اِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ كَبِيْرٌ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں، یقیناً اُن کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر
English Sahih:
Indeed, those who fear their Lord unseen will have forgiveness and great reward.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
جو لوگ بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں، یقیناً اُن کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
بیشک جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے
احمد علی Ahmed Ali
بے شک جو لوگ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
بیشک جو لوگ اپنے پروردگار سے غائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور بڑا ثواب ہے۔ (۱)
۱۲۔۱یہ اہل کفر وتکذیب کے مقابلے میں اہل ایمان کا اور ان نعمتوں کا ذکر ہے جو انہیں قیامت والے دن اللہ کے ہاں ملیں گی۔ بالغیب کا ایک مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو دیکھا تو نہیں لیکن پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہوئے وہ اللہ عذاب سے ڈرتے رہے دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کی نظروں سے غائب یعنی خلوتوں میں اللہ سے ڈرتے رہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
(اور) جو لوگ بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
بیشک جو لوگ اپنے پروردگار سےغائبانہ طور پر ڈرتے رہتے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور بڑا ﺛواب ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
بےشک جو لوگ اپنے پروردگار سے اَن دیکھے ڈرتے ہیں ان کیلئے مغفرت ہے اور بڑا اجر و ثواب ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک جو لوگ بغیر دیکھے اپنے پروردگار کا خوف رکھتے ہیں ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
بے شک جو لوگ بن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور بڑا اَجر ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
نافرمانی سے خائف ہی مستحق ثواب ہیں
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوشخبری دے رہا ہے جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہتے ہیں، گو تنہائی میں ہوں جہاں کسی کی نگاہیں ان پر نہ پڑ سکیں تاہم خوف اللہ سے کسی نافرمانی کے کام کو نہیں کرتے نہ اطاعت و عبادت سے جی چراتے ہیں، ان کے گناہ بھی وہ معاف فرما دیتا ہے اور زبردست ثواب اور بہترین اجر عنایت فرمائے گا، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جن سات شخصوں کو جناب باری اپنے عرش کا سایہ اس دن دے گا جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں ایک وہ ہے جسے کوئی مال و جمال والی عورت زنا کاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اسے بھی جو اس طرح پوشیدگی سے صدقہ کرے کہ دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر بائیں ہاتھ کو بھی نہ لگے مسند بزار میں ہے کہ صحابہ نے ایک مرتبہ کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے دلوں کی جو کیفیت آپ کے سامنے ہوتی ہے آپ کے بعد وہ نہیں رہتی آپ نے فرمایا یہ بتاؤ رب کے ساتھ تمہارا کیا خیال رہتا ہے ؟ جواب دیا کہ ظاہر باطن اللہ ہی کو ہم رب مانتے ہیں، فرمایا جاؤ پھر یہ نفاق نہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ تمہاری چھپی کھلی باتوں کا مجھے علم ہے دلوں کے خطروں سے بھی آگاہ ہوں، یہ ناممکن ہے کہ جو خالق ہو وہ عالم نہ ہو، مخلوق سے خالق بیخبر ہو، وہ تو بڑا باریک بین اور بیحد خبر رکھنے والا ہے۔ بعد ازاں اپنی نعمت کا اظہار کرتا ہے کہ زمین کو اس نے تمہارے لئے مسخر کردیا وہ سکون کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہے ہل جل کر تمہیں نقصان نہیں پہنچاتی، پہاڑوں کی میخیں اس میں گاڑ دی ہیں، پانی کے چشمے اس میں جاری کردیئے ہیں، راستے اس میں مہیا کردیئے ہیں، قسم قسم کے نفع اس میں رکھ دیئے ہیں پھل اور اناج اس میں سے نکل رہا ہے، جس جگہ تم جانا چاہو جاسکتے ہو طرح طرح کی لمبی چوڑی سود مند تجارتیں کر رہے ہو، تمہاری کوششیں وہ بار آور کرتا ہے اور تمہیں ان اسباب سے روزی دے رہا ہے، معلوم ہوا کہ اسباب کے حاصل کرنے کی کوشش توکل کے خلاف نہیں۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے اگر تم اللہ کی ذات پر پورا پورا بھرسہ کرو تو وہ تمہیں اس طرح رزق دے جس طرح پرندوں کو دے رہا ہے کہ اپنے گھونسلوں سے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور آسودہ حال واپس جاتے ہیں، پس ان کا صبح شام آنا جانا اور رزق کو تلاش کرنا بھی توکل میں داخل سمجھا گیا کیونکہ اسباب کا پیدا کرنے والا انہیں آسان کرنے والا وہی رب واحد ہے، اسی کی طرف قیامت کے دن لوٹنا ہے، حضرت ابن عباس وغیرہ تو (مناکب) سے مراد راستے کونے اور ادھر ادھر کی جگہیں لیتے ہیں، قتادہ وغیرہ سے مروی ہے کہ مراد پہاڑ ہیں۔ حضرت بشیر بن کعب (رح) نے اس آیت کی تلاوت کی اور اپنی لونڈی سے جس سے انہیں اولاد ہوئی تھی فرمایا کہ اگر (مناکب) کی صحیح تفسیر تم بتادو تو تم آزاد ہو اس نے کہا مراد اس سے پہاڑ ہیں آپ نے حضرت ابو درداء (رض) سے پوچھا جواب ملا کہ یہ تفسیر صحیح ہے۔