اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی تم سے چھوٹ کر کافروں کی طرف چلی جائے پھر (جب) تم جنگ میں غالب آجاؤ اور مالِ غنیمت پاؤ تو (اس میں سے) ان لوگوں کو جن کی عورتیں چلی گئی تھیں اس قدر (مال) ادا کر دو جتنا وہ (اُن کے مَہر میں)خرچ کر چکے تھے، اور اُس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو،
English Sahih:
And if you have lost any of your wives to the disbelievers and you subsequently obtain [something], then give those whose wives have gone the equivalent of what they had spent. And fear Allah, in whom you are believers.
1 Abul A'ala Maududi
اور اگر تمہاری کافر بیویوں کے مہروں میں سے کچھ تمہیں کفار سے واپس نہ ملے اور پھر تمہاری نوبت آئے تو جن لوگوں کی بیویاں ادھر رہ گئی ہیں اُن کو اتنی رقم ادا کر دو جو اُن کے دیے ہوئے مہروں کے برابر ہو اور اُس خدا سے ڈر تے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر مسلمانوں کے ہاتھ سے کچھ عورتیں کافروں کی طرف نکل جائیں پھر تم کافروں کو سزا دو تو جن کی عورتیں جاتی رہی تھیں غنیمت میں سے انہیں اتنا دیدو جو ان کا خرچ ہوا تھا اور اللہ سے ڈرو جس پر تمہیں ایمان ہے،
3 Ahmed Ali
اور اگرکوئی عورت تمہاری عورتوں میں سے کفار کے پاس نکل گئی ہے پھر تمہاری باری آجائے تو ان مسلمانو ں کو دے دو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں جتنا کہ انہوں نے دیا تھا اوراس الله سے ڈرو کہ جس پر تم ایمان لائے ہو
4 Ahsanul Bayan
اور اگر تمہاری کوئی بیوی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور کافروں کے پاس چلی جائے پھر تم اس کے بدلے کا وقت مل جائے (١) تو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں انہیں ان کے اخراجات کے برابر ادا کر دو، اور اس اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔
١١۔١ فعاقبتم ۔ پس تم سزا دو یا بدلہ لو۔ کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ مسلمان ہو کر آنے والی عورتوں کے حق مہر، جو تمہیں ان کے کافر شوہروں کو ادا کرنے تھے، وہ تم ان مسلمانوں کو دے دو، جن کی عورتیں کافر ہونے کی وجہ سے کافروں کے پاس چلی گئی ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو مہر ادا نہیں کیا (یعنی یہ بھی سزا کی ایک صورت ہے) دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تم کافروں سے جہاد کرو اور جو مال غنیمت حاصل ہو اس میں تقسیم سے پہلے ان مسلمانوں کو، جن کی بیویاں دارالکفر چلی گئی ہیں، ان کے خرچ کے بقدر ادا کردو، گویا مال غنیمت سے مسلمانوں کے نقصان کا (ازالہ) یہ بھی سزا ہے (ایسر التفاسیر و ابن کثیر) اگر مال غنیمت سے بھی ازالہ کی صورت نہ ہو تو بیت المال سے تعاون کیا جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے (اور اس کا مہر وصول نہ ہوا ہو) پھر تم ان سے جنگ کرو (اور ان سے تم کو غنیمت ہاتھ لگے) تو جن کی عورتیں چلی گئی ہیں ان کو (اس مال میں سے) اتنا دے دو جتنا انہوں نے خرچ کیا تھا اور خدا سے جس پر تم ایمان لائے ہو ڈرو
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر تمہاری کوئی بیوی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور کافروں کے پاس چلی جائے پھر تمہیں اس کے بدلے کا وقت مل جائے تو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں انہیں ان کے اخراجات کے برابر ادا کر دو، اور اس اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی (کفر یا ارتداد کی وجہ سے) کافروں کے پاس چلی جائے پھر تم ظفریاب ہو جاؤ (تو مالِ غنیمت میں سے) ان لوگوں کو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں اتنا مال دو جتنا انہوں نے خرچ کیا ہو اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر تمہاری کوئی بیوی کفاّر کی طرف چلی جائے اور پھر تم ان کو سزا دو تو جن کی بیوی چلی گئی ہے ان کا خرچ مال غنیمت میں سے دے دو اور اس اللہ سے بہرحال ڈرتے رہو جس پر ایمان رکھنے والے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے (اور اسکا مہر وصول نہ ہوا ہو) پھر تم ان سے جنگ کرو (اور ان سے تم کو غنیمت ہاتھ لگے) تو جن کی عورتیں چلی گئی ہیں ان کو (اسی مال میں سے) اتنا دے دو جتنا انہوں نے خرچ کیا تھا اور خدا سے جس پر تم ایمان لائے ہو ڈرو۔ وان قاتکم شیء من ازواجکم الی الکفار فعاقبتم (الآیۃ) اس معاملہ کی دو صورتیں تھیں ایک صورت یہ تھی کہ جن کفار سے مسلمانوں کے معامہدانہ تعلقات تھے ان سے مسلمانوں نے یہ معاملہ طے کرنا چاہا کہ جو عورتیں ہجرت کر کے ہماری طرف آگئی ہیں ان کی مہر ہم واپس کردیں گے اور ہمارے آدمیوں کی جو کافر بیویاں ادھر رہ گئی ہیں ان کے مہر تم واپس کردو، لیکن انہوں نے اس بات کو قبول نہ کیا، چناچہ امام زہری بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے مسلمان ان عورتوں کا مہر ادا کرنے کے لئے تیار ہوگئے جو مشرکین کے پاس مکہ میں رہ گئی تھیں، مگر مشرکوں نے ان کے مہر دینے سے انکار کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مہاجر عورتوں کے جو مہر تمہیں مشرکین کو واپس کرنے ہیں وہ ان کو بھیجنے کے بجائے مدینہ ہی میں جمع کر لئے جائیں اور جن لوگوں کو مشرکین سے اپنے دیئے ہوئے مہر واپس لینے ہیں ان میں سے ہر ایک کو اتنی رقم دے دی جائے جو اسے کفار سے ادا ہونی چاہیے تھی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تم کافروں سے جہاد کرو اور جو مال غنیمت حاصل ہو اس میں سے تقسیم سے پہلے ان مسلمانوں کو جن کی بیویاں دارالکفر چلی گئی ہیں ان کے خرچ کے بقدر ادا کردو۔ (ایسر التفاسیر وابن کثیر) اگر مال غنیمت سے بھی تلافی کی صورت نہ ہو تو بیت المال سے تعاون کیا جائے۔ (ایسر التفاسیر) کیا مسلمانوں کی کچھ عورتیں مرتد ہو کر مکہ چل گئی تھیں ؟ ایسا واقعہ بعض حضرات کے نزدیک صرف ایک ہی پیش آیا تھا، حضرت عیاض بن غنم (رض) قریش کی بیوی ام الحکم بنت ابی سفیان مرتد ہو کر مکہ مکرمہ چلی گئی تھی اور پھر یہ بھی اسلام کی طرف لوٹ آئی (معارف) حضرت ابن عباس (رض) نے کل چھ عورتوں کا اسلام سے انحراف اور کافر کے ساتھ مل جانا ذکر کیا ہے، جن میں سے ایک تو یہی ام الحکم بنت ابی سفیان تھی، باقی پانچ عورتیں جو ہجرت کے وقت ہی مکہ میں رک گئی تھیں اور پہلے ہی سے کافرہ تھیں، جب قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی جس نے مسلم و کافرہ کے نکاح کو توڑ دیا، اس وقت بھی وہ مسلمان ہونے کے لئے تیار نہ ہوئیں، اس کے نتیجے میں یہ بھی ان عورتوں میں شمار کی گئیں جن کا مہران کے مسلمان شوہروں کو کفار مکہ کی طرف سے واپس ملنا چاہیے تھا، جب انہوں نے بھی دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت سے ان کا حق ادا کیا، (قرطبی) اور بغوی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے بروایت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ باقی پانچ عورتیں جو اس میں شمار کی گئی تھیں وہ بھی بعد میں مسلمان ہوگئیں۔ (مظہری)
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَاِنْ فَاتَکُمْ شَیْءٌ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ اِلَی الْکُفَّارِ﴾ ”اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے ۔“اس سبب سےکہ وہ مرتد ہو کر واپس چلی گئی ہو۔ ﴿ فَعَاقَبْتُمْ فَاٰتُوا الَّذِیْنَ ذَہَبَتْ اَزْوَاجُہُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْا ﴾ ”تو تم (مال غنیمت میں سے) ان کو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں اتنا مال دے دو جتنا انہوں نے خرچ کیا۔“ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ جب کفار مسلمانوں سے اس مہر کا بدل وصول کرتے تھے جو ان کی بیویوں کے پاس مسلمانوں کی طرف چلا جاتا تھا ،تو مسلمانوں میں سے کسی کی بیوی کفار کے پاس چلی جائے اور وہ اس سے محروم ہوجائے ،تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ غنیمت میں سے اسے اس مال کا بدل عطا کریں جو مہر کی صورت میں اس نے اپنی بیوی پر خرچ کیا تھا۔ ﴿وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ﴾ ”اور تم اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔“ یعنی اللہ تعالیٰ پر تمہارا ایمان تم سے تقاضا کرتا ہے کہ تم دائمی طور پر تقوٰی کا التزام کرو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar tumhari biwiyon mein say koi kafiron kay paas jaker tumharay haath say nikal jaye , phir tumhari noabat aaye to jinn logon ki biwiyan jati rahi hain , unn ko itni raqam ada kerdo jitni unhon ney ( apni unn biwiyon per ) kharch ki thi , aur Allah say dartay raho jiss per tum emaan laye ho .