Skip to main content

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْـنِهٖ فَسَوْفَ يَأْتِى اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗۤ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِيْنَ ۖ يُجَاهِدُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۤٮِٕمٍ ۗ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۤءُ ۗ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ

O you
يَٰٓأَيُّهَا
اے
who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگو
believe!
ءَامَنُوا۟
جو ایمان لائے ہو
Whoever
مَن
جو کوئی
turns back
يَرْتَدَّ
پھر جائے گا۔ مرتد ہوا
among you
مِنكُمْ
تم میں سے
from
عَن
سے
his religion
دِينِهِۦ
اپنے دین سے
then soon
فَسَوْفَ
تو عنقریب
(will be) brought
يَأْتِى
لے آئے گا
(by) Allah
ٱللَّهُ
اللہ
a people
بِقَوْمٍ
ایک قوم
whom He loves
يُحِبُّهُمْ
وہ محبت کرے گا ان سے
and they love Him
وَيُحِبُّونَهُۥٓ
اور وہ محبت کریں گے اس سے
humble
أَذِلَّةٍ
زیادہ نرم۔ متواضع
towards
عَلَى
پر
the believers
ٱلْمُؤْمِنِينَ
مومنوں پر
(and) stern
أَعِزَّةٍ
زبردست۔ شدید۔ عزت والے
towards
عَلَى
پر
the disbelievers
ٱلْكَٰفِرِينَ
کافروں پر
striving
يُجَٰهِدُونَ
وہ جہاد کریں گے
in
فِى
میں
(the) way
سَبِيلِ
راستے
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کے
and not
وَلَا
اور نہیں
fearing
يَخَافُونَ
وہ ڈریں گے
the blame
لَوْمَةَ
ملامت سے
(of) a critic
لَآئِمٍۚ
ملامت کرنے والی کی
That
ذَٰلِكَ
یہ
(is the) Grace
فَضْلُ
فضل ہے
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کا
He grants
يُؤْتِيهِ
وہ دیتا ہے اس کو
whom
مَن
جس کو
He wills
يَشَآءُۚ
وہ چاہتا ہے
And Allah
وَٱللَّهُ
اور اللہ
(is) All-Encompassing
وَٰسِعٌ
وسعت والا ہے
All-Knowing
عَلِيمٌ
علم والا ہے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے

English Sahih:

O you who have believed, whoever of you should revert from his religion – Allah will bring forth [in place of them] a people He will love and who will love Him [who are] humble toward the believers, strong against the disbelievers; they strive in the cause of Allah and do not fear the blame of a critic. That is the favor of Allah; He bestows it upon whom He wills. And Allah is all-Encompassing and Knowing.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ اُن کو محبوب ہوگا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے،

احمد علی Ahmed Ali

اے ایمان والو جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب الله ایسی قوم کو لائے گا کہ الله ان کو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست الله کی راہ میں لڑیں گے اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ الله کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے اور الله کشائش والا جاننے والا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے (١) تو اللہ تعالٰی بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی (٢) وہ نرم دل ہونگے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہونگے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے (٣) یہ ہے اللہ تعالٰی کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالٰی بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔

٥٤۔١ اللہ تعالٰی نے اپنے علم کے مطابق فرمایا، جس کا واقعہ نبی کریم کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ اس فتنہ مرتد کے خاتمے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔
٥٤۔٢ مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالٰی کھڑا کرے گا ان کی چار نمایاں صفات بیان کی جا رہی ہیں، ١۔ اللہ سے محبت کرنا اور اس کا محبوب ہونا ٢۔ اہل ایمان کے لئے نرم اور کفار پر سخت ہونا٣۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، ٤۔ اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان صفات اور خوبیوں کا مظہر اتم تھے، چنانچہ اللہ تعالٰی نے انہیں دنیا وآخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضامندی کی سند سے نواز دیا۔
٥٤۔٣یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے۔ یعنی اللہ تعالٰی کی اطاعت و فرماں داری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ ہوگی۔ یہ بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہو جائے ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت گروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اسی لئے آگے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ جن کو مذکورہ صفات حاصل ہو جائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو ﻻئے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وه بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وه نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر اور سخت اور تیز ہوں گے کفار پر، اللہ کی راه میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواه بھی نہ کریں گے، یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت واﻻ اور زبردست علم واﻻ ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اے ایمان والو! جو تم میں سے اپنے دین سے مرتد ہو جائے (پھر جائے) تو خدا کو کیا پروا؟ ﷲ عنقریب ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ وہ مؤمنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہوں گے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے اور اللہ بڑا وسعت والا بڑا جاننے والا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

ایمان والو تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا ...تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحبِ عزت, راسِ خدا میں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ہوگی -یہ فضلِ خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ صاحبِ وسعت اور علیم و دانا بھی ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

قوت اسلام اور مرتدین
اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہوجائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا، جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے۔ جیسے اور آیت میں ہے (وان تتلوا) اور آیت میں ہے (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ ) 4 ۔ النسآء ;133) اور جگہ فرمایا (اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ ) 35 ۔ فاطر ;16) ، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے جو بیان ہوا۔ ارتداد کہتے ہیں، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھرجانے کو۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں یہ آیت سرداران قریش کے بارے میں اتری ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں " خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے پھرگئے تھے، ان کا حکم اس آیت میں ہے۔ جس قوم کو ان کے بدلے لانے کا وعدے دے رہا ہے وہ اہل قادسیہ ہیں یا قوم سبا ہے۔ یا اہل یمن ہیں جو کندہ اور سکون بیلہ کے ہیں "۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کر کے فرمایا وہ اس کی قوم ہے۔ اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ " یہ اپنے دوستوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں "۔ جیسے فرمایا آیت ( اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) 48 ۔ الفتح ;29) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفتوں میں ہے کہ آپ خندہ مزاج بھی تھے اور قتال بھی یعنی دوستوں کے سامنے ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے مقابلہ میں سخت اور جنگجو، سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں، نہ تھکتے ہیں، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے ہیں، نہ کسی کی مروت میں آتے ہیں، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے میں بھلائی کا حکم کرنے میں اور برائیوں سے روکنے میں مشغول رہتے ہیں۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں " مجھے میرے خلیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات باتوں کا حکم دیا ہے۔ مسکینوں سے محبت رکھنے، ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے اور دنیوی امور میں اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو دیکھنے اور اپنے سے بڑھے ہوؤں کو نہ دیکھنے، صلہ رحمی کرتے رہنے، گو دوسرے نہ کرتے ہوں اور کسی سے کچھ بھی نہ مانگنے، حق بات بیان کرنے کا گو وہ سب کو کڑوی لگے اور دین کے معاملات میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے کا اور بہ کثرت لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے کا، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے "۔ (مسند احمد) ایک روایت میں ہے " میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پانچ مرتبہ بیعت کی ہے اور سات باتوں کی آپ نے مجھے یاد دہانی کی ہے اور سات مرتبہ اپنے اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں کسی بدگو کی بدگوئی کی مطلق پرواہ نہیں کرتا۔ مجھے بلا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا مجھ سے جنت کے بدلے میں بیعت کرے گا ؟ میں نے منظور کر کے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے شرط کی کہ کسی سے کچھ بھی نہ مانگنا۔ میں نے کہا بہت اچھا، فرمایا اگرچہ کوڑا بھی ہو۔ یعنی اگر وہ گڑ پڑے تو خود سواری سے اتر کرلے لینا " (مسند احمد) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں " لوگوں کی ہیبت میں آکر حق گوئی سے نہ رکنا، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کرسکتا ہے، نہ رزق کو دور کرسکتا ہے "۔ ملاحظہ ہو امام احمد کی مسند۔ " فرماتے ہیں خلاف شرع امر دیکھ کر، سن کر اپنے تئیں کمزور جان کر، خاموش نہ ہوجانا۔ ورنہ اللہ کے ہاں اس کی باز پرس ہوگی، اس وقت انسان جواب دے گا کہ میں لوگوں کے ڈر سے چپکا ہوگیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے گا، میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے ڈرتا "۔ (مسند احمد) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی کرے گا کہ تو نے لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے دیکھ کر اس سے روکا کیوں نہیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے جواب سمجھائے گا اور یہ کہہ گا پروردگار میں نے تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے ڈرا (ابن ماجہ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے " مومن کو نہ چاہئے کہ اپنے تئیں ذلت میں ڈالے صحابہ نے پوچھا، یہ کس طرح ؟ فرمایا ان بلاؤں کو اپنے اوپر لے لے، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔ پھر فرمایا اللہ کا فضل ہے جے چاہے دے۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں، اسی کی طرف سے ان کی توفیق ہوتی ہے، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے اور وہ کامل علم والا ہے، خوب جانتا ہے کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمہارے دوست کفار نہیں بلکہ حقیقتاً تمہیں اللہ سے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں سے دوستیاں رکھنی چاہئیں۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے پورے پابند ہوں، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے اور صرف اللہ کا حق ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو اللہ کے ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے " اور آخری جملہ جو ہے اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہوگیا ہے کہ یہ (یؤتون الزکوۃ) سے حال واقع یعنی رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اگر اسے مان لیا جائے تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہوجائے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں، ان وہمیوں نے یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نماز کے رکوع میں تھے جو ایک سائل آگیا تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اسے دے دی، (والذین امنوا) سے مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور حضرت علی ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی یہ تفسیر کی ہے لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں، رجال ایک کے بھی ثقہ اور ثابت نہیں، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے اور صحیح نہیں۔ ٹھیک رہی ہے جو ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ یہ سب آیتیں حضرت عبادہ بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے رسول اور باایمان لوگوں کی دوستی رکھے وہ اللہ کے لشکر میں داخل ہے اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے۔ جیسے فرمان باری ہے آیت (كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ) 58 ۔ المجادلہ ;21) ، یعنی اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی غالب رہیں گے اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والا کبھی پسند نہ آئے گا چاہے وہ باپ بیٹے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگوں میں سے ہی کیوں نہ ہو، یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی تائید کی ہے، انہیں اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، رب ان سے راضی ہے، یہ اللہ سے خوش ہیں، یہی اللہ کے لشکر ہیں اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے۔ پس جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہوجائے، وہ دنیا میں فاتح ہے اور آخرت میں فلاح پانے والا ہے۔ اسی لئے اس آیت کو بھی اس جملے پر ختم کیا۔