سے ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار پر چھوڑے پھر شکار کو اس حالت میں پائے کہ کتے نے اسے کھالیا ہو تو جو باقی ہو اسے وہ کھا سکتا ہے۔ اس حدیث کی سند میں بقول ابن جریر نظر ہے اور سعید راوی کا حضرت سلمان سے سننا معلوم نہیں ہوا اور دوسرے ثقہ راوی اسے مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت سلمان کا قول نقل کرتے ہیں یہ قول ہے تو صحیح لیکن اسی معنی کی اور مرفوع حدیثیں بھی مروی ہیں، ابو داؤد میں ہے حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی ابو ثعلبہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس شکاری کتے سدھائے ہوئے ہیں ان کے شکار کی نسبت کیا فتویٰ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو جانور وہ تیرے لئے پکڑیں وہ تجھ پر حلال ہے، اس نے کہا ذبح کرسکوں جب بھی اور ذبح نہ کرسکوں تو بھی ؟ اور اگرچہ کتے نے کھالیا ہو تو بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں گو کھا بھی لیا ہو، انہوں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنے تیر کمان سے جو شکار کروں اس کا کیا فتویٰ ہے ؟ فرمایا اسے بھی تو کھا سکتا ہے، پوچھا اگر وہ زندہ ملے اور میں اسے ذبح کرسکوں تو بھی اور تیر لگتے ہی مرجائے تو بھی ؟ فرمایا بلکہ گو وہ تجھے نظر نہ پڑے اور ڈھونڈنے سے مل جائے تو بھی۔ بشرطیکہ اس میں کسی دوسرے شخص کے تیر کا نشان نہ ہو، انہوں نے تیسرا سوال کیا کہ بوقت ضرورت مجوسیوں کے برتنوں کا استعمال کرنا ہمارے لئے کیسا ہے ؟ فرمایا تم انہیں دھو ڈالو پھر ان میں کھا پی سکتے ہو۔ یہ حدیث نسائی میں بھی ہے ابو داؤد کی دوسری حدیث میں ہے جب تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو تو تو اس کے شکار کو کھا سکتا ہے گو اس نے اس میں سے کھا بھی لیا ہو اور تیرا ہاتھ جس شکار کو تیرے لئے لایا ہو اسے بھی تو کھا سکتا ہے۔ ان دونوں احادیث کی سندیں بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہیں اور حدیث میں ہے کہ تیرا سدھایا ہوا کتا جو شکار تیرے لئے کھیلے تو اسے کھالے، حضرت عدی نے پوچھا اگرچہ اس نے اس میں سے کھالیا ہو فرمایا ہاں پھر بھی، ان آثار اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شکاری کتے نے شکار کو گو کھالیا ہو تاہم بقیہ شکار شکاری کھا سکتا ہے۔ کتے وغیرہ کے کھائے ہوئے شکار کو حرام نہ کہنے والوں کے یہ دلائل ہیں۔ ایک اور جماعت ان دونوں جماعتوں کے درمیان ہے وہ کہتی ہے کہ اگر شکار پکڑتے ہی کھانے بیٹھ گیا تو بقیہ حرام اور اگر شکار پکڑ کر اپنے مالک کا انتظار کیا اور باوجود خاصی دیر گزر جانے کے اپنے مالک کو نہ پایا اور بھوک کی وجہ سے اسے کھالیا تو بقیہ حلال۔ پہلی بات پر محمول ہے حضرت عدی والی حدیث اور دوسری پر محمول ہے ابو ثعلبہ والی حدیث میں۔ یہ فرق بھی بہت اچھا ہے اور اس سے دو صحیح حدیثیں بھی جمع ہوجاتی ہیں۔ استاذ ابو المعالی جوینی نے اپنی کتاب نہایہ میں یہ تمنا ظاہر کی تھی کہ کاش کوئی اس بارے میں یہ وضاحت کرے تو الحمد اللہ یہ وضاحت لوگوں نے کرلی۔ اس مسئلہ میں ایک چوتھا قول بھی ہے وہ یہ کہ کتے کا کھایا ہوا شکار تو حرام ہے جیسا کہ حضرت عدی کی حدیث میں ہے، اور شکرے وغیرہ کا کھایا ہوا شکار حرام نہیں اس لئے کہ وہ تو کھانے سے ہی تعلیم قبول کرتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر پرند اپنے مالک کے پاس لوٹ آیا اور مار سے نہیں پھر وہ پر نوچے اور گوشت کھائے تو کھالے۔ ابراہیم نخعی، شعبی، حماد بن سلیمان یہی کہتے ہیں ان کی دلیل ابن ابی حاتم کی یہ روایت ہے کہ حضرت عدی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم لوگ کتوں اور باز سے شکار کھیلا کرتے ہیں تو ہمارے لئے کیا حلال ہے ؟ آپ نے فرمایا جو شکاری جانور یا شکار حاصل کرنے والے خود شکار کرنے والے اور سدھائے ہوئے تمہارے لئے شکار روک رکھیں اور تم نے ان پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے تم کھالو۔ پھر فرمایا جسے کتے کو تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو وہ جس جانور کو روک رکھے تو اسے کھالے میں نے کہا گو اسے مار ڈالا ہو فرمایا گو مار ڈالا ہو لیکن یہ شرط ہے کہ کھایا نہ ہو میں نے کہا اگر اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی مل گئے ہوں ؟ تو ؟ فرمایا پھر نہ کھا جب تک کہ تجھے اس بات کا پورا اطمینان نہ ہو کہ تیرے ہی کتے نے شکار کیا ہے۔ میں نے کہا ہم لوگ تیر سے بھی شکار کیا کرتے ہیں اس میں سے کونسا حلال ہے ؟ فرمایا جو تیر زخمی کرے اور تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو اسے کھالے، وجہ دلالت یہ ہے کہ کتے میں نہ کھانے کی شرط آپ نے بتائی اور باز میں نہیں بتائی، پس ان دونوں میں فرق ثابت ہوگیا واللہ اعلم۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ تم کھالو جن حلال جانوروں کو تمہارے یہ شکاری جانور پکڑ لیں اور تم نے ان کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لے لیا ہو۔ جیسے کہ حضرت عدی اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیث میں ہے اسی لئے حضرت امام احمد وغیرہ اماموں نے یہ شرط ضروری بتلائی ہے کہ شکار کیلئے جانور کو چھوڑتے وقت اور تیر چلاتے وقت بسم اللہ پڑھنا شرط ہے۔ جمہوری کا مشہور مذہب بھی یہی ہے کہ اس آیت اور اس حدیث سے مراد جانور کے چھوڑنے کا وقت ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ اپنے شکاری جانور کو بھیجتے وقت بسم اللہ کہہ لے ہاں اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مراد کھانے کے وقت بسم اللہ پڑھنا ہے۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں عمر بن ابو سلمہ کے ربیبہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا مروی ہے کہ اللہ کا نام لے اور اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے سامنے سے کھا۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا لوگ ہمارے پاس جو لوگ گوشت لاتے ہیں وہ نو مسلم ہیں ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا بھی ہے یا نہیں ؟ تو کیا ہم اسے کھا لیں آپ نے فرمایا تم خود اللہ کا نام لے لو اور کھالو۔ مسند میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چھ صحابہ کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کردو لقمے اس میں سے اٹھائے آپ نے فرمایا اگر یہ بسم اللہ کہہ لیتا تو یہ کھانا تم سب کو کافی ہوجاتا تم میں سے جب کوئی کھانے بیٹھے تو بسم اللہ پڑھ لیا کرے اگر اول میں بھول گیا تو جب یاد آجائے کہہ دے دعا (بسم اللہ اولہ و اخرہ) یہی حدیث منقطع سند کے ساتھ ابن ماجہ میں بھی ہے۔ دوسری سند سے یہ حدیث ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں۔ جابربن صبیح فرماتے ہیں۔ حضرت مثنی بن عبدالرحمن خزاعی کے ساتھ میں نے واسط کا سفر کیا ان کی عادت یہ تھی کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہہ لیتے اور آخری لقمہ کے وقت دعا (بسم اللہ اولہ اخرہ) کہہ لیا کرتے اور مجھ سے انہوں نے فرمایا کہ خالد بن امیہ بن مخشی صحابی کا فرمان ہے کہ شیطان اس شخص کے ساتھ کھانا کھاتا رہتا ہے جس نے اللہ کا نام نہ لیا ہو جب کھانے والا اللہ کا نام یاد کرتا ہے تو اسے قے ہوجاتی ہے اور جتنا اس نے کھایا ہے سب نکل جاتا ہے (مسند احمد وغیرہ) اس کے راوی کو ابن معین اور نسائی تو ثقہ کہتے ہیں لیکن ابو الفتح ازوی فرماتے ہیں یہ دلیل لینے کے قابل راوی نہیں۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک لڑکی گرتی پڑتی آئی، جیسے کوئی اسے دھکے دے رہا ہو اور آتے ہی اس نے لقمہ اٹھانا چاہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور ایک اعرابی بھی اسی طرح آیا اور پیالے میں ہاتھ ڈالا آپ نے اس کا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور فرمایا جب کسی کھانے پر بسم اللہ نہ کہی جائے تو شیطان اسے اپنے لئے حلال کرلیتا ہے وہ پہلے تو اس لڑکی کے ساتھ آیا تاکہ ہمارا کھانا کھائے تو میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا پھر وہ اعرابی کے ساتھ میں نے اس کا بھی ہاتھ تھام لیا اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے (مسند، مسلم، ابو داؤد، نسائی) مسلم، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ جب انسان اپنے گھر میں جاتے ہوئے اور کھانا کھاتے ہوئے اللہ کا نام یاد کرلیا کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اسے شیطانو نہ تو تمہارے لئے رات گزارنے کی جگہ ہے نہ اس کا کھانا اور جب وہ گھر میں جاتے ہوئے کھاتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتا تو وہ پکار دیتا ہے کہ تم نے شب باشی کی اور کھانا کھانے کی جگہ پالی۔ مسند، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکایت کی کہ ہم کھاتے ہیں اور ہمارا پیٹ نہیں بھرتا تو آپ نے فرمایا شاید تم الگ الگ کھاتے ہو گے کھانا سب مل کر کھاؤ اور بسم اللہ کہہ لیا کرو اس میں اللہ کی طرف سے برکت دی جائے گی۔