الحدید آية ۱۱
مَنْ ذَا الَّذِىْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَلَهٗۤ اَجْرٌ كَرِيْمٌ ۚ
طاہر القادری:
کون شخص ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دے تو وہ اس کے لئے اُس (قرض) کو کئی گنا بڑھاتا رہے اور اس کے لئے بڑی عظمت والا اجر ہے،
English Sahih:
Who is it that would loan Allah a goodly loan so He will multiply it for him and he will have a noble reward?
1 Abul A'ala Maududi
کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے، اور اُس کے لیے بہترین اجر ہے
2 Ahmed Raza Khan
کون ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض تو وہ اس کے لیے دونے کرے اور اللہ کو عزت کا ثواب دے،
3 Ahmed Ali
ایسا کون ہے جو الله کو اچھا قرض دے پھر وہ اس کو ا سکے لیے دگنا کر دے اوراس کے لیے عمدہ بدلہ ہے
4 Ahsanul Bayan
کون ہے جو اللہ تعالٰی کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالٰی اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لئے پسندیدہ اجر ثابت ہو جائے۔ (۱)
(۱) اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنا، یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کون ہے جو خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دے تو وہ اس کو اس سے دگنا کرے اور اس کے لئے عزت کا صلہ (یعنی جنت) ہے
6 Muhammad Junagarhi
کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالیٰ اسے اس کے لیے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لیے پسندیده اجر ﺛابت ہو جائے
7 Muhammad Hussain Najafi
کون ہے جو اللہ کو قرضۂ حسنہ دے تاکہ وہ اسے اس کے لئے (کئی گنا) بڑھائے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کو دوگنا کردے اور اس کے لئے باعزّت اجر بھی ہو
9 Tafsir Jalalayn
کون ہے جو خدا کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دے ؟ تو وہ اس کو اس سے دگنا ادا کرے اور اس کے لئے عزت کا صلہ (یعنی) جنت ہے
ترجمہ :۔ کون شخص ہے کہ جو اپنا مال اللہ کو قرض حسن کے طور پردے یعنی اللہ کے راستہ میں خرچ کرے ؟ اس طریقہ پر کہ (خالص) اللہ کے سوا خرچ کرے پھر اللہ تعالیٰ اس قرض کو اس شخص کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور ایک قرأت میں فیضعفۃ تشدید کے ساتھ ہے دس گنے سے سات سو گنے تک زیادہ جیسا کہ سورة بقرہ میں مذکور ہو، اور اس کے لئے (اجر) بڑھانے کے ساتھ پسندیدگی کا اجر بھی ہے (یعنی) اس اجر کے ساتھ رضا مندی اور قبولیت ہے، اس دن کا ذکر کیجیے کہ جس دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا اجر ان کے سامنے ہے اور نو ران کے داہنی جانب دوڑتا ہوگا اور ان سے کہا جائے گا آج تمہارے لئے ایسی جنت کی یعنی اس میں داخل ہونے کی خوشخبری ہے کہ جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے، جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے (ذرا) ہماری طرف (بھی) دیکھ لو اور ایک قرأت میں ہمزہ کے فتحہ اور ظاء کے کسرہ کے ساتھ ہے (یعنی ذرا ہمارا بھی) انتظا کرلو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں ان سے استہزاء کے طور پر کہا گیا جائے گا تم اپنے پیچھے لوٹ جائو اور روشنی تلاش کرو تو وہ لوٹ جائیں گے، تو ان کے اور مومنین کے درمیان ا کی حائل کردی جائے گی کہا گیا ہے کہ وہ اعراف کی دیوار ہوگی اس کا ایک دروازہ ہوگا اس کے اندرونی حصہ میں مومنین کی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر منافقین کی جانب عذاب ہوگا۔ لوگ چلا کر ان سے کہیں گے کیا طاعت میں ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے ؟ وہ کہیں گے ہاں تھے تو سہی لیکن تم نے خود کو نفاق کے فتنہ میں پھنسا رکھا تھا اور مومنین پر حوادثات کے منتظر رہا کرتے تھے اور دین اسلام میں شبہ کرتے تھے اور تمہیں تمہاری (فضول) تمنائوں نے دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم یعنی موت آپہنچی، اور تمہیں اللہ کے بارے میں ایک دھوکہ باز شیطان نے دھوکے ہی میں رکھا، الغرض ! آج تم سے نہ فدیہ قبول کیا جائے گا یاء اور تاء کے ساتھ اور نہ کافروں سے، تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہی تمہارے لائق ہے (یعنی) تمہارے لئے اولیٰ ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے کیا ایمان والوں کے لئے اب تک وہ وقت نہیں آیا ؟ یہ آیت صحابہ کرام کی شان میں اس وقت نازل ہوئی کہ جب وہ مذاق، دل لگی زیادہ کرنے لگے کہ ان کے قلوب ذکر الٰہی سے اور اس حق یعنی قرآن سے نرم ہوجائیں جو نازل ہوچکا ہے (نزل) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے ان لوگوں کے مانند کہ جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی اور وہ یہود و نصاریٰ ہیں پھر جب ان پر ایک طویل زمانہ گذر گیا یعنی ان کے اور ان کے انبیاء کے درمیان (زمانہ دراز گذر گیا) تو ان کے قلوب سخت ہوگئے اللہ کے ذکر کے لئے نرم نہ رہے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں یقین مانو مومنین مذکورین کو خطاب ہے کہ اللہ ہی زمین کو گھاس اگا کر اس کی موت کے بعد اس کو زندہ کردیتا ہے چناچہ تمہارے قلوب کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا ان کو خشوع کی جانب لوٹا کر ہم نے تمہارے لئے اپنی آیتیں بیان کردیں جو ہر طریقہ سے ہماری قدرت پر دلالت کرتی ہیں تاکہ تم سمجھو، بلاشبہ صدقہ دینے والے مرد یہ تصدق سے ماخوذ ہے تاء کو صاد میں ادغام کردیا گیا ہے یعنی وہ لوگ جنہوں نے صدقہ کیا اور وہ عوریں جنہوں نے صدقہ کیا اور ایک قرأت میں صاد کی تخفیف کے ساتھ ہے، تصدیق سے ماخوذ ہے، اور مراد ایمان ہے اور جو خلوص کے ساتھ قرض حسن دے رہے ہیں یہ تغلیبا ذکور اور اناث دونوں کی طرف راجع ہے اور فعل کا عطف اس اسم پر ہے جو الف لام کے صلہ میں ہے اس لئے (جائز ہے) کہ اسم یہاں فعل کے معنی میں واقع ہو، تصدیق کے ذکر کے بعد قرض کو اس کی صفت کے ساتھ ذکر کرنا تصدق کو مقید کرانے کے لئے ہے ان کا قرض ان کے لئے بڑھا دیا جائے گا اور ایک قرأت میں یضعف تشدید کے ساتھ ہے اور ان کے لئے پسندیدہ اجر ہے اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ایسے ہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق یعنی تصدیق میں مبالغہ کرنے والے ہیں اور تکذیب کرنے والی امم سابقہ پر گواہ ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری وحدانیت پر دلالت کرنے والی آیتوں کو جھٹلایا ان کے لئے جہنم کی آگ ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسناً اس میں ترکیب کے اعتبار سے چند صورتیں ہیں (١) من استفہامیہ مبتداء ذا اس کی خبر، اور الذی یقرض اللہ اس سے بدل یا صفت (٢) من ذا مبتداء اور الذی اس کی خبر (٣) ذا مبتداء موصوف اور الذی یقرض اللہ موصول صلہ سے مل کر صفت اور من خبر مقدم، اس میں معنی استفہام ہونے کی وجہ سے مقدم کردیا۔
قولہ : یضاعفہ فاء کے بعد ان مقدرہ کے ذریعہ جواب استفہام ہونے کی وجہ سے منصوب، استیناف یا یقرض پر عطف ہونے کی وجہ سے مرفوع۔
قولہ : رضا واقبال معطوف علیہ معطوف سے مل کر مقترک کا فاعل۔
قولہ : اذکر مفسر علام نے اذکر محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ یوم فعل محذوف کا ظرف ہے، یعنی اس دن کو یاد کرو الخ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اجر کریم کا ظرف ہو یعنی اس دن میں اجر کریم ہے اور تیسری صورت یہ بھی جائز ہے کہ یسعیٰ کا ظرف ہو یعنی تو دیکھے گا کہ مومنین و مومنات کا نور اس دن میں ان کے سامنے دوڑے گا۔
قولہ : یسعی نورھم جملہ حالیہ ہے مگر یہ اس صورت میں ہے کہ یسعی کو یوم میں عامل نہ قرار دیا جائے۔
قولہ : ویکون، یکون کو مقدر مان کر اس احتمال کو ختم کردیا کہ وبآیمانھم، یسعی کے ماتحت ہو اور معنی یہ ہوں کہ نور ان کی داہنی جانب ان سے دور ہوگا، اس لئے کہ ایمان سے جمیع جہات مراد ہیں۔
قولہ : دخولھا اس کو محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ جنت حذف مضاف کے ساتھ ہے بشرکم مبتداء کی خبر ہے تقدیر عبارت یہ ہے بشکرکم الیوم بدخول الجنۃ
قولہ : ذلک ای دخول الجنۃ
قولہ : یوم یقول المنافقون یہ یوم تری سے بدل ہے۔
قولہ : لہ باب باطنہ فیہ الرحمۃ لہ باب جملہ ہو کر نور کی صفت اول ہے اور باطنہ فیہ الرحمۃ صفت ثانی ہے۔
قولہ : الغرور بالفتح بمعنی شیطان کما قال المفسر و بالضم شذوذا مصدر بمعنی اغتراء بالباطل
قولہ : ماوا کم النار ماواکم خبر مقدم النار مبتداء مئوخر اس کا عکس بھی جائز ہے۔
قولہ : ھی مولاکم، مولان مصدر بھی ہوسکتا ہے ای ولایتکم ای ذات ولایتکم یا بمعنی مکان ہو ای مکان ولایتکم یا بمعنی اولی ہوسکتا ہے جیسا کہ ھو مولاہ ای اولیھی ناصر کم وہ آگ ان کی ناصر و مددگار ہے اور یہ استھزاء ہے
قولہ : الم یان للذین امنوا جمہور کے نزدیک یان سکون ہمزہ اور نون کے کسرہ کے ساتھ انی یانی (رمی یرمیض کا مضارع واحد مذکر غائب ہے، پھر یاء کو جو کہ عین کلمہ ہے التقاء ساکنین کی وجہ سے حذف کردیا۔
قولہ : راجع الی الذکور ولاناث اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اسبات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ واقرضوا اللہ کا عطف دونوں فعلوں یعنی المصدقین و المصدقات پر ہے صرف اول پر ماننے کی صورت میں صلہ کے تام ہوئے بغیر عطف لازم آئے گا جو کہ جائز نہیں ہے۔
سوال : اقرضوا اللہ کا عطف المصدقین پر ہے، جو کہ اسم ہے، لہٰذا فعل کا عطف اسم پر لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
جواب : جس اسم پر الف لام بمعنی الذی داخل ہو تو وہ اسم بھی فعل کے حکم میں ہوجاتا ہے لہٰذا عطف درست ہے۔
قولہ : وذکر القرض بوصفہ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے۔
اعتراض : المصدقین تشدید کے ساتھ بمعنی صدقہ دینے والے ہے، پھر اس کے بعد فرمایا واقرضوا اللہ قرضاً حسناً اس کا مطلب بھی صدقہ کرنا ہے تو المصدقین کے ذکر کرنے کے بعد واقرضوا اللہ قرضاً حسناً کے ذکر کی کیا ضرورت رہتی ہے تو تکرار ہے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس اضافہ کا مقصد صدقہ کو صفت حسن کے ساتھ متصف کرنا ہے یعنی صدقہ اخلاص اور للھیت کے ساتھ دیا جائے، لہٰذا یہ تکرار بےفائدہ نہیں۔
قولہ : والذین امنوا باللہ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون، والذین آمنوا مبتداء، اولئک مبتداء ثانی اور ھم میں یہ بھی جائز ہے کہ مبتداء ثالث ہو اور الصدیقون اس کی خبر مبتداء خبر سے مل کر خبر مبتداء ثانی کی اور مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر خبر ہوئی مبتداء اول کی اور یہ بھی جائز ہے کہ ھم ضمیر فصل ہو اور اولئک اور اس کی خبر مل کر مبتداء اول کی خبر ہو۔
تفسیر و تشریح
من ذا الذی یقرض اللہ قرضاً حسناً الخ یہ وہ عجیب و غریب، پر تاثیر، درد انگیز الفاظ ہیں کہ جو کفر کے مقابل ہمیں اسلام کی جانی اور مالی نصرت کی اپیل کے لئے استعمال کئے گئے ہیں، خدا کی یہ شان کریمی ہی تو ہے کہ آدمی اگر اس کے عطا کئے ہوئے مال کو اسی کی راہ میں صرف کرے تو اسے وہ اپنے ذمہ قرض قرار دے بشرطیکہ وہ قرض حسن ہو لوجہ اللہ خلوص نیت کے ساتھ ہو، اس قرض کے متعلق اللہ کے دو وعدے ہیں ایک یہ کہ وہ اس کو کئی گنا بڑھا کر واپس کر دے گا دوسرے یہ کہ وہ اس پر اپنی طرف سے بہترین اجر بھی عطا کرے گا۔
انفاق فی سبیل اللہ کا عجیب واقعہ :
حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے لوگوں نے اسے سنا تو حضرت ابوالحداح انصاری (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے ؟ حضور نے فرمایا ہاں ! اے ابو الحد اح ! انہوں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ دکھایئے، آپ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا، انہوں نے آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا، میں نے اپنے رب کو اپنا باغ قرض دیدیا، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے، اسی میں ان کا گھر تھا وہیں ان کے بال بچے رہتے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات کر کے وہ سیدھے گھر پہنچے اور بیوی کو پکار کر کہا دحداح کی ماں باہر نکل آئو میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دیدیا ہے، وہ بولیں تم نے نفع کا سودا کیا، دحداح کے باپ ! اور اسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچے لے کر باغ سے نکل گئیں (ابن ابی حاتم) اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخلص اہل ایمان کا طرز عمل اس وقت کیا تھا ؟ اور اسی سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ کیسا قرض حسن ہے جسے کئی گنا بڑھا کر واپس دینے اور پھر اوپر سے اجر کریم عطا کرنیکا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا۔
یوم تری المومنین والمومنت (الآیۃ) ” اس دن “ سے مراد قیامت کا دن ہے اور یہ نور عطا ہونے کا معاملہ پل صراط پر چلنے سے کچھ پہلے پیش آئے گا، میدان حشر سے جس وقت پل صراط پر جائیں گے، کھلے کافر تو پل صراط تک پہنچنے
سیے پہلے ہی جہنم میں دھکیل دیئے جائیں گے، البتہ کسی بھی نبی کے سچے یا کچے امتیوں کو پل صراط پر چلنے سے پہلے روشنی عطا کی جائے گی، وہاں روشنی جو کچھ بھی ہوگی صالح عقیدے اور صالح عمل کی ہوگی، ایمان کی صداقت اور کردار کی پاکیزگی ہی نور میں تبدیل ہوجائے گی، جس شخص کا عمل جتنا تابندہ ہوگا اس کی روشنی اتنی ہی زیادہ تیز ہوگی اور جب وہ محشر سے جنت کی طرف چلیں گے تو ان کی روشنی ان کے سامنے اور داہنی جانب ہوگی، اس کی بہترین تشریح قتادہ (رض) کی ایک مرسل روایت میں ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی کا نور اتنا تیز ہوگا کہ جتنی مدینہ سے عدن تک کی مسافت ہے اور کسی کا نور مدینہ سے صنعاء کی مسافت کی مقدار ہوگا اور کسی کا اس سے کم یہاں تک کہ کوئی مومن ایسا بھی ہوگا جس کا نور اس کے قدموں سے آگے نہ بڑھے گا۔ (ابن جریر ملخصاً )
حضرت ابوامامہ باہلی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ظلمت شدیدہ کے وقت مومنین اور مومنات کو نور تقسیم کیا جائے گا تو منافقین اس سے بالکل محروم رہیں گے۔
مگر طبرانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے ایک مرفوع روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” پل صراط کے پاس اللہ تعالیٰ ہر مومن و منافق کو نور عطا کرے گا جب یہ پل صراط پر پہنچ جائیں گے تو منافقین کا نور سلب کرلیا جائے گا۔ “
بہرحال خواہ ابتداء ہی سے منافقین کو نور نہ ملا ہو یا مل کر بجھ گیا ہو، اس وقت مومنین سے درخواست کریں گے کہ ذرا ٹھہرو ہم بھی تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھا لیں، کیونکہ ہم دنیا میں بھی نماز، زکوۃ، حج، جہاد سب چیزوں میں تمہارے شریک رہا کرتے تھے، تو ان کو ان درخواست کا جواب نامنظوری کی شکل میں دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا کہ روشنی پیچھے تلاش کرو پیچھے تقسیم ہو رہی ہے، وہ لوگ روشنی حاصل کرنے کے لئے پیچھے کی طرف پلٹیں گے تو انکے اور جنتیوں کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی۔
سوال : حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابوامامہ باہلی کی روایتوں میں بظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے ان میں تطبیق کی کیا صورت ہے ؟
جواب :۔ تفسیر مظہری میں دونوں روایتوں کے درمیان تطبیق اس طرح بیان کی گئی ہے کہ اصل منافقین جو کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تھے ان کو تو شروع ہی سے کافر کی طرح کوئی نور نہ ملے گا، مگر وہ منافقین جو اس امت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہوں گے جن کو منافق کا نام تو نہیں دیا جاسکتا اس لئے کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے لہٰذا کسی کے لئے قطعی طور پر منافق کہنا جائز نہیں ہے، ہاں البتہ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال سے واقف ہے سے معلوم ہے کہ کون منافق ہے اور کون مومن ؟ لہٰذا سلب نور کا یہ معاملہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ ہوگا جو اللہ تعالیٰ ک علم میں منافق ہوں گے۔ (ملخصاً )
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے کیونکہ جہاد کا تمام تر دارومدار انفاق فی سبیل اللہ اور جہاد کی تیاری میں مال خرچ کرنے پر ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا﴾ ’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔‘‘ اس سے مراد پاک اور طیب مال ہے جسے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ،اس کی رضا کے مطابق ،حلال اور طیب مال میں سے نہایت خوش دلی کے ساتھ خرچ کیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس انفاق کو ’’قرض ‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مال اسی کا مال اور یہ بندے اسی کے بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مال کو کئی گنا کردینے کا وعدہ کیا ہے وہ فضل و کرم کا مالک اور بہت زیادہ دادو دہش والا ہے۔اس انفاق کے کئی گنا ہونے کا محل و مقام روز قیامت ہے، اس روز ہر انسان پر اپنا فقر و احتیاج واضح ہوجائے گا، اس روز وہ قلیل ترین جزائے حسن کا بھی محتاج ہوگا، اس لیے فرمایا:
11 Mufti Taqi Usmani
kon hai jo Allah ko qarz dey-? acha qarz ! jiss kay nateejay mein Allah ussay denay walay kay liye kaee guna barha dey-? aur aesay shaks ko bara ba-izzat ajar milay ga