(یہ مال اُن انصار کے لئے بھی ہے) جنہوں نے اُن (مہاجرین) سے پہلے ہی شہرِ (مدینہ) اور ایمان کو گھر بنا لیا تھا۔ یہ لوگ اُن سے محبت کرتے ہیں جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آئے ہیں۔ اور یہ اپنے سینوں میں اُس (مال) کی نسبت کوئی طلب (یا تنگی) نہیں پاتے جو اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو، اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں،
English Sahih:
And [also for] those who were settled in the Home [i.e.,al-Madinah] and [adopted] the faith before them. They love those who emigrated to them and find not any want in their breasts of what they [i.e., the emigrants] were given but give [them] preference over themselves, even though they are in privation. And whoever is protected from the stinginess of his soul – it is those who will be the successful.
1 Abul A'ala Maududi
(اور وہ اُن لوگوں کے لیے بھی ہے) جو اِن مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دارالحجرت میں مقیم تھے یہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اِن کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی اُن کو دیدیا جائے اُس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور جنہوں نے پہلے سے اس شہر اور ایمان میں گھر بنالیا دوست رکھتے ہیں انہیں جو ان کی طرف ہجرت کرکے گئے اور اپنے دلوں میں کوئی حاجت نہیں پاتے اس چیز کو جو دیے گئے اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں،
3 Ahmed Ali
اور وہ (مال) ان کے لیے بھی ہے کہ جنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ میں) گھر اور ایمان حاصل کر رکھا ہے جو ان کے پاس وطن چھوڑ کرآتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں اور اپنے سینوں میں اس کی نسبت کوئی خلش نہیں پاتے جو مہاجرین کو دیا جائے اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی (۱) اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے (۲) بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو (۳) (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے (٤)
۹۔۱ ان سے انصار مدینہ مراد ہیں جو مہاجرین کے مدینہ آنے سے قبل مدینے میں آباد تھے اور مہاجرین کے ہجرت کر کے آنے سے قبل امین بھی ان کے دلوں میں قرار پکڑ چکا تھا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہاجرین کے ایمان لانے سے پہلے یہ انصار ایمان لا چکے تھے کیونکہ ان کی اکثریت مہاجرین کے ایمان لانے کے بعد ایمان لائی ہے یعنی من قبلھم کا مطلب من قبل ھجرتھم ہے اور دار سے دار الھجرۃ یعنی مدینہ مراد ہے ۔ ٩۔۲ یعنی مہاجرین کو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ دے، اس پر حسد محسوس نہیں کرتے، جیسے فیء کا اولین مستحق بھی ان کو قرار دیا گیا۔ لیکن انصار نے برا نہیں منایا۔ ۹۔۳ یعنی اپنے مقابلے میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ نہ تھا چنانچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا گھر جا کر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں صبح جب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیات نازل فرمائی ہے۔ ویوثرون علی انفسھم۔ الایۃ صحیح بخاری۔ ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کر لے ۔ صحیح بخاری۔ کتاب النکاح۔ ٩۔٤ حدیث میں ہے ' شح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے خون ریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کرلیا ' (صحیح مسلم)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (ان لوگوں کے لئے بھی) جو مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (یعنی مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے (اور) جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش (اور خلش) نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو۔ اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ مراد پانے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اور یہ مال) ان کیلئے بھی ہے جو ان (مہاجرین) سے پہلے ان دیار (دارالہجرت مدینہ) میں ٹھکانا بنائے ہوئے ہیں اور ایمان لائے ہوئے ہیں اور جو ہجرت کرکے ان کے پاس آتا ہے وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دیا جائے وہ اس کی اپنے دلوں میں کوئی ناخوشی محسوس نہیں کرتے اور وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ضرورت مند ہوں (فاقہ میں ہوں) اور جسے اپنے نفس کے حرص سے بچا لیا گیا وہی فلاح پانے والے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جن لوگوں نے دارالہجرت اور ایمان کو ان سے پہلے اختیار کیا تھا وہ ہجرت کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا گیا ہے اپنے دلوں میں اس کی طرف سے کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتے ہیں اور اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں چاہے انہیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو.... اور جسے بھی اس کیے نفس کی حرص سے بچالیا جائے وہی لوگ نجات پانے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور (ان لوگوں کے لئے بھی) جو مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (یعنی مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے اور جو لوگ ہجرت کر کے انکے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش (اور خلش) نہیں پاتے اور انکو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔ والذین تبواء و الدار والایمان من قبلھم، تبوء کے معنی ٹھکانے بنان کے ہیں اور دار سے مراد دار ہجرت یاد اریمان یعنی مدینہ طیبہ ہے مدینہ طیبہ کو دار ایمان کہنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عرب کے تمام علاقہ جہاد اور فوج کشی کے ذریعہ فتح ہوئے مگر مدینہ طیبہ ایمان کے ذریعہ فتح ہوا۔ (قرطبی) اس آیت میں ایمان کا دار پر عطف کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انصار نے دار ہجرت میں ٹھکانہ بنایا اور ایمان میں ٹھکانہ بنایا حالانکہ ٹھکانہ بنانا کسی مقام اور جگہ میں ہوتا ہے ایمان کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس میں ٹھکانہ بنایا جاسکے، اس لئے بعض حضرات نے کہا کہ یہاں ایک لفظ مخذوف ہے یعنی اخلصوا الایمان یعنی یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دار ہجرت کو ٹھکانہ بنایا اور ایمان میں مخلص اور مضبوط رہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وائو بمعنی مع ہو تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے ایمان کے ساتھ دار ہجرت کو ٹھکانہ بنایا، من قبلھم کا مطلب ہے مہاجرین کے ہجرت کر کے آنے سے پہلے ایمانا ان کے دلوں میں راسخ ہو کر پختہ ہوچکا تھا، انصار کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی کہ مہاجرین کو اللہ کا رسول جو کچھ دے اس پر حسد اور انقباض محسوس نہیں کرتے، جیسے مال فئی کا اولین مستحق مہاجرین کو قرار دیا مگر انصار نے برا نہیں مانا۔ یوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ یعنی اپنے مقابلہ میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں خود بھوکے رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں، جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مہمان آیا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں کچھ نہ تھا چناچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا، گھر جا کر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے ہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے، انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے، البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ گل کردینا تاکہ مہمان کو ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں، صبح جب وہ انصاری صحابی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی ہے یوثرون علی انفسھم الآیۃ (صحیح بخاری تفسیر سورة الحشر) ومن یوق شح نفسہ فائولئک ھم المفحلون اس آیت میں ایک عام ضابطہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچ گئے تو اللہ کے نزدیک وہ ہی فلاح اور کامیای پانے والے ہیں، لفظ شح اور بخل تقریباً ہم معنی ہیں، البتہ لفظ شح میں کچھ مبالغہ ہے اور وہ یہ کہ شح کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے کہ جب بخیلی نفس میں خوب رچ بس کر پختہ ہوگئی ہو، حدیثہ شریف میں ہے کہ شح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اس نے انہیں خونریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کیا۔ (صحیح مسلم کتاب البر)
10 Tafsir as-Saadi
پس دین کی مدد کرنے والے انصار کے پاس پناہ لیتے رہے ،یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا ،اس نے طاقت پکڑ لی اور اس میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا گیا حتی کہ مسلمانوں نے علم و ایمان اور قرآن کے ذریعے سے دلوں کو اور شمشیر وسناں کے ذریعے سے شہروں کو فتح کرلیا جن کے جملہ اوصاف جمیلہ یہ ہیں: ﴿یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ﴾ ”وہ اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔“ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں، اس کے احباب سے محبت کرتے ہیں اور ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ ﴿ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا﴾ ”اور وہ اپنے دلوں میں اس( مال )کی کوئی حاجت نہیں پاتے جو ان (مہاجرین)کو دیا جائے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا ہے اور ان کو جن فضائل ومناقب سے مختص کیا، جن کے وہ اہل ہیں ،وہ ان پر حسد نہیں کرتے۔ یہ آیت کریمہ انکے سینے کی سلامتی ،ان میں بغض، کینہ اور حسد کے عدم وجود پر دلالت کرتی ہے ،نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مہاجرین، انصار سے افضل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذکر کو مقدم رکھا ہے، نیز آگاہ فرمایا کہ مہاجرین کو جو کچھ عطا کیا گیا انصار اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی حسد محسوس نہیں کرتے ۔یہ آیت کریمہ یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے مہاجرین کو وہ فضائل عطا کیے جو انصار اور دیگر لوگوں کو عطا نہیں کیے کیونکہ انہوں نے نصرت دین اور ہجرت کو جمع کیا۔ ﴿وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ﴾ ”اور اپنی ذات پر( ان کو )ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انہیں سخت ضرورت ہو۔“ یعنی انصار کے اوصاف میں سے ایک وصف ایثار ہے، جس کی بنا پر وہ دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں اور ان سے ممتاز ہیں اور یہ کامل ترین جو دو سخا ہے اور نفس کے محبوب اموال وغیرہ میں ایثار کرنا اور ان اموال کے خود حاجت مند بلکہ ضرورت مند اور بھوکے ہونے کے باوجود دوسرے پر خرچ کرنا، یہ وصف اخلاق زکیہ، اللہ تعالیٰ سے محبت، پھر شہوات نفس اور اس کی لذات پر اللہ کی محبت کو مقدم رکھنے ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ جملہ واقعات میں اس انصاری کا قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے جس کے سبب سے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے جب اس نے خود کھانے اور اپنے گھروالوں کو کھلانے پر اپنے مہمان کو ترجیح دی اور تمام گھروالوں اور بچوں نے رات بھوکے بسر کی۔ (اِیثَار) ”ترجیح دینا“ (اثرۃ) ”خود غرضی“ کی ضد ہے ایثار قابل تعریف وصف ہے اور خود غرضی مذموم ہے کیونکہ یہ بخل اور حرص کے خصائل کے زمرے میں آتی ہے اور جسے ایثار عطا کیا گیا اسے نفس کے بخل وحرص سے بچا لیا گیا ﴿ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ”اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچالیا گیا تو وہی لوگ فلاح یاب ہیں۔“ اور نفس کے حرص سے بچنے میں ایسے تمام امور میں حرص سے بچنا شامل ہے جن کا حکم دیا گیا ہے ،جب بندہ نفس کے حرص سے بچ گیا ،تو اس کے نفس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام آسان لگتے ہیں وہ خوشی سے سرتسلیم خم کرتے ہوئے انشراح صدر کے ساتھ ان کی تعمیل کرتا ہے، اور نفس کے لیے ان تمام امور کو ترک کرنا سہل ہوجاتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ،خواہ یہ نفس کے محبوب امور ہی کیوں نہ ہوں اور نفس اس کی طرف بلاتا اور ان کی طرف رغبت کیوں نہ دلاتا ہو۔ اس شخص کے نفس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنا آسان ہوجاتا ہے اور اسی سے فوزوفلاح حاصل ہوتی ہے، برعکس اس شخص کے جو نفس کے بخل وحرص سے بچا ہوا نہیں بلکہ بھلائی کے بارے میں حرص کی بیماری میں مبتلا ہے اور یہ حرص شر کی جڑ اور اس کی بنیاد ہے۔ پس اہل ایمان کی یہ دو فضیلت والی پاک اصناف ہیں اور وہ صحابہ کرام اور ائمہ اعلام ہیں جنہوں نے سابقیت کے اوصاف، فضائل اور مناقب کو جمع کرلیا ان کے بعد کسی نے ان سے سبقت نہیں کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھلائی میں پہلے لوگوں کو جالیا اور اس طرح وہ مومنوں کے سربراہ ،مسلمانوں کے سردار اور اہل تقوٰی کے قائدین بن گئے ۔ان کے بعد آنے والوں کے لیے یہی فضیلت کافی ہے کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں اور ان کے طریق کو راہ نما بنائیں ،اس لیے بعد میں آنے والوں میں سے جو کوئی ان کو راہ نما بناتا ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں فرمایا:
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aur yeh maal fey ) unn logon ka haq hai jo pehlay hi say iss jagah ( yani madina mein ) emaan kay sath muqeem hain , jo koi unn kay paas hijrat ker kay aata hai , yeh uss say mohabbat kertay hain , aur jo kuch unn ( mohajreen ) ko diya jata hai , yeh apney seenon mein uss ki koi khuwaish bhi mehsoos nahi kertay , aur unn ko apney aap per tarjeeh detay hain , chahye unn per tang dasti ki halat guzar rahi ho . aur jo log apni tabiyat kay bukhul say mehfooz hojayen , wohi hain jo falah paaney walay hain .