الواقعہ آية ۷۵
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
طاہر القادری:
پس میں اُن جگہوں کی قَسم کھاتا ہوں جہاں جہاں قرآن کے مختلف حصے (رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) اترتے ہیں٭، ٭ یہ ترجمہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے بیان کردہ معنی پر کیا گیا ہے، مزید حضرت عکرمہ، حضرت مجاہد، حضرت عبد اللہ بن جبیر، حضرت سدی، حضرت فراء اور حضرت زجاج رضی اللہ عنھم اور دیگر ائمہ تفسیر کا قول بھی یہی ہے؛ اور سیاقِ کلام بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ پیچھے سورۃ النجم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نجم کہا گیا ہے، یہاں قرآن کی سورتوں کو نجوم کہا گیا ہے۔ حوالہ جات کے لئے ملاحظہ کریں: تفسیر بغوی، خازن، طبری، الدر المنثور، الکشاف، تفسیر ابن ابی حاتم، روح المعانی، ابن کثیر، اللباب، البحر المحیط، جمل، زاد المسیر، فتح القدیر، المظہری، البیضاوی، تفسیر ابی سعود اور مجمع البیان۔
English Sahih:
Then I swear by the setting of the stars,
1 Abul A'ala Maududi
پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں تاروں کے مواقع کی
2 Ahmed Raza Khan
تو مجھے قسم ہے ان جگہوں کی جہاں تارے ڈوبتے ہیں
3 Ahmed Ali
پھر میں تاروں کے ڈوبنے کی قسم کھاتا ہوں
4 Ahsanul Bayan
پس میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کی (١)
٧٥۔۱ یعنی یہ قرآن کی کہانت یا شاعری نہیں ہے بلکہ میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن عزت والا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم
6 Muhammad Junagarhi
پس میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے گرنے کی
7 Muhammad Hussain Najafi
پس میں ستاروں کے (ڈو بنے کے) مقامات کی قَسم کھاتا ہوں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور میں تو تاروں کے منازل کی قسم کھاکر کہتا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
مجھے تاروں کی منزلوں کی قسم
ترجمہ : سو میں قسم کھاتا ہوں غروب ہونے کے لئے چھپنے والے ستاروں کی اگر تم سمجھو تو یہ یعنی ان کی قسم ایک بڑی قسم ہے یعنی اگر تم اہل علم میں سے ہو تو اس قسم کی عظمت کو جان لو گے یہ یعنی جو تم کو سنایا جا رہا ہے مکرم قرآن ہے جو ایک محفوظ کتاب میں ہے اور وہ مصحف ہے اس کو پاک (لوگ) ہی چھوتے ہیں (لایمسہ) نہی بمعنی خبر ہے یعنی وہ جنہوں نے خود کو احداث سے پاک کرلیا رب العالمین کی جانب سے نازل کردہ ہے تو کیا اس کلام یعنی قرآن کو سرسری کلام سمجھتے ہو اہمیت نہیں دیتے ہو تکذیب کرتے ہو کیا تم نے اس کی تکذیب ہی کو غذا (دھندا) بنا لیا ہے ؟ اور تم بارش کے ذریعہ اس کے رزق کے شکر کے بجائے ناشکری کرتے ہو یعنی اللہ کی سیرابی کی مطرنا بنواء کذا کہہ کر ناشکری کرتے ہو (یعنی فلاں ستارے کے طلوع یا غروب کی وجہ سے بارش ہوئی ہے) پس جب روح نزع کے وقت نرخرے تک پہنچ جائے اور وہ کھانے کی نلی ہے، اور اے میت کے پاس حاضر لوگو ! تم اس مرنے والے کو دیکھ رہے ہو اور ہم منے والے سے تمہاری بہ نسبت علم کے اعتبار سے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھ نہیں سکتے (تبصرون) بصیرت سے ماخوذ ہے، یعنی تم کو ہماری موجودگی کا علم نہیں ہوتا، پس اگر تم کو زندہ کر کے تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے یعنی تمہارے اعتقاد کے مطابق تم کو زندہ کیا جانے والا نہیں ہے تو کس لئے تم روح کو حلق میں پہنچنے کے بعد جسم کی طرف نہیں لوٹا لیتے اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ثانی لولا پہلے لولا کی تاکید ہے اور اذا بلغت میں اذا، ترجعون کا ظرف ہے اور ترجعون سے دو شرطیں متعلق ہیں یعنی اگر بعث کی نفی میں تم سچے ہو تو اس کو کیوں نہیں لوٹا لیتے ہو، تاکہ موت نفس کے محل سے منتفی ہوجائے پس اگر میت مقربین میں سے ہے تو اس کے لئے راحت ہے اور رزق حسن ہے اور آرام والی جنت ہے (فروح) یا تو اما کا جواب ہے یا ان کا یا دونوں کا (اس میں) تین قول ہیں اور جو شخص اصحاب الیمین میں سے ہے تو تیرے لئے یعنی اصحاب الیمین کے لئے عذاب سے سلامتی ہے اس وجہ سے کہ وہ اصحاب الیمین میں سے ہے لیکن اگر کوئی جھٹلانے والوں گمراہوں میں سے ہو تو کھولتے ہوئے گرم پانی کی ضیافت ہے اور دوزخ میں جانا ہے یہ خبر سراسر حق قطعاً یقینی ہے، موصوف کی اپنی صفت کی طرف اضافت کے قبیل سے ہے، پس تو اپنے عظیم الشان رب کی تسبیع بیان کر جیسا کہ سابق میں گذر چکا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فلا اقسم بمواقع النجوم، لا جمہور مفسرین کے نزدیک تاکید کے لئے زائدہ ہے معنی میں فاقسم کے ہے، جیسے لا واللہ اور بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ لامخاطب کے گمان کی نفی کرنے کے لئے اور منفی محذوف ہے اور وہ کفار کا کلام ہے اور یہ لیس کما تقول کے معنی میں ہے، فراء نے کہا ہے کہ یہ لانفی کے لئے ہے اور لیس الامر کماتقولون کے معنی میں ہے بعض حضرات نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی)
قولہ : مواقع، موقع کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں ستاروں کے غروب ہونے کی جگہ یا وقت، بعض حضرات نے مواقع سے مراد نجوم کی منزلیں اور بعض نے نزول قرآن مراد لیا ہے، اس لئے کہ قرآن کریم بھی بتدریج آپ پر نازل ہوا ہے۔
قولہ : وانہ لقسم لوتعلمون عظیم، لا اقسم قسم ہے اور لقرآن کریم جواب قسم ہے اور انہ لقسم لو تعلمون عظیم، قسم اور جواب قسم کے درمیان جملہ معترضہ ہے اور جملہ معترضہ میں بھی موصوف و صفت کے درمیان جملہ معترضہ اور وہ لوتعلمون ہے۔
قولہ : لعلمتم عظم ھذا القسم اس کے اضافہ سے مفسر علام نے جواب لو کے حذف کی طرف اشارہ کردیا۔
قولہ : وھو المصحف بعض حضرات نے کتاب مکنون سے لوح محفوظ مراد لی ہے، اس صورت میں لایمسہ کے معنی ہوں گے لایطلع علیہ الا الملائکۃ المطھرون اس صورت میں یہ آیت بغیر طہارت قرآن کو چھونے کے عدم جواز کی دلیل نہ ہوگی۔
قولہ : خبر بمعنی النھی اس اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : قرآن میں کہا گیا ہے لایمسہ الا المطھرون یہ خلاف واقعہ ہے اس لئے کہ بہت سے لوگ قرآن بغیر طہارت کے چھوتے ہیں اور قرآن خلاف واقعہ کی خبر نہیں دے سکتا۔
قولہ : خبر بمعنی نہی ہے۔
قولہ : منزل اس سے اشارہ کردیا کہ تنزیل مصدر بمعنی منزل اسم مفعول ہے۔
قولہ : افبھذا الحدیث میں استفہام تو بیخی ہے یعنی تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے۔
قولہ : مدھنون یہ ادھان سے ہے ادھان اور تدھین کے معنی ہیں کسی چیز پر تیل لگا کر چکنا اور نرم کرنا، مداھنت فی الدین اسی سے ہے دین میں مداہنت اختیار کرنا اور اس کے لازم معنی نفاق کے بھی ہیں، جس چیز پر تیل وغیرہ لگا کر نرم اور چکنا کیا جاتا ہے اس کا باطن ظاہر کے خلاف ہوتا ہے اوپر سے نرم اور چکنی معلوم ہوتی ہے حالانکہ اندر اس کے عکس ہوتا ہے نفاق میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، یہاں مراد مطلقاً کفر ہے اور قرآن کو سرسری، معمولی سمجھنا اور حیثیت نہ دینا بھی ادھان کا مصداق ہے۔
قولہ : من المطر اس میں اشارہ ہے کہ رزق سے مراد سبب رزق ہے اور ای شکرہ سے اشارہ کردیا کہ عبارت حذف مضاف کے ساتھ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، تکفرون شکر المطر یعنی خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرنا تم نے اپنا مغشلہ اور اپنی غذا بنا لیا ہے، حتی کہ خدا داد بارش کو بعض ستاروں کے طلوع و غروب کی طرف منسوب کرتے ہو۔
قولہ : بسقیا اللہ یہ مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے اصل میں سقی اللہ ہے۔
قولہ : اذا ظرف لترجعون اذا بلغت الحلقوم، ترجعون کا ظرف مقدم ہے ترجعون سے دو شرطیں متعلق ہیں اور وہ ان کنتم غیر مدینین اور ان کنتم صادقین ہیں، متعلق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دونوں کی جزاء ہیں۔
فائدہ : کلام میں قلب ہے معنی یہ ہیں ھلاتر جعونھا ان نفیتم البعث صادقین فی نفیہ
قولہ : فلہ روح اس میں اشارہ ہے کہ روح مبتداء ہے اور فلہ خبر مقدم ہے۔
قولہ : ھل الجواب لاما اور لان اولھما فروح الخ جواب غیہ، اس میں تین قول ہیں (١) اما کا جواب (٢) ان کا جواب (٣) دونوں کا جواب ہو، راجح یہ ہے کہ فروح و ریحان الخ، اما کا جواب ہے اور ان کا جواب محذوف ہے اس لئے کہ ان کے جواب کا حذف کثیر الوقوع ہے۔
قولہ : ای لہ السلام ۃ من العذاب اس میں اشارہ ہے کہ سلام بمعنی سلامت ہے۔
قولہ : من جھۃ انہ منھم اس میں اشارہ ہے کہ من اصحب الیمین میں من تعلیلیہ ہے ای من اجل انہ منھم
قولہ : فنزل مبتداء ہے اس کی خبر لہ محذوف ہے ای لہ نزل
قولہ : تقدم یعنی سبح نزہ اور لفظ اسم زائدہ ہے۔
تفسیر و تشریح
سابقہ آیات میں عقلی اور مشاہداتی دلائل سے دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت حق تعالیٰ کی قدرت کا ملہ اور اس دنیا کی تخلیق کے ذریعہ دیا گیا تھا، آگے حق تعالیٰ کی طرف سے قسم کے ساتھ نقلی دلیل پیش کی گئی ہے۔
فلا اقسم بمواقع النجوم اگر لا کو قرآن کے بارے میں مزعوم اور ظن باطل کی نفی کے لئے لیا جائے جیسا کہ بعض مفسرین کا یہی خیال ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ قرآن شاعری یا کہانت نہیں ہے جیسا کہ تمہارا خیال ہے بلکہ ستاروں کے گرنے یا ان کے مطلع و مغرب کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن بڑا باعظمت ہے۔
ستاروں اور تاروں کے مواقع سے مراد ان کے مقامات، ان کے مدار، اور منزلیں ہیں اور قرآن کے بلند پایہ کتاب ہونے پر ان کی قسم کھانے کا مطل بیہ ہے کہ عالم بالا میں اجرام فلکی اور نظام جیسا کہ محکم اور مضبطو ہے ویسا ہی مضبوط اور محکم یہ کلام بھی ہے جس خدا نے وہ نظام بنایا ہے اسی خدا نے یہ کلام نازل فرمایا ہے۔
بعض حضرات نے یہ ترجمہ کیا ہے، میں قسم کھاتا ہوں آیتوں کے پیغمبروں کے دلوں پر اترنے کی، نجوم سے مراد آیات لی ہیں اور مواقع النجوم سے پیغمبروں کے قلوب ( موضح القرآن) اور عض حضرات نے قیامت کے دن ستاروں کا گرنا اور جھڑنا مراد لیا ہے۔ فی کتاب مکنون کے معنی ہیں چھپی ہوئی کتاب، مراد اس سے لوح محفوظ ہے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ستاروں کی اور ان کی منازل، یعنی ان کے غروب کے مقامات اور ان کے سقوط کی جگہ کی قسم کھائی ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ان حوادثات کی قسم کھائی ہے جو ان اوقات میں واقع ہوتے ہیں اور جو اس کی عظمت ،اس کی کبریائی اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی قسم کھائی ہے ،اس کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ﴾ اور یہ قسم صرف اس لیے عظمت کی حامل ہے کہ ستاروں ، ان کی رفتار اور ان کے غروب کے مقامات میں ان کے سقوط کی جگہوں میں بہت سی نشانیاں اور عبرتیں ہیں جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ جس امر پر قسم کھائی گئی ہے، وہ ہے قرآن کا اثبات، نیز یہ کہ قرآن حق ہے جس میں کوئی شک ہے نہ شبہ۔ یہ کریم ہے ،یعنی بہت زیادہ بھلائی اور بہت زیادہ علم والا ہے ،ہر بھلائی اور ہر علم اللہ تعالیٰ کی کتاب سے مستفاد اور مستنبط ہوتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
abb mein unn jagahon ki qasam kha ker kehta hun jahan sitaray girtay hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
قرآن کا مقام
حضرت ضحاک فرماتے ہیں اللہ کی یہ قسمیں کلام کو شروع کرنے کے لئے ہوا کرتی ہیں۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے۔ جمہور فرماتے ہیں یہ قسمیں ہیں اور ان میں ان چیزوں کی عظمت کا اظہار بھی ہے، بعض مفسرین کا قول ہے کہ یہاں پر لا زائد ہے اور آیت (انہ لقراٰن) الخ جواب قسم ہے اور لوگ کہتے ہیں لا کو زائد بتانے کی کوئی وجہ نہیں کلام عرب کے دستور کے مطابق وہ قسم کے شروع میں آتا ہے، جبکہ جس چیز پر قسم کھائی جائے وہ منفی ہو، جیسے حضرت عائشہ کے اس قول میں ہے (لا واللہ ما مست ید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ید امراۃ قط) یعنی اللہ کی قسم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے لگایا نہیں یعنی بیعت میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کیا۔ اسی طرح یہاں بھی لا قسم کے شروع میں مطابق قاعدہ ہے نہ کہ زائد۔ تو کلام کا مقصود یہ ہے کہ تمہارے جو خیالات قرآن کریم کی نسبت ہیں یہ جادو ہے یا کہانت ہے غلط ہیں۔ بلکہ یہ پاک کتاب کلام اللہ ہے۔ بعض عرب کہتے ہیں کہ لا سے ان کے کلام کا انکار ہے پھر اصل امر کا اثبات الفاظ میں ہے آیت ( فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ 75 ۙ ) 56 ۔ الواقعة :75) سے مراد قرآن کا بتدریج اترنا ہے، لوح محفوظ سے تو لیلہ القدر میں ایک ساتھ آسمان اول پر اترا آیا پھر حسب ضروت تھوڑا تھوڑا وقت بروقت اترتا رہا یہاں تک کہ کوئی بروسوں میں پورا اتر آیا۔ مجاہد فرماتے ہیں اس سے مراد ستاروں کے طلوع اور ظاہر ہونے کی آسمان کی جگہیں ہیں۔ مواقع سے مراد منازل ہیں۔ حسن فرماتے ہیں قیامت کے دن ان کا منتشر ہوجانا ہے۔ ضحاک فرماتے ہیں اس سے مراد وہ ستارے ہیں جن کی نسبت مشرکین عقیدہ رکھتے تھے کہ فلاں فلاں تارے کی وجہ سے ہم پر بارش برسی۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ یہ بہت بڑی قسم ہے اس لئے کہ جس امر پر یہ قسم کھائی جا رہی ہے وہ بہت بڑا امر ہے یعنی یہ قرآن بڑی عظمت والی کتاب ہے معظم و محفوظ اور مضبوط کتاب میں ہے۔ جسے صرف پاک ہاتھ ہی لگتے ہیں یعنی فرشتوں کے ہاں یہ اور بات ہے کہ دنیا میں اسے سب کے ہاتھ لگتے ہیں۔ ابن مسعود کی قرأت میں (مایمسہ) ہے ابو العالیہ کہتے ہیں یہاں پاک سے مراد صاف فرمایا آیت ( وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيٰطِيْنُ\021\00 ) 26 ۔ الشعراء :210) یعنی اسے نہ تو شیطان لے کر اترا ہیں نہ ان کے یہ لائق نہ ان کی یہ مجال بلکہ وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ ہیں۔ یہی قول اس آیت کی تفسیر میں دل کو زیادہ لگتا ہے۔ اوراقوال بھی اس کے مطابق ہوسکتے ہیں۔ فراء نے کہا ہے اس کا ذائقہ اور اس کا لطف صرف باایمان لوگوں کو ہی میسر آتا ہے۔ بعض کہتے ہیں مراد جنابت اور حدث سے پاک ہونا ہے گو یہ خبر ہے لیکن مراد اس سے انشاء ہے۔ اور قرآن سے مراد یہاں پر مصحف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان ناپاکی کی حالت میں قرآن کو ہاتھ نہ لگائے ایک حدیث میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن ساتھ لے کر حربی کافروں کے ملک میں جانے سے منع فرمایا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اسے دشمن کچھ نقصان پہنچائے (مسلم) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمان حضرت عمرو بن حرم کو لکھ کردیا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ قرآن کو نہ چھوئے مگر پاک۔ (موطا مالک) مراسیل ابو داؤد میں ہے زہری فرماتے ہیں میں نے خود اس کتاب کو دیکھا ہے اور اس میں یہ جملہ پڑھا ہے کو اس روایت کی بہت سی سندیں ہیں لیکن ہر ایک قابل غور ہے واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہے کہ یہ قرآن شعرو سخن جادو اور فن نہیں بلکہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی جانب سے اترا ہے، یہ سراسر حق ہے بلکہ صرف یہی حق ہے اس کے سوا اس کے خلاف جو ہے باطل اور یکسر مردود ہے۔ پھر تم ایسی پاک بات کیوں انکار کرتے ہو ؟ کیوں اس سے ہٹنا اور یکسو ہوجانا چاہتے ہو ؟ کیا اس کا شکر یہی ہے کہ تم اسے جھٹلاؤ ؟ قبیلہ ازد کے کلام میں رزق و شکر کے معنی میں آتا ہے۔ مسند کی ایک حدیث میں بھی رزق کا معنی شکر کیا ہے۔ یعنی تم کہتے ہو کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہمیں پانی ملا اور فلاں ستارے سے فلاں چیز۔ ابن عباس فرماتے ہیں ہر بارش کے موقعہ پر بعض لوگ کفریہ کلمات بک دیتے ہیں کہ بارش کا باعث فلاں ستارہ ہے۔ موطا میں ہے ہم حدیبیہ کے میدان میں تھے رات کو بارش ہوئی، صبح کی نماز کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا جانتے بھی ہو آج شب تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ لوگوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم۔ آپ نے فرمایا سنو یہ فرمایا کہ آج میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ کافر ہوگئے اور بہت سے ایماندار بن گئے۔ جس نے کہا کہ ہم پر اللہ کے فضل و کرم سے پانی برسا وہ میری ذات پر ایمان رکھنے والا اور ستاروں سے کفر کرنے والا ہوا۔ اور جس نے کہا فلاں فلاں ستارے سے بارش برسی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور اس ستارے پر ایمان لایا۔ مسلم کی حدیث میں عموم ہے کہ آسمان سے جو برکت نازل ہوتی ہے وہ بعض کے ایمان کا اور بعض کے کفر کا باعث بن جاتی ہے۔ ہاں یہ خیال رہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر نے حضرت عباس سے پوچھا تھا کہ ثریا ستارہ کتنا باقی ہے ؟ پھر کہا تھا کہ اس علم والوں کا خیال ہے کہ یہ اپنے ساقط ہوجانے کے ہفتہ بھر بعد افق پر نمودار ہوتا ہے چناچہ یہی ہوا بھی کہ اس سوال جواب اور استسقاء کو سات روز گزرے تھے جو پانی برسا۔ یہ واقعہ محمول ہے عادت اور تجربہ پر نہ یہ کہ اس ستارے میں ہے اور اس ستارے کو ہی اثر کا موجد جانتے ہوں۔ اس قسم کا عقیدہ تو کفر ہے ہاں تجربہ سے کوئی چیز معلوم کرلینا یا کوئی بات کہہ دینا دوسری چیز ہے، اس بارے کی بہت سی حدیثیں آیت ( مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ للنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۚ وَمَا يُمْسِكْ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ) 35 ۔ فاطر :2) کی تفسیر میں گزر چکی ہیں۔ ایک شخص کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ فلاں ستارے کے اثر سے بارش ہوئی تو آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تو اللہ کی برسائی ہوئی ہے، یہ رزق الٰہی ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے لوگوں کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے اگر سات سال قحط سالی رہے اور پھر اللہ اپنے فضل و کرم سے بارش برسائے تو بھی یہ جھٹ سے زبان سے نکالنے لگیں گے کہ فلاں تارے نے برسایا۔ مجاہد فرماتے ہیں اپنی روزی تکذیب کو ہی نہ بنا لو یعنی یوں نہ کہو کہ فلاں فراخی کا سبب فلاں چیز ہے بلکہ یوں کہو کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس یہ بھی مطلب ہے اور یہ بھی کہ قرآن میں ان کا حصہ کچھ نہیں بلکہ ان کا حصہ یہی ہے کہ یہ اسے جھوٹا کہتے رہیں اور اسی مطلب کی تائید اس سے پہلے کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔