المائدہ آية ۴
يَسْـَٔـــلُوْنَكَ مَاذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْۗ قُلْ اُحِلَّ لَـكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَـوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۗ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ
طاہر القادری:
لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ (ان سے) فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں، سو تم اس (شکار) میں سے (بھی) کھاؤ جو وہ (شکاری جانور) تمہارے لئے (مار کر) روک رکھیں اور (شکار پر چھوڑتے وقت) اس (شکاری جانور) پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے،
English Sahih:
They ask you, [O Muhammad], what has been made lawful for them. Say, "Lawful for you are [all] good foods and [game caught by] what you have trained of hunting animals which you train as Allah has taught you. So eat of what they catch for you, and mention the name of Allah upon it, and fear Allah." Indeed, Allah is swift in account.
1 Abul A'ala Maududi
لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھاسکتے ہو، البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو، اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی
2 Ahmed Raza Khan
اے محبوب! تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لئے کیا حلال ہوا تم فرمادو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں اور جو شکاری جانور تم نے سدھالیے انہیں شکار پر دوڑاتے جو علم تمہیں خدا نے دیا اس سے انہیں سکھاتے تو کھاؤ اس میں سے جو وہ مار کر تمہارے لیے رہنے دیں اور اس پر اللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کو حساب کرتے دیر نہیں لگتی،
3 Ahmed Ali
تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا چیز حلال ہے کہہ دو تمہارے واسطے سب پاکیزہ چیزیں حلا ل کی گئی ہیں اور جو شکاری جانور جسے شکار پر دوڑنے کی تعلیم دو کہ انہیں سکھاتے ہو اس میں سے جو الله نے تمہیں سکھایا ہے سو اس میں سے کھاؤ جو وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں اور اس پر الله کا نا م لو اور الله سے ڈرتے رہو بیشک الله جلد حساب لینے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
آپ سے دریافت کرتے ہیں ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں (١) اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھار رکھا ہے، یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالٰی نے تمہیں دے رکھی ہے (۲) پس جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالٰی کا ذکر کر لیا کرو (۳) اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے۔
٤۔۱اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور ہر حرام خبیث۔
٤۔۲جوارح جارح کی جمع ہے جو کاسب کے معنی میں ہے۔ مراد شکار کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ مکلبین کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لیے سدھایا گیا ہو۔ سکھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے۔ جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آ جائے۔
٤۔۳ ایسے سدھارے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کر کے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کے اگر اس نے مار بھی ڈالا ہو،
تب بھی مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو (صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید مسلم، کتاب الصید)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا کرو اور (شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا جلد حساب لینے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں، اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھا رکھا ہے یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وه سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے پس جس شکار کو وه تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھا لو اور اس پر اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کر لیا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کون سی چیزیں حلال کی گئی ہیں؟ کہہ دیجیئے کہ تمہارے لئے سب پاک و پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو خدا کے سکھائے ہوئے طریقہ کے مطابق (شکار پکڑنے کا) طریقہ سکھایا ہو تو جسے وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں۔ اس میں سے بھی کھا سکتے ہو۔ اور اس پر (شکار پر چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لو۔ اور اللہ سے (اس کی معصیت کاری سے) ڈرو۔ بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر یہ تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال کیا گیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور جو کچھ تم نے شکاری کتوں کو سکھا رکھا ہے اور خدائی تعلیم میں سے کچھ ان کے حوالہ کر دیاہے تو جو کچھ وہ پکڑ کے لائیں اسے کھالو اور اس پر نام خدا ضرور لو اور اللہ سے ڈرو کہ وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔
ربط آیات : یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلّ لَھُمْ ، سابقہ آیات میں حلال و حرام جانوروں کا ذکر تھا اس آیت میں اسی معاملہ کے متعلق ایک سوال کا جواب ہے بعض صحابہ کرام کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکاری کتے اور باز سے شکار کرنے کا حکم دریافت کیا تھا اس آیت میں اس کا جواب مذکور ہے۔
شان نزول : مستدرک حاکم، ابن ابی حاتم اور ابن جریر میں ابو رافع کی شان نزول کی روایت ہے جس کو حاکم نے صحیح کہا ہے، اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر دروازہ پر رک گئے، آنحضرت نے اس کا سبب معلوم کیا تو جواب دیا، جس گھر میں کتا ہو اس میں فرشتے نہیں آتے، تلاش سے معلوم ہوا کہ گھر میں کتے کا ایک پلا (بچہ) تھا، آنحضرت نے اس کو نکلوا دیا اور کتوں کو مارنے کا حکم دیا اسی ذیل میں بعض صحابہ نے کتے کے شکار کا حکم آنحضرت سے دریافت کیا، اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
شکاری جانور : عام طور پر جو جانور شکاری کہلاتے ہیں وہ کتا، چیتا، باز وغیرہ ہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک ضروری ہے کہ شکاری جانور کو زخمی بھی کر دے، اگر شکار کو زخمی نہ کیا محض پکڑا تھا اور وہ جانور مرگیا تو یہ جانور حلال نہ ہوگا، البتہ اگر زخم خوردہ ہو کر مرجائے تو حلال ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک وہ تمام شکاری بنائے جاسکتے ہیں جو پھاڑ کھانے والے شمار ہوتے ہیں خواہ ان کا تعلق پرندوں سے ہو یا درندوں سے امام ابو یوسف (رح) تعالیٰ نے شیر اور بھیڑئیے کو شکاری جانوروں میں شمار نہیں کیا، امام احمد بن حنبل (رح) تعالیٰ کے نزدیک مکمل سیاہ کتا بھی شکاری جانوروں میں شامل نہیں ہے، امام احمد بن حنبل کا مستدل حضرت عبد اللہ بن مغفل (رض) کی حدیث ہے، (ابو داؤد، ترمذی، دارمی) ایک دوسری حدیث جس کو حضرت جابر (رض) نے روایت کیا ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کو مارنے کا حکم دیا ابتداء یہ حکم مطلق تھا، پھر آپ نے فرمایا کالا کتا جس کی ییشانی پر نشان ہو اس کو ہرگز نہ چھوڑو کیونکہ وہ شیطان ہوتا ہے۔
شکاری جانور کو سدھانے کے اصول :
پہلی اصل : یہ ہے کہ جب تم شکاری جانور کو شکار کے پیچھے چھوڑو تو فوراً دوڑ پڑے اور جب روکو تو رک جائے اور شکار کر کے تمہارے پاس لے آئے یا اس کی حفاظٹ کے لئے اس کے پاس بیٹھا رہے بغیر مالک کی اجازت کے اس میں سے کھانے نہ لگے اور باز، شکرہ وغیرہ شکاری پرندوں کے سدھا ہوا ہونے کی یہ علامت ہے کہ جب تم اس کو شکار کے پیچھے لگاؤ تو فوراً لگ جائے اور جب بلاؤ تو فوراً واپس آجائے اب ان شکاری جانوروں کا کیا ہوا شکار تمہارا کیا ہوا شکار سمجھا جائیگا، اور اگر سدھایا ہوا شکاری جانور کسی وقت اس تعلیم کے خلاف کرے، مثلاً کتا خود شکار کھانے لگے یا باز بلانے پر واپس نہ آئے تو یہ شکار تمہارا نہیں رہا اس لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔
دوسری اصل : یہ ہے کہ شکاری جانور تمہارے چھوڑنے سے شکار کے پیچھے دوڑے نہ کہ ازخود آیت مذکورہ میں مکلّبین سے اسی اصل کی طرف اشارہ ہے یہ تکلیف سے ماخوذ ہے جس کے معنی کتے کو سکھانا ہیں اب مطلقاً شکار کے پیچھے چھوڑنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے، جیسا کہ مفسر علام نے اَرْسَلْتُہٗ عَلَی الصید، کہ کر اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تیسری اصل : یہ کہ شکاری جانور شکار کو خود نہ کھانے لگے (بشرطیکہ شدید بھوکا نہ ہو) مِمّا اَمْسَکَ علیکم سے اسی شرط کا بیان ہے۔
چوتھی اصل : چوتھی شرط یہ کہ شکار کو جب شکار کے پیچھے چھوڑا ہو تو بسم اللہ کہہ کر چھوڑا ہو، مذکورہ چاروں شرطیں پوری کرنے کے بعد اگر شکار کو تمہارے پاس لانے یا تمہارے شکار کے پاس پہنچنے سے پہلے وہ شکار مرجائے تو حلال ہے ورنہ بغیر ذبح حلال نہ ہوگا
مسئلہ : بعض فقہاء کے نزدیک کتے پر قیاس کرتے ہوئے شکاری پرندے کیلئے بھی یہ شرط ہے کہ شکاری پرندے نے شکار میں سے کچھ کھایا نہ ہو مگر امام ابوحنیفہ کے نزدیک پرندے کے لئے یہ شرط نہیں ہے۔
مسئلہ : اگر کسی شخص نے ذبح کرنے کیلئے مثلاً ایک بکری لٹائی اس پر بسم اللہ پڑھی اور معاً اس کو چھوڑ کر دوسری بکری ذبح کر ڈالی ازسر نو بسم اللہ نہیں پڑھی تو یہ دوسری بکری حلال نہ ہوگی، اور اگر بکری تو وہی رہی مگر چھری بدل دی تو ذبح کردہ بکری حلال رہے گی
مسئلہ : اگر ایک شخص نے بسم اللہ بڑھ کر ایک شکار پر تیر چلایا لیکن وہ تیر دوسرے شکار کا لگا یہ شکار حلال ہے۔
مسئلہ : اگر کسی شخص نے تیر نکالا اور اس پر بسم اللہ پڑھی پھر معاً تیر بدل کر اسی پہلے شکار پر دوسرا تیر چلایا اور ازسر نو بسم اللہ نہیں پڑھی تو یہ شکار حلال نہ ہوگا۔
مسئلہ : اگر سدھائے ہوئے کتے کے ساتھ ایک بغیر سدھایا ہوا کتا بھی شکار کرنے میں شریک ہوگیا یا کسی غیر مسلم کا کتا شکار کرنے میں شامل ہوگیا ان تمام صورتوں میں شکار بغیر ذبح کئے حلال نہ ہوگا۔
متفرق مسائل : مسئلہ : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمام درندے جانور حرام ہیں۔
مسئلہ : حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلی کا گوشت کھانے اور اسے بیچ کر قیمت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ مسئلہ : بجو اور لومڑی امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک حرام۔ امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک مکروہ اور امام شافعی کے نزدیک حلال ہے، زمین کے تمام جانور اور کیڑے مکوڑے حرام ہیں، اس سلسلہ میں امام مالک (رح) تعالیٰ کے علاوہ باقی تمام ائمہ کرام کا اتفاق ہے۔
مسئلہ : گوہ، امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک حرام ہے، باقی تین ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے۔
مسئلہ : ٹڈی امام مالک (رح) تعالیٰ کے علاوہ باقی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے، خواہ مری ہوئی ملے یا ماری جائے۔ امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک ایسی ٹڈی مکروہ ہے جو مری ہوئی ملے۔
مسئلہ : گدھا اور خچر امام مالک (رح) تعالیٰ کے سوا باقی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حرام ہے۔
مسئلہ : گھوڑے کا گوشت امام ابو یوسف (رح) تعالیٰ امام محمد (رح) تعالیٰ اور بیشتر ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے، البتہ امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک مناسب نہیں ہے۔
مسئلہ : گدھ اور اس جیسے وہ تمم پرندے جو مردار کھاتے ہیں، امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک مکروہ اور باقی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حرام ہیں۔
مسئلہ : پانی کے جانوروں میں امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک صرف مچھلی حلال ہے، امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک سمندری خنزیر کے علاوہ باقی سب حلال ہیں، امام احمد (رح) تعالیٰ کے نزدیک مینڈک اور مگرمچھ کے علاوہ باقی سب بحری جانور حلال ہیں، البتہ مچھلی کے علاوہ جانور امام موصوف کے نزدیک ذبح کرنے سے حلال ہوں گے۔
مسئلہ : جو مچھلی مرنے کے بعد پانی پر تیرتی ہوئی ملے، امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے علاوہ باقی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے، (ھدایۃ القرآن) مسئلہ : خرگوش اور مرغی تمام ائمہ کرام کے نزدیک حلال ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے :﴿ يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ ﴾ ” آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں۔“ یعنی ان کے لئے کون کون سے کھانے حلال ہیں۔ ﴿قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ﴾” کہہ دیجیے ! تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں“ (طبیات) سے مراد ہر وہ چیز ہے جس میں کوئی فائدہ ہے اور بدن اور عقل میں نقصان پہنچے بغیر ان سے لذت حاصل ہوتی ہے۔ پس طیبات میں وہ تمام غلہ جات اور پھل وغیرہ شامل ہیں جو بستیوں اور صحراؤں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے مضمون میں وہ تمام حیوانات بھی شامل ہیں جو خشک زمین پر پائے جاتے ہیں سوائے ان حیوانات کے جن کو شارع نے مستثنی قرار دیا ہے۔ مثلاً درندے، ناپاک جانور اور ناپاک اشیاء وغیرہ۔ اسی لئے یہ آیت کریمہ اپنے مفہوم میں ناپاک چیزوں کی تحریم پر دلالت کرتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں صراحت کے ساتھ اس تحریم کو بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ﴾ (الاعراف :7؍157) ” وہ پاک چیزوں کو انکے لئے حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزوں کو ان کے لئے حرام ٹھہراتا ہے۔ “
﴿وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ ﴾ ” اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو۔‘‘ یعنی جو تم شکاری جانوروں کو شکار کرنا سکھاتے ہو وہ شکار بھی تمہارے لئے حلال ہے۔ یہ آیت کریمہ شکار کے متعلق متعدد امور پر دلالت کرتی ہے۔
(١) یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر لطف و کرم اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے ان کے لئے رزق حلال کی راہیں کشادہ کردی ہیں اور ان کے لئے شکاری جانوروں کے شکار کئے ہوئے اس شکار کو حلال کردیا جس کو ذبح نہیں کرسکتے۔۔۔ شکاری جانور سے مراد کتے، چیتے اور باز وغیرہ ہیں، جو اپنے دانتوں سے یا پنجے سے شکار کو پکڑتے ہیں۔
(٢) شکاری جانور کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کو شکار کے لئے سکھایا گیا ہو۔ ایسا سکھانا جس کو عرف عام میں سکھانا کہتے ہیں، یعنی اگر اسے شکار پر چھوڑا جائے تو وہ شکار پر جھپٹے اور اگر اس کو روک دیا جائے تو فوراً رک جائے اور جب شکار کو پکڑ لے تو اس کو نہ کھائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ ﴾ ”اور جس (طریق) سے اللہ نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو۔“ یعنی وہ شکار کو تمہارے لئے روک رکھیں اور جس شکار میں سے شکاری جانور نے کچھ کھالیا ہو تو اس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آیا اس نے شکار کو اپنے مالک کے لئے پکڑا ہے اور شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے شکار خود اپنے لئے پکڑا ہو۔
(٣) شکاری جانور کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ کتا ہو یا باز وغیرہ، شکار کو زخمی کرتا ہو (اس کا گلا نہ گھونٹتا ہو) جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿مِّنَ الْجَوَارِحِ ﴾سے واضح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گلا گھٹ کر مر جانے والے جانور کی حرمت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔ اگر کتے وغیرہ نے شکار کا گلا گھونٹ دیا ہو یا اس اپنے بوجھ تلے دبا کر اسے ہلاک کردیا ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں یہ اس اصول پر مبنی ہے کہ شکاری جانور وہ ہیں جو شکار کو اپنے دانتوں یا پنجوں سے زخمی کرتے ہیں۔
(جوارح) ” شکاری جانور‘‘ کے بارے میں مشہور یہ کہ اس سے مراد شکار کو حاصل کرلینے اور اس کو پا لینے والا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس معنی پر دلالت نہیں کرتی۔ واللہ اعلم۔ (اس لئے ” جوارح“ کا وہی مفہوم صحیح ہے جس کی وضاحت اس سے پہلے کی جا چکی ہے)
(٤) شکار کے لئے کتا پالنا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب الحرث والمزارعة، باب اقتناء الكلب للحرث، حديث: 2322]
اس کے ساتھ ساتھ عام کتا پالنا حرام ہے۔ کیونکہ کتے کے شکار اور اس کو شکار کے لئے سکھانے کے جواز سے لازم آتا ہے کہ اس کو پالنا بھی جائز ہے۔
(٥) شکار کو اگر کتے کے منہ سے نکلا ہوا لعاب وغیرہ لگ جائے تو وہ پاک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتے کے مارے ہوئے شکار کو مباح قرار دیا ہے اور شکار کو دھونے کا حکم نہیں ہے۔ یہ چیز شکار کو لگے ہوئے کتے کے لعاب کی طہارت پر دلالت کرتی ہے۔
(٦) اس میں علم کی فضیلت کی دلیل ہے، کیونکہ سدھائے ہوئے شکار يا جانور کا مارا یا پکڑا ہوا شکار علم ہی کی وجہ سے، مباح ہوتا ہے۔ اگر اسے تعلیم نہ دی گئی ہو تو اس کا مارا ہوا شکار جائز نہیں ہوتا۔
(٧) شکاری کتے اور شکاری پرندے وغیرہ کو سکھانے میں مشغول ہونا مذموم، عبث اور باطل نہیں ہے، بلکہ یہ تو امر مقصود ہے، کیونکہ شکاری جانور کو سکھانا اس کے مارے ہوئے شکار کی حلت اور اس سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ ہے۔
(٨) اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے دلیل ہے جو کتے کی فروخت کو جائز قرار دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ خریدے بغیر کتے کا حصول ممکن نہیں۔
(٩) شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت تکبیر پڑھنا شرط ہے۔ اگر شکاری جانور کو شکار پر چھوڑ تے وقت عمداً تکبیر نہ پڑھی گئی ہو تو اس کا مارا ہوا شکار جائز نہیں۔
(١٠) شکاری جانور کے مارے ہوئے شکار کو کھانا جائز ہے خواہ شکار مر گیا ہو یا زندہ ہو۔ اگر مالک شکار کو اس حالت میں پا لے کہ ابھی وہ زندہ ہو تو ذبح کئے بغیر اس کا کھانا جائز نہیں۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے اور قیامت کے روز حساب سے ڈرایا ہے اور یہ ایسا معاملہ ہے کہ بہت قریب آن لگا ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴾ ” اللہ تعالیٰ سے ڈرو بے شک وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
log tum say poochtay hain kay unn kay liye kon si cheezen halal hain-? keh do kay tumharay liye tamam pakeezah cheezen halal ki gaee hain . aur jinn shikari janweron ko tum ney Allah kay bataye huye tareeqay kay mutabiq sikha sikha ker ( shikar kay liye ) sidha liya ho , woh jiss janwer ko ( shikar ker kay ) tumharay liye rok rakhen , uss mein say tum kha saktay ho , aur uss per Allah ka naam liya kero aur Allah say dartay raho . Allah jald hisab lenay wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
شکاری کتے اور شکار
چونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نقصان پہنچانے والی خبیث چیزوں کی حرمت کا بیان فرمایا خواہ نقصان جسمانی ہو یا دینی یا دونوں، پھر ضرورت کی حالت کے احکامات مخصوص کرائے گئے جیسے فرمان ہے آیت (وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَيْهِ ) 6 ۔ الانعام :119) یعنی تمام حرام جانوروں کا بیان تفصیل سے تمہارے سامنے آچکا ہے یہ اور بات ہے کہ تم حالات کی بناء پر بےبس اور بےقرار ہوجاؤ۔ تو اس کے بعد ارشاد ہو رہا ہے کہ حلال چیزوں کے دریافت کرنیوالوں سے کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تم پر حلال ہیں، سورة اعراف میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفت بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ طیب چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ قبیلہ طلائی کے دو شخصوں حضرت عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ مردہ جانور تو حرام ہوچکا اب حلال کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت اتری۔ حضرت سعید فرماتے ہیں یعنی ذبح کئے ہوئے جانور حلال طیب ہیں۔ مقاتل فرماتے ہیں ہر حلال رزق طیبات میں داخل ہے۔ امام زہری سے سوال کیا گیا کہ دوا کے طور پر پیشاب کا پینا کیسا ہے ؟ جواب دیا کہ وہ طیبات میں داخل نہیں۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ اس مٹی کا بیچنا کیسا ہے جسے لوگ کھاتے ہیں فرمایا و طیبات میں داخل نہیں اور تمہارے لئے شکاری جانوروں کے ذریعہ کھیلا ہوا شکار بھی حلال کیا جاتا ہے مثلاً سدھائے ہوئے کتے اور شکرے وغیرہ کے ذریعے۔ یہی مذہب ہے جمہور صحابہ تابعین ائمہ وغیرہ کا۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ شکاری سدھائے ہوئے کتے، باز، چیتے، شکرے وغیرہ ہر وہ پرندہ جو شکار کرنے کی تعلیم دیا جاسکتا ہو اور بھی بہت سے بزرگوں سے یہی مروی ہے کہ پھاڑنے والے جانوروں اور ایسے ہی پرندوں میں سے جو بھی تعلیم حاصل کرلے، ان کے ذریعہ شکار کھیلنا حلال ہے، لیکن حضرت مجاہد سے مروی ہے کہ انہوں نے تمام شکاری پرندوں کا کیا ہوا شکار مکروہ کہا ہے اور دلیل میں آیت ( ۙوَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ ۡ فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهِ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ) 5 ۔ المائدہ :4) پڑھا ہے سعید بن جبیر سے بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے۔ ضحاک اور سدی کا بھی یہی قول ابن جریر میں مروی ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں باز وغیرہ پرند جو شکار پکڑیں اگر وہ تمہیں زندہ مل جائے تو تم ذبح کر کے کھالو ورنہ نہ کھاؤ، لیکن جمہور علماء اسلام کا فتویٰ یہ ہے کہ شکاری پرندوں کے ذریعہ جو شکار ہو، اس کا اور شکاری کتوں کے کئے ہوئے شکار کا ایک ہی حکم ہے، ان میں تفریق کرنے کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔ چاروں اماموں وغیرہ کا مذہب بھی یہی ہے، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اور اس کی دلیل میں اس حدیث کو لاتے ہیں کہ حضرت عدی بن حاتم نے رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باز کے کئے ہوئے شکار کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا " جس جانور کو وہ تیرے لئے روک رکھے تو اسے کھالے " امام احمد نے سیاہ کتے کا کیا ہوا شکار بھی مستثنیٰ کرلیا ہے، اس لئے کہ ان کے نزدیک اس کا قتل کرنا واجب ہے اور پالنا حرام ہے، کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " نماز کو تین چیزیں توڑ دیتی ہیں، گدھا، عورت اور سیاہ کتا۔ اس پر حضرت ابی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیاہ کتے کی خصوصیت کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ نے فرمایا " شیطان ہے۔ " دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا پھر فرمایا انہیں کتوں سے کیا واسطہ ؟ ان کتوں میں سے سخت سیاہ کتوں کو مار ڈالا کرو۔ شکاری حیوانات کو جوارح اس لئے کہا گیا کہ جرح کہتے ہیں کسب اور کمائی کو، جیسے عرب کہتے ہیں (فلان جرح اہلہ خیرا) یعنی فلاں شحص نے اپنی اہل کیلئے بھلائی حاصل کرلی اور عرب کہتے ہیں (فلان لا جارح لہ فلاں) شخص کا کوئی کماؤ نہیں، قرآن میں بھی لفظ جرح کسب اور کمائی اور حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے فرمان ہے آیت (وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ) 6 ۔ الانعام :60) یعنی دن کو جو بھلائی برائی تم حاصل کرتے ہو اور اسے بھی اللہ جانتا ہے۔ اس آیت کریمہ کے اترنے کی وجہ ابن ابی حاتم میں یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتوں کے قتل کرنے کا حکم دیا اور وہ قتل کئے جانے لگے تو لوگوں نے آکر آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس امت کے قتل کا حکم آپ نے دیا ان سے ہمارے لئے کیا فائدہ حلال ہے ؟ آپ خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری۔ پس آپ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار کے پیچھے چھوڑے اور بسم اللہ بھی کہے پھر وہ شکار پکڑ لے اور روک رکھے تو جب تک وہ نہ کھائے یہ کھالے۔ ابن جریر میں ہے " جبرائیل نے حضور سے اندر آنے کی اجازت چاہی، آپ نے اجازت دی لیکن وہ پھر بھی اندر نہ آئے تو آپ نے فرمایا اے قاصد رب ہم تو تمہیں اجازت دے چکے پھر کیوں نہیں آتے ؟ اس پر فرشتے نے کہا ! ہم اس گھر میں نہیں جاتے، جس میں کتا ہو، اس پر آپ نے حضرت رافع کو حکم دیا کہ مدینے کے کل کتے مار ڈالے جائیں، ابو رافع فرماتے ہیں، میں گیا اور سب کتوں کو قتل کرنے لگا، ایک بڑھیا کے پاس کتا تھا، جو اس کے دامن میں لپٹنے لگا اور بطور فریاد اس کے سامنے بھونکنے لگا، مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا اور آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی آپ نے حکم دیا کہ اسے بھی باقی نہ چھوڑو، میں پھر واپس گیا اور اسے بھی قتل کردیا، اب لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ جس امت کے قتل کا آپ نے حکم دیا ہے، ان سے کوئی فائدہ ہمارے لئے حلال بھی ہے یا نہیں ؟ اس پر آیت (یسألونک) الخ، نازل ہوئی۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مدینے کے کتوں کو قتل کر کے پھر ابو رافع آس پاس کی بستیوں میں پہنچے اور مسئلہ دریافت کرنیوالوں کے نام بھی اس میں ہیں یعنی حضرت عاصم بن عذی حضرت سعید بن خیثمہ حضرت عمویمر بن ساعدرہ۔ محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ آیت کا شان نزول کتوں کا قتل ہے (مکلبین) کا لفظ ممکن ہے کہ ( علمتم) کی ضمیر یعنی فاعل کا حال ہو اور ممکن ہے کہ جوارح یعنی مقتول کا حاصل ہو۔ یعنی جن شکار حاصل کرنے والے جانوروں کو تم نے سدھایا ہو اور حالانکہ وہ شکار کو اپنے پنجوں اور ناخنوں سے شکار کرتے ہوں، اس سے بھی یہ استدلال ہوسکتا ہے کہ شکاری جانور جب شکار کو اپنے صدمے سے ہی دبوچ کر مار ڈالے تو وہ حلال نہ ہوگا جیسے کہ امام شافعی کے دونوں قولوں میں سے ایک قول ہے اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے۔ اسی لئے فرمایا تم نے انہیں اس سے کچھ سکھا دیا ہو جو اللہ نے تمہیں لکھا رکھا ہے " یعنی جب تم چھوڑو، جائے، جب تم روک لو رک جائے اور شکار پکڑ کر تمہارے لئے روک رکھے۔ تاکہ تم جا کر اسے لے لو، اس نے خود اپنے لئے اسے شکار نہ کیا ہو، اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جب شکاری جانور سدھایا ہوا ہو اور اس نے اپنے چھوڑنے والے کیلئے شکار کیا ہو اور اس نے بھی اس کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لیا ہو تو وہ شکار مسلمانوں کیلئے حلال ہے گو وہ شکار مر بھی گیا ہو، اس پر اجماع ہے۔ اس آیت کے مسئلہ کے مطابق ہی بخاری و مسلم کی یہ حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اللہ کا نام لے کر اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتا ہوں تو آپ نے فرمایا جس جانور کو وہ پکڑ رکھے تو اسے کھالے اگرچہ کتے نے اسے مار بھی ڈالا ہو، ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے ساتھ شکار کرنے میں دوسرا کتا نہ ملا ہو اس لئے کہ تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہے دوسرے کو بسم اللہ پڑھ کر نہیں چھوڑا میں نے کہا کہ میں نوکدار لکڑی سے شکار کھیلتا ہوں فرمایا اگر وہ اپنی تیزی کی طرف سے زخمی کرے تو کھالے اور اگر اپنی چوڑائی کی طرف سے لگا ہو تو نہ کھا کیونکہ وہ لٹھ مارا ہوا ہے، دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں کہ جب تو اپنے کتے کو چھوڑے تو اللہ کا نام پڑھ لیا کر پھر وہ شکار کو تیرے لئے پکڑ رکھے اور تیرے پہنچ جانے پر شکار زندہ مل جائے تو تو اسے ذبح کر ڈال اور اگر کتے نے ہی اسے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تو اسے بھی کھا سکتا ہے اس لئے کہ کتے کا اسے شکار کرلینا ہی اس کا ذبیحہ ہے اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ " اگر اس نے کھالیا ہو تو پھر اسے نہ کھا، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں اس نے اپنے کھانے کیلئے شکار نہ پکڑا ہو ؟ " یہی دلیل جمہور کی ہے اور حقیقتاً امام شافعی کا صحیح مذہب بھی یہی ہے کہ جب کتا شکار کو کھالے تو وہ مطلق حرام ہوجاتا ہے اس میں کوئی گنجاش نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ہاں سلف کی ایک جماعت کا یہ قول بھی ہے کہ مطلقاً حلال ہے۔ ان کے دلائل یہ ہیں۔ سلمان فارسی فرماتے ہیں تو کھا سکتا ہے اگرچہ کتے نے تہائی حصہ کھالیا ہو، حضرت سعید بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ گو ایک ٹکڑا ہی باقی رہ گیا ہو پھر بھی کھا سکتے ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاض فرماتے ہیں گو دو تہائیاں کتا کھا گیا ہو پھر بھی تو کھا سکتا ہے، حضرت ابوہریرہ کا بھی یہی فرمان ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں جب بسم اللہ کہہ کر تو نے اپنے سدھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑا ہو تو جس جانور کو اس نے تیرے لئے پکڑ رکھا ہے تو اسے کھالے کتے نے اس میں سے کھایا ہو یا نہ کھایا ہو، یہی مروی ہے حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے۔ حضرت عطاء اور حضرت حسن بصری سے اس میں مختلف اقوال مروی ہیں، زہری ربیعہ اور مالک سے بھی یہی روایت کی گئی ہے، اسی کی طرف امام شافعی اپنے پہلے قول میں گئے ہیں اور نئے قول میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت سلمان فارسی سے ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی شخص اپنے کتے کو شکار پر چھوڑے پھر شکار کو اس حالت میں پائے کہ کتے نے اسے کھالیا ہو تو جو باقی ہو اسے وہ کھا سکتا ہے۔ اس حدیث کی سند میں بقول ابن جریر نظر ہے اور سعید راوی کا حضرت سلمان سے سننا معلوم نہیں ہوا اور دوسرے ثقہ راوی اسے مرفوع نہیں کرتے بلکہ حضرت سلمان کا قول نقل کرتے ہیں یہ قول ہے تو صحیح لیکن اسی معنی کی اور مرفوع حدیثیں بھی مروی ہیں، ابو داؤد میں ہے حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی ابو ثعلبہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس شکاری کتے سدھائے ہوئے ہیں ان کے شکار کی نسبت کیا فتویٰ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو جانور وہ تیرے لئے پکڑیں وہ تجھ پر حلال ہے، اس نے کہا ذبح کرسکوں جب بھی اور ذبح نہ کرسکوں تو بھی ؟ اور اگرچہ کتے نے کھالیا ہو تو بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں گو کھا بھی لیا ہو، انہوں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنے تیر کمان سے جو شکار کروں اس کا کیا فتویٰ ہے ؟ فرمایا اسے بھی تو کھا سکتا ہے، پوچھا اگر وہ زندہ ملے اور میں اسے ذبح کرسکوں تو بھی اور تیر لگتے ہی مرجائے تو بھی ؟ فرمایا بلکہ گو وہ تجھے نظر نہ پڑے اور ڈھونڈنے سے مل جائے تو بھی۔ بشرطیکہ اس میں کسی دوسرے شخص کے تیر کا نشان نہ ہو، انہوں نے تیسرا سوال کیا کہ بوقت ضرورت مجوسیوں کے برتنوں کا استعمال کرنا ہمارے لئے کیسا ہے ؟ فرمایا تم انہیں دھو ڈالو پھر ان میں کھا پی سکتے ہو۔ یہ حدیث نسائی میں بھی ہے ابو داؤد کی دوسری حدیث میں ہے جب تو نے اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو تو تو اس کے شکار کو کھا سکتا ہے گو اس نے اس میں سے کھا بھی لیا ہو اور تیرا ہاتھ جس شکار کو تیرے لئے لایا ہو اسے بھی تو کھا سکتا ہے۔ ان دونوں احادیث کی سندیں بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہیں اور حدیث میں ہے کہ تیرا سدھایا ہوا کتا جو شکار تیرے لئے کھیلے تو اسے کھالے، حضرت عدی نے پوچھا اگرچہ اس نے اس میں سے کھالیا ہو فرمایا ہاں پھر بھی، ان آثار اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شکاری کتے نے شکار کو گو کھالیا ہو تاہم بقیہ شکار شکاری کھا سکتا ہے۔ کتے وغیرہ کے کھائے ہوئے شکار کو حرام نہ کہنے والوں کے یہ دلائل ہیں۔ ایک اور جماعت ان دونوں جماعتوں کے درمیان ہے وہ کہتی ہے کہ اگر شکار پکڑتے ہی کھانے بیٹھ گیا تو بقیہ حرام اور اگر شکار پکڑ کر اپنے مالک کا انتظار کیا اور باوجود خاصی دیر گزر جانے کے اپنے مالک کو نہ پایا اور بھوک کی وجہ سے اسے کھالیا تو بقیہ حلال۔ پہلی بات پر محمول ہے حضرت عدی والی حدیث اور دوسری پر محمول ہے ابو ثعلبہ والی حدیث میں۔ یہ فرق بھی بہت اچھا ہے اور اس سے دو صحیح حدیثیں بھی جمع ہوجاتی ہیں۔ استاذ ابو المعالی جوینی نے اپنی کتاب نہایہ میں یہ تمنا ظاہر کی تھی کہ کاش کوئی اس بارے میں یہ وضاحت کرے تو الحمد اللہ یہ وضاحت لوگوں نے کرلی۔ اس مسئلہ میں ایک چوتھا قول بھی ہے وہ یہ کہ کتے کا کھایا ہوا شکار تو حرام ہے جیسا کہ حضرت عدی کی حدیث میں ہے، اور شکرے وغیرہ کا کھایا ہوا شکار حرام نہیں اس لئے کہ وہ تو کھانے سے ہی تعلیم قبول کرتا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اگر پرند اپنے مالک کے پاس لوٹ آیا اور مار سے نہیں پھر وہ پر نوچے اور گوشت کھائے تو کھالے۔ ابراہیم نخعی، شعبی، حماد بن سلیمان یہی کہتے ہیں ان کی دلیل ابن ابی حاتم کی یہ روایت ہے کہ حضرت عدی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم لوگ کتوں اور باز سے شکار کھیلا کرتے ہیں تو ہمارے لئے کیا حلال ہے ؟ آپ نے فرمایا جو شکاری جانور یا شکار حاصل کرنے والے خود شکار کرنے والے اور سدھائے ہوئے تمہارے لئے شکار روک رکھیں اور تم نے ان پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے تم کھالو۔ پھر فرمایا جسے کتے کو تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو وہ جس جانور کو روک رکھے تو اسے کھالے میں نے کہا گو اسے مار ڈالا ہو فرمایا گو مار ڈالا ہو لیکن یہ شرط ہے کہ کھایا نہ ہو میں نے کہا اگر اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی مل گئے ہوں ؟ تو ؟ فرمایا پھر نہ کھا جب تک کہ تجھے اس بات کا پورا اطمینان نہ ہو کہ تیرے ہی کتے نے شکار کیا ہے۔ میں نے کہا ہم لوگ تیر سے بھی شکار کیا کرتے ہیں اس میں سے کونسا حلال ہے ؟ فرمایا جو تیر زخمی کرے اور تو نے اللہ کا نام لے کر چھوڑا ہو اسے کھالے، وجہ دلالت یہ ہے کہ کتے میں نہ کھانے کی شرط آپ نے بتائی اور باز میں نہیں بتائی، پس ان دونوں میں فرق ثابت ہوگیا واللہ اعلم۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ تم کھالو جن حلال جانوروں کو تمہارے یہ شکاری جانور پکڑ لیں اور تم نے ان کے چھوڑنے کے وقت اللہ کا نام لے لیا ہو۔ جیسے کہ حضرت عدی اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیث میں ہے اسی لئے حضرت امام احمد وغیرہ اماموں نے یہ شرط ضروری بتلائی ہے کہ شکار کیلئے جانور کو چھوڑتے وقت اور تیر چلاتے وقت بسم اللہ پڑھنا شرط ہے۔ جمہوری کا مشہور مذہب بھی یہی ہے کہ اس آیت اور اس حدیث سے مراد جانور کے چھوڑنے کا وقت ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ اپنے شکاری جانور کو بھیجتے وقت بسم اللہ کہہ لے ہاں اگر بھول جائے تو کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مراد کھانے کے وقت بسم اللہ پڑھنا ہے۔ جیسے کہ بخاری و مسلم میں عمر بن ابو سلمہ کے ربیبہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا مروی ہے کہ اللہ کا نام لے اور اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے سامنے سے کھا۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا لوگ ہمارے پاس جو لوگ گوشت لاتے ہیں وہ نو مسلم ہیں ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا بھی ہے یا نہیں ؟ تو کیا ہم اسے کھا لیں آپ نے فرمایا تم خود اللہ کا نام لے لو اور کھالو۔ مسند میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چھ صحابہ کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کردو لقمے اس میں سے اٹھائے آپ نے فرمایا اگر یہ بسم اللہ کہہ لیتا تو یہ کھانا تم سب کو کافی ہوجاتا تم میں سے جب کوئی کھانے بیٹھے تو بسم اللہ پڑھ لیا کرے اگر اول میں بھول گیا تو جب یاد آجائے کہہ دے دعا (بسم اللہ اولہ و اخرہ) یہی حدیث منقطع سند کے ساتھ ابن ماجہ میں بھی ہے۔ دوسری سند سے یہ حدیث ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح بتاتے ہیں۔ جابربن صبیح فرماتے ہیں۔ حضرت مثنی بن عبدالرحمن خزاعی کے ساتھ میں نے واسط کا سفر کیا ان کی عادت یہ تھی کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہہ لیتے اور آخری لقمہ کے وقت دعا (بسم اللہ اولہ اخرہ) کہہ لیا کرتے اور مجھ سے انہوں نے فرمایا کہ خالد بن امیہ بن مخشی صحابی کا فرمان ہے کہ شیطان اس شخص کے ساتھ کھانا کھاتا رہتا ہے جس نے اللہ کا نام نہ لیا ہو جب کھانے والا اللہ کا نام یاد کرتا ہے تو اسے قے ہوجاتی ہے اور جتنا اس نے کھایا ہے سب نکل جاتا ہے (مسند احمد وغیرہ) اس کے راوی کو ابن معین اور نسائی تو ثقہ کہتے ہیں لیکن ابو الفتح ازوی فرماتے ہیں یہ دلیل لینے کے قابل راوی نہیں۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ ایک لڑکی گرتی پڑتی آئی، جیسے کوئی اسے دھکے دے رہا ہو اور آتے ہی اس نے لقمہ اٹھانا چاہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور ایک اعرابی بھی اسی طرح آیا اور پیالے میں ہاتھ ڈالا آپ نے اس کا ہاتھ بھی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور فرمایا جب کسی کھانے پر بسم اللہ نہ کہی جائے تو شیطان اسے اپنے لئے حلال کرلیتا ہے وہ پہلے تو اس لڑکی کے ساتھ آیا تاکہ ہمارا کھانا کھائے تو میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا پھر وہ اعرابی کے ساتھ میں نے اس کا بھی ہاتھ تھام لیا اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے (مسند، مسلم، ابو داؤد، نسائی) مسلم، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ جب انسان اپنے گھر میں جاتے ہوئے اور کھانا کھاتے ہوئے اللہ کا نام یاد کرلیا کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ اسے شیطانو نہ تو تمہارے لئے رات گزارنے کی جگہ ہے نہ اس کا کھانا اور جب وہ گھر میں جاتے ہوئے کھاتے ہوئے اللہ کا نام نہیں لیتا تو وہ پکار دیتا ہے کہ تم نے شب باشی کی اور کھانا کھانے کی جگہ پالی۔ مسند، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکایت کی کہ ہم کھاتے ہیں اور ہمارا پیٹ نہیں بھرتا تو آپ نے فرمایا شاید تم الگ الگ کھاتے ہو گے کھانا سب مل کر کھاؤ اور بسم اللہ کہہ لیا کرو اس میں اللہ کی طرف سے برکت دی جائے گی۔