Skip to main content

لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۗ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ

Were cursed
لُعِنَ
لعنت کیے گئے
those who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگ
disbelieved
كَفَرُوا۟
جنہوں نے کفر کیا
from
مِنۢ
سے
(the) Children
بَنِىٓ
بنی
(of) Israel
إِسْرَٰٓءِيلَ
اسرائیل میں سے
by
عَلَىٰ
اوپر
(the) tongue
لِسَانِ
زبان کے
(of) Dawood
دَاوُۥدَ
داؤد کی
and Isa
وَعِيسَى
اور عیسیٰ
son
ٱبْنِ
ابن
(of) Maryam
مَرْيَمَۚ
مریم
that (was)
ذَٰلِكَ
یہ
because
بِمَا
بوجہ اس کے جو
they disobeyed
عَصَوا۟
انہوں نے نافرمانی کی
and they were
وَّكَانُوا۟
اور تھے وہ
transgressing
يَعْتَدُونَ
حد سے بڑھ جاتے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر داؤدؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے

English Sahih:

Cursed were those who disbelieved among the Children of Israel by the tongue of David and of Jesus, the son of Mary. That was because they disobeyed and [habitually] transgressed.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر داؤدؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

لعنت کیے گئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل میں داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان پر یہ بدلہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا،

احمد علی Ahmed Ali

بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بیٹے مریم کی زبان پر لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی (١) اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے (٢)۔

٧٨۔١ یعنی زبور میں جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اور انجیل میں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی اور اب یہی لعنت قرآن کریم کے ذریعے سے ان پر کی جا رہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت اور خیر سے دوری ہے۔
٧٨۔٢ یہ لعنت کے اسباب ہیں۔ ١۔ عصیان۔ یعنی واجبات کا ترک اور محرمات کا ارتکاب کر کے۔ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔٢۔ اور اعتداء، یعنی دین میں غلو اور بدعات ایجاد کر کے انہوں نے حد سے تجاوز کیا۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داؤد (علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وه نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی یہ اس لیے کہ انہوں نے برابر نافرمانی کی اور حد سے بڑھ جاتے تھے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

بنی اسرائیل میں سے کفر اختیار کرنے والوں پر جناب داؤد علیھ السّلام اور جناب عیسٰی علیھ السّلامکی زبان سے لعنت کی جاچکی ہے کہ ان لوگوں نے نافرمانی کی اور ہمیشہ حد سے تجاوز کیا کرتے تھے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تھا انہیں داؤد اور عیسٰی ابن مریم (علیھما السلام) کی زبان پر (سے) لعنت کی جا چکی (ہے)۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کرتے تھے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

امر معروف سے گریز کا انجام
ارشاد ہے کہ بنو اسرائیل کے کافر پرانے ملعون ہیں، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی انہی کے زمانہ میں ملعون قرار پاچکے ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کے نافرمان تھے اور مخلوق پر ظالم تھے، توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت برساتی آئیں۔ یہ اپنے زمانہ میں بھی ایک دوسرے کو برے کاموں دیکھتے تھے لیکن چپ چاپ بیٹھے رہتے تھے، حرام کاریاں اور گناہ کھلے عام ہوتے تھے اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا۔ یہ تھا ان کا بدترین فعل۔ مسند احمد میں فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ " بنو اسرائیل میں پہلے پہل جب گناہوں کا سلسلہ چلا تو ان کے علماء نے انہیں روکا۔ لیکن جب دیکھا کہ باز نہیں آتے تو انہوں نے انہیں الگ نہیں کیا بلکہ انہی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے رہے، جس کی وجہ سے دونوں گروہوں کے دلوں میں آپس میں ٹکرا دیا اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کے دل بھڑا دیئے اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی ان پر اپنی لعنت نازل فرمائی۔ کیونکہ وہ نافرمان اور ظالم تھے۔ اس کے بیان کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم تم پر ضروری ہے کہ لوگوں کو خلاف شرع باتوں سے روکو اور انہیں شریعت کی پابندی پر لاؤ۔ "، ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ " سب سے پہلے برائی بنی اسرائیل میں داخل ہوئی تھی کہ ایک شخص دوسرے کو خلاف شرع کوئی کام کرتے دیکھتا تو اسے روکتا، اسے کہتا کہ اللہ سے ڈر اور اس برے کام کو چھوڑ دے یہ حرام ہے۔ لیکن دوسرے روز جب وہ نہ چھوڑتا تو یہ اس سے کنارہ کشی نہ کرتا بلکہ اس کا ہم نوالہ ہم پیالہ رہتا اور میل جول باقی رکھتا، اس وجہ سے سب میں ہی سنگدلی آگئی۔ پھر آپ نے اس پوری آیت کی تلاوت کر کے فرمایا واللہ تم پر فرض ہے کہ بھلی باتوں کا ہر ایک کو حکم کرو، برائیوں سے روکو، ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھو اور اسے تنگ کرو کہ حق پر آجائے۔ " ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ ابو داؤد وغیرہ میں اسی حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ تمہارے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا دے گا اور تم پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے گا جیسی ان پر نازل فرمائی۔ اس بارے میں اور بہت سی حدیثیں ہیں کچھ سن بھی لیجئے حضرت جابر والی حدیث تو آیت (لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْاِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۭلَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ ;63) کی تفسیر میں گزر چکی اور یا آیت (يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) 5 ۔ المائدہ ;105) کی تفسیر میں حضرت ابوبکر اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیثیں آئیں گی، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسند اور ترمذی میں ہے کہ " یا تو تم بھلائی کا حکم اور برائی سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے گا پھر تم اس سے دعائیں بھی کرو گے لیکن وہ قبول نہیں فرمائے گا۔ " ابن ماجہ میں ہے " اچھائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرو اس سے پہلے کہ تمہاری دعائیں قبول ہونے سے روک دی جائیں۔ " صحیح حدیث میں ہے " تم میں سے جو شخص خلاف شرع کام دیکھے، اس پر فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اور بہت ہی ضعیف ایمان والا ہے " (مسلم) مسند احمد میں ہے " اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں کرتا لیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اور وہ باوجود قدرت کے انکار نہ کریں، اس وقت عام خاص سب کو اللہ تعالیٰ عذاب میں گھیر لیتا ہے۔ " ابو داؤد میں ہے کہ جس جگہ اللہ کی نافرمانی ہونی شروع ہو وہاں جو بھی ہو، ان خلاف شرع امور سے ناراض ہو (ایک اور روایت میں ہے ان کا انکار کرتا ہو) وہ مثل اس کے ہے جو وہاں حاضر ہی نہ ہو اور جو ان خطاؤں سے راضی ہو گو وہاں موجود نہ ہو وہ ایسا ہے گویا ان میں حاضر ہے۔ ابو داؤد میں ہے لوگوں کے عذر جب تک ختم نہ ہوجائیں وہ ہلاک نہ ہوں گے۔ ابن ماجہ میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبے میں فرمایا خبردار کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت حق بات کہنے سے روک نہ دے۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو سعید خدری رو پڑے اور فرمانے لگے افسوس ہم نے ایسے موقعوں پر لوگوں کی ہیبت مان لی۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے افضل جہاد کلمہ حق ظالم بادشاہ کے سامنے کہہ دینا ہے ابن ماجہ میں ہے کہ جمرہ اولیٰ کے پاس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک شخص آیا اور آپ سے سوال کیا کہ سب سے افضل جہاد کون سا ہے ؟ آپ خاموش رہے۔ پھر آپ جمرہ ثانیہ پر آئے تو اس نے پھر وہی سوال کیا مگر آپ خاموش ہو رہے جب جمرہ عقبہ پر کنکر مار چکے اور سواری پر سوار ہونے کے ارادے سے رکاب میں پاؤں رکھے تو دریافت فرمایا کہ وہ پوچھنے والا کہاں ہے ؟ اس نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہوں فرمایا حق بات ظالم بادشاہ کے سامنے کہ دینا۔ ابن ماجہ میں ہے کہ تم میں سے کسی شخص کو اپنی بےعزتی نہ کرنی چاہئے لوگوں نے پوچھا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کیسے ؟ فرمایا خلاف شرع کوئی امر دیکھے اور کچھ نہ کہے قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی کہ فلاں موقعے پر تو کیوں خاموش رہا ؟ یہ جواب دے گا کہ لوگوں کے ڈر کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں سب سے زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے خوف کھائے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب اسے اللہ تلقین حجت کرے گا تو یہ کہے گا کہ تجھ سے تو میں نے امید رکھی اور لوگوں سے خوف کھا گیا۔ مسند احمد میں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے تئیں ذلیل نہ کرنا چاہئے۔ لوگوں نے پوچھا کیسے ؟ فرمایا ان بلاؤں کو سر پر لینا جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔ ابن ماجہ میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب چھوڑی جائے ؟ فرمایا اس وقت جب تم میں بھی وہی خرابی ہوجائے جو تم سے اگلوں میں ظاہر ہوئی تھی ہم نے پوچھا وہ کیا چیز ہے ؟ فرمایا کمینے آدمیوں میں سلطنت کا چلا جانا۔ بڑے آدمیوں میں بدکاری کا آجانا۔ رذیلوں میں علم کا آجانا۔ حضرت زید کہتے ہیں رذیلوں میں علم آجانے سے مراد فاسقوں میں علم کا آجانا ہے۔ اس حدیث کی شاہد حدیثیں ابو ثعلبہ کی روایت سے آیت (لایضرکم) کی تفسیر میں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرماتا ہے کہ اکثر منافقوں کو تو دیکھے گا کہ وہ کافروں سے دوستیاں گانٹھتے ہیں ان کے اس فعل کی وجہ سے یعنی مسلمانوں سے دوستیاں چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے لئے برا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے۔ اس کی پاداش میں ان کے دلوں میں نفاق پیدا ہوگیا ہے۔ اور اسی بناء پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور قیامت کے دن کیلئے دائمی عذاب بھی ان کیلئے آگے آ رہے ہیں۔ ابن ابی حاتم میں ہے اسے مسلمانو، زنا کاری سے بچو، اس سے۔ چھ برائیاں آتی ہیں، تین دنیا میں اور تین آخرت میں۔ اس سے عزت و وقار، رونق و تازگی جاتی رہتی ہے۔ اس سے فقرو فاقہ آجاتا ہے۔ اس سے عمر گھٹتی ہے اور قیامت کے دن تین برائیاں یہ ہیں اللہ کا غضب، حساب کی سختی اور برائی، اور جہنم کا خلود۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی آخری جملے کی تلاوت فرمائی۔ یہ حدیث ضعیف ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے اگر یہ لوگ اللہ پر اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور قرآن پر پورا ایمان رکھتے تو ہرگز کافروں سے دوستیاں نہ کرتے اور چھپ چھپا کر ان سے میل ملاپ جاری نہ رکھتے۔ نہ سچے مسلمانوں سے دشمنیاں رکھتے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے خارج ہوچکے ہیں اس کی وحی اور اس کے پاک کلام کی آیتوں کے مخالف بن بیٹھے ہیں۔