الانعام آية ۹۵
اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰىۗ يُخْرِجُ الْحَىَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَىِّ ۗ ذٰ لِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
طاہر القادری:
بیشک اﷲ دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے وہ مُردہ سے زندہ کو پیدا فرماتا ہے اور زندہ سے مُردہ کو نکالنے والا ہے، یہی (شان والا) تو اﷲ ہے پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو،
English Sahih:
Indeed, Allah is the cleaver of grain and date seeds. He brings the living out of the dead and brings the dead out of the living. That is Allah; so how are you deluded?
1 Abul A'ala Maududi
دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا اللہ ہے وہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اور وہی مُردہ کو زندہ سے خارج کرتا ہے یہ سارے کام کرنے والا اللہ ہے، پھر تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو؟
2 Ahmed Raza Khan
بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو چیر نے والا ہے زندہ کو مردہ سے نکالنے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا یہ ہے اللہ تم کہاں اوندھے جاتے ہو
3 Ahmed Ali
بے شک الله دانے اور گٹھلی کا پھاڑنے والا ہے مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور زندہ سے مردہ نکالنے والا ہے الله یہی ہے پھر کدھر الٹے پھرے جا رہے ہو
4 Ahsanul Bayan
بیشک اللہ تعالٰی دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے (١) وہ جاندار کو بےجان سے نکال لاتا ہے (٢) اور وہ بےجان کو جاندار سے نکالنے والا ہے (٣) اللہ تعالٰی یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو۔
٩٥۔١ یہاں سے اللہ تعالٰی کی بےمثال قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے، فرمایا ;۔ اللہ تعالٰی دانے (حب) اور گھٹلی کو، جسے کاشتکار زمین کی طے میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے پانی بھی جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں، اس کے مطابق ہی اللہ تعالٰی مختلف قسم کے غلو اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرماتا دیتا ہے۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کر
سکتا ہو؟
٩٥۔٢ یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا پھیلتا ہے اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبو دار رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر یا سونگھ کر انسان فرحت و انبسات محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔
٩٥۔٣ یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کر دیتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بے شک خدا ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر (ان سے درخت وغیرہ) اگاتا ہے وہی جاندار کو بے جان سے نکالتا ہے اور وہی بےجان کا جاندار سے نکالنے والا ہے۔ یہی تو خدا ہے۔ پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو
6 Muhammad Junagarhi
بےشک اللہ تعالیٰ دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے واﻻ ہے، وه جاندار کو بے جان سے نکال ﻻتا ہے اور وه بے جان کو جاندار سے نکالنے واﻻ ہے اللہ تعالیٰ یہ ہے، سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک اللہ ہی ہے جو دانہ اور گھٹلی کو شگافتہ کرنے والا ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے یہ ہے اللہ تم کدھر بہکے جاتے ہو؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
خدا ہی وہ ہے جو گٹھلی اور دانے کا شگافتہ کرنے والا ہے -وہ لَردہ سے زندہ اور زندہ سے لَردہ کو نکالتا ہے. یہی تمہارا خدا ہے تو تم کدھر بہکے جارہے ہو
9 Tafsir Jalalayn
بیشک خدا ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ (کر ان سے درخت وغیرہ اگاتا) ہے۔ وہی جاندار کو بےجان سے نکالتا ہے اور وہی بےجان کا جان دار سے نکالنے والا ہے۔ یہی تو خدا ہے پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔
آیت نمبر ٩٥ تا ١٠٠
ترجمہ : بیشک بیج کو پھاڑ کر بناتات نکالنے والا اور گٹھلیوں کو چیر کو کھجور کے درخت نکالنے والا اللہ ہی ہے وہ جاندار کو بےجان سے جیسا کہ انسان اور پرندے کو نطفہ اور انڈے سے اور بےجان کو مثلاً نطفہ اور انڈے کو جاندار سے نکالنے والا ہے یہ شق کرنے والا نکالنے والا اللہ ہے تو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو تو تم دلیل کے موجود ہونے کے باوجود کس طرح ایمان سے پھرے جا رہے ہو، وہ (پردہ شب کو چیر کر) صبح کو نکالنے والا ہے (الاصباح) مصدر بمعنی صبح ہے یعنی وہ ستون صبح (صبح کاذب) کو چاک کرنے والا ہے اور ستون صبح تاریکی شب سے نکلنے والی دن کی اس روشنی کو کہتے ہیں جو ابتداء نمودار ہوتی ہے اور رات کو راحت کی چیز بنایا کہ اس میں مخلوق تعب سے راحت حاصل کرتی ہے اور ضبط اوقات کیلئے سورج اور چاند کا حساب مقرر کیا نصب کے ساتھ اللَّیل کے محل پر عطف ہے یا باء محذوف ہے (ای بحُسْبَان) اس صورت میں مقدر سے حال ہوگا ای یجریان بحُسْبَان، جیسا کہ سورة رحمٰن میں ہے یہ مذکورہ (حساب) اپنے ملک میں غالب اپنی مخلوق کے بارے میں باخبر کا مقرر کیا ہوا ہے اور وہ ایسا ہے کہ جس نے تمہارے لئے تاروں کو پیدا فرمایا تاکہ تم ان کے ذریعہ بحروبر کی ظلمت میں سفر کے دوران رہنمائی حاصل کرو بیشک ہم نے ہماری قدرت پر دلالت کرنے والے دلائل کو کھول کھول کر بیان کیا ایسے لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے تم کو شخص واحد سے پیدا کیا (اور) وہ آدم ہیں، سو رحم (مادر) تمہارے لئے قرار گاہ ہے اور (صلب پدر) تمہارے لئے امانت گاہ، اور ایک قراءت میں قاف کے فتحہ کے ساتھ ہے یعنی تمہارے لئے جائے قرار، بیشک ہم نے دلائل کو سمجھدار لوگوں کیلئے کھول کھول کر بیان کردیا وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے آسمان (بادلوں) سے پانی برسایا اس میں غائب سے (تکلم کی جانب) التفات ہے اور اس پانی کے ذریعہ اگنے والی ہر قسم کی نبات اگائی پھر ہم نے اس نبات سے ہری بھری ایک چیز (کھیتی) اگائی، خضراً بمعنی اخضر ہے ہم نے اس کھیتی سے تہ بر تہ جمے ہوئے دانے پیدا کئے کہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھے رہتے ہیں جیسا کہ گندم وغیرہ کے خوشے، اور کھجور کے شگوفے (من النخل) خبر (مقدم) ہے اور من طلعھا، اس سے بدل ہے، (طلعٌ) اس شئ کو کہتے ہیں جو ابتداء کھجور کے درخت سے اپنے غلافوں سے نکلتی ہے اور قنوان دانیۃ مبتداء مؤخر ہے، قِنْوَان بمعی عراجین ہے بمعنی شاخ عَرَاجین عَرجون کی جمع ہے جس کے معنی شاخ کے ہیں جو جھکی ہوئی شاخوں میں ہوتے ہیں ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں اور ہم نے پانی سے انگوروں کے اور زیتون کے اور انار کے باغات پیدا کئے کہ ان دونوں کے پتے ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں (مشتبِھاً ) حال ہے اور ان کے پھل مشابہ نہیں ہوتے، اے مخاطبو ! اس کے پھلوں کو چشم عبرت سے دیکھو (ثمر) میں ثاء اور میم کے فتحہ اور دونوں کے ضمہ کے ساتھ ہے یہ ثَمَرَۃٌ کی جمع ہے جیسے شَجَرَۃٌ کی جمع شَجَرٌ ہے، اور خَشَبَۃٌ کی جمع خُشُبٌ ہے کہ جب وہ اول مرتبہ پھل لاتا ہے تو وہ کیسا ہوتا ہے ؟ اور اس کے پکنے (کی حالت) کو دیکھو کہ جب وہ قابل استفادہ ہوجائے تو کیسا ہوجاتا ہے ؟ ! بلاشبہ اس میں ایمان والوں کیلئے بعث بعد الموت وغیرہ کے دلائل ہیں، مومنین کا ذکر خاص طور پر اسلئے کیا ہے کہ کافروں کے خلاف مومنین میں دلائل سے ایمان کے بارے میں استفادہ کرتے ہیں اور لوگوں نے جنات کو اللہ کا شریک قرار دے رکھا ہے، اَللہ جَعَلُوا کا مفعول ثانی ہے اور شرکاء مفعول اول ہے اور الجنَّ ۔ شرکاء سے بدل ہے، اس لئے کہ انہوں نے بتوں کی پرستش کرنے میں ان کی اطاعت کی ہے حالانکہ (خود) ان لوگوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو جنات اس کے شریک کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اور ان لوگوں نے اللہ کیلئے بغیر سمجھے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لئے ہیں، (خرقوا) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے اسلئے کہ انہوں نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اللہ اس سے پاک ہے اور ان اوصاف سے برتر ہے جو یہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی اولاد ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : یُخرِجُ الحیَّ مِنَ المیّت، یہ جملہ کلام مستانف قائم ما قبل کی علت کے ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اِنَّ کی۔۔۔ ثانی ہو، اور حیّ سے ہر وہ شئ مراد ہے جس میں نموہو خواہ ذی روح ہو یا نہ ہو، اور میت سے ہر شئ مراد ہے جس میں۔۔۔ نہ ہو۔
قولہ : مُخْرِج، اس کا عطف فالِقٌ پر ہے، اس لئے یخرج کے بجائے مخرج اسم فاعل کا صیغہ لائے ہیں تاکہ عطف درست ہوجائے اور یُخرِجُ الحیَّ مِنَ المیّت، فالق الحبّ والنویٰ کا بیان ہے اسی لئے واؤ کو ترک کرکے یُخرِجُ کہا ہے۔
سوال : و مخرج المیتِ مِنَ الحیّ ، بیان واقع کیوں نہیں ہوسکتا ؟ جواب : اس لئے کہ فالق الحب والنویٰ ، اِخْراجُ الحیّ من المیت کی جنس سے ہے نہ کہ اس کا عکس حالانکہ بیان اور مبین کے مفہوم میں مطابقت ضروری ہے۔
قولہ : فکیفَ تصرفون الخ، اَنّیٰ تؤفکون کی تفسیر کیف تصرفون سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ استفہام انکاری ہے۔
قولہ : مصدرٌ یعنی الاصباح، افعال کا مصدر ہے جس کے معنی دخول فی الصبح کے ہیں مگر یہاں یہ معنی مراد نہیں ہیں بلکہ مراد نفس صبح ہے، مصدر بول کر مصدر کا اثر یعنی صبح مراد ہے، اور کو فیین کے نزدیک جاعل کے بجائے جَعَل ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک فعل کا عطف اسم پر جائز ہے۔ قولہ : عَلیٰ مَحَلِّ اللَیْلِ ، لیل کا محل جاعل کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : ھو حَالٌ مِنَ المُقَدَّرِ ، یعنی حسبان، یَجْریانِ مقدر سے حال ہے، اگر مفسر علام مقدر سے حال ہے کے بجائے مقدر سے متعلق ہے، فرماتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ قولہ : قِنْوانٌ، یہ قِنْوٌ کی جمع ہے بمعنی خوشہ۔
تفسیر و تشریح
گذشتہ آیات میں مشرکین کی ہٹ دھرمی اور حقائق و نتائج سے غفلت کا تذکرہ تھا، اور اب ان کاموں کا تذکرہ ہے جو تمام خرابیوں کی جڑ ہے وہ ہے خدا تعالیٰ کی بےمثال علم وقدرت سے بیخبر ی، مذکورہ آیات میں حق تعالیٰ نے غافل انسان کے اس روگ کا علاج اس طرح فرمایا ہے کہ اپنے وسیع اور عظیم قدرت کے چند نمونے اور انسان پر اپنے انعامات و احسانات کا ایک سلسلہ ذکر فرمایا جن میں ادنی غور کرنے سے ہر سلیم الفطرت انسان خالق کائنات کی عظمت اور بےمثال قدرت کا اور اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ عظیم الشان کارنامے ساری کائنات میں سوائے خدائے تعالیٰ کے کسی کی قدرت میں نہیں۔
اِنَّ اللہ فالق الحب والنویٰ ، اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بےمثال قدرت اور صناعی کے نمونے بیان فرمائے ہیں، دانہ اور گٹھلی جس کا شکار زمین کی تہ میں دبا دیتا ہے اس کو پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے، جبکہ زمین ایک، پانی ایک، کھاد ایک ہوتا ہے مگر جس قسم کے دانے اور گٹھلیاں ہوتی ہیں اس کے مطابق ہی اللہ مختلف قسم کے غلوں، پھلوں کے درخت پیدا فرما دیتا ہے جن کے پھلوں کے رنگ و بو و مزہ میں بین تفاوت ہوتا ہے، یہ خدا کی قدرت ہی کا کرشمہ ہے۔
مطلب یہ کہ جمادات، نباتات، حیوانات غرضیکہ تمام موجودات کا نظام تکوینی و تخلیقی کلیۃً اسی کے ہاتھ میں ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی دیوی دیوتا یا مزار و آستانہ کی طرف متوجہ ہونا کس درجہ کا حمق اور بےدانشی ہے۔ ! ! یہ عظیم الشان کا رخانہ حیات یہ نظام ارضی اور نظام فلکی یوں ہی کیف ما اتقق الل ٹپ نہیں چل رہا، اس کے قانون اور ضابطہ کے مطابق چل رہا ہے جو ہر قادر پر قادر ہے جس کی راہ ہر رکاوٹ سے خالی ہے، اور ساتھ ہی وہ ایسا علیم ہے کہ ہر علم و حکمت کا ابتداء وہی ہے۔ وہ پردہ شب سے نور صبح کو برآمد کرنے والا ہے، رات کی پر سکون کیفیت، سورج اور چاند کی نپی تلی گردش بےانتہاء مصلحتوں اور حکمتوں سے لبریز ہے اور ان کی شرح رفتار و مقدار سب اسی قادر مطلق کے دست قدرت میں ہے اس کی موجودگی میں کسی دیوی دیوتا یا کسی حاجت روا اور مشکل کشا کو فرض کرنا خرافات کی انتہاء ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کمال، عظمت سلطان، قوت اقتدار، وسعت رحمت، بے پایاں فضل و کرم اور اپنی مخلوق کے ساتھ انتہائی عنایت کے بارے میں، خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿إِنَّ اللَّـهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ﴾ ” بے شک اللہ پھاڑ نکلتا ہے دانہ اور گٹھلی“ یہاں دانہ ہرقسم کے اناج کے دانوں کو شامل ہے جن کو عام طور پر لوگ کاشت کرتے ہیں اور وہ بھی جن کو کاشت نہیں کیا جاتا مثلاً وہ دانے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے صحراؤں اور بیابانوں میں بکھیر دیئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کھیتوں اور مختلف انواع و اشکال و منفعت والی نباتات کے بیجوں کو پھاڑتا ہے اور درختوں کی نوع میں کھجور اور دیگر پھلوں کی گٹھلی کو جس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق، انسان، مویشی اور دیگر جانور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ بیج اور گٹھلی سے جو کچھ اگاتا ہے یہ اسے کھاتے ہیں اور اس سے اپنی خوراک اور ہر قسم کی منفعت حاصل کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اس میں مقرر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و احسان کی جھلک دکھاتا ہے جس سے عقل ششدر اور بڑے بڑے اصحاب فضیلت حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ ان کو اپنی انوکھی صنعت گری اور اپنی حکمت کا کمال دکھاتا ہے جس کے ذریعے سے وہ اسے پہچانتے ہیں اور اسے ایک مانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ حق ہے اور اس کے سواہر ہستی کی عبادت باطل ہے۔
﴿ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ﴾ ” وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے“ مثلاً وہ منی سے حیوان اور انڈے سے چوزہ پیدا کرتا ہے، دانے اور گٹلھی سے اناج اور درخت پیدا کرتا ہے ﴿وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ ﴾ ” اور مردہ کو نکالتا ہے“ میت سے مراد وہ تمام اشیا ہیں جو نشو و نما کی صلاحیت سے محروم ہوں یا ان کے اندر روح نہ ہو ﴿مِنَ الْحَيِّ﴾ ” زندہ سے“ مثلاً درختوں اور کھیتیوں سے گٹھلیاں اور دانے پیدا کرتا اور پرندے سے انڈہ نکالتا ہے۔
﴿ذَٰلِكُمُ﴾ ”وہ ہستی‘‘ جو یہ تمام افعال سر انجام دیتی ہے اور ان اشیاء کی تخلیق اور تدبیر میں منفرد ہے وہ ﴿ اللَّـهُ رَبَّكُمُ﴾ ” اللہ ہے، رب تمہارا“ تمام مخلوق پر فرض ہے کہ وہ اس کی الوہیت و عبودیت کو تسلیم کرے جس نے اپنی نعمتوں کے ذریعے سے تمام جہانوں کی ربوبیت فرمائی اور اپنے فضل و کرم سے ان کو غذا مہیا کی ﴿فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾” پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟“ یعنی تم کہاں پھرے جاتے ہو اور جو اس شان کا مالک ہے اس کی عبادت کو چھوڑ کر ایسی ہستیوں کی عبادت کرتے ہو جو خود اپنے لئے کسی نفع و نقصان، موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے پر قادر نہیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے غذاؤں کی تخلیق کے مادے کا ذکر فرمایا تو اب اس احسان کا ذکر کیا جو اس نے مساکن مہیا کر کے مخلوق پر کیا ہے اور ہر وہ چیز تخلیق کر کے جس کے بندے محتاج ہوتے ہیں، مثلاً روشنی، تاریکی اور وہ تمام منافع اور مصالح جو اس پر مترتب ہوتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
beyshak Allah hi daney aur guthli ko phaarney wala hai . woh jandaar cheezon ko bey jaan cheezon say nikal lata hai , aur wohi bey jaan cheezon ko jandaar cheezon say nikalney wala hai . logo ! woh hai Allah ! phir koi tumhen behka ker kiss ondhi taraf liye jaraha hai ?
12 Tafsir Ibn Kathir
اس کی حیرت ناک قدرت
دانوں سے کھیتیاں بیج اور گٹھلی سے درخت اللہ ہی اگاتا ہے تم تو انہیں مٹی میں ڈال کر چلے آتے ہو وہاں انہیں اللہ تعالیٰ پھاڑتا ہے۔ کونپل نکالتا ہے پھر وہ بڑھتے ہیں قوی درخت بن جاتے ہیں اور دانے اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ پھر گویا اسی کی تفسیر میں فرمایا کہ زندہ درخت اور زندہ کھیتی کو مردہ بیج اور مردہ دانے سے وہ نکالتا ہے جیسے سورة یٰسین میں ارشاد ہے آیت (وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ښ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ ) 36 ۔ یس :33) مخرج کا عطف فالق پر ہے اور مفسرین نے دوسرے انداز سے ان جملوں میں ربط قائم کیا ہے لیکن مطلب سب کا یہی ہے اور اسی کے قریب قریب ہے، کوئی کہتا ہے مرغی کا انڈے سے نکلنا اور مرغ سے انڈے کا نکلنا مراد ہے۔ بد شخص کے ہاں نیک اولاد ہونا اور نیکوں کی اولاد کا بد ہونا مراد ہے۔ وغیرہ۔ آیت درحقیقت ان تمام صورتوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ پھر فرماتا ہے ان تمام کاموں کا کرنے والا اکیلا اللہ ہی ہے پھر کیا وجہ کہ تم حق سے پھرجاتے ہو ؟ اور اس لا شریک کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو ؟ وہی دن کی روشنی کا لانے والا اور رات کے اندھیرے کا پیدا کرنے والا ہے۔ جیسے کہ اس سورت کے شروع میں فرمایا تھا کہ وہی نور و ظلمت کا پیدا کرنے والا ہے۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دن کی نورانیت سے بدل دیتا ہے۔ رات اپنے اندھیروں سمیت چھپ جاتی ہے اور دن اپنی تجلیوں سمیت کائنات پر قبضہ جما لیتا ہے، جیسے فرمان ہے وہی دن رات چڑھاتا ہے۔ الغرض چیز اور اس کی ضد اس کے زیر اختیار ہے اور یہ اس کی بےانتہا عظمت اور بہت بڑی سلطنت پر دلیل ہے۔ دن کی روشنی اور اس کی چہل پہل کی ظلمت اور اس کا سکون اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (وَالضُّحٰى ۙ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى ۙ ) اور جیسے اس آیت میں فرمایا آیت (وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى ۙ وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى ۙ ) 92 ۔ اللیل :1-2) اور آیت میں ہے (وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا ۽ وَاللَّيْلِ اِذَا يَغْشٰـىهَا ۽) 91 ۔ والشمس :3-4) ان تمام آیتوں میں دن رات کا اور نور و ظلمت روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے حضرت صہیب رومی (رح) سے ایک بار ان کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ رات ہر ایک کے لئے آرام کی ہے لیکن میرے خاوند حضرت صہیب کے لئے وہ بھی آرام کی نہیں اس لئے کہ وہ رات کو اکثر حصہ جاگ کر کاٹتے ہیں۔ جب انہیں جنت یاد آتی ہے تو شوق بڑھ جاتا ہے اور یاد اللہ میں رات گزار دیتے ہیں اور جب جہنم کا خیال آجاتا ہے تو مارے خوف کے ان کی نیند اڑ جاتی ہے۔ سورج چاند اس کو مقرر کئے ہوئے اندازے پر برابر چل رہے ہیں کوئی تغیر اور اضطراب اس میں نہیں ہوتا ہر ایک کی منزل مقرر ہے جاڑے کی الگ گرمی کی الگ اور اسی اعتبار سے دن رات ظاہر ہوتے ہیں چھوٹے اور بڑے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت (ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ ) 10 ۔ یونس :5) اسی اللہ نے سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا ہے ان کی منزلیں مقرر کردی ہیں اور آیت میں ہے (لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ) 36 ۔ یس :40) نہ تو آفتاب ہی سے بن پڑتا ہے کہ چاند کو جا لے اور نہ رات دن پر سبق لے سکتی ہے ہر ایک اپنے فلک میں تیرتا پھرتا ہے اور جگہ فرمایا سورج چاند ستارے سب اس کے فرمان کے ما تحت ہیں۔ یہاں فرمایا یہ سب اندازے اس اللہ کے مقرر کردہ ہیں جسے کوئی روک نہیں سکتا جس کے خلاف کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ جو ہر چیز کو جانتا ہے جس کے علم سے ایک ذرہ باہر نہیں۔ زمین و آسمان کی کوئی مخلوق اس سے پوشیدہ نہیں۔ عموماً قرآن کریم جہاں کہیں رات دن سورج چاند کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے وہاں کلام کا خاتمہ اللہ جل و علا نے اپنی عزت و علم کی خبر پر کیا ہے جیسے اس آیت میں اور (واٰیتہ لھم اللیل) میں اور سورة حم سجدہ کی شروع کی آیت (وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ) 41 ۔ فصلت :12) میں۔ پھر فرمایا ستارے تمہیں خشکی اور تری میں راہ دکھانے کے لئے ہیں بعض سلف کا قول ہے کہ ستاروں میں ان تین فوائد کے علاوہ اگر کوئی اور کچھ مانے تو اس نے خطا کی اور اللہ پر چھوٹ باندھا ایک تو یہ کہ یہ آسمان کی زینت ہیں دوسرے یہ شیاطین پر آگ بن کر برستے ہیں جبکہ وہ آسمانوں کی خبریں لینے کو چڑھیں تیسرے یہ کہ مسافروں اور مقیم لوگوں کو یہ راستہ دکھاتے ہیں۔ پھر فرمایا ہم نے عقلمندوں عالموں اور واقف کار لوگوں کیلئے اپنی آیتیں بالتفصیل بیان فرما دی ہیں۔