بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا، اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں،
English Sahih:
Indeed, We sent down the Torah, in which was guidance and light. The prophets who submitted [to Allah] judged by it for the Jews, as did the rabbis and scholars by that with which they were entrusted of the Scripture of Allah, and they were witnesses thereto. So do not fear the people but fear Me, and do not exchange My verses for a small price [i.e., worldly gain]. And whoever does not judge by what Allah has revealed – then it is those who are the disbelievers.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی سارے نبی، جو مسلم تھے، اُسی کے مطابق اِن یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اِسی طرح ربانی اور احبار بھی (اسی پر فیصلہ کا مدار رکھتے تھے) کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے پس (اے گروہ یہود!) تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ہم نے توریت اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے، اس کے مطابق یہود کو حکم دیتے تھے ہمارے فرمانبردار نبی اور عالم اور فقیہہ کہ ان سے کتاب اللہ کی حفاظت چاہی گئی تھی اور وہ اس پر گواہ تھے تو لوگوں سے خوف نہ کرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے ذلیل قیمت نہ لو اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے وہی لوگ کافر ہیں،
3 Ahmed Ali
ہم نے تورات نازل کی کہ اس میں ہدایت اور روشنی ہے اس پر پیغمبر جو الله کے فرمانبردار تھے یہود کو حکم کرتے تھے اور اس کی خبر گیری پر مقرر تھے سوتم لوگو ں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑا مول مت لو اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کر لے جو الله نے اتارا تو وہی لوگ کافر ہیں
4 Ahsanul Bayan
ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے یہودیوں میں (١) اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالٰی کے ماننے والے (انبیاء علیہ السلام) (٢) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا (٣) اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے (٤) اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے سے مول نہ بیچو (٥) اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔( ٦)
٤٤۔١ (لِلَّذیْنَ ھَادوْ ا) اس کا تعلق یَحُکْمُ سے ہے۔ یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔ ٤٤۔٢ اَ سْلَمُوْا یہ نبِیِّنّّ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ سارے انبیاء دین اسلام ہی کے پیروکار تھے جس کی طرف محمد دعوت دے رہے ہیں۔ یعنی تمام پغمبروں کا دین ایک ہی رہا ہے۔ اسلام جس کی بنیادی دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ہر نبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہی دعوت توحید و اخلاص پیش کی۔(وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) 21۔ الانبیاء;25) ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، پس تم سب میری ہی عبادت کرو"۔ اسی کو قرآن میں الدین بھی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ سورہ شوریٰ کی آیت ۱۳ (شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا) الایۃ میں کہا گیا ہے جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے لیے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو آپ سے قبل دیگر انبیا کے لیے کیا تھا۔ ٤٤۔٣ چنانچہ انہوں نے تورات میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا، جس طرح بعد میں لوگوں نے کیا۔ ٤٤۔٤ کہ یہ کتاب کمی بیشی سے محفوظ ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ ٤٤۔٥ یعنی لوگوں سے ڈر کر تورات کے اصل احکام پر پردہ مت ڈالو نہ دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے ان میں رد وبدل کرو۔ ٤٤۔٦ پھر تم کیسے ایمان کے بدلے کفر پر راضی ہوگئے ہو؟
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بیشک ہم نے توریت نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے اسی کے مطابق انبیاء جو (خدا کے) فرمانبردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علماء بھی کیونکہ وہ کتاب خدا کے نگہبان مقرر کیے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکم الہٰی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت ونور ہے، یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیا (علیہم السلام) اور اہل اللہ اور علما فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاﻇت کا حکم دیا گیا تھا۔ اور وه اس پر اقراری گواه تھے اب تمہیں چاہیئے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول پر نہ بیچو، جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وه (پورے اور پختہ) کافر ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
ہم نے توراۃ نازل کی جس میں ہدایت اور نور (روشنی) تھی اس کے مطابق یہودیوں کے لئے فیصلے کرتے تھے۔ وہ تمام نبی جو اللہ کے مطیع و فرمانبردار تھے اللہ والے علماء و احبار بھی اس کے مطابق فیصلے کرتے تھے جس کی حفاظت کے وہ ذمہ دار بنائے گئے تھے اور جس کے وہ گواہ تھے۔ پس تم لوگوں سے نہ ڈرو۔ بلکہ مجھ سے ڈرو۔ اور میری آیات کو تھوڑی سی قیمت کے عوض فروخت نہ کرو اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ کافر ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک ہم نے توریت کو نازل کیا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے اور اس کے ذریعہ اطاعت گزار انبیائ یہودیوں کے لئے فیصلہ کرتے ہیں اور اللہ والے اور علمائے یہود اس چیز سے فیصلہ کرتے ہیں جس کا کتاب هخدا میں ان کو محافظ بنایا گیا ہے اور جس کے یہ گواہ بھی ہیں لہذا تم ان لوگوں سے نہ ڈرو صرف ہم سے ڈرو اور خبردار تھوڑی سی قیمت کے لئے ہماری آیات کا کاروبار نہ کرنا اور جو بھی ہمارے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا وہ سب کافر شمار ہوں گے
9 Tafsir Jalalayn
بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اسی کے مطابق انبیاء جو (خدا کے) فرمانبردار تھے \& یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علماء بھی۔ کیونکہ وہ کتاب خدا کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکم الہٰی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا۔ اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں آیت ٤٤ تا ٥٠ ترجمہ : ہم نے تورات نازل کی جس میں گمراہی سے ہدایت اور روشنی تھی (یعنی) احکام کا بیان تھا، بنی اسرائیل کے تمام انبیاء جو کہ مسلمان اللہ کے تابع فرمان تھے، یہودیوں کیلئے اسی کے ذریعہ فیصلہ کرتے تھے اور ان کے علماء اور فقہاء بھی (اسی کے ذریعہ فیصلے کرتے تھے) اس سبب سے کہ ان کو اللہ نے اس کا محافظ بنایا تھا یعنی ان کو اس پر امین بنایا تھا بایں طور کہ ان سے کتاب اللہ کی حفاظت کا مطالبہ کیا تھا، اس میں ردوبدل کرنے سے، اور وہ اس کے برحق ہونے پر شاہد تھے، پس اے یہود تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات کے اور رجم وغیرہ کے اظہار کے بارے میں جو تمہارے پاس ہیں لوگوں سے مت ڈرو (بلکہ) ان کے چھپانے کے بارے میں مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کو دنیوی قلیل معاوضہ کے بدلے جس کو تم اس کو چھپانے کے عوض میں لیتے ہو مت بیچو، اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں اور ہم نے ان پر تورات میں مقرر کردیا ہے کہ جان کو جان کے بدلے قتل کیا جائیگا جب (قاتل) ان کو قتل کرے، اور آنکھ، آنکھ کے بدلے پھوڑی جائیگی اور ناک ناک کے بدلے کاٹی جائے گی، اور کان کان کے بدلے کاٹا جائیگا، اور دانت دانت کے بدلے اکھاڑا جائیگا اور ایک قراءت میں چاروں جگہ رفع کے ساتھ ہے، اور زخموں میں برابری ہے (جروح) میں بھی دونوں وجہ (رفع و نصب) ہیں، یعنی ان میں برابری کی جائیگی جبکہ ممکن ہو، جیسا کہ ہاتھ، پیر اور ذکر وغیرہ میں اور جس میں برابری ممکن نہ ہو اس میں عادل کے فیصلہ کا اعتبار ہوگا یہ (مذکورہ) حکم اگرچہ ان پر فرض کیا گیا ہے مگر وہ ہماری شریعت میں بھی ثابت ہے پھر جو قصاص کا صدقہ کر دے اس طور پر وہ اپنی ذات پر قدرت دیدے تو اس کا یہ عمل اس کے فعل (قتل) کا کفارہ ہے اور جو لوگ قصاص وغیرہ کے معاملہ میں اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں اور ہم نے ان نبیوں کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو ان سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا، اور ان کو انجیل عطا کی جس میں گمراہی سے رہنمائی تھی اور احکام کا بیان تھا حال یہ ہے کہ وہ اپنے سے سابق کتاب تورات یعنی اس کے احکام کی تصدیق کرنے والی ہے اور خدا ترس لوگوں کے لئے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی، اور ہم نے حکم دیا کہ اہل انجیل ان احکام کے مطابق فیصلہ کریں جو ہم نے اس میں نازل کئے ہیں اور ایک قراءت پر عطف کرتے ہوئے، اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں، اور اے محمد ہم نے آپ کے پاس کتاب قرآن حق کے ساتھ نازل کی ہے (بالحق) انزلنا کے متعلق ہے، اور اس کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور اس پر شاہد ہے اور کتاب بمعنی کتب ہے، لہٰذا تم اہل کتاب کے درمیان جب وہ تمہارے پاس فیصلہ لائیں تو آپ نازل کردہ خدائی قانون کے ذریعہ فیصلہ کریں، اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس سے روگردانی کرکے ان کو خوہشات کی پیروی نہ کریں، اور تم میں سے ہر ایک کے لئے اے لوگو ہم نے ایک شریعت اور دین کا واضح طریقہ متعین کیا ہے کہ جس پر تم چلو، اور اگر خدا چاہتا تو تم کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا ایک شریعت کے ماننے والی، لیکن اس نے تم کو مختلف فرقے بنایا تاکہ وہ تم کو ان شرائع مختلفہ میں آزمائے جو تم کو دی ہیں تاکہ وہ تم میں سے فرمانبردار اور نافرمان کو دیکھے، لہٰذا بھلائیوں میں سبقت کرنے کی کوشش کرو یعنی اس کی طرف جلدی کرو تم سب کو بعث کے بعد خدا ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو اس کی اصل حقیقت بتادے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے یعنی دینی امور میں، اور تم میں سے ہر ایک کو اس کے عمل کی جزاء دے گا اور آپ ان کے درمیان نازل کردہ خدائی قانون کے ذریعہ فیصلہ کرتے رہئے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے اور محتاط رہئے کہ کہیں یہ لوگ آپ کو ان میں سے جو آپ پر اللہ نے نازل کی ہیں بعض باتوں سے منحرف نہ کردیں، پس اگر یہ لوگ نازل کردہ حکم سے انحراف کریں اور اس کے علاوہ کا قصد کریں تو سمجھ لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں جن کے وہ مرتکب ہوئے ہیں ان کو دنیا ہی میں مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے، ان میں سے انحراف بھی ہے اور ان سب کی سزا تو آخرت میں دے گا، اور یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں، اگر یہ (خدائی قانون) سے انحراف کرتے ہیں تو کیا یہ پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں (یبغون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، اور استفہام انکاری ہے حالانکہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے، اور اہل ایمان کو خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا کہ وہی اس (فیصلہ میں) غور و فکر کرتے ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : الَذِیْنَ ھَادُوْا، اس کا تعلق یحکم سے ہے یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔ قولہ : اَلذین اَسْلَمُوا، النبین کی صفت ہے۔ قولہ : اَلربّانیُونَ ، یہ خلاف قیاس رب کی طرف نسبت ہے، راء کے کسرہ کے ساتھ بھی بولا جاتا ہے۔ قولہ : اَلْاَحبار، یہ کسرہ اور فتحہ کے ساتھ حبر کی جمع ہے بمعنی فقہاء فراء نے کہا ہے کسرہ فصیح ہے یہ تحبیر سے ماخوذ ہے بمعنی تحسین۔ قولہ : اُسْتُحْفِظوا، اِسْتِحْفَاظ سے ماضی مجہول جمع مذکر غائب وہ نگہان مقرر کئے گئے، یعنی احبار کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ تورات کی تحریف سے حفاظت کریں۔ قولہ : وفِی قِرَاء ۃٍ بالرَّفْعِ فی الاَرْبَعَۃِ ، چاروں جگہ مبتداء و خبر ہونے کی وجہ سے ایک قراءت میں مرفوع بھی پڑھا گیا ہے۔ قولہ : یُقْتَصُّ ، قصاص کی تفسیر یُقتَصُّ سے کرنے کا مقصد حمل کو درست کرنا ہے۔ قولہ ؛ نحو ذلک، کالسفتین والانثیین والقدمین، اور جس زخم میں برابری اور مساوات ممکن نہ ہو مثلاً زخم لگا دینا یا بدن کے کسی حصہ سے گوشت اتار لینا یا ہڈی توڑ دینا، اس میں چونکہ مساوات ممکن نہیں ہے اسلئے حاکم عادل کا فیصلہ معیار ہوگا۔ قولہ : ای بالقصاص بان مَکَّنَ مَنْ نفسہٖ ، یہ تشریح امام شافعی (رح) تعالیٰ کے مذہب کے مطابق ہے، ورنہ امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے نزدیک تَصَدَّقَ کے معنی معاف کے ہیں یعنی اگر مقتول کے ورثاء نے قاتل کا قصاص معاف کردیا تو یہ انکے حق میں صدقہ ہے۔ قولہ : قلنا۔ سوال : یہاں قلنا محذوف ماننے سے کیا فائدہ ہے ؟ جواب : تاکہ قَفَّیْنَا پر اس کا عطف صحیح ہوجائے۔ قولہ : بنصب لیحکم، لام کیْ کے بعد اَنِ مقدرہ کی وجہ سے یَحْکُمْ منصوب ہے۔ قولہ : عطفاً عَلیٰ مَعْمُوْلِ آتینا، اور وہ معمول مقدر ھدًی وموعظۃً ، ہے، آتَیْنُاہٗ کا مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی، وآتَیْنَاہ الاِنْجیلَ للھدی والموعظۃ وحکمھم بہٖ ۔ تفسیر و تشریح اِنَّا اَنْزَلْنَا التوراۃ فیھا حکم اللہ، سابقہ آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں سازش کا ایک قصہ ابن جریر ابن ابی حاتم نے ابن عباس کے حوالہ سے بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبد اللہ بن صوریا جو کہ اپنے زمانہ میں تورات کا بڑا ماہر عالم سمجھا جاتا تھا اور شماس بن قیس اور دیگر چند یہودی علماء کا ایک وفد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں فریب دہی کے ارادہ سے حاضر ہوا، اور ایک فرضی مقدمہ میں آپ سے غلط فیصلہ کرانا چاہا مگر آپ نے منع فرما دیا اور فرمایا کہ تورات میں اس مقدمہ کا حکم لکھا ہوا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرلو، اسی دوران آپ کو آگاہ کرنے کیلئے یہ آیت نازل فرمائی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر یہ لوگ آپ سے اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانا ہی چاہیں تو آپ عدل و انصاف سے فیصلہ کریں اللہ کو یہی پسند ہے، اگر ان لوگوں کو انصاف منظور ہوتا تو یہ لوگ تورات کے ان احکام سے انحراف نہ کرتے جن پر تمام انبیاء بنی اسرائیل اور علماء و فقہاء کا عمل رہا ہے، اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہود سے ان کے اسلاف کا طرز عمل یاد لا کر کہا جا رہا ہے کہ تم لوگوں کو اپنے بااثر سرگردہ لوگوں کے ڈر سے یا مالداروں سے رشوت لینے کے لالچ سے تورات کے احکام بدلنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے، ورنہ تمہارا شمار احکام الہیٰ کے منکریں میں ہوگا، اگرچہ مذکورہ آیات یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن اس امت میں سے بھی اگر کوئی دانستہ قرآنی آیات کا منکر ہو اور اس میں تحریف کرے تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگا، اور اگر کوئی شخص قرآنی آیت کے حق ہونے کے اقرار کے باوجود اس پر عمل نہ کرے تو گناہ گار ہوگا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ ﴾ ”بے شک ہم نے تورات نازل فرمائی۔“ یعنی ہم نے موسیٰ بن عمران پر تورات نازل کی ﴿فِيهَا هُدًى ﴾ ” جس میں ہدایت ہے“ یعنی تورات ایمان اور حق کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور گمراہی سے بچاتی ہے﴿وَنُورٌ ﴾ ” اور روشنی ہے۔“ یعنی ظلم و جہالت، شک و حیرت اور شبہات و شہوات کی تاریکیوں میں اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ ﴾ (الانبیاء: 21؍48) ” اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو حق و باطل میں فرق کرنے والی، روشنی عطا کرنے والی اور اہل تقویٰ کو نصیحت کرنے والی کتاب عطا کی۔“ ﴿يَحْكُمُ بِهَا ﴾ ” فیصلہ کرتے تھے اس کے ساتھ“ یعنی یہودیوں کے جھگڑوں اور ان کے فتاویٰ میں ﴿النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا ﴾ ” پیغمبر جو فرماں بردار تھے“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کیا، اس کے احکامات کی اطاعت کی اور ان کا اسلام دیگر لوگوں کے اسلام سے زیادہ عظیم تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندے تھے۔ جب یہ انبیائے کرام جو مخلوق کے سردار ہیں، تو رات کو اپنا امام بناتے ہیں، اس کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے پیچھے چلتے ہیں تو یہودیوں کے ان رذیل لوگوں کو اس کی پیروی کرنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ اور ان پر کس چیز نے واجب کیا ہے کہ وہ تورات کے بہترین حصے کو نظر انداز کردیں جس میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم ہے اور عقیدے کو قبول کئے بغیر کوئی ظاہری اور باطنی عمل قابل قبول نہیں۔ کیا اس بارے میں ان کے پاس کوئی راہنمائی ہے؟ ہاں ! ان کی راہنمائی کرنے والے راہنما موجود ہیں جو تحریف کرنے، لوگوں کے درمیان اپنی سرداری اور مناصب قائم رکھنے، کتمان حق کے ذریعے سے حرام مال کھانے اور اظہار باطل کے عادی ہیں۔ یہ لوگ ائمہ ضلالت ہیں جو جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ ﴿وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ ﴾ ” درویش اور عالم“ یعنی اسی طرح یہودیوں کے ائمہ دین میں ربانی تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔ (رَّبَّانِيُّونَ) سے مراد باعمل علماء ہیں جو لوگوں کی بہترین تربیت کرتے تھے اور لوگوں کے ساتھ ان کا وہی مشفقانہ رویہ تھا جو انبیائے کرام کا ہوتا ہے (أَحْبَار) سے مراد وہ علمائے کبار ہیں جن کے قول کی اتباع کی جاتی ہے اور جن کے آثار کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور وہ اپنی قوم میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی طرف سے صادر ہونے والا یہ فیصلہ حق کے مطابق ہے ﴿بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّـهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ﴾ ” اس واسطے کہ وہ نگہبان ٹھہرائے گئے تھے اللہ کی کتاب پر اور وہ اس کی خبر گیری پر مقرر تھے“ یعنی اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی تھی، ان کو اپنی کتاب کا امین بنایا تھا اور یہ کتاب ان کے پاس امانت تھی اور اس میں کمی بیشی اور کتمان سے اس کی حفاظت کو اور بے علم لوگوں کو اس کی تعلیم دینے کو ان پر واجب قرار دیا تھا۔۔۔ وہ اس کتاب پر گواہ ہیں کیونکہ وہی اس کتاب میں مندرج احکام کے بارے میں اور اس کی بابت لوگوں کے درمیان مشتبہ امور میں ان کے لئے مرجع ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل علم پر وہ ذمہ داری ڈالی ہے جو جہلا پر نہیں ڈالی اس لئے جس ذمہ داری کا بوجھ ان پر ڈالا گیا ہے، احسن طریقے سے اس کو نبھانا ان پر واجب ہے اور یہ کہ بیکاری اور کسل مندی کو عادت بناتے ہوئے جہال کی پیروی نہ کریں، نیز وہ مختلف انواع کے اذکار، نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ وغیرہ مجرد عبادات ہی پر اقتصار نہ کریں جن کو قائم کر کے غیر اہل علم نجات پاتے ہیں۔ اہل علم سے تو مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں اور انہیں ان دینی امور سے آگاہ کریں جن کے وہ محتاج ہیں خاص طور پر اصولی امور اور ایسے معاملات جو کثرت سے واقع ہوتے ہیں نیز یہ کہ وہ لوگوں سے نہ ڈریں بلکہ صرف اپنے رب سے ڈریں۔ بنا بریں فرمایا ﴿ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا﴾ ” پس تم لوگوں سے نہ ڈرو تم مجھی سے ڈرو ! اور میری آیات کے بدلے تھوڑا سا فائدہ حاصل نہ کرو“ یعنی دنیا کی متاع قلیل کی خاطر حق کو چھپا کر باطل کا اظہار نہ کرو۔ اگر صاحب علم ان آفات سے محفوظ ہوجاتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے۔ اس کی سعادت اس امر میں ہے کہ علم و تعلیم میں جدوجہد اس کا مقصد رہے۔ یہ چیز ہمیشہ اس کے علم میں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم کی امانت اس کے سپرد کر کے اس کی حفاظت اس کے ذمہ عائد کی ہے اور اس کو اس علم پر گواہ بنایا ہے۔ وہ صرف اپنے رب سے ڈرے، لوگوں کا ڈر اور خوف اسے لوازم علم کو قائم کرنے سے مانع نہ ہو۔ دین پر دنیا کو ترجیح نہ دے۔ اسی طرح کسی عالم کی بدبختی یہ ہے کہ وہ بے کاری کو اپنی عادت بنا لے اور جن چیزوں کا اسے حکم دیا گیا ہے ان کو قائم نہ کرے اور جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہے اسے پورا نہ کرے۔ ایسے شخص نے علم کو بے کار اور ضائع کردیا۔ دنیا کے بدلے دنیا کو فروخت کر ڈالا، اس کے فیصلوں میں رشوت لی اس کے فتوؤں میں مال سمیٹا اور اللہ کے بندوں کو اجرت لے کر علم سکھایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس پر بہت بڑا احسان کیا تھا جس کی اس نے ناشکری کی، اللہ تعالیٰ نے اسے ایک عظیم نعمت عطا کی تھی، اس نے اس نعمت سے دوسروں کو محروم کردیا۔ اے اللہ ! ہم تجھ سے علم نافع اور عمل مقبول کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ کریم ہمیں ہر مصیبت سے عفو اور عافیت عطا کر۔ ﴿ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾ ” اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے۔“ یعنی جو کوئی واضح حق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ اپنی فاسد اغراض کی خاطر جان بوجھ کر باطل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ﴿فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾ ” تو ایسے ہی لوگ کفار ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا اہل کفر کا شیوہ ہے اور بسا اوقات یہ ایسا کفر بن جاتا ہے جو اپنے مرتکب کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کتاب اللہ کو چھوڑ کر کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا جائز اور صحیح سمجھتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak hum ney toraat nazil ki thi jiss mein hidayat thi aur noor tha . tamam nabi jo Allah taalaa kay farmanbardaar thay , issi kay mutabiq yahudiyon kay moamlaat ka faisla kertay thay , aur tamam Allah walay aur ulama bhi ( issi per amal kertay rahey ) kiyonkay unn ko Allah ki kitab ka mohafiz banaya gaya tha , aur woh uss kay gawah thay . lehaza ( aey yahudiyo ! ) tum logon say naa daro , aur mujh say daro , aur thori si qeemat lenay ki khatir meri aayaton ka soda naa kiya kero . aur jo log Allah kay nazil kiye huye hukum kay mutabiq faisla naa keren , woh log kafir hain .