التغابن آية ۱۱
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِۗ وَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗۗ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ
طاہر القادری:
(کسی کو) کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اللہ کے حکم سے اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے تو وہ اُس کے دل کو ہدایت فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے،
English Sahih:
No disaster strikes except by permission of Allah. And whoever believes in Allah – He will guide his heart. And Allah is Knowing of all things.
1 Abul A'ala Maududi
کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے
2 Ahmed Raza Khan
کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اللہ کے حکم سے، اور جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت فرمادے گا اور اللہ سب کچھ جانتا ہے،
3 Ahmed Ali
الله کے حکم کے بغیر کوئی مصیبت بھی نہیں آتی اور جو الله پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور الله ہر چیز جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
کوئی مصیبت اللہ کے بغیر نہیں پہنچ سکتی (١) جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے (۲) اور اللہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔
١١۔١ یعنی اس کی تقدیر اور مشیت سے ہی اس کا ظہور ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے نزول کا سبب کفار کا یہ قول ہے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو دنیا کی مصیبتیں انہیں نہ پہنچتیں (فتح القدیر)
۱۱۔۲ یعنی وہ جان لیتا ہے کہ اسے جو کچھ پہنچا ہے اللہ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہی پہنچا ہے پس وہ صبر اور رضا بالقضاء کا مظاہرہ کرتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر خدا کے حکم سے۔ اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ اور خدا ہر چیز سے باخبر ہے
6 Muhammad Junagarhi
کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی، جو اللہ پر ایمان ﻻئے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
کوئی مصیبت (کسی پر) نہیں آتی مگر اللہ کے اذن و اجازت سے اور جو شخص اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو صحیح راستہ دکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی ہے مگر خدا کی اجازت سے اور جو صاحبِ ایمان ہوتا ہے خدا اس کے دل کی ہدایت کردیتا ہے اور خدا ہر شے کا خوب جاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر خدا کے حکم سے۔ اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے وہ اسکے دل کو ہدایت دیتا ہے اور خدا ہر چیز سے باخبر ہے۔
ترجمہ : کوئی مصیبت قضاء الٰہی کے بغیر نہیں پہنچ سکتی جو اللہ پر اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ مصیبت تقدیر الٰہی ہی سے آتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اس مصیبت پر صبر کی ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر شئے کا جاننے والا ہے (اے لوگو ! ) اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اگر تم روگردانی کرو گے تو ہمارے رسولوں پر تو صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے، اللہ معبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں، اے ایمان والو ! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہو کہ خیر سے پیچھے رہنے میں ان کی بات نہ مانو، مثلاً جہاد و ہجرت (وغیرہ میں) آیت کے نزول کا سبب ان باتوں میں اطاعت کرنا ہے اور اگر تم ان کو اس خیر سے تم کو روکنے کو معاف کردو حال یہ ہے کہ وہ تمہاری جدائی کی علت جدائی کی مشقت بیان کریں، اور درگزر کردو، اور معاف کردو تو اللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے، تمہارے مال اور تمہاری اولاد سراسر تمہاری آزمائش ہیں اور اللہ کے پاس بڑا اجر ہے لہٰذا مال و اولاد میں مشغول ہو کر اس کو فوت نہ کرو جس قدر ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو یہ آیت اتقوا اللہ حق تقاتہ کے لئے ناسخ ہے، اور جس بات کا تم کو حکم کیا جائے اس کو تسلیم کرنے کے طور پر سنو اور اطاعت کرو اور اس کی اطاعت میں خرچ کرو، جو تمہارے لئے بہتر ہے (خیرا) یکن مقدر کی خبر (اور جملہ ہو کر) انفقوا امر کا جواب ہے اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے، اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے اس طریقہ پر کہ طیب خاطر سے خرچ کرو گے تو وہ اس کو تمہارے لئے بڑھاتا رہے گا اور ایک قرأت میں (یضعفہٗ ) تشدید کے ساتھ صیغہ ٔ افراد کے ساتھ ہے دس سے سات سو اور اس سے بھی زیادہ اور جو چاہے گا (تمہارے گناہ بھی) معاف فرما دے گا، اللہ بڑا قدردان ہے یعنی طاعت پر اجر دینے والا بردبار ہے معصیت پر سزا دینے میں، غائب اور حاضر کا جاننے والا ہے اپنے ملک میں غالب ہے اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیر فوائد
قولہ : ما اصاب من مصیبۃ، اصاب کا احدا مفعول بہ محذوف ہے اور من مصیبۃ، من کی زیادتی کے ساتھ اصاب کا فاعل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے ما اصاب احدا مصیبۃ۔
قولہ : فی قولہ ای فی قول القائل۔
قولہ : فان تولیتم اس کی جزاء محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی فان تولیتم فلا ضیر ولا باس علی رسولنا۔
قولہ : فانما علی رسولنا جزاء محذوف کی علت ہے۔
قولہ : اللہ لا الہ الا ھو، اللہ مبتداء ہے اور لا الہ الا ھو اس کی خبر ہے۔
قولہ : ان تطیعوھم اس عبارت کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مضاف محذوف ہے، یعنی اگر تمہاری ازواج اور اولاد کار خیر میں آڑے آئیں تو ان کی اطاعت سے اجتناب کرو، یہ آیت کہا گیا ہے کہ عوف بن مالک اشجعی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
قولہ : خبر یکن مقدرۃ یعنی خیرا، یکن مقدر کی خبر ہے، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ فعل محذوف کا مفعول بہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی یوتکم خیرا اور یہی اولیٰ ہے اس لئے کہ کان اور اس کے اسم کا حذف مع بقاء الخبر، ان اور لو کے بعد اکثر ہوتا ہے، یکن اپنے اسم و خبر سے مل کر انفقوا امر کا جواب ہے۔
قولہ : شح بخل، حرص، یہ باب علم و ضرب کا مصدر ہے شح خاص طور سے ایسی بخیلی کو کہتے ہیں جو عادت بن گئی ہو۔
تفسیر و تشریح
شان نزول :
کہا گیا ہے کہ اس آیت کی نزول کا سبب کافروں کا یہ قول تھا کہ ” لو کان ما علیہ المسلمون حق لصانھم اللہ من المصائب فی الدنیا “ اگر مسلمانوں کا مذہب حق ہوتا، تو دنیا میں ان کو مصیبت اور تنگی نہ پہنچتی، (فتح القدیر) قلب کو مصیبت کے وقت ہدایت دینے کا یہ مطلب ہے کہ قلب یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ مصیبت اللہ ہی کی طرف سے ہے، جس کی وجہ سے اس پر صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے اور بےساختہ اس کے منہ سے ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ کل جاتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :﴿مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ﴾ ”جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے۔“ یہ آیت کریمہ جان ،مال اولاد اور احباب کے مصائب وغیرہ سب کو شامل ہے، چنانچہ بندوں پر نازل ہونے والے تمام مصائب اللہ کی قضا وقدر سے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے، اس پر اس کا قلم جاری ہوچکا، اس پر اس کی مشیت نافذ ہوچکی اور اس کی حکمت نے اس کا تقاضا کیا۔ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ آیا بندے نے اس ذمے داری کو پورا کیا جو اس مقام پر اس پر عائد تھی یا وہ اس کو پورا نہ کرسکا؟ اگر اس نے اس ذمے داری کو پورا کیا تو اس کے لیے دنیا وآخرت میں ثواب جزیل اور اجر جمیل ہے۔ پھر جب وہ اس حقیقت پر ایمان لے آیا کہ یہ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تب اس پر راضی ہوا اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ،تو اللہ کے قلب کو ہدیات سے بہرہ مند کردیتا ہے ،پس وہ مطمئن ہوجاتا ہے ،تب وہ مصائب کے وقت گھبراتا نہیں جیسا کہ اس شخص کو وتیرہ ہے جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا نہیں کرتا مگر مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی اور موجبات صبر کو قائم کرنے کی توفیق سے نوزتا ہ،ے اس سے اس کو دنیاوی ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ،جزا و سزا کے دن کے لیے ثواب کو ذخیرہ کردیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾(الزمر :39؍10) ”جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بے حد وحساب اجر عطا کیا جائے گا۔“ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ جو کوئی مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کالحاظ نہیں کرتا بلکہ محض اسباب کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے، تو اسے بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ جب بندہ نفس پر بھروسا کرتا ہے تو نفس کے پاس چیخ وپکار اور بے صبری کے سوا کچھ نہیں ،یہ وہ فوری سزا ہے جو آخرت کی سزاسے پہلے بندے کو اس دنیا میں اس پاداش میں ملتی ہے کہ اس نے صبر میں کوتاہی کی جو اس پر واجب تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق ہے: ﴿وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ ﴾ اور جو کوئی اللہ پر ایمان لائے تو مصائب کے خاص وقت میں بھی اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کرتا ہے ۔رہی وہ چیز جو عموم لفظی کی حیثیت سے اس سے تعلق رکھتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ہر وہ شخص جو ایمان لایا، یعنی ایسا ایمان جو مامور بہ ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں ،یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا۔ پھر ایمان جن لوازم و واجبات کا تقاضا کرتا ہے، اس کے ایمان نے ان کی تصدیق کی۔ بلاشبہ یہی سبب جس کو بندے نے اختیار کیا ،اس کے اقوال وافعال ،اس کے تمام احوال اور اس کے علم وعمل میں اللہ کی طرف سے اس کے لیے ہدایت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہ بہترین جزا ہے جو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عطا کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ اصل ثابت قدمی دل کی ثابت قدمی، اس کا صبر اور ہر قسم کے فتنے کے وارد ہونے کے وقت اس کا یقین ہے ۔چنانچہ فرمایا :﴿يُثَبِّتُ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾(ابراہیم:14؍11) ”اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے مضبوط بات کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔“ پس اہل ایمان کے دل لوگوں میں سب سے زیادہ راہ ہدایت پر ہوتے ہیں اور وہ گھبراہٹ اور خوف کے موقعوں پر سب سے زیادہ ثابت قدم ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایمان ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
koi museebat Allah kay hukum kay baghair nahi aati , aur jo koi Allah per emaan lata hai , woh uss kay dil ko hidayat bakhshta hai , aur Allah her cheez ko khoob janney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
وہی مختار مطلق ہے ناقابل تردید سچائی
سورة حدید میں بھی یہ مضمون گذر چکا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کی قدر و مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتا، اب جس شخص کو کوئی تکلیف پہنچے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے مجھے یہ تکلیف پہنچی، پھر صبر و تحمل سے کام لے، اللہ کی مرضی پر ثابت قدم رہے، ثواب اور بھلائی کی امید رکھے رضا بہ قضا کے سوا لب نہ ہلائے تو اللہ تعالٰ اس کے دل کی رہبری کرتا ہے اور اسے بدلے کے طور پر ہدایت قلبی عطا فرماتا ہے۔ وہ دل میں یقین صادق کی چمک دیکھتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مصیبت کا بدلہ یا اس سے بھی بہتر دنیا میں ہی عطا فرما دیتا ہے۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہوجاتا ہے، اسے مصائب ڈگمگا نہیں سکتے، وہ جانتا ہے کہ جو پہنچا وہ خطا کرنے والا نہ تھا اور جو نہ پہنچا وہ ملنے والا ہی نہ تھا، حضرت علقمہ کے سامنے یہ آیت پڑھی جاتی ہے اور آپ سے اس کا مطلب دریافت کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہر مصیبت کے وقت اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ منجانب اللہ ہے پھر راضی خوشی اسے برداشت کرلے، یہ بھی مطلب ہے کہ وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لے۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ مومن پر تعجب ہے ہر ایک بات میں اس کے لئے بہترین ہوتی ہے نقصان پر صبر و ضبط کر کے نفع اور بھلائی پر شکر و احسان مندی کر کے بہتری سمیٹ لینا ہے، یہ دو طرفہ بھلائی مومن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں، مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ سب سے افضل عمل کونسا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ اس نے کہا حضرت میں کوئی آسان کام چاہتا ہوں آپ نے فرمایا جو فیصلہ قسمت کا تجھ پر جاری ہو تو اس میں اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ نہ کر اس کی رضا پر راضی رہ یہ اس سے ہلکا امر ہے۔ پھر اپنی اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم دیتا ہے کہ امور شرعی میں ان اطاعتوں سے سرمو تجاوز نہ کرو جس کا حکم ملے بجا لاؤ، جس سے روکا جائے رک جاؤ، اگر تم اس کے ماننے سے اعراض کرتے تو ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی بوجھ نہیں، ان کے ذمہ صرف تبلیغ تھی جو وہ کرچکے اب عمل نہ کرنے کی سزا تمہیں اٹھانا پڑے گی۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد و صمد ہے اس کے سوا کسی کی ذات کسی طرح کی عبادت کے لائق نہیں، یہ خبر معنی میں طلب کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید مانو اخلاص کے ساتھ صرف اسی کی عبادت کرو، پھر فرماتا ہے چونکہ توکل اور بھروسے کے لائق بھی وہی ہے تم اسی پر بھروسہ رکھو۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ (ترجمہ) مشرق اور مغرب کا رب وہی ہے، معبود حقیقی بھی اس کے سوا کوئی نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز بنا لے۔