اور بیشک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے، پھر ہم نے ان کو (نافرمانی کے باعث) تنگ دستی اور تکلیف کے ذریعے پکڑ لیا تاکہ وہ (عجز و نیاز کے ساتھ) گِڑگڑائیں،
English Sahih:
And We have already sent [messengers] to nations before you, [O Muhammad]; then We seized them with poverty and hardship that perhaps they might humble themselves [to Us].
1 Abul A'ala Maududi
تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور اُن قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے تم سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے تو انہیں سختی اور تکلیف سے پکڑا کہ وہ کسی طرح گڑگڑائیں
3 Ahmed Ali
اور ہم نے تجھ سے پہلے بہت سی امتوں کے ہاں رسول بھیجےتھے پھر ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں پکڑا تاکہ وہ عاجزی کریں
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا، تاکہ وہ اظہار عجز کر سکیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے۔ پھر (ان کی نافرمانیوں کے سبب) ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے اور امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے گزر چکی ہیں پیغمبر بھیجے تھے، سو ہم نے ان کو تنگدستی اور بیماری سے پکڑا تاکہ وه اﻇہار عجز کرسکیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بلکہ اے رسول(ص) بے شک ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے اور ان کی نافرمانی پر پہلے تو ہم نے ان کو تنگدستی اور تکلیف میں مبتلا کیا۔ تاکہ تضرع و زاری کریں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ہم نے تم سے پہلے والی اُمتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑ گڑائیں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے (پھر انکی طرف نافرمانیوں کے سبب) ہم انھیں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے تاکہ عاجزی کریں۔ آیت نمبر ٤٢ تا ٥٠ ترجمہ : اور ہم نے تم سے پہلے (بہت سی) قوموں کی طرف رسول بھیجے تھے مِن زائدہ ہے تو انہوں نے ان کی تکذیب کی، تو ہم نے ان کی تنگدستی اور بیماری میں پکڑا تاکہ وہ ڈھیلے پڑجائیں (یعنی) عاجزی کریں اور ایمان لے آئیں سو جب ان کو ہمارا عذاب پہنچا تو انہوں نے عاجزی کیوں اختیار نہ کی ؟ یعنی انہوں نے عاجزی اختیار نہیں کہ حالانکہ اس کا مقتضی موجود تھا، لیکن ان کے قلوب (مزید) سخت ہوگئے جس کی وجہ سے ایمان لانے کیلئے نرم نہیں پڑے اور شیطان ان کے برے اعمال کو ان کی نظر میں آراستہ کرکے پیش کرتا رہا اور وہ ان ہی اعمال پر مصر رہے پھر جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو ان کو کی گئی تھی اور جس کے ذریعہ مصائب و آلام سے ڈرایا گیا تھا تو انہوں نے نصیحت حاصل نہ کی تو ہم نے ان کیلئے ڈھیل کے طور پر ہر قسم کی خوشحالی کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ بخششوں میں اترانے کے طور پر مگن مست ہوگئے تو ہم نے ان کو عذاب میں اچانک پکڑ لیا (تو اب صورت حال یہ ہوئی) کہ وہ ہر خیر سے ناامید ہوگئے چناچہ اس ظالم قوم کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی (یعنی) ان کے آخری فرد کی بھی جڑ کاٹ دی گئی، بایں طور کہ ان کو بالکلیہ جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا اور رسولوں کی نصر اور کافروں کی ہلاکت پر تعریف اللہ رب العالمین ہی کیلئے ہے، (اے محمد) اہل مکہ سے کہو تم مجھے بتاؤ اگر اللہ تمہاری قوت و سماعت لے لے (یعنی) تم کو بہرہ کر دے اور تمہاری بینائی سلب کرلے بایں طور کہ تم کو اندھا کر دے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے کہ تم کچھ نہ سمجھ سکو، اللہ کے سوا تمہارے خیال میں کون معبود ہے کہ سلب کردہ تمہاری ان قوتوں کو واپس دلا دے ؟ دیکھو ہم اپنی وحدانیت پر کس طرح بار بار دلائل پیش کر رہے ہیں پھر (بھی) وہ اس سے اعراض کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لاتے، آپ ان سے پوچھو کہ کبھی تم نے سوچا کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب اچانک یا علانیہ رات میں یا دن میں آجائے تو ظالموں کافروں کے سوا کون ہلاک ہوگا یعنی کافروں کے سوا کوئی ہلاک نہ ہوگا، ہم رسول صرف اسی لئے بھیجتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کو جنت کی خوشخبری سنائیں اور کافروں کو جہنم سے ڈرائیں، سو جو ان پر ایمان لایا اور اپنے عمل کی اصلاح کرلی ان کے لئے آخرت میں کسی خوف و رنج کا موقع نہیں اور جو ہماری آیتوں کو جھٹلائیں تو ان کو اپنے اعمال فاسقہ کی وجہ سے سزا بھگتنی ہی ہوگی، یعنی ان کے حد طاعت سے نکل جانے کی وجہ سے، (اے محمد) تم ان سے کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں جس میں سے وہ رزق دیتا ہے اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں یعنی جو مجھ سے غائب ہے اور حال یہ کہ میری طرف (اس کے بارے میں) وحی نہ بھیجی گئی ہو اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، پھر ان سے پوچھو کہ اندھا (یعنی) کافر، اور بینا (یعنی) مومن دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ نہیں، کیا تم اس میں غور نہیں کرتے ؟ کہ ایمان لے آؤ۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : مِن زائدۃٌ، مِن قَبْلِکَ میں مِن زائد ہے، اس لئے کہ ظرف حرف جر کا متقاضی نہیں ہے۔ قولہ : رُسُلاً ، یہ اَرْسَلْنا کا مفعول محذوف ہے۔ قولہ : فَکَذَبُوْھُمْ ۔ سوال : فکذبوھم محذوف ماننے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ جواب : تاکہ فاخذناھم، کی تفریح درست ہوجائے، تقدیر عبارت یہ ہوگی، ” وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا اَلی امم من قبلِکَ رُسُلاً فکذبوھم فاخذنٰھم “ ، ورنہ تو محض ارسال رسل پر مؤاخذہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قولہ : اخذہٗ منکم۔ سوال : اخذہٗ میں ضمیر کو واحد کس لئے لائے ہیں حالانکہ اس کا مرجع جمع ہے ؟ جواب : ماخوذ مذکور کی تاویل کی وجہ سے ضمیر واحد لائے ہیں۔ قولہ : بزعمکم، کا تعلق مَن الہٌ سے ہے، یعنی وہ اِلہٰ کہ جس کو تم الہٰ سمجھتے ہو۔ تفسیر و تشریح فَلَولاَ اِذْ جَاءَھم باسُنَا تضرعوا (الآیۃ) قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کا عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتا ہے پھر اسکے ہاتھ طلب مغفرت کیلئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے نہ ان کے دل اس بارگاہ میں جھکتے ہیں اور ان کے رخ اصلاح کی طرف مڑتے ہیں بلکہ اپنی بد اعمالیوں پر تاویلات اور توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتے ہیں، اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے اس کے لئے خوبصورت بنادیا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ﴾ ” اور ہم نے آپ سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے۔“ یعنی ہم نے سابقہ اور گزرے ہوئے زمانوں میں رسول بھیجے۔ انہوں نے ہمارے رسولوں کو جھٹلایا اور ہماری آیات کا انکار کیا﴿فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ﴾” ہم انہیں سختیوں اور تکلیفوں پر پکڑتے رہے۔“ یعنی ان پر رحم کرتے ہوئے فقر و مرض اور آفات و مصائب کے ذریعے سے ان کی گرفت کی ﴿لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ﴾ ” تاکہ وہ عاجزی کریں۔“ شاید کہ وہ اللہ کے پاس عاجزی سے گڑ گڑائیں اور سختی کے وقت اس کے پاس پناہ طلب کریں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) tum say pehlay hum ney boht si qoamon kay paas payghumber bhejay , phir hum ney ( unn ki nafarmani ki bana per ) unhen sakhtiyon aur takleefon mein girftaar kiya , takay woh ijz o niaz ka shewa apnayen .