وہی ہے جس نے اُن کافر کتابیوں کو (یعنی بنو نضیر کو) پہلی جلاوطنی میں گھروں سے (جمع کر کے مدینہ سے شام کی طرف) نکال دیا۔ تمہیں یہ گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور انہیں یہ گمان تھا کہ اُن کے مضبوط قلعے انہیں اللہ (کی گرفت) سے بچا لیں گے پھر اللہ (کے عذاب) نے اُن کو وہاں سے آلیا جہاں سے وہ گمان (بھی) نہ کرسکتے تھے اور اس (اللہ) نے اُن کے دلوں میں رعب و دبدبہ ڈال دیا وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور اہلِ ایمان کے ہاتھوں ویران کر رہے تھے۔ پس اے دیدۂ بینا والو! (اس سے) عبرت حاصل کرو،
English Sahih:
It is He who expelled the ones who disbelieved among the People of the Scripture from their homes at the first gathering. You did not think they would leave, and they thought that their fortresses would protect them from Allah; but [the decree of] Allah came upon them from where they had not expected, and He cast terror into their hearts [so] they destroyed their houses by their [own] hands and the hands of the believers. So take warning, O people of vision.
1 Abul A'ala Maududi
وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں اُن کے گھروں سے نکال باہر کیا تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اُن کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی مگر اللہ ایسے رخ سے اُن پر آیا جدھر اُن کا خیال بھی نہ گیا تھا اُس نے اُن کے دلوں میں رعب ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے تھے پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو!
2 Ahmed Raza Khan
وہی ہے جس نے ان کافر کتابیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ان کے پہلے حشر کے لیے تمہیں گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچالیں گے تو اللہ کا حکم ان کے پاس آیا جہاں سے ان کا گمان بھی نہ تھا اور اس نے ان کے دلوں میں رُعب ڈالا کہ اپنے گھر ویران کرتے ہیں اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں تو عبرت لو اے نگاہ والو،
3 Ahmed Ali
وہی ہے جس نے اہلِ کتاب کے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلا لشکر جمع کرنے کے وقت نکال دیا حالانکہ تمہیں ان کے نکلنے کا گمان بھی نہ تھا اور وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کے قلعے انہیں الله سے بچا لیں گے پھر الله کا عذاب ان پر وہاں سے آیا کہ جہاں کا ان کو گمان بھی نہ تھا اوران کے دلوں میں ہیبت ڈال دی کہ اپنے گھر وں کو اپنے اورمسلمانوں کے ہاتھوں سے آپ اجاڑنے لگے پس اے آنکھوں والو عبرت حاصل کرو
4 Ahsanul Bayan
وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا (١) تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قعلے انہیں اللہ (عذاب) سے بچا لیں گے (٢) پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا (٣) اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا (٤) اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے (۵) اور مسلمان کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے) ( ٦) پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو۔ (۷)
٢۔١ مدینے کے اطراف میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے، بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع، ہجرت مدینہ کے بعد نبی نے ان سے معاہدہ بھی کیا لیکن یہ لوگ درپردہ سازشیں کرتے رہے اور کفار مکہ سے بھی مسلمانوں کے خلاف رابطہ رکھا، حتیٰ کے ایک موقع پر جب کہ آپ ان کے پاس گئے ہوئے تھے، بنو نضیر نے رسول اللہ پر اوپر سے پتھر پھینک کر آپ کو مار ڈالنے کی سازش تیار کی، جس سے وحی کے ذریعے سے آپ بروقت اطلاع کر دی گئی، اور آپ وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ ان کی اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہ ان پر لشکر کشی کی، یہ چند دن اپنے قعلوں میں محصور رہے، بالآخر انہوں نے جان بخشی کی صورت میں جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا جسے رسول اللہ نے قبول فرما لیا، یہاں سے یہ خیبر میں جا کر مقیم ہوگئے، وہاں سے حضرت عمر نے اپنے دور میں انہیں دوبارہ جلا وطن کیا اور شام کی طرف دھکیل دیا جہاں کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کا آخری حشر ہوگا۔ ٢۔٢ اس لئے انہوں نے نہایت مضبوط قعلے تعمیر کر رکھے تھے جس پر انہیں گھمنڈ تھا اور مسلمان بھی سمجھتے تھے کہ اتنی آسانی سے یہ قعلے فتح نہیں ہو سکیں گے۔ ٢۔٣ اور وہ یہی تھا کہ رسول اللہ نے ان کا محاصرہ کرلیا تھا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ۲۔٤ اس رعب کی وجہ سے ہی انہوں نے جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا ورنہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین اور دیگرلوگوں نے انہیں پیغامات بھیجے تھے کہ تم مسلمانوں کے سامنے جھکنا نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں علاوہ ازیں اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصی وصف عطا فرمایا تھا کہ دشمن ایک مہینے کی مسافت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرعوب ہو جاتا تھا اس لیے سخت دہشت اور گھبراہٹ ان پر طاری ہوگئی اور تمام تر اسباب ووسائل کے باوجود انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور صرف یہ شرط مسلمانوں سے منوائی کہ جتنا سامان وہ لاد کر لے جاسکتے ہیں انہیں لے جانے کی اجازت ہو، چنانچہ اس اجازت کی وجہ سے انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے اور شہتیر تک اکھیڑ ڈالے تاکہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں ٢۔۵ یعنی جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب جلا وطنی ناگزیر ہے تو انہوں نے دوران محاصرہ اندر سے اپنے گھروں کو برباد کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مسلمانوں کے بھی کام نہ رہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ سامان لے جانے کی اجازت سے پورا فائدہ اٹھانے کے لئے وہ اپنے اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لاد کر لے جاسکتے تھے اپنے گھر ادھیڑ ادھیڑ کر وہ سامان انہوں نے اونٹوں پر رکھ لیا۔ ۲۔ ٦ باہر سے مسلمان ان کے گھروں کو برباد کرتے رہے تاکہ ان پر گرفت آسان ہو جائے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ادھیڑے ہوئے گھروں سے بقیہ سامان نکالنے اور حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مزید تخریب سے کام لینا پڑا۔ ۲۔۷ کہ کس طرح اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈالا دراں حالیکہ وہ ایک نہایت طاقتور اور باوسائل قبیلہ تھا لیکن جب اللہ تعالٰی کی طرف سے مہلت عمل ختم ہوگئی اور اللہ نے اپنے مواخذے کے شکنجے میں کسنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر ان کی اپنی طاقت اور وسائل ان کے کام آئے نہ دیگر اعوان وانصار ان کی کچھ مدد کرسکے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
وہی تو ہے جس نے کفار اہل کتاب کو حشر اول کے وقت ان کے گھروں سے نکال دیا۔ تمہارے خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے ان کو خدا (کے عذاب) سے بچا لیں گے۔ مگر خدا نے ان کو وہاں سے آ لیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا۔ اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی کہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور مومنوں کے ہاتھوں سے اُجاڑنے لگے تو اے (بصیرت کی) آنکھیں رکھنے والو عبرت پکڑو
6 Muhammad Junagarhi
وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا، تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وه نکلیں گے اور وه خود (بھی) سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قلعے انہیں اللہ (کے عذاب) سے بچا لیں گے پس ان پر اللہ (کا عذاب) ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا وه اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے) پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو
7 Muhammad Hussain Najafi
وہ وہی ہے جس نے اہلِ کتاب کے کافروں (بنی نضیر) کو پہلی بار اکٹھا کر کے ان کے گھروں سے نکال دیا۔ تمہیں گمان بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیںگے اور وہ بھی خیال کرتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (کی گر فت) سے بچا لیں گے تو اللہ (کا قہر) ایسی جگہ سےایا جہاں سے ان کو خیال بھی نہیں تھا اور اس نے ان کے دلوں میں (رسول(ص) کا) رعب ڈال دیا تو وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے گھروں کو خراب و برباد کر رہے تھے اور اہلِ ایمان کے ہاتھوں سے بھی عبرت حاصل کرو اے دیدۂ بینا رکھنے والو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہی وہ ہے جس نے اہل کتاب کے کافروں کو پہلے ہی حشر میں ان کے وطن سے نکال باہر کیا تم تو اس کا تصور بھی نہیں کررہے تھے کہ یہ نکل سکیں گے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ان کے قلعے انہیں خدا سے بچالیں گے لیکن خدا ایسے رخ سے پیش آیا جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہیں تھا اور ان کے دلوں میں رعب پیدا کردیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے اور صاحبان هایمان کے ہاتھوں سے اجاڑنے لگے تو صاحبانِ نظر عبرت حاصل کرو
9 Tafsir Jalalayn
وہی تو ہے جس نے کفار اہل کتاب کو حشر اول کے وقت ان کے گھروں میں سے نکال دیا۔ تمہارے خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ انکے قلعے انکو خدا (خدا کے عذاب) سے بجا لیں گے مگر خدا نے ان کو وہاں سے آلیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی کہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں اور مومنوں کے ہاتھوں سے اجاڑنے لگے۔ تو اے بصیرت کی آنکھیں رکھنے والو عبرت پکڑو۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿مَا ظَنَنْتُمْ﴾ اے مسلمانو ! تمہارے خیال میں بھی نہ تھا ﴿اَنْ یَّخْرُجُوْا﴾ کہ وہ اپنے گھروں سے نکل جائیں گے کیونکہ ان کے گھر محفوظ اور مصئون تھے اور وہ ان میں عزت اور غلبے کے ساتھ رہتے تھے ﴿وَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مَّانِعَتُہُمْ حُصُوْنُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ﴾ ”اور وہ گمان کررہے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ سے بچالیں گے ۔“انہیں ان قلعوں پر بہت غرور تھا، ان قلعوں نے ان کو دھوکے میں مبتلا کررکھا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ان قلعوں کی وجہ سے ان تک پہنچا جاسکتا ہے اور نہ ان پر کوئی قابو پاسکتا ہے۔ اس کے ماوراء اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا امر مقدر کردیا جس سے انہیں ان کی محفوظ پناہ گاہیں بچاسکیں نہ قلعے اور نہ قوت اور مدافعت ہی کام آسکی ہے۔ اس لیے فرمایا :﴿فَاَتٰیہُمُ اللّٰہُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا ۤ﴾ ”پس اللہ نے انہیں وہاں سے آلیا جہاں سے انہیں گمان بھی نہیں تھا۔“ یعنی اس طریقے اور اس راستے سے جس کے بارے میں انہیں وہم وگمان بھی نہ تھا کہ یہاں سے ان کو آلیا جائے گا اور وہ یہ بات تھی ﴿ وَقَذَفَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الرُّعْبَ﴾ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا ۔اس سے مراد شدید خوف ہے جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی سپاہ ہے، جس کے سامنے تعداد اور سازو سامان کوئی فائدہ دیتا ہے نہ طاقت اور بہادری کوئی کام آتی ہے۔ وہ معاملہ جس کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی خلل واقع ہوا تو اس راستے سے داخل ہوگا اور وہ ان کے قلعے تھے جہاں داخل ہو کر وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے اور ان قلعوں پر ان کے دل مطمئن تھے۔ جو کوئی غیر اللہ پر بھروسا کرتا ہے وہ بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو کوئی غیر اللہ کا سہارا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال بن جاتا ہے، چنانچہ ان کے پاس ایک آسمانی معاملہ آیا اور ان کے دلوں میں نازل ہوا جو صبر وثبات اور بزدلی وکمزوری کا محل ومقام ہوتے ہیں ۔چنانچہ اس نے ان کی قوت اور بہادری کو زائل کردیا اور اس کی جگہ کمزوری اور بزدلی دے دی تھی جس کو دور کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی حیلہ نہ تھا اور یہ چیز ان کے خلاف (مسلمانوں کی )مددگار بن گئی۔ بنابریں فرمایا :﴿یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَہُمْ بِاَیْدِیْہِمْ وَاَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ ۤ﴾ اور وہ یہ کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر مصالحت کی کہ ان کے اونٹ جو کچھ اٹھائیں سب ان کا ہے ۔اس بنا بر پر انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے گھروں کی چھتوں کو اکھاڑ ڈالا جو انہیں بہت اچھی لگتی تھیں اور اپنی سرکشی کی بنا پر اپنے گھروں کے برباد کرنے اور اپنے قلعوں کے منہدم کرنے پر مسلمانوں کو مسلط کردیا تو یہ وہی ہیں جنہوں نے خود اپنے خلاف جرم کیا اور ان قلعوں اور گھروں کو برباد کرنے میں مددگار بنے۔ ﴿ فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ﴾ پس اے اہل بصیرت یعنی معاملات کی گہرائی میں اتر جانے والی بصیرت اور کامل عقل والو !عبرت حاصل کرو کیونکہ اس واقعے میں عبرت ہے، اس سے ان معاندین حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے سلوک کی معرفت حاصل ہوتی ہے جو اپنی خواہشات نفس کے پیچھے چلتے ہیں ،جن کی عزت نے انہیں کوئی فائدہ دیا نہ طاقت انہیں بچا سکی، جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا اور ان کے گناہوں کی پاداش میں عذاب آ پہنچا ،تو ان کے قلعے ان کی حفاظت نہ کرسکے، لہٰذا اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ اسباب کے خصوص کا، چنانچہ یہ آیت کریمہ عبرت حاصل کرنے کے حکم پر دلالت کرتی ہے اور وہ ہے نظیر کے ذریعے سے اس کے نظیر سے عبرت حاصل کرنا اور کسی چیز کو اس چیز پر قیاس کرنا جو اس سے مشابہت رکھتی ہے ،اسی عبرت سے عقل کی تکمیل اور بصیرت روشن ہوتی ہے، ایمان میں اضافہ اور حقیقی فہم حاصل ہوتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
wohi hai jiss ney ehal-e-kitab mein say kafir logon ko unn kay gharon say pehlay ijtima kay moaqa per nikal diya . ( musalmano ! ) tumhen yeh khayal bhi nahi tha kay woh niklen gay , aur woh bhi yeh samjhay huye thay kay unn kay qalay enhen/unhen Allah say bacha len gay . phir Allah unn kay paas aesi jagah say aaya jahan unn ka gumaan bhi nahi tha , aur Allah ney unn kay dilon mein roab daal diya kay woh apney gharon ko khud apney haathon say bhi aur musalmanon kay haathon say bhi ujaarr rahey thay . lehaza aey aankhon walo ! ibrat hasil kerlo .