اے ایمان والو! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور ظلم و سرکشی اور نافرمانئ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سرگوشی نہ کیا کرو اور نیکی اور پرہیزگاری کی بات ایک دوسرے کے کان میں کہہ لیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کی طرف تم سب جمع کئے جاؤ گے،
English Sahih:
O you who have believed, when you converse privately, do not converse about sin and aggression and disobedience to the Messenger but converse about righteousness and piety. And fear Allah, to whom you will be gathered.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں پوشیدہ بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو اور اُس خدا سے ڈرتے رہو جس کے حضور تمہیں حشر میں پیش ہونا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو تم جب آپس میں مشورت کرو تو گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کی مشورت نہ کرو اور نیکی اورپرہیزگاری کی مشورت کرو، اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف اٹھائے جاؤ گے،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور سرکشی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی نہ کرو اورنیکی اور پرہیز گاری کی سرگوشی کرو اور الله سے ڈرو جس کی طرف تم جمع کیے جاؤ گے
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! تم جب سرگوشیاں کرو تو یہ سرگوشیاں گناہ اور ظلم (زیادتی) اور نافرمانی پیغمبر کی نہ ہو (۱) بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو (۲) اور اس اللہ سے ڈرتے رہو، جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے۔
۹۔۱ جس طرح یہود اور منفقین کا شیوہ ہے یہ گویا اہل ایمان کو تربیت اور کردار سازی کے لیے کہا جارہا ہے کہ اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو تو تمہاری سرگوشیاں یہود اور اہل نفاق کی طرح اثم وعدوان پر نہیں ہونی چاہئیں۔ ٩۔۲ یعنی جس میں خیر ہی خیر ہو اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر مبنی ہو، کیونکہ یہی نیکی اور تقویٰ ہے
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور خدا سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! تم جب سرگوشی کرو تو یہ سرگوشیاں گناه اور ﻇلم (زیادتی) اور نافرمانیٴ پیغمبر کی نہ ہوں، بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کیے جاؤ گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! تم جب کوئی سرگوشی (خفیہ بات) کرو تو گناہ، ظلم و زیادتی اور رسول(ص) کی نافرمانی کے بارے میں سرگوشی نہ کرو بلکہ نیکی کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے کی سرگوشی کرو اور اللہ (کی نافرمانی سے) ڈرو جس کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو جب بھی راز کی باتیں کرو تو خبردار گناہ اور تعدی اور رسول کی نافرمانی کے ساتھ نہ کرنا بلکہ نیکی اور تقویٰ کے ساتھ باتیں کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہنا کہ بالآخر اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکو کاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا اور خدا سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا۔ تفسیر و تشریح شان نزول : اسباب نزول ان آیات کے چند واقعات ہیں : ١۔ اول واقعہ :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلا جو سیاسی قدم اٹھایا وہ یہ تھا کہ یہود اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ صلح فرمایا تاکہ مدینہ کے یہود کی طرف سے اطمینان ہوجائے کیونکہ مشرکین مکہ کی جانب سے ریشہ دوانیاں رہتی تھیں اور ہمہ وقت خطرہ رہتا تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دو طرفہ پریشانی میں مبتلا ہوجائیں، مگر صلح کے باوجود یہود اپنی نازیبا حرکتوں سے باز نہیں آتے تھے، یہود جب کسی مسلمان کو دیکھتے تو اس کو ذہنی طور پر پریشا ان کرنے کے لئے اپٓس میں سر جوڑ کر کھسر پھسر کرنے لگتے اور اس کی طرف دیکھتے جاتے اور بعض اوقات آنکھ وغیرہ سے اشارہ بھی کرتے تاکہ مسلمان یہ سمجھے کہ ان کے خلاف یا اسلام کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کو اس نازیبا حرکت سے منع فرمایا مگر وہ باز نہ آئے، اس پر یہ آیت الم ترالی الذین نھوا عن النجوی الخ نازل ہوئی ہے۔ ٢۔ دوسرا واقعہ : اسی منافقین بھی اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے باہم کانا پھوسی اور سرگوشی کرتے تھے، اس پر یہ آیت اذا تنا جیتم فلا تتنا جوا الخ اور انما النجوی الخ نازل ہوئی۔ ٣۔ تیسرا واقعہ : یہود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو از راہ شرارت بجائے السلام علیکم کہنے کے السلام کہتے، سام کے معنی موت کے ہیں۔ ٤۔ چوتھا واقعہ : منافقین بھی اسی طرح کہتے تھے، ان دونوں واقعوں پر واذا جاءوک حیوک نازل ہوئی، اور امام ابن کثیر نے امام احمد کی روای سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہود اس طرح کر کے خفیہ طور پر کہتے لو لایعذبنا اللہ بما نقول یعنی اگر ہم نے یہ گناہ کیا تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ ٥۔ پانچواں واقعہ : ایک مرتبہ آپ مسجد کے صفہ میں تشریف رکھتے تھے اور مجلس میں مجمع زیادہ تھا چند صحابہ جو غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے آئے تو ان کو کہیں جگہ نہیں ملی اور نہ اہل مجلس نے جگہ میں گنجائش نکالی کہ مل مل کر بیٹھ جاتے جس سے جگہ نکل آتی، جب آپ نے یہ صورت حال دیکھی تو بعض آدمیوں کو مجلس سے اٹھنے کے لئے فرمایا، اس پر منافقین نے طعن کیا کہ یہ کونسی انساف کی بات ہے ؟ اور آپ نے یہ بھی فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو اپنے بھائی کے لئے جگہ کھولدے، سو لوگوں نے جگہ کھول دی، اس پر آیت یا ایھا الذین آمنوا اذا قیل لکم تفسحوا الخ نازل ہوئی۔ (معارف ملخصاً ) ٦۔ چھٹا واقعہ : بعض اغنیاء آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر بڑی دیر تک آپ سے سرگوشی کرتے تھے اور فقراء کو استفادہ کا موقع کم ملتا تھا، آپ کو ان لوگوں کا دیر تک بیٹھنا اور دیر تک سرگوشی کرنا ناگوار گذرتا تھا، اس پر یہ آیت اذا ناجیتم الرسول نازل ہوئی۔ ٧۔ ساتواں واقعہ : جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دینے کا حکم ہوا تو بہت سے آدمی ضروری بات کرنے سے بھی رک گئے، اس پر یہ آیت أأشفقتم نازل ہوئی۔ (معارف مخلصاً ) آیات مذکورہ اگرچہ خاص واقعات کی بنئا پر نازل ہوئی ہیں جن کا ذکر اوپر شان نزول میں آچکا ہے، لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ آیت کا شان نزول کچھ بھی ہو، ہدایات قرآنی عام ہوتی ہیں، اعتبار معنی کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ الفاظ کے خصوص کا۔ خفیہ مشوروں کے متعلق ہدایات : خفیہ مشورہ عموماً مخصوص اور راز دار دوستوں سے ہوتا ہے، جن پر اطمینان کیا جائے کہ اس راز کو کسی پر ظاہر نہ کریں گے، اس لئے ایسے موقع پر ایسے منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں جن میں کسی پر ظلم کرنا ہے یا کسی کو قتل کرنا ہے یا کسی کی املاک پر قبضہ کرنا ہے وغیرہ وغیرہ، حق تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم اور سمع و بصر کے اعتبار سے تمہارے پاس موجود ہوتا ہے اور تمہاری ہر بات کو سنتا اور ہر حرکت کو دیکھتا اور جانتا ہے اگر تم کوئی مجرمانہ حرکت کرو گے تو اس کی سزا سے نہ بچ سکو گے، آیت کا مقصد تو یہ ہے کہ تم کتنے ہی زیادہ یا کم سرگوشی میں شریک ہو حق تعالیٰ موجود ہوتا ہے، یہاں مثال کے طور پر دو ، عددوں کا ذکر کیا گیا ہے، تین اور پانچ یعنی اگر تم تین آدمی خفیہ مشورہ کر رہے ہو تو چوتھا حق تعالیٰ موجود ہوتا ہے اور اگر پانچ آدمی مشورہ کر رہے ہو تو سمجھو کہ چھٹا وہاں اللہ موجود ہے، تین اور پانچ کے عدد کے تخصیص میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ جماعت کے لئے اللہ کے نزدیک طاق عدد پسند ہے۔ مسلمانوں کے لئے سرگوشی سے متعلق ہدایت : بخاری اور مسلم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذا کنتم ثلثۃ فلا یتناج رجلان دون الآخر حتی یختلطوا بالناس فان ذلک یحزنہ یعنی جس جگہ تم تین ٓدمی جمع ہو تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر باہم سرگوشی اور خفیہ باتیں نہ کرو جب تک کہ دوسرے (تیسرے) آدمی نہ آجائیں کیونکہ اس سے اس کی دل شکنی ہوگی۔ یا ایھا الذین آمنوا اذا تنا جیتم فلا تتنا جوا بالاثم والعدوان الخ سابقہ آیات میں کفار کو ناجائز سرگوشی پر تنبیہ کی گئی تھی، اسی آیت سے مسلمانوں کے لئے بھی ہدایت نکل آئی کہ وہ بھی اپنی سرگوشیوں اور خفیہ مشوروں میں اس کا دھیان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے سب حالات معلوم ہیں اور ہماری ہر گفتگو کا علم ہے اس استحضار کے ساتھ یہ کوشش کریں کہ ان کے مشروں اور سرگوشیوں میں کوئی بات فی نفسہ گناہ کی یا دوسروں پر ظلم کی یا خلاف شرع کا کام کی نہ ہو بلکہ جب بھی آپسی مشورہ ہو نیک کام کا ہو۔
10 Tafsir as-Saadi
...
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jab tum aapas mein aik doosray say sargoshi kero to aesi sargoshi naa kero jo gunah , ziyadti aur Rasool ki nafarmani per mushtamil ho , haan aesi sargoshi kero jo naik kamon aur taqwa per mushtamil ho , aur Allah say dartay raho , jiss kay paas tum sabb ko jama ker kay ley jaya jaye ga .