القمر آية ۱
اِقْتَـرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
طاہر القادری:
قیامت قریب آپہنچی اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا،
English Sahih:
The Hour has come near, and the moon has split [in two].
1 Abul A'ala Maududi
قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا
2 Ahmed Raza Khan
پاس آئی قيامت اور شق ہوگیا چاند
3 Ahmed Ali
قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا
4 Ahsanul Bayan
قیامت قریب آگئی (١) اور چاند پھٹ گیا (٢)۔
١۔١ ایک تو بہ اعتبار اس زمانے کے جو گزر گیا، کیونکہ جو باقی ہے، وہ تھوڑا ہے۔ دوسرے ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بابت فرمایا کہ میرا وجود قیامت سے متصل ہے، یعنی میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔
١۔٢ یہ وہ معجزہ ہے جو اہل مکہ کے مطالبے پر دکھایا گیا،چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے حتی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا۔ یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہوگیا۔ جمہور سلف و خلف کا یہی مسلک ہے (فتح القدیر) امام ابن کثیر لکھتے ہیں علماء کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ انشقاق قمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح معجزات میں سے ہے، صحیح سند سے ثابت احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
قیامت قریب آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا
6 Muhammad Junagarhi
قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا
7 Muhammad Hussain Najafi
(قیامت کی) گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قیامت قریب آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے
9 Tafsir Jalalayn
قیامت قریب آپہنچی اور چاند شق ہوگیا
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قیامت قریب آگئی، اور چاند شق ہوگیا یعنی دو ٹکڑے ہوگیا، ایک ٹکڑا (جبل) ابی قبیس پر اور (دوسرا جبل) قعیقعان پر (تھا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزے کے طور پر جبکہ آپ سے معجزے کا سوال کیا گیا، تو آپ نے فرمایا گواہ رہو (رواہ الشیخان) اور اگر کفار قریش آپ کا کوئی معجزہ دیکھتے ہیں جیسا کہ شق القمر کا تو اعراض کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ بڑا بھاری جادو ہے قوی جادو ہے یہ مرۃ بمعنی قوۃ یا بمعنی دائم ہے (سابق سے چلا آ نے والا) اور ان لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی اور باطل میں اپنی خواہشات کی پیروی کی اور ہر کام خواہ خیر ہو یا شر اس کے مستحقین پر جنت یا دوزخ میں واقع ہونے ولا ہے اور یقینا ان کے پاس اپنے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کی خبریں آچکی ہیں جن میں ان کے لئے جھڑک ہے صمزدجر) اسم مصدر ہے یا اسم مکان ہے اور دال تائے افتعال سے بدلی ہوئی ہے اور ازدجرتہ، زجرتہ کے معنی میں ہے، میں نے اس کو سختی سے جھڑک دیا اور ماموصولہ ہے یا موصوفہ اور قرآن کامل عقل کی بات ہے لیکن ان کو ڈرانے والی باتوں نے بھی کوئی فائدہ نہیں دیا نذر نذیر کی جمع ہے معنی منذر کے ہے، یعنی وہ باتیں جو ان کو ڈرانے والی ہیں اور مانفی کے لئے ہے، یا استفہام انکاری ہے، ثانی صورت میں (تغن کا) مفعول مقدم ہوگا سوائے نبی آپ ان سے اعراض کریں یا قبلکا فائدہ ہے اور اس پر کلام تام ہوا جس دن ایک پکارنے والا ایک ناگوار چیز کی طرف پکارے گا وہ اسرافیل ہے اور یوم کا ناصب بعد میں آنے والا یخرجون ہے نکر کاف کے ضمہ اور سکون کے ساتھن ہے یعنی ناپسندیدہ شئی جس کو نفوس ای کی شدت کی وجہ سے ناگوار سمجھتے ہوں اور وہ حساب ہے یہ لوگ ذلت کے ساتھ نظریں نیچے کئے ہوئے اور ایک قرأت میں خشعاً خاء کے ضمہ اور شین مشدد کے ساتھ ہے، قبروں سے تیزی سے نکل پڑیں گے خشعاً ، یخرجون کی ضمیر فاعل سے حال ہے گویا کہ وہ پھیلی (منتشر) ٹٹڈیاں ہیں وہ خوف اور حیرت کی وجہ سے یہ بھی نہ سمجھ رہے ہوں گے کہ وہاں کہاں جا رہے ہیں ؟ اور جملہ، یخرجون، کے فاعل سے حال ہے اور اسی طرح اللہ کا قول مھطعین ہے یعنی تیزی سے گردن اٹھائے ہوئے داعی کی طرف نکل پڑیں گے، ان میں سے کافر کہیں گے یہ سخت دن ہے یعنی کافروں پر سخت ہے جیسا کہ سورة مدثر میں یوم عسیر علی الکافرین ہے ان سے یعنی قریش سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے نوح کو جھٹلایا تھا اور مجنون کہہ کر جھڑک دیا تھا یعنی گالی وغیرہ دے کر ڈانٹ دیا تھا، پس اس نے اپنے رب سے دعا کی انی فتحہ کے ساتھ یعنی بانی ہے میں بےبس ہوں تو میری مدد کر تو ہم نے آسمان کے دروازوں کو زور دار (بہنے والے) پانی کے لئے کھولدیا ففتحنا تاء کی تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، پس ہم نے زمین کے چشموں کو جاری کردیا تو زمین سے چشمے ابل پڑے پھر پانی مل گیا یعنی آسمان اور زمین کا پانی اس حالت پر ہوگیا کہ جس حالت پر ازل میں مقدر کردیا گیا تھا اور وہ حالت ان کا غرق ہو کر ہلاک ہونا ہے اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو تختوں اور مخیوں والی کشتی پر سوار کردیا دسر وہ چیز جس کے ذریعہ تختوں کو جوڑا جائے، میخیں وغیرہ اس کا واحد دسار ہے جیسے (کتب) کتاب کی جمع ہے جو ہماری نگرانی ہماری نظروں کے سامنے یعنی ہماری حفاظت میں چل رہی تھی ان کو اس شخص کے انتقام میں غرق کردیا گیا جس کی ناشکری کی گئی، جزائً فعل مقد کی وجہ سے منصوب ہے، ای اغرقوا انتصاراً (انتقاماً ) اور وہ شخص نوح تھا، کفر کو معروف بھی پڑھا گیا ہے، یعنی ان کو غرق کردیا گیا ان کے نافرمانی کرنے کی وجہ سے بیشک ہم نے اس کو یعنی فعل (واقعہ) کو نشانی بنا کر باقی رکھا اس شخص کے لئے جو اس واقعہ سے عبرت حاصل کرے، یعنی اس واقعہ کی خبر شائع ہوگئی اور باقی رہ گئی، پس کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا یعنی عبرت و نصیحت حاصل کرنے والا (مدکر) کی اصل مذتکر ہے تاء کو دال مہملہ سے بدل دیا گیا، اسی طرح ذال معجمہ کو دال سے بدل دیا گیا اور دال کو دال میں ادغام کردیا گیا سو کیسا رہا میرا عذاب اور ڈرانا نذر بمعنی انذاری ہے، استفہام تقریری ہے، اور یکف کان کی خبر ہے اور کیف حالت سے سوال کرنے کے لئے ہے اور رمعنی (آیت کے) مخاطبین کو نوح علیہ اصلاۃ والسلام کے مکذبین پر وقوع عذاب کے اقرار پر آمادہ کرتا ہے کہ عذاب برمحل واقع ہوا، اور اس کو اپنے قول انا ارسلنا الخ سے بیان فرمایا کہ ہم نے ان پر ایک منحوس دن میں دائمی نحوست والی تیز و تند مسلسل چلنے والی یا قوی ہوا بھیجی یعنی سخت آواز والی اور وہ مہینے کا آخری چہار شنبہ تھا، جو گڑھوں میں چھپے ہوئے لوگوں کو (بھی) نکال کر پھینک رہی تھی، اور ان کو سر کے بل پٹخ رہی تھی اور ان کی گردنوں کو کوٹ دیتی تھی جس کی وجہ سے ان کا سر جسم سے جدا ہوجاتا تھا یعنی ان کا مذکورہ حال ایسا تھا گویا کہ وہ زمین پر پڑے ہوئے کھجور کے کٹے ہوئے تنے ہیں اور ان کے دراز قد ہونے کی وجہ سے ان کو کمجوروں کے تنوں سے تشبیہ دی ہے نخل کو یہاں مذکر اور سورة حاقہ میں مونث دونوں جگہ فواصل کی رعایت کی وجہ سے نخل خاویۃ مئونث ذکر کیا ہے تو کیسا رہا میرا عذاب اور ڈران ؟ اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : قربت القیامۃ اقترب کی تفسیر قرب سے کر کے اشارہ کردیا کہ مزید بمعنی مجرد ہے جیسے اقتدر بمعنی قدر
سوال : مجرد کو مزید سے کیوں تعبیر کیا ؟
جواب : قرب کے معنی میں مبالغہ ظاہر کرنے کے لئے، اس لئے کہ زیادتی حروف زیادتی معنی پر دلالت کرتی ہے۔
قولہ : انشق القمر تیسری اور چودھویں شب کے درمیانی چاند کو قمر کہتے ہیں، اس سے پہلے کے چاند کو ہلاک اور چودھویں شب کے چاند کو بدر کہتے ہیں۔
قمر ہمارے نظام شمسی کا قریب ترین سیارہ ہے، سابقہ تحقیق کے مطابق قمر زمین سے دو لاکھ چالیس ہزار میل کی مسافت پر واقع تھا، مگر اب جدید تحقیق کے مطابق زمین سے چاند کا فاصلہ دو لاکھ چھبیس ہزار نو سو ستر اعشاریہ نو میل ہے، اس سے پہلے اتنی صحیح پیمائش کبھی نہیں کی گئی تھی جو کیلی فورنیا (امریکہ) کی یونیورسٹی کی رصد رسد گاہ سے چھوڑے گئے اپالو گیارہ میں نصب کئے گئے مسافت پیما آلے کے ذریعہ کی گئی ہے اپالو گیارہ 16 جولائی بروز چہار شنبہ 1969 ء کو خلائی سفر پر روانہ ہوا تھا۔ (فلکیات جدیدہ)
قولہ : قوی اودائم اس اضافہ کا مقصد مستمر کے معنی کو بیان کرنا ہے، مفسر علامہ نے مستمر کے دو معنی بیان کئے ہیں اول بمعنی قوی، اس صورت میں مرۃ سے ماخوذ ہوگا اس لئے کہ مرۃ کے معنی قوت کے ہیں، جب امر قوی اور مستحکم ہوجاتا ہے تو بولا جاتا ہے، استمر الشی، ای قوی واستحکم مطلب یہ ہے کہ یہ بڑا طاقتور جادو ہے، دوم بمعنی دائم اس صورت میں استمرار سے مشتق ہوگا جس کے معنی ہیں دائمی یا سابق سے چلا آرہا ہے، مطلب یہ ہے کہ محمد نے شب و روز کی جادوگری کا جو سلسلہ چلا رکھا ہے یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے، مذکورہ دو معانی کے عالوہ مستمر کے دو معنی اور بھی ہیں جن کو بعض مفسرین نے اختیار فرمایا ہے، ( ول) گذر جانے والا، فنا ہوجانے والا، باقی نہ رہنے والا، اس صورت میں مار بمعنی ذاھب سے مشتق ہوگا، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح اور جادوگذر گئے یہ بھی گذر جائے گا اس کا اثر بھی دیرپا نہ ہوگا (دوسرے) معنی بدمزہ ناخوشگوار، کڑوے کے ہیں، اس صورت میں مر سے مشتق ہوگا جس کے معنی کڑوے کسیلے اور بدمزہ کے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح کڑوی اور بدمزہ چیز حلق سے نیچے نہیں اترتی اسی طرح محمد کی باتیں اور معجزے بھی ہمارے حلق یس نہیں اترتے۔
سوال : کذبوا کا عطف یعرضوا پر ہے، معطوف علیہ مضارع اور معطوف ماضی اس میں کیا نکتہ ہے ؟
جواب : اس میں نکتہ یہ ہے کہ ماضی کا صیغہ لا کر اشارہ کردیا کہ تکذیب اور اتباع ہوی یہ ان کی پرانی اور قدیم عادت ہے کوئی نئی عادت نہیں ہے۔
قولہ : ولقد جاء ھم من النباء مافیہ مزدجر میں من تبعیضیہ ہے مراد امم مکذبہ کی وہ خبریں ہیں جو قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔
قولہ : مزدجر مصدر میمی ہے معنی میں ازدجار کے ہے، اسم مکان بھی ہوسکتا ہے یعنی ان کے پاس ایسی خبریں آئیں کہ جو مقام ازدجار میں ہیں، من الانباء حال ہونے کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے، اور ماذو الحال ہے ماموصولہ اور موصوفہ دونوں ہوسکتا ہے اور دونوں صورتوں میں ما، جاء کا فاعل ہے اور فیہ خبر مقدم اور مزدجر مبتداء مئوخر ہے اور جملہ ما کا صلہ ہے۔
قولہ : فماتغن النذر
قولہ : خبر مبتداء محذوف ای ہو حکمۃ
قولہ : مھطعین اھطاع سے اسم فاعل ہے اور یخرجون کی ضمیر سے حال ہے معنی گردن اٹھا کر تیزی سے چلنا۔
قولہ : یقول الکافرون یہ جملہ مستانفہ ہے، اس صورت میں ایک سوال مقدر کا جواب ہوگا، روز قیامت کی شدت اور اس کی ہولناکی کے بیان سے سوال پیدا ہوا کہ اس وقت کافروں کا کیا ہوگا ؟ جواب دیا : وہ کہیں گے کہ یہ دن تو بڑا سخت ہے اور بعض حضرات نے یخرجون کی میر سے حال قرار دیا ہے لیکن اس صورت میں ایک سوال پیدا ہوگا کہ جملہ جب حال واقع ہو تو اس میں رابطہ کا ہونا ضروری ہے حالانکہ یہاں کوئی رابطہ نہیں ہے۔
قولہ : مفسر علام نے منھم مقدر مان کر اسی سوال کا جواب دیا ہے۔
قولہ : انت الفعل لمعنی قوم اس عبارت سے بھی ایک سوال مقدر کا جواب مقصود ہے۔
سوال :۔ سوال یہ ہے کہ قوم جو کہ مذکر ہے کذبت کا فاعل ہے، فعل و فاعل میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب : قوم معنی کے اعتبار سے مئونث ہے یعنی امۃ کے معنی میں ہے افراد کثیرہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مئونث معنوی ہے۔
قولہ : فجرنا الارض عیوناً عیوناً تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جو کہ مفعول سے محول ہے، تقدیر عبارت یہ ہے۔ فجرناعیون الارض اور بعض حضرات نے فاعل سے محول قرار دیا ہے۔ تقدیر عبارت یہ ہوگی انفجرت عیون الارض
تفسیر و تشریح
ربط :۔
گزشتہ سورت (النجم) ازقت الآزقۃ الخ پر ختم ہوئی ہے جس میں قیامت کے قریب آجانے کا ذکر ہے، اس سورت کو اسی مضمون سے شروع کیا گیا ہے، اقتربت الساعۃ وانشق القمر آگے قرب قیامت کی دلیل معجزہ، شق القمر کا ذکر فرمایا گیا۔ (معارف)
زمانہ نزول :
اس سورت میں واقعہ شق القمر مذکورہ ہے، اس سے اس سورت کا زمانہ نزول متعین ہوجاتا ہے، محمد ثین و مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پر پیش آیا۔
یہ سورت بھی ان سورتوں میں سے ہے جن کو آپ نماز عید میں پڑھا کرتے تھے۔
معجزہ شق القمر :
مشرکین مکہ نے آپ کی نبوت کی صداقت کے ثبوت کے طور پر شق القمر کا معجزہ طلب کیا تھا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلق نشانی کا مطالبہ کیا تھا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ معتین طور پر شق القمر کا معجزہ طلب کیا تھا جیسا کہ حرت انس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک رات مقام منی میں تشریف فرما تھے، مشرکین مکہ کے کچھ سردار موجود تھے جن میں ولید، ابوجہل، عاص بن وائل، اسود بن عبدالمطلب اور نضر بن الحاثر شامل تھے، چاندنی رات تھی چودھویں کا چاند تھا، ان حضرات نے دلیل صداقت کے طور پر چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا مطالبہ کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں ایسا کر دوں تو تم ایمان لے آئو گے ؟ سب نے کہا ہاں ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ رب العالمین سے دعاء فرمائی حق تعالیٰ نے شق القمر کا معجزہ ظاہر فرما دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یا ابسلمہ عبدالاسد و الارقم بن الارقم اشھدوا اے فلاں و فلاں دیکھو اور گواہی دو ۔
معجزہ کا ثبوت قرآن کریم کی اس آیت سے ہے، وانشق القمر اور احادیث صحیحہ جو صحابہ کرام کی ایک جماعت کی روایت سے آئی ہے جن میں حضرت علی عبداللہ بن مسعود عبداللہ بن عمر جبیر بن مطعم ابن عباس انس بن مالک حضرت حذیفہ (رض) وغیرہ شامل ہیں، ان میں سے تین بزرگ یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ اور حضرت جبیر بن مطعم تصریح کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں اور دو بزرگ ایسے ہیں کہ جو اس واقعہ کے عینی شاہد تو نہیں ہوسکتے، کیونکہ یہ ان میں سے ایک یعنی عبداللہ بن عباس (رض) کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے اور دوسرے یعنی حضرت انس (رض) بن مالک اس وقت بچے تھے لیکن چونکہ یہ دونوں حضرات صحابی ہیں اس لئے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسے سن رسیدہ صحابیوں سے سن کر ہی اسے روایت کیا ہوگا جو اس واقعہ کا براہ راست علم رکھتے تھے امام طحاوی اور ابن کثیر نے واقعہ شق القمر کی روایات کو متواتر قرار دیا ہے اس لئے اس معجزہ کا قطعی دلائل سے ثبوت ہے۔
واقعہ کی تفصیل
مشرکین مکہ کے مطالبہ پر حق تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے طور پر معجزہ ظاہر فرمایا چاند کے دو ٹکڑے ہو کر ایک مشرق کی طرف اور دوسرا مغرب کی طرف چلا گیا اور دونوں ٹکڑوں کے درمیان پہاڑ حائل نظر آنے لگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاضرین سے فرمایا کہ دیکھو اور شہادت دو جب سب لوگوں نے صاف طور پر یہ معجزہ دیکھ لیا تو یہ دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے۔
کفار کا دلیل صداقت کو ماننے سے انکار :
اس کھلے ہوئے معجزے کا انکار تو کسی آنکھوں والے سے ممکن نہ ہوسکتا تھا مگر برا ہو تعصب اور ہٹ دھرمی کا کہ مشرکین کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم پر جادو کردیا تھا اس لئے ہماری آنکھوں نے دھوکا کھایا، دوسرے لوگ بولے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم پر جادو کرسکتے ہیں تمام لوگوں پر تو جادو نہیں کرسکتے، باہر کے لوگوں کو آنے دو ان سے معلوم کریں گے کہ یہ واقعہ انہوں نے بھی دیکھا یا نہیں ؟ باہر سے جب کچھ لوگ آئے اور ان سے دریافت کیا تو انہوں نے شہادت دی کہ وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں۔
ایک مغالطہ :
بعض روایات جو حضرت انس (رض) سے مروی ہیں ان کی بناء پر یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شق القمر کا واقعہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ پیش آیا تھا، لیکن اول تو صحابہ میں سے کسی اور نے یہ بات بیان نہیں کی، دوسری بات یہ کہ خود انس (رض) کی بعض روایات میں مرتین کے بجائے فرقتین اور شقتین کے الفاظ ہیں، تیر سے یہ کہ قرآن مجید صرف ایک ہی انشقاق کا ذکر کرتا ہے، ان شواہد کی روشنی میں صحیح بات یہی ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ پیش آیا تھا۔
چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے یا قرب قیامت میں ہوں گے :
بعض لوگوں نے (وانشق القمر) کا مطلب یہ لیا ہے کہ چاند پھٹ جائے گا لیکن عربی زبان کے لحاظ سے چاہے یہ مطلب لینا ممکن ہو مگر عبارت کا سیاق وسباق اس معنی کو مراد لینے سے صاف انکار کرتا ہے اول تو یہ معنی مراد لینے سے پہلا فقرہ بےمعنی ہوجاتا ہے، چاند اگر اس کلام کے نزول کے وقت پھٹا نہیں تھا، بلکہ وہ آئندہ کبھی پھٹنے والا ہے تو اس کی بنئا پر یہ کہنا بالکل مہمل بات ہے کہ قیامت کی گھڑی قریب آگئی ہے، مستقبل میں پیش آنے والا کوئی واقعہ اس کے قرب کی علامت کیسے قرار پاسکتا ہے کہ اسے شہادت کے طور پر پیش کرنا ایک معقول طرز استدلال ہو، دوسرے یہ مطلب لینے کے بعد جب ہم آگے کی عبارت پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی، آگے کی عبارت صاف بتارہی ہے کہ لوگوں نے اس وقت کوئی نشانی دیکھی تھی جو امکان قیامت کی صریح علامت تھی مگر انہوں نے اسے جادو قرار دیکر جھٹلا دیا اور اپنے اس خیال پر جمے رہے کہ قیامت کا آنا ممکن نہیں ہے، اس سیاق وسباق میں انشق القمر کے ال فاظ اسی صورت میں ٹھیک بیٹھ سکتے ہیں جب ان کا مطلب ” چاند پھٹ گیا “ لیا جائے اور اگر اشنق القمر کو چاناد پھٹ جائے گا کے معنی میں لے لئے جائیں تو بعد کی ساری با بےجوڑ ہوجاتی ہے، سلسلہ کلام میں اس فقرے کو رکھ کر دیکھ لیجیے آپ کو خود محسوس ہوجائے گا کہ اس کی وجہ سے ساری عبارت بےمعنی ہوگئی۔
معجزہ شق القمر پر اعتراضات :
معترضین شق القمر پر دو طرح کے اعتراضات کرتے ہیں اول تو ان کے نزدیک ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے کہ چاند جیسے عظیم کرہ کے دو ٹکڑے پھٹ کر الگ ہوجائیں اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں میل کے فاصلہ تک ایک دوسرے سے دور جانے کے بعد پھر دوبارہ جڑ جائیں، دوسرے وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ دنیا بھر میں مشہور ہوجاتا، تاریخی کتابوں میں اس کا ذکر آتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دونوں اعتراضات بالکل بےوزن اور بےحقیقت ہیں۔
جواب :۔ اول تو کسی دلیل عقلی سے اس کا محال ہونا اب تک ثابت نہیں کیا جاسکا ہے اور محض استبعاد کی بنئا پر ایسی قطعی الثبوت چیزوں کو رد نہیں کیا جاسکتا، بلکہ استبعاد تو اعجاز کے لیء لازم ہے جہاں تک اس کے امکان کی بحث ہے، قدیم زمانہ میں تو شاید وہ چل بھی سکتی ھتی، لیکن موجودہ دور میں سیاروں کی ساخت کے متعلق انسان کو جو معلوات حاصل ہوئی ہیں ان کی بنئا پر یہ بات بالکل ممکن ہے کہ ایک کرہ اپنے اندر آتش فشانی کے باعث پھٹ جائے اور اس زبردست انفجار سے اس کے دو ٹکڑے ہو کر دور تک چلیجائیں اور پھر اپنی مرکزی قوت جاذبہ کے سبب وہ آپس میں آ ملیں اور اگر یہ انفجار اتنا شدید اور طاقتور ہو کہ مرکزی قوت جاذبہ کی گرفت سے باہر ہوجائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ٹکڑے پھر آپس میں نہ ملیں اور اس کا صرف امکان ہی نہیں بلکہ واقعہ بھی ہے۔
کرہ ارض ایک زمانہ میں متصل ایک کرہ تھا :
ماہرین کی غالب اکثریت اس پر متفق ہے کہ دنیا کے تمام بر اعظم کسی زمانہ میں ایک دوسرے سے پیوست ایک کرہ تھے، کوئی بیس کروڑ سال ہوئے زمین کے اندر کی آتش فشانی اور قوت طار دہ کی وجہ سے کرہ ارض میں انفجار پیدا ہوا اور یہ کرہ کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا، اس کے ثبوت کی متعدد دلیلیں ہیں، اس بات کا خیال رہے کہ دیگر سیارتا کے مانند زمین اور چاند بھی سیارے ہیں بلکہ سائنس جدید کی تحقیق کے نتیجے سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند زمین کا ایک حصہ ہے کسی زمان ہمیں کسی سیارہ کے تصادم یا اندرونی آتش فشانی کے نتیجے میں بحر الکاہل کے مقام سے الگ ہو کر زمین کے گرد اگر دگردش کرنے لگا، اور زمین سورج سے جدا شدہ ایک کرہ ہے جو سورج کے گردا گرد گردش کر رہا ہے، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ’ دفلکیات جدیدہ “ ‘
انفجار ارض کی پہلی دلیل :
اگر تمام براعظموں کو ایک دوسرے سے ملا کر پیوست کردیا جائے تو ان کے ساحل ایک دوسرے سے اس طرح مل جائیں گے جیسے کسی ٹوٹی ہوئی چیز کے ٹکڑوں کو ملا کر ایک کردیا جاتا ہے اور وہ اپنی سابقہ حالت پر معلوم ہونے لگتی ہے۔
دوسری دلیل :
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طویل و عریض سمندروں کے آر پار مختلف براعظموں کے مقابل ساحلوں پر جو پہاڑ ہیں یوں لگتا ہے جیسے ایک ہی سلسلہ کوہ کے حصے ہوں۔
تیسری دلیل :
بر اعظم کے ایک دوسرے سے کسی زمانہ میں متصل ہونے کے حیاتیاتی شواہد بھی موجود ہیں، جنوبی امریکہ اور افریقہ میں بیسوں اقسام کے جانو رملتے ہیں جو ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ مماثلت و مشابہت بےوجہ نہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہ دونوں بر اعظم ایک ہی تھے۔
جب کہ ارضی میں انفجار و انشقاق مشاہداتی اور عقلیاتی دلائل سے ثابت ہے تو کیا وجہ ہے کہ کرہ قمر میں یہ انفجار و انشقاق نہیں ہوسکتا ؟ مذکوہ دلائل سے ان لوگوں کا نظریہ باطل ہوگیا جو کرہ قمر میں خرق و التیام کو محال کہہ کر معجزہ شق القمر کا انکار کرتے ہیں۔
دوسرا اعتراض :
دوسرا عامیانہ اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ واقعہ دنیا بھر میں مشہور ہوجاتا، تاریخی کتابوں میں اس کا ذکر آتا۔
جواب :۔ یہ اعتراض سا لئے بےوزن ہے کہ یہ واقعہ اچانک بس ایک لمحہ کے لئے پیش آیا تھا، ضروری نہیں تھا کہ اس خاص لمحہ میں دنیا بھر کی نگاہیں چاند کی طرف لگی ہوئی ہوں، نیز اس سے کوئی زور دار دھماکہ نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کی وتجہ اس کی طرف منعطف ہوتی اور پہلے سے اس کی کوئی اطلاع بھی نہیں تھی کہ لوگ اس کے منتظر ہو کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے، اس کے علاوہ پوری روئے زمین پر اسے دیکھا نہیں جاسکتا تھا، بلکہ صرف عرب اور اس کے مشرقی جانب کے ممالک ہی میں اس وقت چاند نکلا ہوا تھا، باقی بہت سے ممالک میں تو اس وقت دن ہوگا، جہاں رات ہوگی بھی تو کہیں نصف شب اور آخر شب کا وقت ہوگا جس وقت عام دنیا سوتی ہے اور جاگنے والے بھی تو ہر وقت چاند کو نہیں تکتے رہتے اس کے علاوہ زمین پر پھیلی ہوئی چاندنی میں چاند کے دو ٹکڑے ہونے سے کچھ فرق بھی نہیں پڑتا جس کی وجہ سے اس کی طرف کسی کو توجہ ہوتی پھر یہ تھوڑی دیر کا قصہ تھا، روز مرہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں چاند گہن ہوتا ہے اور آج کل تو پہلے سے اس کے اعلانتا بھی ہوجاتے ہیں اس کے باوجود ہزاروں لاکھوں آدمی اس سے بالکل بیخبر رہتے ہیں تو کیا اس نے بیخبر ی کو اس بات کی دلیل بنایا جاسکتا ہے کہ چاند گہن ہوا ہی نہیں ہے اس لئے دنیا کی عام تاریخوں میں مذکور نہ ہونے سے اس واقعہ کی تکذیب نہیں ہوسکتی۔
دوسرا جواب :۔ سابقہ آسمانی کاتبوں میں بعض ایسے ہی واقعات کا ذکر ہے مگر کسی تاریخی کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں ہے تو کیا یہ مان لیا جائے کہ یہ واقعات ہوئے ہی نہیں، ہم ان واقعات میں سے صرف دو واقعہ کا تذکرہ کرتے ہیں۔
پہلا واقعہ :
کتاب یشوع (ترجمہ عربی مطبوعہ 1844 ء کے مطابق) کے باب نمبر 10 آیت نمبر 12 میں ہے ” اور اس دن جب خداوند نے اموریوں کو بنی اسرائیل کے قابو میں کردیا، یشوع نے خداوند کے حضور بنی اسرائیل کے سامنے یہ کہا اے سورج تو جبعون پر اور اے چاند تو وادی ایالون پر ٹھہرا رہ، سورج ٹھہر گیا اور چاند تھما رہا جب تک قوم نے اپنے دشمنوں سے اپنا اتنقام نہ لے لیا اور سورج آسمانوں کے بیچوں بیچ ٹھہرا رہا اور تقریباً سارے دن ڈوبنے میں جلدی نہ کی۔ “
اور کتاب تحقیق الدین الحق مطبوعہ 1846 ء حصہ نمبر 3 کے باب 4 صفحہ 362 میں یوں ہے کہ ” یوشع کی دعاء سے سورج 24 گھنٹے کھڑا رہا “ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بڑا عظیم الشان تھا اور عیسائی نظریئے کے مطابق مسیح کی پیدائش سے ایک ہزار چار سو سال قبل پیش آیا، اگر یہ واقعہ صحیح ہوتا تو اس کا علم تمام روئے زمین کے انسانوں کو ہونا ضروری تھا، بڑے سے بڑا بادل بھی اس کے علم سے مانع نہیں ہوسکتا تھا اور نہ اس کا اختلاف اس میں مزاحم اس لئے کہ اگر ہم یہ بھی سلیم کرلیں کہ بعض مقامات پر اس وقت رات تھی تب بھی اس کا اظہر ہونا اس لئے ضروری تھا کہ ان کی رات اس دن چوبیس گھنٹے رہی ہو، نیز یہ زبردست حادثہ نہ ہندوستان کی تاریخ میں کہیں موجود ہے نہ اہل چین و اہل فارس کی کاتبوں میں اس کا تذکرہ ہے، ہم نے خود ہندوستان کے علماء سے اس کی تکذیب سنی ہے اور ان کو اس کے غلط ہونے کا یقین کامل ہے۔
دوسرا واقعہ :
کتاب الاشعیاء باب 38 آیت 8 میں حضرت اشعیاء کے معجزے رجوع شمس کے سلسلہ میں یوں کہا گیا ہے، ” چناچہ آسمان جن درجوں سے ڈھل گیا تھا ان میں کے دس درجے پھر لوٹ گیا۔ “
یہ حادثہ بھی عظیم الشان ہے اور چونکہ دن میں پیش آیا تھا اس لئے ضروری ہے کہ دنیا کے اکثر انسانوں کو اس کا علم ہو مسیح کی ولادت سے 713 سال شمسی قبل واقع ہوا، مگر اس کا تذکرہ نہ تو ہندوستان کی تاریخوں میں پایا جاتا ہے اور نہ اہل چین و اہل فارس کی کتابوں میں مخلصاً ) مزید تفصیل کے لئے دیکھئے، مولانا رحمت اللہ مرحوم کی مشہور کتاب اظہار الحق کا ترجمہ بائبل سے قرآن تک (ص 126 تا 137)
تاریخی شہادت :
اس کے علاوہ ہندوستان کی مستند و مشہور تاریخ، تاریخ فرشتہ کے مقالہ نمبر 11 میں اس کا ذکر موجود ہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ ملیبار نے یہ واقعہ بچشم خود دیکھا اور اپنے روزنامچہ میں لکھوایا اور یہی واقعہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا، حافظ مزی نے ابن تیمیمہ سے نقل کیا ہے کہ ایک مسافر کا بیان ہے کہ میں نے ہندوستان کے ایک مشہور شہر میں ایک پرانی عمارت دیکھی جس پر عمارت کی تاریخ تعمیر کے سلسلے میں لکھا تھا کہ یہ عمارت شق قمر والی رات میں بنائ گئی۔
(ترجمہ اظہار الحق، بائبل سے قرآن تک، ص 137)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالی آگاہ فرماتا ہے کہ وہ گھڑی یعنی قیامت قریب آگئی ہے اس کی آمد کا وقت ہو گیا، بایں ہمہ اس کو جھٹلانے والے جھٹلاتے چلے جارہے ہیں اور اس کے نزول کے لیے تیار نہیں۔ اللہ ان کو بڑی بڑی نشانیاں دکھاتا ہے جو اس کے وقوع پر دلالت کرتی ہیں ان جیسی نشانیاں لانا انسان کے بس میں نہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر مبعوث ہوئے ہیں، اس کی صداقت پر دلالت کرنے والا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ جب آپ کی تکذیب کرنے والوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ کوئی ایسا خارق عادت معجزہ دکھائیں جو قرآن کی صحت اور آپ کی صداقت پر دلالت کرے تو آپ نے اللہ کے حکم سے چاند کی طرف اشارہ کردیا چنانچہ چاند اللہ کے حکم سے دوٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا جبل ابی قبیس پر اور دوسرا ٹکڑا جبل قعیقعان پر چلا گیا۔ مشرکین اور دیگر لوگ اس عظیم معجزے کا مشاہدہ کررہے تھے جو عالم علوی میں وقوع پذیر ہوا جس میں مخلوق ملمع سازی کی قدرت رکھتی ہے نہ تخیل کی شعبدہ بازی کرسکتی ہے چنانچہ انہوں نے ایک ایسے معجزے کا مشاہدہ کیا جو اس سے قبل انہوں نے کبھی نہیں دیکھا بلکہ انہوں نے کبھی سنا بھی نہیں تھا کہ آپ سے پہلے گزرے انبیاء ومرسلین کے ہاتھوں پر اس جیسا معجزہ ظاہرہوا ہو وہ اس معجزے کو دیکھ کر مغلوب ہوگئے مگر ایمان ان کے دلوں میں داخل نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بھلائی چاہی۔ انہوں نے اپنی بہتان طرازی اور سرکشی میں پناہ لی اور کہنے لگے: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم پر جادو کردیا، مگر اس کی علامت یہ تھی کہ تم کسی ایسے شخص سے پوچھو جو سفر پر تمہارے پاس آیا ہے اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم پر جادو کرنے کی طاقت رکھتے تو وہ اس شخص پر جادو نہیں کرسکتے جس نے تمہاری طرح چاند کے دوٹکڑے ہونے کا مشاہدہ نہیں کیا، چنانچہ انہوں نے اس شخص سے شق قمر کے بارے میں پوچھا جو سفر پر آئے تھے انہوں نے بھی شق قمر کے وقوع کے بارے میں خبر دی۔ اس پر انہوں نے کہا: ﴿سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ﴾ ’’یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے‘‘ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہم پر بھی جادو کردیا اور دوسروں پر بھی۔ یہ ایسا بہتان ہے جو صرف انہی لوگوں میں رواج پاسکتا ہے جو مخلوق میں سب سے زیادہ بے وقوف، ہدایت اور عقل کے راستے سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی طرف سے صرف اسی ایک معجزے کا انکار نہیں بلکہ ان کے پاس جو بھی معجزہ آتا ہے تو یہ اس کی تکذیب کرنے اور اس کو ٹھکرانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا﴾ ’’اور اگر وہ مشرک کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ موڑ لیتے ہیں‘‘ یہاں ضمیر کو شق قمر کی طرف نہیں لوٹایا اور یوں نہیں کہا کہ ون یروھا ’’اور اگر وہ اسے دیکھتے ہیں‘‘ بلکہ کہا: ﴿وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا﴾ پس حق اور ہدایت کی اتباع کرنا ان کا مقصد نہیں۔ ان کا مقصد تو خواہشات نفس کی پیروی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَاءَہُمْ﴾ ’’اور انہوں نے اسے جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی اتباع کی۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ﴾ (القصص:28؍50) ’’پھر اگر وہ آپ کی بات کو قبول نہ کریں تو جان لیجئے کہ وہ صرف اپنی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔‘‘ اگر ان کا مقصد ہدایت کی پیروی کرنا ہوتا تو وہ ضرور ایمان لے آتے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر انہیں براہین وبینات اور قطعی دلائل کا مشاہدہ کرایا ہے جو تمام مطالب الٰہیہ اور مقاصد شرعیہ پر دلالت کرتی ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
qayamat qareeb aa-lagi hai , aur chaand phatt gaya hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ قیامت کے قرب کی اور دنیا کے خاتمہ کی اطلاع دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے آیت ( اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) 16 ۔ النحل :1) اللہ کا امر آچکا اب تو اس کی طلب کی جلدی چھوڑ دو اور فرمایا آیت (اقترب للناس حسابھم) الخ، لوگوں کے حساب کے وقت ان کے سروں پر آپہنچا اور وہ اب تک غفلت میں ہیں۔ اس مضمون کی حدیثیں بھی بہت سی ہیں بزار میں ہے حضرت انس فرماتے ہیں سورج کے ڈوبنے کے وقت جبکہ وہ تھوڑا سا ہی باقی رہ گیا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو خطبہ دیا جس میں فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں مری جان ہے دنیا کے گذرے ہوئے حصے میں اور باقی ماندہ حصے میں وہی نسبت ہے جو اس دن کے گذرے ہوئے اور باقی بچے ہوئے حصے میں ہے۔ اس حدیث کے راویوں میں حضرت خلف بن موسیٰ کو امام ابن حبان ثقہ راویوں میں گنتے تو ہیں لیکن فرماتے ہیں کبھی کبھی خطا بھی کر جاتے تھے، دوسری روایت جو اس کی تقویت بلکہ تفسیر بھی کرتی ہے وہ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے ہے کہ عصر کے بعد جب کہ سورج بالکل غروب کے قریب ہوچکا تھا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری عمریں گزشتہ لوگوں کی عمروں کے مقابلہ میں اتنی ہی ہیں جتنا یہ باقی کا دن گذرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ہے۔ مسند کی اور حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کلمہ کی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں اور قیامت اس طرح مبعوث کئے گئے ہیں اور روایت میں اتنی زیادتی ہے کہ قریب تھا وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے ولید بن عبدالملک کے پاس جب حضرت ابوہریرہ پہنچے تو اس نے قیامت کے بارے میں حدیث کا سوال کیا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ تم اور قیامت قربت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح ہو۔ اس کی شہادت اس حدیث سے ہوسکتی ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک ناموں میں سے ایک نام (حاشر) آیا ہے اور (حاشر) وہ ہے جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو حضرت بہز کی روایت سے مروی ہے کہ حضرت عتبہ بن غزوان نے اپنے خطبہ میں فرمایا اور کبھی کہتے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ سناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا دنیا کے خاتمہ کا اعلان ہوچکا یہ پیٹھ پھیرے بھاگے جا رہی ہے اور جس طرح برتن کا کھانا کھالیا جائے اور کناروں میں کچھ باقی لگا لپٹا رہ جائے اسی طرح دنیا کی عمر کا کل حصہ نکل چکا صرف برائے نام باقی رہ گیا ہے تم یہاں سے ایسے جہان کی طرف جانے والے ہو جسے فنا نہیں پس تم سے جو ہو سکے بھلائیاں اپنے ساتھ لے کر جاؤ سنو ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جہنم کے کنارے سے ایک پتھر پھینکا جائے گا جو برابر ستر سال تک نیچے کی طرف جاتا رہے گا لیکن تلے تک نہ پہنچے گا اللہ کی قسم جہنم کا یہ گہرا گڑھا انسانوں سے پر ہونے والا ہے تم اس پر تعجب نہ کرو ہم نے یہ بھی ذکر سنا ہے کہ جنت کی چوکھٹ کی دو لکڑیوں کے درمیان چالیس سال کا راستہ ہے اور وہ بھی ایک دن اس حالت پر ہوگی کہ بھیڑ بھاڑ نظر آئے گی (مسلم) ابو عبدالرحمن سلمی فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ مدائن گیا اور بستی سے تین میل کے فاصلے پر ہم ٹھہرے۔ جمعہ کے لئے میں بھی اپنے والد کے ہمراہ گیا حضرت حذیفہ خطیب تھے آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگوں سنو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکرے ہوگیا۔ بیشک قیامت قریب آچکی ہے بیشک چاند پھٹ گیا ہے بیشک دنیا جدائی کا الارم بجا چکی ہے آج کا دن کوشش اور تیاری کا ہے کل تو دوڑ بھاگ کر کے آگے بڑھ جانے کا دن ہوگا میں نے اپنے باپ سے دریافت کیا کہ کیا کل دوڑ ہوگی ؟ جس میں آگے نکلنا ہوگا ؟ میرے باپ نے مجھ سے فرمایا تم نادان ہو یہاں مراد نیک اعمال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا ہے۔ دوسرے جمعہ کو جب ہم آئے تو بھی حضرت حذیفہ کو اسی کے قریب فرماتے ہوئے سنا اس کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ غایت آگ ہے اور سابق وہ ہے جو جنت میں پہلے پہنچ گیا۔ چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کا ذکر ہے جیسے کہ متواتر احادیث میں صحت کے ساتھ مروی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ پانچوں چیزیں ردم، دھواں، لزام، بطشہ اور چاند کا پھٹنا یہ سب گذر چکا ہے اس بارے کی حدیثیں سنئے۔ مسند احمد میں ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزہ طلب کیا جس پر دو مرتبہ چاند شق ہوگیا جس کا ذکر ان دونوں آیتوں میں ہے۔ بخاری میں ہے کہ انہیں چاند کے دو ٹکڑے دکھا دئیے ایک حراء کے اس طرف ایک اس طرف مسند میں ہے ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر دوسرا دوسرے پہاڑ پر۔ اسے دیکھ کر بھی جن کی قسمت میں ایمان نہ تھا بول پڑے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہماری آنکھوں پر جادو کردیا ہے۔ لیکن سمجھداروں نے کہا کہ اگر مان لیا جائے کہ ہم پر جادو کردیا ہے تو تمام دنیا کے لوگوں پر تو نہیں کرسکتا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے اور روایتیں بھی بہت سی ہیں ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں چاند گرہن ہوا کافر کہنے لگے چاند پر جادو ہوا ہے اس پر یہ آیتیں مستمر تک اتریں، ابن عمر فرماتے ہیں جب چاند پھٹا اور اس کے دو ٹکڑے ہوئے ایک پہاڑ کے پیچھے اور ایک آگے اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ، مسلم اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے ابن مسعود فرماتے ہیں سب لوگوں نے اسے بخوبی دیکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دیکھو یاد رکھنا اور گواہ رہنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہم سب منیٰ میں تھے اور روایت میں ہے کہ مکہ میں تھے ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ کفار نے یہ دیکھ کر کہا یہ ابن ابی کبشہ (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جادو ہے لیکن ان کے سمجھداروں نے کہا مان لو ہم پر جادو کیا ہے لیکن ساری دنیا پر تو نہیں کرسکتا، اب جو لوگ سفر سے آئیں ان سے دریافت کرنا کہ کیا انہوں نے بھی اس رات کو چاند کو دو ٹکڑے دیکھا تھا چناچہ وہ آئے ان سے پوچھا انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہاں فلاں شب ہم نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے کفار کے مجمع نے یہ طے کیا تھا کہ اگر باہر کے لوگ آکر یہی کہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی میں کوئی شک نہیں، اب جو باہر سے آیا جب کبھی آیا جس طرف سے آیا ہر ایک نے اس کی شہادت دی کہ ہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسی کا بیان اسی آیت میں ہے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں پہاڑ چاند کے دو ٹکڑوں کے درمیان دکھائی دیتا تھا اور روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصوصاً حضرت صدیق سے فرمایا کہ اے ابوبکر تم گواہ رہنا اور مشرکین نے اس زبردست معجزے کو بھی جادو کہہ کر ٹال دیا، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ جب یہ دلیل حجت اور برہان دیکھتے ہیں سہل انکاری سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے اور مانتے ہیں بلکہ حق کو جھٹلا کر احکام نبوی کے خلاف اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اپنی جہالت اور کم عقلی سے باز نہیں آتے۔ ہر امر مستقر ہے یعنی خیر خیر والوں کے ساتھ اور شر شر والوں کے ساتھ۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ قیامت کے دن ہر امر واقع ہونے والا ہے اگلے لوگوں کے وہ واقعات جو دل کو ہلا دینے والے اور اپنے اندر کامل عبرت رکھنے والے ہیں ان کے پاس آچکے ہیں ان کی تکذیب کے سلسلہ میں ان پر جو بلائیں اتریں اور ان کے جو قصے ان تک پہنچے وہ سراسر عبرت و نصیحت کے خزانے ہیں اور وعظ و ہدایت سے پر ہیں، اللہ تعالیٰ جسے ہدایت کرے اور جسے گمراہ کرے اس میں بھی اس کی حکمت بالغہ موجود ہے ان پر شقاوت لکھی جا چکی ہے جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے انہیں کوئی ہدایت پر نہیں لاسکتا جیسے فرمایا آیت ( قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ\014\09 ) 6 ۔ الانعام :149) ، اللہ تعالیٰ کی دلیلیں ہر طرح کامل ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر لا کھڑا کرتا اور جگہ ہے آیت (وَمَا تُغْنِي الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ\010\01) 10 ۔ یونس :101) بےایمانوں کو کسی معجزے نے اور کسی ڈرنے اور ڈر سنانے والے نے کوئی نفع نہ پہنچایا۔