الحدید آية ۷
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَـكُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْهِۗ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَاَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِيْرٌ
طاہر القادری:
اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لئے بہت بڑا اَجر ہے،
English Sahih:
Believe in Allah and His Messenger and spend out of that in which He has made you successive inheritors. For those who have believed among you and spent, there will be a great reward.
1 Abul A'ala Maududi
ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اُن چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لیے بڑا اجر ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ میں کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں اَوروں کا جانشین کیا تو جو تم میں ایمان لائے اور اس کی راہ میں خرچ کیا ان کے لیے بڑا ثواب ہے،
3 Ahmed Ali
الله اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں پہلوں کا جانشین بنایا ہے پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا ان کے لیے بڑا اجر ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو) خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس (مال) میں اس نے تم کو (اپنا) نائب بنایا ہے اس میں سے خرچ کرو۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (مال) خرچ کرتے رہے ان کے لئے بڑا ثواب ہے
6 Muhammad Junagarhi
اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے پس تم میں سے جو ایمان ﻻئیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ﺛواب ملے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ اور اس کے رسول(ص) پر ایمان لاؤ اور اس (مال) میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں (دوسروں) کا جانشین بنایا ہے پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (مال) خرچ کیا ان کیلئے بڑا اجر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
تم لوگ اللہ و رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے - تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے راسِ خدا میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے
9 Tafsir Jalalayn
(تو) خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس (مال) میں اس نے تم کو (اپنا) نائب بنایا ہے اس میں خرچ کرو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (مال) خرچ کرتے رہے ان کے لئے بڑا ثواب ہے
امنوا باللہ وسرولہ وانفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ یہ آیت غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہے، روح المعانی میں ہے والایۃ علی ماروی عن الضحاک نزلت فی تبوک فلا تغفل اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خطاب کا روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے اس لئے کہ جن حالات میں انفاق فی سبیل اللہ کی بڑے زور دار اور نئے انداز سے اپیل کی جا رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپیل اور ترغیب غیر معمولی حالات کے پیش نظر کی جا رہی ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق نے اپنا کل مال اور حضرت عمر (رض) نے نصف مال اور اس ہنگامی فوجی اور قومی ضرورت کے لئے خدمت میں پیش کیا اور حضرت عثمانی غنی (رض) نے اس غزوہ میں ایک ہزار دینار اور تین سو اونٹ مع ساز و سامان کے پیش کئے اور ایک دوسری روایت کی ہے سے اس ہنگامی اور فوری ضرورت کے لئے ضروری عثمان رضیا للہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے مع ان کے ساز و سامان کے پیش کئے، اسی موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان غنی (رض) کے حق میں فرمایا ما علی عثمان (رض) بعد ھذہ اور ایک روایت میں ہے، آپ نے فرمایا : غفر اللہ لک یا عثمان ما اسرت وما اعلنت و ماحول کائن الی یوم الپقیامۃ ما بیالی ما عمل بدھا (صاوی)
ان قرآئن سے معوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب غیر مسلموں سے نہیں ہے بلکہ بعد کی پوری تقریر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ مخاطب وہ مسلمان ہیں جو کلمہ اسلام کا اقرار کر کے مسلمانوں کے گروہ میں بظاہر شامل ہوچکے مگر ایمان کے تقاضے پورا کرنے سے پہلے تہی کر رہے تھے ظاہر ہے کہ غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دینے کے ساتھ فوراً ہی ان سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے مصارف میں دل کھول کر اپنا حصہ ادا کرو اور نہ کہا جاسکتا ہے کہ تم میں سے جو فتح مکہ سے پہلے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کیر گا اس کا درجہ ان لوگوں سے بلند تر ہوگا جو بعد میں یہ خدمت انجام دیں گے غیر مسلم کو دعوت ایمان دینے کی صورت میں تو پہلے اس کے سامنے ایمان کے ابتدائی تقاضے پیش کئے جاتے ہیں نہ کہ انتہائی ا، اگرچہ آمنوا باللہ و رسولہ الخ کے عموم کے لحاظ سے اس بات کی گنجائش ہے کہ مخاطبین میں غیر مسلمین بھی شامل ہوں مگر سیاق وسباق اور فجوائے کلام کے لحاظ سے یہاں آمنہ باللہ و ررسولہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہوگئے ہو، اور اس کے رسول کو سچے دل سے مانو اور وہ طرز عمل اختیار کرو جو اخلاص کے ساتھ ایمان لانے والوں کو اختیار کرنا چاہیے۔
سیاق وسباق اور آیت کے شان نزول اور موقع نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر خرچ کرنے سے مراد عام بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا نہیں ہے بلکہ آیت نمبر 10 کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں اس جدوجہد کے مصارف میں حصہ لینا مراد ہے جو اس وقت کفر کے مقابلہ میں اسلام کو سربلند کرنے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں جاری تھی، خاص طور پر اس وقت دو ضرورتیں تھیں جن کے لئے فراہمی مالیات کی طرف فوری توجہ کرنے کی سخت ضرورت تھی جنگی ضروریات اور دوسرے ان مظلوم مسلمانوں کی باز آباد کاری جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر عرب کے ہر حصہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے اور آرہے تھے، مخلص اہل ایمان ان مصارف کو پورا کرنے کے لئے اپنے اوپر اتنا بوجھ برداشت کر رہے تھے جو ان کی طاقت و وسعت سے بہت زیادہ تھا، لیکن مسلمانوں کے گروہ میں بکثرت اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ ایسے موجود تھے جو کفر و اسلام کی اس کشمکش کو محض تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے اور اس بات کا انہیں کوئی احساس نہ تھا کہ جس چیز پر وہ ایمان لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کے کچھ حقوق بھی ان کی جان و مال پر عائد ہوتے ہیں، یہی دوسرے قسم کے لوگ اس آیت کے مخاطب ہیں، ان سے کہا جا رہا کہ سچے مومن بنو اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو۔
راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب و فضیلت :
وانفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ روح المعانی میں اس آیت کے دو مطلب بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ جو مال تمہارے پاس ہے یہ دراصل تمہارا ذاتی مال نہیں بلکہ اللہ کا بخشا ہوا مال ہے اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے، اللہ نے اپنے خلیفہ کی حیثیت سے یہ تمہارے تصرف میں دیا ہے، لہٰذا اصل مالک کی خدمت میں اسے صرف کرنے سے دریغ نہ کرو، نائب کا یہ کام نہیں کہ مالک کے مال کو مالک ہی کے کام میں خرچ کرنے سے جی چرائے۔
دوسرا مطلب وقیل جعلکم خلفاء من کان قبلکم ممن ترثونہ و سینتقل الی غیرکم ممن یرثکم فلاتبخلوا بہ (روح المعانی) اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مال ہمیشہ سے نہ تمہارے پاس تھا نہ ہمیشہ تمہارے پاس رہنے والا ہے، کل یہ دوسرے لوگوں کے پاس تھا پھر اللہ نے تم کو ان کا جانشین بنا کر اسے تمہارے حوالہ کیا، پھر ایک وقت آئے گا کہ جب یہ تمہارے پاس نہ رہے گا دوسرے لوگ اس پر تمہارے جانشین بن جائیں گے، اس عارضی جانشینی کی تھوڑی سی مدت میں جب یہ تمہارے قبضہ تصرف میں ہے، اسے اللہ کے کام میں خرچ کرو تاکہ آخرت میں اس کا مستقل اور دائمی اجر تمہیں حاصل ہو، اسی مطلب کے مطابق اس اعرابی کا قول ہے جس سے کسی نے سوال کیا لمن ھذہ الابل ؟ فقالھی للہ تعالیٰ عندی یہ اللہ کا اونٹ ہے جو میرے پاس امانت ہے۔
اسی مضمون کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے، ترمذی میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز ہم نے ایک بکری ذبح کی جس کا اکثر حصہ تقسیم کردیا، ایک دست گھر کے لئے رکھ لیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مججھ سے دریافت فرمایا کہ اس بکری میں سے تقسیم کے بعد کیا باقی رہا ؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا مابقی الاکتفھا ایک شانے کے سوا کچھ نہیں بچا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بقی کلھا الاکتفھا ایک شانے کے سوا پوری بکری باقی رہ گئی یعنی خدا کی راہ میں جو کچھ دیدیا دراصل وہی بقای رہ گیا۔
بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یقول ابن آدم مالی مالی وھل لک من مالک الا ما اکلت فافنیت او لبست فابلیت او تصدقت فامضیت و ماسوا ذلک فذاھب و تارکہ للناس
آدمی کہتا ہے کہ میرا مال میرا مال، حالانکہ تیرے مال میں تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کردیا یا پہن کر پرانا کردیا یا صدقہ کر کے آگے بھیج دیا اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور اسے دوسروں کے لئے چھوڑ جانے والا ہے۔ (مسلم)
گزشتہ آیات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تاکید بیان فرمانے کے بعد اگلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جو خرچ کیا جائے ثواب تو ہر ایک کو ہرحال میں ملے گا، لیکن ثواب کے درجات میں ایمان و اخلاص اور مسابقت اعتبار سے فرق ہوگا، اس کے لئے فرمایا۔
یایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لئے جو دوسرے گروہ کو درپیش نہ تھے اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا کہ جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہوجائے گی اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ مول لی جب ہر قسم یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے۔
مجاہد و قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے اور عامر و شعبی وغیرہ کہتے ہیں کہص لح حدیبیہ مراد ہے پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے۔
اولئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) کے درمیان شرف و فضل میں تفاوت تو ضرور لیکن تفاوت رجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام (رض) ایمان وا خلاق کے اعتبار سے بالکل گئے ذرے تھے جیسا کہ بعض حضرات امیر معاوضہ (رض) اور ان کے والد حضرت ابوسفیان (رض) ایمان و اخلاق کے اعتبار سے بالکل گئے گذرے تھے جیسا کہ بعض حضرات امیر معاویہ (رض) اور ان کے والد حضرت حضرت ابوسفیان (رض) اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ (رض) ت عالیٰ عنہم کے بارے میں ہر زہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر ان کی تفقیص و اہانت کرتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابہ کرام (رض) کے بارے میں فرمایا لاتسبوا اصحابی میرے اصحاب پر سب و ستم نہ کرو قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ میرے صحابی کے خرچ کئے ہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے برابر بھی نہیں تھا۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو ،اللہ اور اس کے رسول پر اور جو کچھ یہ رسول لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے اور اللہ کے راستے میں وہ مال خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے جو اس نے ان کے اختیار میں دیا ہے اور اس پر ان کو خلیفہ بنایا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ وہ کیسے عمل کرتے ہیں، پھر جب اس نے یہ حکم دیا تو اس نے ان کے سامنے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کے ثواب کا ذکر کر کے ان کو مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اور اس پر آمادہ کیا، چنانچہ فرمایا : ﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا﴾ یعنی جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور انفاق فی سبیل اللہ کو جمع کیا ﴿لَہُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ﴾ ’’ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ ‘‘اس میں سے عظیم ترین اور جلیل ترین اجر اپنے رب کی رضا، اللہ تعالیٰ کا اکرام و تکریم والا گھر اور اس کے اندر ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مومنین اور مجاہدین کے لیے تیار کر رکھا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah aur uss kay Rasool per emaan rakho , aur jiss ( maal ) mein Allah ney tumhen qaeem maqam banaya hai , uss mein say ( Allah kay raastay mein ) kharch kero . chunacheh tum mein say jo log emaan laye hain , aur unhon ney ( Allah kay raastay mein ) kharch kiya hai , unn kay liye bara ajar hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم
اللہ تبارک و تعالیٰ خود اپنے اوپر اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور اس پر مضبوطی اور ہمیشگی کے ساتھ جم کر رہنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اپنی راہ میں خیرات کرنے کی رغبت دلاتا ہے جو مال ہاتھوں ہاتھ تمہیں اس نے پہنچایا ہو تم اس کی اطاعت گذاری میں اسے خرچ کرو اور سمجھ لو کہ جس طرح دوسرے ہاتھوں سے تمہیں ملا ہے اسی طرح عنقریب تمہارے ہاتھوں سے دوسرے ہاتھوں میں چلا جائے گا اور تم پر حساب اور عتاب رہ جائے گا اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ تیرے بعد تیرا وارث ممکن ہے نیک ہو اور وہ تیرے ترکے کو میری راہ میں خرچ کر کے مجھ سے قربت حاصل کرے اور ممکن ہے کہ وہ بد اور اپنی مستی اور سیاہ کاری میں تیرا اندوختہ فنا کر دے اور اس کی بدیوں کا باعث تو بنے نہ تو چھوڑتا نہ اڑاتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورة (الھکم) پڑھ کر فرمانے لگے انسان گو کہتا رہتا ہے یہ بھی میرا مال ہے یہ بھی میرا مال ہے حالانکہ دراصل انسان کا مال وہ ہے جو کھالیا پہن لیا صدقہ کردیا کھایا ہوا فنا ہوگیا پہنا ہوا پرانا ہو کر برباد ہوگیا، ہاں راہ اللہ دیا ہوا بطور خزانہ کے جمع رہا (مسلم) اور جو باقی رہے گا وہ تو اوروں کا مال ہے تو تو اسے جمع کر کے چھوڑ جانے والا ہے۔ پھر ان ہی دونوں باتوں کی ترغیب دلاتا ہے اور بہت بڑے اجر کا وعدہ دیتا ہے۔ پھر فرماتا ہے تمہیں ایمان سے کون سی چیز روکتی ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں موجود ہیں وہ تمہیں ایمان کیطرف بلا رہے ہیں دلیلیں دے رہے ہیں اور معجزے دکھا رہے ہیں، صحیح بخاری کی شرح کے ابتدائی حصہ کتاب الایمان میں ہم یہ حدیث بیان کر آئے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا سب سے زیادہ اچھے ایمان والے تمہارے نزدیک کون ہیں ؟ کہا فرشتے، فرمایا وہ تو اللہ کے پاس ہی ہیں پھر ایمان کیوں نہ لاتے ؟ کہا پھر انبیاء فرمایا ان پر تو وحی اور کلام اللہ اترتا ہے وہ کیسے ایمان نہ لاتے ؟ کہا پھر ہم فرمایا واہ تم ایمان سے کیسے رک سکتے تھے، میں تم میں زندہ موجود ہوں، سنو بہترین اور عجیب تر ایماندار وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے، صحیفوں میں لکھا دیکھیں گے اور ایمان قبول کریں گے، سورة بقرہ کے شروع میں آیت ( الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ۙ ) 2 ۔ البقرة :3) کی تفسیر میں بھی ہم ایسی احادیث لکھ آئے ہیں، پھر انہیں روز میثاق کا قول وقرار یاد دلاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( وَاذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَمِيْثَاقَهُ الَّذِيْ وَاثَقَكُمْ بِهٖٓ ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ ) 5 ۔ المآئدہ :7) ، اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنا ہے اور امام ابن جریر فرماتے ہیں مراد وہ میثاق ہے جو حضرت آدم کی پیٹھ میں ان سے لیا گیا تھا، مجاہد کا بھی یہی مذہب ہے واللہ اعلم۔ وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن حجتیں اور بہترین دلائل اور عمدہ تر آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ ظلم و جہل کی گھنگھور گھٹاؤں اور رائے قیاس کی بدترین اندھیریوں سے تمہیں نکال کر نورانی اور روشن صاف اور سیدھی راہ حق پر لا کھڑا کر دے۔ اللہ رؤف ہے ساتھ ہی رحیم ہے یہ اس کا سلوک اور کرم ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کے لئے کتابیں اتاریں، رسول بھیجے، شکوک و شبہات دور کردیئے، ہدایت کی وضاحت کردی۔ ایمان اور خیرات کا حکم کر کے پھر ایمان کی رغبت دلا کر اور یہ بیان فرما کر کہ ایمان نہ لانے کا اب کوئی عذر میں نے باقی نہیں رکھا پھر صدقات کی رغبت دلائی، اور فرمایا میری راہ میں خرچ کرو اور فقیری سے نہ ڈرو، اس لئے کہ جس کی راہ میں تم خرچ کر رہے ہو وہ زمین و آسمان کے خزانوں کا تنہا مالک ہے، عرش و کرسی اسی کی ہے اور وہ تم سے اس خیرات کے بدلے انعام کا وعدہ کرچکا ہے۔ فرماتا ہے آیت (وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 39) 34 ۔ سبأ :39) جو کچھ تم راہ اللہ دو گے اس کا بہترین بدلہ وہ تمہیں دے گا اور روزی رساں درحقیقت وہی ہے اور فرماتا ہے ( مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ 96) 16 ۔ النحل :96) اگر یہ فانی مال تم خرچ کرو گے وہ اپنے پاس کا ہمیشگی والا مال تمہیں دے گا۔ توکل والے خرچ کرتے رہتے ہیں اور مالک عرش انہیں تنگی ترشی سے محفوظ رکھتا ہے، انہیں اس بات کا اعتماد ہوتا ہے کہ ہمارے فی سبیل اللہ خرچ کردہ مال کا بدلہ دونوں جہان میں ہمیں قطعاً مل کر رہے گا۔ پھر اس امر کا بیان ہو رہا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے راہ اللہ خرچ کیا اور جہاد کیا اور جن لوگوں نے یہ نہیں کیا گو بعد فتح مکہ کیا ہو یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔ اس وجہ سے بھی کہ اس وقت تنگی ترشی زیادہ تھی اور قوت طاقت کم تھی اور اس لئے بھی کہ اس وقت ایمان وہی قبول کرتا تھا جس کا دل ہر میل کچیل سے پاک ہوتا تھا۔ فتح مکہ کے بعد تو اسلام کو کھلا غلبہ ملا اور مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور فتوحات کی وسعت ہوئی ساتھ ہی مال بھی نظر آنے لگا، پس اس وقت اور اس وقت میں جتنا فرق ہے اتنا ہی ان لوگوں اور ان لوگوں کے اجر میں فرق ہے، انہیں بہت بڑے اجر ملیں گے گو دونوں اصل بھلائی اور اصل اجر میں شریک ہیں، بعض نے کہا ہے فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ اس کی تائید مسند احمد کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف میں کچھ اختلاف ہوگیا جس میں حضرت خالد نے فرمایا تم اسی پر اکڑ رہے ہو کہ ہم سے کچھ دن پہلے اسلام لائے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا میرے صحابہ کو میرے لئے چھوڑ دو ، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد کے یا کسی اور پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو بھی ان کے اعمال کو پہنچ نہیں سکتے۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ حضرت خالد کے مسلمان ہوجانے کے بعد کا ہے اور آپ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے تھے اور یہ اختلاف جس کا ذکر اس روایت میں ہے بنو جذیمہ کے بارے میں ہوا تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد کی امارت میں اس کی طرف ایک لشکر بھیجا تھا جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے پکارنا شروع کیا ہم مسلمان ہوگئے ہم صابی ہوئے یعنی بےدین ہوئے، اس لئے کہ کفار مسلمانوں کو یہی لفظ کہا کرتے تھے حضرت خالد نے غالباً اس کلمہ کا اصلی مطلب نہ سمجھ کر ان کے قتل کا حکم دے دیا بلکہ ان کے جو لوگ گرفتار کئے گئے تھے انہیں قتل کر ڈالنے کا حکم دیا اس پر حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن عمر نے ان کی مخالفت کی اس واقعہ کا مختصر بیان اوپر والی حدیث میں ہے۔ صحیح حدیث میں ہے میرے صحابہ کو برا نہ کہو اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو بھی ان کے تین پاؤ اناج کے ثواب کو نہیں پہنچے گا بلکہ ڈیڑھ پاؤ کو بھی نہ پہنچے گا۔ ابن جریر میں ہے حدیبیہ والے سال ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جب عسفان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا ایسے لوگ بھی آئیں گے کہ تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں حقیر سمجھنے لگو گے ہم نے کہا کیا قریشی ؟ فرمایا نہیں بلکہ یمنی نہایت نرم دل نہایت خوش اخلاق سادہ مزاج۔ ہم نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر کیا وہ ہم سے بہتر ہوں گے ؟ آپ نے جواب دیا کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہو اور وہ اسے راہ اللہ خرچ کرے تو تم میں سے ایک کے تین پاؤ بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کی خیرات کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ یاد رکھو کہ ہم میں اور دوسرے تمام لوگوں میں یہی فرق ہے پھر آپ نے اسی آیت (لایستوی) کی تلاوت کی، لیکن یہ روایت غریب ہے، بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں خارجیوں کے ذکر میں ہے کہ تم اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلہ پر حقیر اور کمتر شمار کرو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے ابن جریر میں ہے عنقریب ایک قوم آئے گی کہ تم اپنے اعمال کو کمتر سمجھنے لگو گے جب ان کے اعمال کے سامنے رکھو گے صحابہ نے پوچھا کیا وہ قریشیوں میں سے ہوں گے آپ نے فرمایا نہیں وہ سادہ مزاج نرم دل یہاں والے ہیں اور آپ نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا پھر فرمایا وہ یمنی لوگ ہیں ایمان تو یمن والوں کا ایمان ہے اور حکمت یمن والوں کی حکمت ہے ہم نے پوچھا کیا وہ ہم سے بھی افضل ہوں گے ؟ فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ان میں سے کسی کے پاس سونے کا پہاڑ ہو اور اسے وہ راہ اللہ دے ڈالے تو بھی تمہارے ایک مد یا آدھے مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ پھر آپ نے اپنی اور انگلیاں تو بند کرلیں اور چھن گیا کو دراز کر کے فرمایا خبردار رہو یہ ہے فرق ہم میں اور دوسرے لوگوں میں، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی، پس اس حدیث میں حدیبیہ کا ذکر نہیں۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے فتح مکہ سے پہلے ہی فتح مکہ کے بعد کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے دی ہو، جیسے کہ سورة مزمل میں جو ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو مکہ شریف میں نازل ہوئی تھیں پروردگار نے خبر دی تھی کہ آیت (وَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ڮ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ 20 ) 73 ۔ المزمل :20) یعنی کچھ اور لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں پس جس طرح اس آیت میں ایک آنے والے واقعہ کا تذکرہ ہے اسی طرح اس آیت کو اور حدیث کو بھی سمجھ لیا جائے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ ہر ایک سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے یعنی فتح مکہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی جس نے جو کچھ راہ اللہ دیا ہے کسی کو اس سے کم۔ جیسے اور جگہ ہے کہ مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل سے کم۔ جیسے اور جگہ ہے کہ مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے قوی مومن اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے افضل ہے لیکن بھلائی دونوں میں ہے۔ اگر یہ فقرہ اس آیت میں نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ کسی کو ان بعد والوں کی سبکی کا خیال گذرے اس لئے فضیلت بیان فرما کر پھر عطف ڈال کر اصل اجر میں دونوں کو شریک بتایا۔ پھر فرمایا تمہارے تمام اعمال کی تمہارے رب کو خبر ہے وہ درجات میں جو تفاوت رکھتا ہے وہ بھی انداز سے نہیں بلکہ صحیح علم سے۔ حدیث شریف میں ہے ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس کے سردار ہیں آپ نے ابتدائی تنگی کے وقت اپنا کل مال راہ اللہ دے دیا تھا جس کا بدلہ سوائے اللہ کے کسی اور سے مطلوب نہ تھا۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں میں دربار رسالت مآب میں تھا اور حضرت صدیق اکبر بھی تھے۔ صرف ایک عبا آپ کے جسم پر تھی، گریبان کانٹے سے اٹکائے ہوئے تھے جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور پوچھا کیا بات ہے جو حضرت ابوبکر نے فقط ایک عبا پہن رکھی ہے اور کانٹا لگا رکھا ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انہوں نے اپنا کل مال میرے کاموں میں فتح سے پہلے ہی راہ اللہ خرچ کر ڈالا ہے اب ان کے پاس کچھ نہیں، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا ان سے کہو کہ اللہ انہیں سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس فقیری میں تم مجھ سے خوش ہو یا ناخوش ہو ؟ آپ نے حضرت صدیق کو یہ سب کہہ کر سوال کیا۔ جواب ملا کہ اپنے رب عزوجل سے ناراض کیسے ہوسکتا ہوں میں اس حال میں بہت خوش ہوں۔ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے خرچ کرنا ہے۔ بعض نے کہا ہے بال بچوں کو کھلانا پلانا وغیرہ خرچ مراد ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے دونوں صورتوں کو شامل ہو، پھر اس پر وعدہ فرماتا ہے کہ اسے بہت بڑھا چڑھا کر بدلہ ملے گا اور جنت میں پاکیزہ تر روزی ملے گی، اس آیت کو سن کر حضرت ابو دحداح انصاری (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کیا ہمارا رب ہم سے قرض مانگتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دیجئے آپ نے ہاتھ بڑھایا تو آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا میرا باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں وہ میں نے اپنے رب کو دیا آپ کے بیوی بچے بھی اسی باغ میں تھے آپ آئے اور باغ کے دروازے پر کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی وہ لبیک کہتی ہوئی آئیں تو فرمانے لگے بچوں کو لے کر چلی آؤ میں نے یہ باغ اپنے رب عزوجل کو قرض دے دیا ہے۔ وہ خوش ہو کر کہنے لگیں آپ نے بہت نفع کی تجارت کی اور بال بچوں کو اور گھر کے اثاثے کو لے کر باہر چلی آئیں، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے جنتی درخت وہاں کے باغات جو میوؤں سے لدے ہوئے اور جن کی شاخیں یا قوت اور موتی کی ہیں ابو دحداح کو اللہ نے دے دیں۔