الواقعہ آية ۱
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ ۙ
طاہر القادری:
جب واقع ہونے والی (قیامت) واقع ہو جائے گی،
English Sahih:
When the Occurrence occurs,
1 Abul A'ala Maududi
جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آ جائے گا
2 Ahmed Raza Khan
جب ہولے گی وہ ہونے والی
3 Ahmed Ali
جب واقع ہونے والی واقع ہو گی
4 Ahsanul Bayan
جب قیامت قائم ہو جائے گی (١)
١۔١ واقعہ بھی قیامت کے ناموں سے ہے، کیونکہ یہ لامحالہ واقع ہونے والی ہے، اس لئے اس کا نام بھی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے
6 Muhammad Junagarhi
جب قیامت قائم ہو جائے گی
7 Muhammad Hussain Najafi
جب واقعہ ہو نے والی (قیامت) واقع ہو جائے گی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جب قیامت برپا ہوگی
9 Tafsir Jalalayn
جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے
ترجمہ :۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے جب واقع ہونے والی واقع ہوگی یعنی قیامت قائم ہوگی اس کے وقوع کی کوئی نفس تکذیب کرنے والا نہیں ہوگا کہ اس کا انکار کر دے جیسا کہ دنیا میں اس کا انکار کیا تھا وہ بلند اور پست کرنے والی ہوگی وہ قوموں کی پستی کو ظاہر کرنے والی ہوگی، ان کے جہنم میں داخل ہونے کی وجہ سے اور دوسری قوموں کو بلند کرنے والی ہوگی ان کے جنت میں داخل ہونے کی وجہ سے جبکہ زمین پوری طرح ہلا دی جائے گی، یعنی شدید حرکت دیدی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے تو وہ منتشر غبار کے مانند ہوجائیں گے ثانی اذا پہلے اذا سے بدل ہے تم قیامت میں تین قسم کے گروہ ہوجائو گے تو دائیں ہاتھ والے اور وہ ہوں گے جن کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے (فاصحب المیمنۃ) مبتداء ہے اور ما اصحب المیمنۃ اس کی خبر، کیا ہی خوب ہوں گے دائیں ہاتھ والے ان کے جنت میں داخل ہونے کی وجہ سے ان کی تعظیم شان کا بیان ہے اور بائیں ہاتھ والے، بائیں طور کہ ان میں سے ہر ایک کا اعمال نامہ ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا کیا ہی برے ہیں بائیں ہاتھ والے ؟ ان کے دوزخ میں داخل ہونے کی وجہ سے، ان کی تحقیر شان کا بیان ہے اور خیر کی طرف سبقت کرنے والے اور وہ انبیاء (علیہم السلام) میں مبتداء ہے۔ سبقت کرنے والے ہیں ان کی تعظیم شان کے لئے تاکید ہے یہی لوگ ہیں مقرب نعمتوں والی جنت میں ایک بڑا گروہ تو پہلے لوگوں میں سے (ثلۃ من الاولین) مبتداء ہے یعنی گزشتہ امتوں میں سے ایک بہت بڑی جماعت اور بعد والوں میں سے ایک چھوٹا گروہ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ام ماضیہ میں سے اور اس امت میں سے سبقت کرنے والے ہیں ایسی مسہریوں پر ہوں گے جو سونے اور جواہرات کے تاروں سے بنی ہوئی ہوں گی ان پر ٹیک لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے خبر کی ضمیر سے دونوں حال ہیں ان کے پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے یعنی لڑکوں ہی کی شکل میں رہیں گے، بوڑھے نہ ہوں گے، ایسے آبخورے لئے کہ جن میں دستہ نہیں ہوگا اور لوٹے لئے کہ جن میں دستہ اور ٹونٹی (نائزہ) ہوگی آمد و رفت کریں گے اور بہتی شراب سے بھرے ہوئے جام شراب لے کر (آمد و رفت کریں گے) کاس شراب پینے کے برتن کو کہتے ہیں یعنی ایسے چشمے کی شراب کہ جو کبھی منقطع نہ ہوگا نہ اس سے سر میں درد ہوگا اور عقل میں فتور آئے گا (ینزفون) زاء کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ، یہ نزف الشارب و انزف سے مشتق ہے، یعنی نہ ان کو درد سر لاحق ہوگا اور نہ عقل زائل ہوگی بخلاف دنیوی شراب کے اور ایسے میوے لئے ہوئے جو ان کو پسند ہوں اور پرندوں کا گوشت لئے ہوئے جو ان کو مرغوب ہو اور ان کے استفادے کے لئے بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ہیں یعنی ایسی عورتیں کہ جن کی آنکھوں کی سیاہی نہایت سیاہ اور ان کی سفیدی نہایت سفید ہوگی (عیون) میں عین کو ضمہ کے عوض کسرہ دیا گیا، یاء کی موافقت کی وجہ سے، اس کا واحد عیناء ہے، جیسا کہ حمر کا واحد حمراء ہے اور ایک قرأت میں حور عین جر کے ساتھ ہے، جو محفوظ موتی کی طرح ہیں یہ صلہ ہے ان کے اعمال کا جزاء مفعول لہ ہے، یا مصدر ہے اور عامل محذوف ہے (تقدیر عبارت یہ ہے) جعلنا لھم ماذکر للجزاء (یا) جزیناھم نہ وہاں (یعنی جنت میں) بکواس یعنی فحش کلام سنیں گے اور نہ گناہوں کی بات سنیں گے، صرف اسلام ہی سلام کی آواز سنیں گے، (سلاماً سلاماً ) قلیلاً سے بدل ہے یعنی وہ اس آواز کو سنیں گے اور داہنے ہاتھ والے کیا ہی خوب ہیں داہنے ہاتھ والے وہ بغیر خار کے بیرون میں ہوں گے سدر بیر کے درخت کو کہتے ہیں اور تہ بہ تہ کیلوں میں ہوں گے طلح کیلے کے درخت کو کہتے ہیں جو نیچے سے اوپر تک لدے ہوئے ہوں گے اور دراز دراز ہمیشہ رہنے والے سایوں میں ہوں گے اور ہمیشہ جاری پانی میں ہوں گے اور بکثرت پھلوں میں ہوں گے نہ وہ کسی وقت ختم ہوں گے اور نہ ادائیگی ثمن کے لئے روکے جائیں گے اور مسہریوں پر اونچے اونچے غالیچوں پر ہوں گے ہم نے ان حوروں کو خاص طور پر بغیر ولادت کے بنایا ہے اور ہم نے ان کو باکرہ بنایا ہے یعنی ایسی دوشیزہ کہ جب بھی ان کے پاس ان کے شوہر آئیں گے تو ان کو دوشیزہ ہی پائیں گے اور کوئی تکلیف بھی نہ ہوگی، محبت کرنے والیاں ہم عمر ہوں گی (عربا) راء کے ضمہ اور سکون کے ساتھ دائیں ہاتھ والوں کے لئے (لاصحب الیمین) انشاناھن سے متعل ہے، یا جعلنا ھن سے متعلق ہے، (یعنی یہ سب چیزیں اصحاب الیمین کے لئے ہوں گی۔ )
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اذا وقعت الواقعۃ، ” واقعہ “ قیامت کے متعدد ناموں میں سے ایک نام ہے، قیامت کو واقعہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ لامحالہ واقع ہوگی اذا وقعت الواقعۃ اذا میں چند وجوہ ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں، اذا ظرف محض کے لئے ہے یعنی اس میں شرط کے معنی نہیں ہیں اور اس کا عامل لیس ہے، اس کے معنی نفی پر متضمن ہونے کی وجہ سے گویا کہ کہا گیا ہے انتفی التکذیب وقت وقوعھا یا شرطیہ ہے اس کا جواب محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اذا وقعت الواقعۃ کان کیت و کیت اور یہی اس میں عامل ہے۔
قولہ : لیس لوقعتھا لام، بمعنی فی ہے، مضاف محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے لیس نفس کاذبۃ توجد فی وقت وقوعھا کاذبۃ کا موصف نفس محذوف ہے۔
قولہ : خافضۃ رافعۃ، ھی مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ مفسر علامہ نے ھی کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا ہے۔ مظھرۃ کے لفظ سے اشارہ کردیا کہ خفض ورفع تو علم ازلی کے اعتبار سے مقدر ہوچکا ہے قیامت اس کو ظاہر کر دے گی۔
قولہ : اذرا رجت الارض یا تو اول اذا سے بدل ہے جیسا کہ مفسر رحمتہ اللہ تعالیٰ کا مختار ہے یا پھر ثانی اذا اولیٰ کی تاکید ہے یا پھر شرطیہ ہے اور اس کا عامل مقدر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد والا فعل (رجت) عامل ہو۔
قولہ : فاصحب المیمنۃ ما اصحب المیمنۃ، اصحاب المیمنۃ مبتداء اول اور ما استفہامیہ مبتداء ثانی اصحب المیمنۃ جملہ ہو کر مبتداء ثانی کی خبر، مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر مبتداء اول کی خبر
سوال : خبر جب جملہ ہوتی ہے تو اس میں عائد ہونا ضروری ہوتا ہے یہاں عائد نہیں ہے۔
جواب : اسم ظاہر قائم مقام ضمیر کے ہے، لہٰذا عائد کی ضرورت نہیں بعد والے جملہ کی بھی یہی ترکیب ہوگی، ماگارچہ شئی کی حقیقت سے سوال کے لئے آتا ہے مگر کبھی اس کے ذریعہ صفت اور حالت کا سوال بھی مطلوب ہوتا ہے جیسا کہ تو کہے مازید فیقال عالم اور طبیب (روح المعانی)
قولہ : ثلۃ ضمہ کے ساتھ انسانوں کی بڑی جماعت اور فتحہ کے ساتھ بکریوں کا ریوڑ۔
قولہ : موضونۃ، الوضن بمعنی نضن الدارع زرہ بنانا، یہاں مطل قبننے کے معنی میں ہے۔
قولہ : علی سرر موضونۃ یہ ثلۃ من الاولین مستقرین کے متعلق ہو کر مبتداء کی خبر ہے اور متکئین علیھا متقبلین یہ دونوں مستقرین کی ضمیر سے حال ہیں۔
قولہ : یطوف علیھم یہ جملہ مستانفہ ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ مقربون سے حال ہوا لمعنی یدرو حولھم للخدمۃ غلمان لا یھرمون لایتغبمرون
قولہ : لایھرمون یہ مخلدون کی تفسیم ہے۔
قولہ : اباریق، ابریق کی جمع ہے آفتابہ (لوٹا) یہ برق سے مشتق ہے، آفتابے چونکہ بہت زیادہ چمکدار ہوں گے اس لئے اس کو ابریق کہتے ہیں۔
قولہ : حورعین مبتداء ہے اس کی خبر محذوف ہے، جس کی طرف مفسر عالمہ نے اپنے قول لھم للاستمتاع سے اشارہ کردیا ہے۔
قولہ : مخصود، خضد الشجر خضداء سے ماخوذ ہے (ض) کا کانٹے توڑنا۔
قولہ : بشمن اگر مفسر عالم بشی فرماتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اسی لئے کہ صرف ثمن اور قیمت ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی بھی وجہ سے جنتیوں کو منع کیا جائے گا۔
تفسیر و تشریح
ربط : سورة رحمٰن اور اس سورت کے مضمون میں یکسانیت ہے اس لئے کہ دونوں سورتوں میں قیامت، دوزخ اور جنت کے حالات و اوصاف بیان کئے گئے ہیں اور بحر میں کہا ہے کہ دونوں میں مناسبت یہ ہے کہ دونوں سورتوں میں مجرمین کی سزا اور مطیعین کی جزاء کا ذکر ہے۔
سورة واقعہ کی خصوصی فضیلت :
الشعب میں ابن مسعود سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے من قراء سورة الواقعۃ کل لیلۃ لم تصبہ فاقۃ جو شخص روزانہ رات کو سورة واقعہ تلاوت کرے گا اس کو فاقہ کی نوبت نہیں آئے گی، اور ابن عسا کرنے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً اسی کے مثل روایت کیا ہے اور ابن مردویہ نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة الواقعۃ سورة الغنی فاقرء وھا وعلموھا اولاد کم سورة واقعہ سورة غنا ہے تم اسے پڑھا کرو اور اپنے بچوں کو سکھائو۔ (روح المعانی)
عبداللہ بن مسعود کے مرض الوفات کا سبق آموز واقعہ :
ابن کثیر نے بحوالہ ابن عسا کر ابوظبیہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے مرض وفات میں حضرت عثمان غنی (رض) عیادت کے لئے تشریف لے گئے، حضرت عثمان (رض) نے پوچھا ماتشت کی آپ کو کیا تکلیف ہے) تو فرمایا ذونوبی (اپنے گناہوں کی تکلیف ہے) پھر پوچھا ماتشتھی آپ کی کیا خواہش ہے تو فرمایا رحمۃ ربی یعنی اپنے رب کی رحمت چاہتا ہوں، پھر حضرت عثمان (رض) نے فرمایا، میں آپ کے لئے کسی طبیب کو بلاتا ہوں تو فرمایا الطبیب امرضنی (مجھے طبیب ہی نے بیمار کیا ہے) پھر حضرت عثمان نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے بیت المال سے کوئی عطیہ بھیج دوں، تو فرمایا لا حاجۃ لی فیھا (مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں) حضرت عثمان نے فرمایا کہ عطیہ لے لیجیے، وہ آپ کے بعد آپ کی لڑکیوں کے کام آئے گا، تو فرمایا کیا آپ کو میری لڑکیوں کے بارے میں یہ فکر ہے کہ وہ فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجائیں گی، مگر مجھے یہ فکر اس لئے نہیں کہ میں نے اپنی لڑکیوں کو تاکید کر رکھی ہے کہ ہر رات سورة واقعہ پڑھا کریں، کیو کہ میں نے روسلا للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے من قرا سورة والواقعۃ کل لیلۃ لم تصبہ فاقۃ ابداً (ابن کثیر، معارف) (ترجمہ) جو شخص ہر رات سورة واقعہ پڑھے گا وہ کبھی فاقہ میں مبتلا نہ ہوگا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعہ کے حال کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جس کا واقع ہونا لازمی ہے ،اس واقعہ سے مراد قیامت ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jab woh honey wala waqiaa paish aajaye ga ,
12 Tafsir Ibn Kathir
یقینی امر : واقع قیامت کا نام ہے کیونکہ اس کا ہونا یقینی امر ہے۔ جسے اور آیت میں ہے آیت ( فَيَوْمَىِٕذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُ 15ۙ ) 69 ۔ الحاقة :15) اس دن ہو پڑے گی، اس کا واقعہ ہونا حتمی امر ہے، نہ اسے کوئی ٹال سکے نہ ہٹا سکے وہ اپنے مقررہ وقت پر آ کر ہی رہے گی، جسے اور آیت میں ہے، آیت ( اِسْتَجِيْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ ۭ مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ 47) 42 ۔ الشوری :47) اپنے پروردگار کی باتیں مان لو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں اور جگہ فرمایا آیت ( سَاَلَ سَاۗىِٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ ۙ ) 70 ۔ المعارج :1) سائل کا سوال اس کے متعلق ہے جو یقیناً آنے والا ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اور آیت میں ہے آیت (وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ ڛ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۭوَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ ۭ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۭوَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ 73) 6 ۔ الانعام :73) جس دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہوجا تو ہوجائے گی۔ وہ عالم غیب و ظاہر ہے اور وہ حکیم وخبیر ہے، قیامت کا ذبہ نہیں یعنی برحق ہے ضرور ہونے والی ہے اس دن نہ تو دوبارہ آنا ہے نہ وہاں سے لوٹنا ہے نہ واپس آنا ہے۔ (کاذبہ) مصدر ہے جیسے (عاقبۃ) اور (عافیہ) وہ دن پست کرنے والا اور ترقی دینے والا ہے، بہت لوگوں کو پست کر کے جہنم میں پہنچا دے گا جو دنیا میں برے ذی عزت و وقعت تھے اور بہت سے لوگوں کو وہ اونچا کر دے گا اعلیٰ علین ہو کر جنتی ہوجائیں گے، متکبرین کو وہ ذلیل کر دے گی اور متواضعین کو وہ عزیز کر دے وہی نزدیک و دور والوں کو سنا دے گی اور ہر اک کو چوکنا کر دے گی وہ نیچا کرے گی اور قریب والوں کو سنائے گی پھر اونچی ہوگی اور دور والوں کو سنائے گی، زمین ساری کی ساری لرزنے لگے گی، چپہ چپہ کپکپانے لگے گا طور و عرج زمین میں زلزلہ پڑجائے گا، اور بےطرح ہلنے لگے گی، یہ حالت ہوجائے گی کہ گویا چھلنی میں کوئی چیز ہے جسے کوئی ہلا رہا ہے اور آیت میں ہے ( اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا ۙ ) 99 ۔ الزلزلة :1) اور جگہ ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ ) 22 ۔ الحج :1) لوگو اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے یقین مانو کہ قیامت کا زلزلہ بہت بری چیز ہے۔ پھر فرمایا کہ پہاڑ اس دن ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور جگہ الفاظ آیت ( يَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيْبًا مَّهِيْلًا 14) 73 ۔ المزمل :14) آئے ہیں، پس وہ مثل غبار پریشان کے ہوجائیں گے جسے ہوا ادھر ادھر بکھیر دے اور کچھ نہ رہے (ھباء) ان شراروں کو بھی کہتے ہیں جو آگ جلاتے وقت پتنگوں کی طرح اڑتے ہیں، نیچے گرنے پر وہ کچھ نہیں رہتے۔ (منبث) اس چیز کو کہتے ہیں جسے ہوا اوپر کر دے اور پھیلا کر نابود کر دے جیسے خشک پتوں کے چورے کو ہوا ادھر سے ادھر کردیتی ہے۔ اس قسم کی اور آیتیں بھی بہت سی ہیں جن سے ثابت ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ ٹل جائیں گے ٹکڑے ہوجائیں گے پھر ریزہ ریزہ ہو کر بےنام و نشان ہوجائیں گے۔ لوگ اس دن تین قسموں میں منقمس ہوجائیں گے۔ ایک جماعت عرش کے دائیں ہوگی اور یہ لوگ وہ ہوں گے جو حضرت آدم کی دائیں کروٹ سے نکلے تھے نامہ اعمال داہنے ہاتھ دیئے جائیں گے اور دائیں جانب چلائے جائیں گے، یہ جنتیوں کا عام گروہ ہے۔ دوسری جماعت عرش کے بائیں جانب ہوگی یہ وہ لوگ ہوں گے جو حضرت آدم کی بائیں کروٹ سے نکالے گئے تھے انہیں نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے گئے تھے اور بائیں طرف کی راہ پر لگائے گئے تھے۔ یہ سب جہنمی ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے۔ تیسری جماعت اللہ عزوجل کے سامنے ہوگی یہ خاص الخاص لوگ ہیں یہ اصحاب یمین سے بھی زیادہ باقعت اور خاص قرب کے مالک ہیں۔ یہ اہل جنت کے سردار ہیں ان میں رسول ہیں انبیاء ہیں صدیق و شہداء ہیں۔ یہ تعداد میں بہت دائیں ہاتھ والوں کی نسبت کم ہیں۔ پس تمام اہل محشر یہ تین قسمیں ہوجائیں گی جیسے کہ اس سورت کے آخر میں بھی اختصار کے ساتھ ان کی یہی تقسیم کی گئی ہے۔ اسی طرح سورة ملائیکہ میں فرمایا ہے آیت ( ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَــيْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْــفَضْلُ الْكَبِيْرُ 32ۭ ) 35 ۔ فاطر :32) یعنی پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث اپنا چیدہ بندوں کو بنایا پس ان میں سے بعض تو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ روش ہیں اور بعض اللہ کے حکم سے نیکیوں کی طرف آگے بڑھنے والے ہیں۔ پس یہاں بھی تین قسمیں ہیں یہ اس وقت جبکہ آیت ( وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِيْنٌ\011\03 ) 37 ۔ الصافات :113) کی وہ تفسیر لیں جو اس کے مطابق ہے، ورنہ ایک دوسرا قول بھی ہے جو اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر گذر چکا۔ حضرت ابن عباس وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں۔ دو گروہ تو جنتی اور ایک جہنمی۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں آیت ( وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ ۽) 81 ۔ التکوير :7) جب لوگوں کے جوڑے ملائے جائیں فرمایا قسم قسم کی یعنی ہر عمل کے عامل کی ایک جماعت جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم تین قسم پر ہوجاؤ گے، یعنی اصحاب یمین اصحاب شمال اور سابقین۔ مسند احمد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیا بند کرلیں اور فرمایا یہ جنتی ہیں مجھے کوئی پرواہ نہیں یہ سب جہنمی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں، مسند احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جانتے ہو اللہ تعالیٰ کے سائے کی طرف قیامت کے دن سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے ؟ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور رسول خوب جانتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ لوگ جو جب اپنا حق دیئے جائیں قبول تو کرلیں اور جو حق ان پر ہو جب مانگا جائے ادا کردیں اور لوگوں کے لئے بھی وہی حکم کریں جو خود اپنے لئے کرتے ہیں۔ سابقون کون لوگ ہیں ؟ اس کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں، مثلاً انبیاء اہل علین حضرت یوشع بن نون جو حضرت موسیٰ پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے وہ مومن جن کا ذکر سوۃ یاسین میں ہے جو حضرت عیسیٰ پر پہلے ایمان لائے تھے، حضرت علی بن ابی طالب جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سبقت کر گئے تھے، وہ لوگ جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی، ہر امت کے وہ لوگ جو اپنے اپنے نبیوں پر پہلے پہل ایمان لائے تھے، وہ لوگ جو مسجد میں سب سے پہلے جاتے ہیں، جو جہاد میں سب سے آگے نکلتے ہیں۔ یہ سب اقوال دراصل صحیح ہیں یعنی یہ سب لوگ سابقون ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو آگے بڑھ کر دوسروں پر سبقت کر کے قبول کرنے والے سب اس میں داخل ہیں، قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت (وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ\013\03ۙ ) 3 ۔ آل عمران :133) اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کا عرض مثل آسمان و زمین کے ہے، پس جس شخص نے اس دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کی وہ آخرت میں اللہ کی نعمتوں کی طرف بھی سابق ہی رہے گا، ہر عمل کی جزا اسی جنس سے ہوتی ہے جیسا جو کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے، اسی لئے یہاں ان کی نسبت فرمایا گیا یہ مقربین اللہ ہیں یہ نعمتوں والی جنت میں ہیں۔ ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ فرشتوں نے درگاہ اللہ میں عرض کی کہ پروردگار تو نے ابن آدم کے لئے تو دنیا بنادی ہے وہ وہاں کھاتے پیتے ہیں اور بیوی بچوں سے لطف اٹھاتے ہیں پس ہمارے لئے آخرت کر دے جواب ملا کہ میں ایسا نہیں کروں گا انہوں نے تین مرتبہ یہی دعا کی، پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں نے جسے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اسے ان جیسا ہرگز نہ کروں گا جنہیں میں نے صرف لفظ کن سے پیدا کیا، حضرت امام دارمی (رح) نے بھی اس اثر کو اپنی کتاب (الرد علی الجہمیہ) میں وارد کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اللہ عزوجل نے فرمایا جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے اس کی نیک اولاد کو میں اس جیسا نہ کروں گا جیسے میں نے کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔