الانعام آية ۱۵۵
وَهٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَاتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ
طاہر القادری:
اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے،
English Sahih:
And this [Quran] is a Book We have revealed [which is] blessed, so follow it and fear Allah that you may receive mercy.
1 Abul A'ala Maududi
اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے، ایک برکت والی کتاب پس تم اِس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے
2 Ahmed Raza Khan
اور یہ برکت والی کتاب ہم نے اُتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو،
3 Ahmed Ali
یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری ہے سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
4 Ahsanul Bayan
اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیرو برکت والی (٢) سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔
١٥٥۔١ اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (اے کفر کرنے والوں) یہ کتاب بھی ہمیں نے اتاری ہے برکت والی تو اس کی پیروی کرو اور (خدا سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے
6 Muhammad Junagarhi
اور یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے بھیجا بڑی خیر وبرکت والی، سو اس کا اتباع کرو اور ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یہ (قرآن) بڑی بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے پس تم اس کی پیروی کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے یہ بڑی بابرکت ہے لہذا اس کا اتباع کرو اور تقوٰی اختیار کرو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے
9 Tafsir Jalalayn
اور (اے کفر کرنے والو) یہ کتاب بھی ہمیں نے اتاری ہے برکت والی۔ تو اس کی پیروی کرو اور (خدا سے) ڈرو تاکہ تم پر مہربانی کی جائے
آیت نمبر ١٥٥ تا ١٦٥
ترجمہ : اور یہ قرآن ایک بڑی خیر و برکت والی کتاب ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اے مکہ والو ! جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرکے اس کی اتباع کرو، اور کفر سے بچو تاکہ تم پر رحم کیا جائے اس کو نازل کیا تاکہ تم یہ نہ کہو سکو کہ کتاب تو ہم سے پہلے وہ فرقوں یہود و نصاریٰ پر نازل کی گئی تھی اور ہم ان کو پڑھنے پڑھانے سے ناواقف تھے ہماری زبان میں ان کتابوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ان کی معرفت حاصل نہ تھی (اِنْ ) مخففہ ہے اس کا اسم محذوف ہے ای اِنّا، یا یوں نہ کہو کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل کی گئی ہوتی تو ہم اپنی تیزی ذہانت کی وجہ سے زیادہ راہ راست پر ہوتے، سو اب تمہارے پاس رب کی جانب سے اس شخص کے لئے جو اس کی اتباع کرلے ایک (واضح) بیان اور ہدایت اور رحمت آچکی ہے، اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جس نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ؟ اور ان سے اعراض کیا، کوئی نہیں، ہم جلدی ہی ان لوگوں کو جو ہماری آیتوں سے اعراض کرتے ہیں بدترین یعنی سخت ترین عذاب دیں گے ان کے اعراض کرنے کی وجہ سے ان جھٹلانے والوں کو صرف اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس ان کی روحیں قبض کرنے کیلئے فرشتے آجائیں، (تاتیھم) یاء اور تاء کے ساتھ، یا اس کے پاس تیرا رب آجائے یعنی اس کا حکم بشکل عذاب آجائے یا آپ کے رب کی کوئی نشانی آجائے، جس دن آپ کے رب کی کوئی نشانی آجائے گی اور وہ مغرب کی جانب سے سورج کا نکلنا ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے، کسی شخص کو کسی ایسے شخص کا ایمان کام نہ آیئگا جو پہلے (دنیا میں) ایمان نہ لایا ہوگا (جملہ لم تکن) نفساً کی صفت ہے یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو یعنی اس کی توبہ اس کے کوئی کام نہ آئے گی ؛ جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے، ان سے کہہ دو ان اشیاء میں سے کسی ایک کا انتظار کرو، ہم بھی اس کے منتظر ہیں بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو اس میں اختلاف کرکے جدا جدا کرلیا بایں طور کر بعض کو لیا اور بعض کو ترک کردیا، اور اس میں گروہ گروہ ہوگے، اور ایک قراءت میں فارقوا ہے یعنی اپنے اس دین کو ترک کردیا جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اور وہ یہود و نصاریٰ ہیں، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا آپ ان سے تعرض نہ کریں (بس) ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے وہ دیکھ لے گا، پھر ان کو آخرت میں ان کے سب کرتوت بتادے گا کہ ان کو ان کے اعمال کی سزا دے گا یہ حکم آیت سیف (یعنی) حکم جہاد سے منسوخ ہے، جو شخص نیک کام کرے گا یعنی لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کرے گا تو اس کو دس گنا یعنی دس نیکیوں کے برابر اجر ملے گا اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائیگا یعنی ان کے اجر میں کچھ بھی کم نہ کیا جائیگا، آپ کہہ دیجئے کہ مجھے میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتادیا ہے بالکل ٹھیک دین اور دیناً قیماً (صراط) کے محل سے بدل ہے، جو ابراہیم (علیہ السلام) کا راستہ ہے جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کو نیوالوں میں نہی تھے، کہہ دو میری نماز اور میرے تمام مراسم عبادت حج وغیرہ اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے، اس میں جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی توحید کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اس امت میں سب سے پہلا ماننے والا ہوں آپ کہہ دیجئے کیا اللہ کے سوا کسی اور کو معبود بنانے کیلئے تلاش کروں یعنی اس کے غیر کو تلاش نہ کروں گا، حالانکہ وہ ہر شئ کا مالک ہے ہر شخص جو بھی بدی کرتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، اور کوئی گنہگار نفس کسی دوسرے نفس کا بوجھ نہ اٹھائیگا پھر تم سب کو تمہارے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے پھر وہ تم کو اس چیز کی حقیقت بتلا دے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے وہ وہی ہے جس نے تم کو زمین میں ایک دوسرے کا خلیفہ بنایا خلائف، خلیفہ کی جمع ہے اور ایک کو دوسرے پر مال و جاہ وغیرہ کے درجات میں فوقیت دی تاکہ تم کو عطا کردہ چیزوں میں آزمائے تاکہ فرمانبردار کر نافرمان سے ممتاز کرے یقیناً تیرا رب اپنی نافرمانی کرنے والوں کو بہت جلد سزا دینے والا ہے اور یقیناً وہ مومنین کی مغفرت کرنے والا ان پر رحم کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لِاَنْ لاَ تَقُوْلُوْا، لام اور لامقدر ماننے کا مقصد ایک سوال کا مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ اَنْ تَقُوْلُوْا، انزلناہ کا مفعول لہ واقع ہونا معنی درست نہیں ہے بلکہ عدم قول مفعول لہ ہے اسی سوال کے جواب کیلئے مفسر علام نے لام جارہ محذوف مان کر انزلناہ کی علت کے بیان کی جانب اشارہ کردیا اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ ان مصدریہ ہے یہی وجہ ہے کہ تقولوا سے نون حذف ہوگیا، کسائی اور فراء نے کہا ہے کہ ان تقولوا کی اصل لِان لا تقولوا ہے، حرف جار اور حرف نفی کو حذف کیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول یُبَیْنُ اللہ لکم اَن تضلوا، اس کی اصل لِئلا تضلوا تھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قول ” رَوَاسِی اَنْ تَمِیْدَ بکم کی اصل لِئلا تمیدَبکم تھی، شارح علیہ الرحمۃ نے اسی توجیہ کو اختیار فرمایا ہے اور بصریین نے حذف مضاف کی توجیہ اختیار کی ہے تقدیر عبارت یہ ہے انزلناہ کراھیۃَ اَنْ تقولوا بصریین کہتے ہیں کہ ’ لا ‘ کا حذف جائز نہیں ہے اسلئے کہ جئت اَنْ اکرمَکَ کہنا درست نہیں ہے بمعنی ان لا اکرمک۔
قولہ : او تقولوا اس کا عطف سابق اَنْ تقولوا پر ہے لہٰذا یہاں بھی لام اور لا مقدر ہوں گے۔
قولہ : اَلْجُمْلَۃُ صِفَۃُ نفساً ، اس میں اشارہ ہے کہ جملہ لم تکن آمنتْ لکم من قبل، نفساً کی صفت ہے نہ کہ ایمان کی جیسا کہ قرب سے بظاہر شبہ ہوتا ہے، اسلئے کہ ایمان کیلئے ایمان لازم آئیگا جو کہ محال ہے۔ (ترویح الارواح)
قولہ : اونَفْسًا لَمْ تَکُنْ ، اس میں اشارہ ہے کہ او کَسَبَتْ کا عطف آمَنَتْ پر ہے نہ کہ ایمانُھَا پر ہے۔
قولہ : ای لا تَنْفَعُھَا تَوْبَتُھا، اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : یہ آیت معتزلہ کے مذہب کی حقانیت پر دلالت کرتی ہے اسلئے کہ ان کے نزدیک ایمان مجرد عن الاعمال الصالحہ نافع نہ ہوگا۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ آیت لف تقدیری کے قبیل سے ہے، ای لا ینفع نفساً ایمانُھا ولا کَسبُھَا فی الایمان لم تکن آمنت من قبل او کسبت فیہ خیرًا۔
قولہ : جَزَاءُ عَشَرِ حَسَنَاتٍ اس عبارت میں مفسر علام نے فَلَہٗ عَشْرُ اَمثالھا “ میں عشر میں ترک تاء کی وجہ کی جانب اشارہ کیا ہے اسلئے کہ بظاہر عشرۃ امثالھا ہونا چاہیے اسلئے کہ مثل مذکر ہے، جواب کا حاصل یہ ہے کہ امثال معنی مؤنث ہے۔
قولہ : ویُبْدَلُ مِِنْ مَحَلِّہٖ ، ھدانی کا مفعول اول ھدانی کی یاء ہے اور مفعول ثانی الی صراط مستقیم ہے اور دینًا قیماً ، صراط کے محل سے بدل ہونے کی وجہ سے منصوب ہے نہ کہ مفعول ثانی جیسا کہ بعض حضرات کو یہ مغالطہ لاحق ہوا ہے۔
قولہ : اعطاکم اس میں اشارہ ہے کہ آتاکم ایتاء سے ہے نہ کہ اتیان سے۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : وَھٰذَا کتابٌ۔۔۔۔ (الآیۃ) گذشتہ آیات میں مشرکین کی بد عقیدگی اور خود ساختہ حلال و حرام کی پوری شدت کے ساتھ تردید کی گئی تھی، اسی سلسلہ میں بالواسطہ طور پر نبوت و رسالت کا ذکر آگیا تھا، ان آیات میں سمجھایا جا رہا ہے کہ انسان کی رہبری اور دارین کی سعادت و کامرانی کے لئے نبوت کا تاج کسی نہ کسی انسان کے سر پر رکھا جانا ضروری ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، پہلے بہت سے انبیاء گذر چکے ہیں جو سب کے سب انسان ہی تھے جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت معروف و مشہور ہیں آخر میں جناب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ہیں آخر ان کا انکار کس بناء پر کیا جاتا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو کتاب ہدایت عطا کی گئی ہے وہ بڑی خیر و برکت والی ہے اور تمہاری زبان میں ہے لہٰذا اس کا اتباع کرکے رحمت خداوندی کے مستحق بنو، قرآن کے نزول کے بعد اب تمہارے پاس یہ عذر بھی باقی نہیں رہا کہ تم یہ کہہ سکو کہ کتابیں تو پہلے دو فرقوں یہود و نصاری پر نازل ہوئی تھیں وہ چونکہ ہماری زبان میں نہیں تھیں اسلئے ہمیں کیا معلوم کہ اس میں کیا تھا، تمہاری زبان میں کتاب نازل کرکے حجت پوری کردی گئی اب روز قیامت تمہارا کوئی عذر مسموع نہیں ہوگا، آفتاب ہدایت کے طلوع ہونے اور رہبر اعظم کے آجانے کے بعد کیا اب ان لوگوں کو صرف ملائکہ موت ہی کا انتظار ہے خوب یاد رکھو موت کے وقت عالم غیب مشاہد ہوجانے کے بعد ایمان معتبر نہیں ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ وَهَـٰذَا﴾ ” اور یہ“ یعنی یہ قرآن عظیم اور ذکر حکیم ﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ ﴾” کتاب ہم نے اتاری ہے برکت والی۔“ یعنی اس کتاب کے اندر خیر کثیر اور بے انتہا علم ہے جس سے تمام علوم مدد لیتے ہیں اور اس سے برکات حاصل کی جاتی ہیں۔ کوئی ایسی بھلائی نہیں جس کی طرف اس کتاب عظیم نے دعوت اور ترغیب نہ دی ہو اور اس بھلائی کی حکمتیں اور مصلحتیں بیان نہ کی ہوں جو اس پر آمادہ کرتی ہیں اور کوئی ایسی برائی نہیں جس سے اس کتاب نے روکا اور ڈرایا نہ ہو اور ان اسباب اور عواقب کا ذکر نہ کیا ہو جو اس برائی کے ارتکاب سے باز رکھتے ہوں۔ ﴿ فَاتَّبِعُوهُ ﴾ ” پس اس کی پیروی کرو“ یعنی اس کے امرونہی میں اس کی اتباع کرو اور اس پر اپنے اصول و فروع بنیاد رکھو ﴿وَاتَّقُوا ﴾ ” اور ڈرو“ یعنی کسی بھی امر میں اللہ کی مخالت کرنے سے ڈرو ﴿لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ” تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یعنی اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو شاید تم پر رحم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا سب سے بڑا سبب علم و عمل کے اعتبار سے اس کتاب کی پیروی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( issi tarah ) yeh barkat wali kitab hai jo hum ney nazil ki hai . lehaza iss ki perwi kero , aur taqwa ikhtiyar kero , takay tum per rehmat ho