القلم آية ۱
نٓ ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَۙ
طاہر القادری:
نون (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، قلم کی قَسم اور اُس (مضمون) کی قَسم جو (فرشتے) لکھتے ہیں،
English Sahih:
N´n. By the pen and what they inscribe,
1 Abul A'ala Maududi
ن، قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
قلم اور ان کے لکھے کی قسم
3 Ahmed Ali
نۤ قلم کی قسم ہے اور اس کی جو اس سے لکھتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
ن، قسم ہے قلم کی اور (١) اس کی جو کچھ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں۔
١۔٢ قلم کی قسم کھائی، جس کی اس لحاظ سے ایک اہمیت ہے کہ اس کے ذریعے سے کھول کر بیان لکھا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ خاص قلم ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا اور اسکو تقدیر لکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس نے ابد تک ہونے والی ساری چیزیں لکھ دیں (سنن ترمذی)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
نٓ۔ قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم
6 Muhammad Junagarhi
ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ کہ وه (فرشتے) لکھتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
نون! قَسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ لوگ لکھتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
نۤ, قلم اور اس چیز کی قسم جو یہ لکھ رہے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
ن قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، ن، یہ حروف تہجی میں سے ایک ہے، اللہ تعالیٰ ہی اس سے اپنی مراد کو بہتر جانتا ہے اور قسم ہے اس قلم کی جس کے ذریعہ کائنات لوح محفوظ میں لکھی گئی، اور اس خیر و صلاح کی جس کو فرشتے لکھتے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں یعنی تیرے رب کے تیرے اوپر نبوت وغیرہ کے فضل کے سبب سے تجھ سے جنون منتقی ہے یہ ان (مشرکوں) کے ان قول کا رد ہے کہ آپ مجنون ہیں اور بیشک تیرے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑے (عمدہ خلق) دین پر ہیں اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دیکھ لیں گے اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کس کو جنون ہے ؟ مفتون مصدر ہے جیسا کہ معقول یعنی فتون بمعنی جنون یعنی (جنون) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے یا ان کو ؟ بلاشبہ تیرا رب ان کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور وہ ان کو بھی بخوبی جانتا ہے جو راہ ہدایت پر ہیں اور اعلم بمعنی عالم ہے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان تکذیب کرنے والوں کا کہنانہ مانتے، وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو وہ بھی ڈھیلے ہوجائیں لو مصدر یہ ہے فیذھنون کا عطف تدھن پر ہے، اور اگر فیدھنون کو جواب تمنی قرار دیا جائے جو کہ ودوا سے مفہوم ہے تو یذھنون سے پہلے اور فاء کے بعد ھم مقدر مانا جائے گا، اور کسی ایسے شخص کا بھی کہنا نہ ماننا کہ جو جھوٹی بہت قسم کھانے والا بےوقار عیب گو یعنی غیبت کرنے والا چغل خور ہو یعنی لوگوں کے درمیان فساد برپا کرنے کی نیت سے ادھر کی ادھر لگانے کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہو، نیک کام سے روکنے والا ہو، یعنی حقوق کے معاملہ میں مال خرچ کرنے میں بخیل ہو، حد اعتدال سے گزرنے والا ظالم ہو، گناہ کا ارتکاب کرنے والا ہو، تند خو سخت مزاج ہو پھر اس کے ساتھ بےنسب بھی ہو (یعنی) قریش کے نسب میں داخل کیا گیا ہو، اور وہ ولید بن مغیرہ ہے اس کے والد نے اس کو اٹھارہ سال بعد متنبی بنایا تھا، ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ ہمارے علم میں نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے علاوہ کسی کے ایسے اوصاف بیان کئے ہوں، اور اس کے ساتھ ایسے شرم (کے اوصاف) لاحق کردیئے ہوں کہ جو اس سے کبھی جدا نہ ہوں، زنیم سے اس کے ماقبل کا ظرف (یعنی ذالک) متعلق ہے (اور یہ سرکشی محض اس لئے ہے) کہ وہ مال اور اولاد والا ہے ان معنی میں لان کے ہے، اور لان اس سے متعلق ہے جس پر اذا تتلی علیہ دلالت کرتا ہے، اور وہ کذب بھا الخ ہے، جب اس کو ہماری آیتیں یعنی قرآن پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ تو گزشتہ لوگوں کے قصے ہیں یعنی اس نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا، ہمارے اس کے اوپر مذکورہ انعام (مال و اولاد) کی وجہ سے، اور ایک قرأت میں ان کان کے بجائے ا ان کان دو مفتوحہ ہمزوں کے ساتھ ہے ہم اس کی ناک پر عنقریب داغ لگا دیں گے یعنی عنقریب ہم اس کی ناک پر ایسی علامت لگا دیں گے کہ زندگی بھر اس کے ذریعہ اس کو عاردلائی جائے گی، چناچہ یوم بدر میں اس کی ناک پر تلوار کا زخم لگا دیا گیا، بیشک ہم نے ان اہل مکہ کو قحط اور بھوک کے ساتھ ایسے ہی آزمایا جیسا کہ ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جب کہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ وہ باغ کے پھلوں کو صبح تڑکے ضرور توڑ لیں گے، تاکہ مساکین کو ان کے پھل توڑنے کا علم نہ ہو سکے اور وہ مساکین کو پھلوں میں سے وہ حصہ نہ دیں گے جو حصہ ان کے والد ان پر صدقہ کیا کرتے تھے، مگر انہوں نے اپنی قسم میں استثناء نہیں کیا (یعنی) انشاء اللہ نہیں کہا، اور جملہ مستانفہ ہے ای شانھم لا یستثنون ذلک، پس اس باغ پر تیرے رب کی جانب سے ایک گھومنے والی (بلا) گھوم گئی، یعنی ایسی آگ کہ اس نے باغ کو راتوں رات جلا دیا، اور وہ پڑتے سوتے ہی رہے اور وہ باغ نہایت تاریک رات کے مانند ہوگیا یعنی خاک سیاہ ہوگیا، اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں کہ اگر تم کو پھل توڑنے ہیں تو صبح تڑکے اپنی کھیتی پر چلو، ان اغدوا، تنادوا کی تفسیر ہے (یعنی ان بمعنی ای ہے) یا ان مصدر یہ ہے ای بان اور جواب شرط (محذوف ہے) جس پر اس کا ماقبل یعنی ان اغدوا دلالت کر رہا ہے، پھر وہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے چلے کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس آنے نہ پائے یہ ما قبل کی تفسیر ہے (اور ان بمعنی ای ہے) یا ان مصدر یہ ہے اور معنی میں بان کے ہے اور وہ بزعم خویش فقراء کو نہ دینے پر خود کو قادر سمجھ کر چلے، جب انہوں نے اس باغ کو جلا ہوا سیاہ دیکھا تو کہنے لگے ہم یقینا باغ کا راستہ بھول گئے ہیں یعنی یہ ہمارا باغ نہیں ہے پھر جب ان کو معلوم ہوا تو کہنے لگے ہم تو فقراء کو پھلوں سے روکنے کی وجہ سے، پھلوں سے محروم ہوگئے، ان میں سے جو بہتر تھا اس نے کہا کہ کیا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی طرف رجوع ہو کر اس کی پاکی بیان کیوں نہیں کرتے ؟ تو سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے فقراء سے ان کا حق روک کر ہم ہی ظالم تھے پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر ملامت کرنے لگے، کہنے لگے : ہائے افسوس ! ہماری بدقسمتی یہ یقینا سرکش تھے کیا عجب کہ ہمارا رب اس سے بہتر بدلہ دے (یبدلنا) تشدیدو تخفیف کے ساتھ ہے، ہم تو اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ وہ ہماری توبہ قبول فرمائے، اور ہمیں ہمارے بہتر باغ سے عطا فرما دے، روایت کیا گیا ہے کہ ان کو اس سے بہتر باغ بدلے میں عطا کردیا گیا، اسی طرح عذاب ہوا کرتا ہے یعنی ان لوگوں کے عذاب کے مانند اہل مکہ میں سے جنہوں نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی، اور آخرت کا عذاب اس سیب ڑھ کر ہے اگر یہ آخرت کے عذاب کو جان لیتے تو ہمارے حکم کی خلاف ورزی نہ کرتے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : سورة ن اس کا دوسرا نام سورة القلم بھی ہے۔
قولہ : احد حروف الھجاء اس عبارت کا مقصد ان لوگوں پر رد کرنا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ (ن) رحمن کا آخری حرف ہے یا نصر، ناصر، نور، کا پہلا حرف ہے۔
قولہ : وما یسطرون، ما مصدر یہ ہے یا موصولہ ما یسطرون ای بمسطورھم یعنی قسم ہے اس کی جو فرشتے لکھتے ہیں۔
قولہ : ما انت بنعمۃ ربک بمجنون یہ جواب قسم ہے اور بنعمۃ میں باء سبیہ ہے یعنی اپنے رب کے فضل کے سبب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنون نہیں ہیں بنعمۃ جار مجرور سے مل کر اس فعل نفی کے متعلق ہے جس پر ما دلالت کرتا ہے ای انتفی بنعمۃ ربک عنک الجنون، بمجنون میں باء زائدہ ہے۔ (جمل)
قولہ : بسبب انعامہ اس سے جس طرح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باء سببیہ ہے اسی طرح اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انت، ما کا اسم اور بمجنون اس کی خبر ہے۔
قولہ : وان لک لاجرا الخ یہ اور اس کا مابعد جواب قسم پر معطوف ہے، گویا کہ مقسم علیہ دو ہیں ایک ما انت بنعمۃ ربک بمجنون اور دوسرا وان لک لاجرا غیر ممنون۔
قولہ : بابکم خبر مقدم ہے اور المنفتون مبتداء موخر ہے۔
قولہ : ھو معطوف علی تدھن یعنی فیدھنون کا عطف تدھن پر ہے اور جس طرح معطوف لو کے ماتحت ہونے کی وجہ سے متمنی ہے فیدھنون بھی متمنی ہوگا، اس طرح دو چیزیں متمنی ہوں گی مگر اس صورت میں یہ اعتراض ہوگا کہ فیدھنون جواب تمنی ہے لہٰذا منصوب ہونے کی وجہ سے اس کا نون اعرابی ساقط ہونا چاہیے، حالانکہ فیدھنون میں نون اعرابی باقی ہے ؟
جواب : یہ ہے کہ نون کے ساقط ہونے کے لئے فا کا سببیہ ہونا ضروری ہے اور یہاں فاعاطفہ ہے نہ کہ سببیہ۔
دوسرا جواب : مفسر علام نے قدر قبلہ بعد الفاء سے دیا ہے، اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ فیدھنون کی فاء کے بعد ھم مبتداء مقدر مان لیا جائے اور یذھنون مبتداء کی خبر ہوگی، مبتداء خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہو کر جواب تمنی ہوگا، لہٰذا اس صورت میں حذف نون کی ضرورت نہیں ہوگی (ترویح الارواح، فتح القدیر، شوکانی) اور بعض قرأتوں میں فیدھنوا بھی ہے اس صورت میں فیدھنوا جواب تمنی ہوگا اور فاء سببیہ ہوگی جس کی وجہ سے نون اعرابی ساقط ہوگیا۔
(فتح القدیر)
قولہ : ای مغتاب، ای حرف تفسیر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغتاب، عیاب کی تفسیر ہے حالانکہ مغتاب، عیاب کی تفسیر نہیں لہٰذا مفسر علام کے لئے مناسب تھا کہ ای کے بجائے او کہتے تاکہ ھماز کی دوسری تفسیر ہوجاتی۔ (صاوی)
قولہ : بنعمیم یہ مشاء کے متعلق ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ادھر کی ادھر لگانے کے لئے بہت دوڑ دھوپ کرنے والا ہے۔
قولہ : غلیظ، تند خو، جاف خشک مزاج۔
قولہ : بعد ذلک یعنی مذکورہ تمام عیوب میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ غیر ثابت النسب ہے۔
قولہ : زنیم، الزنمۃ سے ماخوذ ہے وہ چھلا جو بھیڑ بکری وغیرہ کے کان میں ڈال دیا جاتا ہے، مجاز اً اس شخص کو کہا جانے لگا جس کو نسب میں شامل کرلیا گیا ہو، حقیقت میں وہ نسب میں داخل نہ ہو، عربی میں اس کو مستحلق کہتے ہیں، ولید بن مغیرہ ایسا ہی تھا۔
قولہ : لان وھو متعلق بما دل علیہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کان ذا مال و بنین میں ان سے پہلے لام جارہ مقدر ہے اور وہ اذا تتلی علیہ آیاتنا کے مدلول سے متعلق ہے اور مدلول کذب بھا ہے جس کو مفسر علام نے ظاہر کردیا ہے۔
قولہ : و فی قراءۃ ا ان دو ہمزوں کے ساتھ پہلا ہمزہ استفہام توبیخی ہے اور دوسرا ان مصدریہ کا ہے اس سے پہلے لام مقدر ہے اور معنی اکذب بھا لان ذا مال و بنین۔
قولہ : الخرطوم درندوں کی تھوتھڑی کو کہتے ہیں خاص طور پر ہاتھی اور خنزیر کی سونڈ اور تھوتھڑی کو، ولید بن مغیرہ کی ناک کو اسہزاء خرطوم کہا گیا ہے۔
قولہ : و جواب الشرط دل علیہ ما قبلہ یعنی ان کنتم شرط کا جواب شرط محذوف ہے، جس پر ما قبل یعنی ان اغدوا دلالت کر رہا ہے تقدیر عبارت یہ ہے ان کنتم صارمین اغدوا۔
تفسیر و تشریح
ن والقلم و ما یسطرون نون اسی طرح حروف مقطعات میں سے ہے جیسے اس سے قبل صٓ، قٓ وغیرہ گزر چکے ہیں، اس میں قلم کی قسم کھا کر یہ بات کہی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ختم نہ ہونے والا اجر ہے، قلم کی اس لحاظ سے ایک اہمیت ہے کہ اس سے تبیین اور توضیح ہوتی ہے، بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ قلم سے خاص قلم مراد ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا، اور اسے تقدیر لکھنے کا حکم دیا، چناچہ اس نے قیامت تک ہونے والی ساری چیزیں لکھ دیں۔ (سنن ترمذی) مایسطرون میں ما مصدریہ ہے مطلب یہ کہ قلم کی قسم اور جو کچھ فرشتے لکھتے ہیں ان کے لکھنے کی قسم، مقسم بہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اس کے مناسب کسی چیز کی قسم کھائی جاتی ہے اور وہ قسم مضمون پر ایک شہادت ہوتی ہے، یہاں مایسطرون سے دنیا کی تاریخ میں جو کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے اس کو بطور شہادت پیش کیا جا رہا ہے کہ دنیا کی تاریخ کو دیکھو، ایسے اعلیٰ اخلاق و اعمال والے کہیں مجنون ہوتے ہیں ؟ وہ تو دوسروں کی عقل درست کرنے والے ہوتے ہیں نہ کہ خود مجنون۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک وتعالیٰ” قلم“ کی قسم کھاتا ہے۔ یہ اسم جنس ہے جو ان تمام اقلام کو شامل ہے جن کے ذریعے سے مختلف علوم کو علوم کو لکھا جاتا ہے اور جن کے ذریعے سے منثور اور منظوم کلام کو احاطہ تحریر میں لایا جاتا ہے اور یہ اس حقیقت پر قسم ہے کہ قلم اور جو اس کے ذریعے سے مختلف انواع کا کلام لکھا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جو اس امر کی مستحق ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ان عیوب کے بارے میں براءت پر اس کی قسم کھائی جائے جو آپ کے دشمن آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں ،یعنی جنون وغیرہ۔ پس آپ کے رب کی نعمت اور احسان سے ان عیوب کی آپ نفی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عقل کامل، عمدہ رائے اور فصاحت وبلاغت سے لبریز کلام فیصل سے سرفراز فرمایا ہے جو بہترین کلام ہے جسے قلم لکھتے ہیں اور مخلوقات اسے قلم بند کرتی ہیں اور دنیا کے اندر یہی سعادت ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اخروی سعادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :﴿ إِنَّ لَكَ لَأَجْرًا﴾ ” آپ کے لیے بہت بڑا اجر ہے ۔ “ جیسا کہ نکرہ سے مسفادہ ہوتا ہے ﴿ غَيْرَ مَمْنُونٍ﴾ یعنی ایسا اجر جو کبھی منقطع نہیں ہوگا بلکہ دائمی اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس کا سبب وہ اعمال صالحہ، اخلاق کاملہ اور ہر بھلائی کی طرف وہ راہ نمائی وغیرہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئی ہے۔ ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾۔ ” اور بے شک آپ بڑے )عمدہ( اخلاق پر ہیں۔“ یعنی آپ اس اخلاق کی بنا پر بلند مرتبہ ہیں اور اپنے اس خلق عظیم کی بنا پر فوقیت رکھتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے۔ آپ کے خلق عظیم کا حاصل وہ ہے جس کی تفسیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس شخص کے سامنے بیان فرمائی تھی جس نے آپ کے اخلاق کے بارے میں ان سے پوچھا تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: )کَانَ خُلُقُہُ الْقُرآنَ)(صحیح مسلم‘صلاۃ المسافرین‘باب جامع صلاۃ الیل ۔۔حدیث 746ومسندأحمد:6؍91)۔ ” آپ کا خلق قرآن ہی ہے۔“ یہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کی طرح ہے : ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ﴾ (الاعراف:7؍199) ” عفو کا رویہ اختیار کیجیے، نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے کنارہ کیجئے۔“ نیز فرمایا :﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰـهِ لِنتَ لَهُمْ ﴾ (آل عمران :3؍159) ” اللہ کی مہربانی سے، آپ ان کے لیے نرم خو واقع ہوئے ہیں۔“ اور فرمایا :﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾ ( لتوبۃ :9؍128) ” تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، تمہاری تکلیف اس پر بہت گراں گزرتی ہے، تمہاری بھلائی کا وہ بہت خواہش مند ہے، اہل ایمان پر بہت شفقت کرنے والا اور ان پر نہایت مہربان ہے۔ “
کتنا صحیح مصداق ہیں یہ آیات کریمہ جو آپ کے مکارم اخلاق سے متصف ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور وہ آیات کریمہ جو ہر قسم کے خلق جمیل کی ترغیب دیتی ہیں۔ وہ ان اوصاف میں کامل ترین اور جلیل ترین مقام پر فائز تھے اور ان خصائل میں سے ہر خصلت کی بلند چوٹی پر تھے۔ آپ بہت ہی نرم برتاؤ کرنے والے اور نرم خو تھے، لوگوں کے بہت قریب تھے ،جو کوئی آپ کو دعوت دیتا آپ اس کی دعوت قبول کرتے تھے، جو کوئی آپ سے کسی حاجت کا طلب گار ہوتا آپ اس کی حاجت پوری کرتے تھے بلکہ آپ اس کی دل جوئی کرتے تھے۔ اگر آپ کے اصحاب کو آپ سے کام ہوتا، آپ اس کام پر ان کی موافقت کرتے اور اس بارے میں ان کی بات مانتے بشرطیکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے بچنے کے لیے کہا گیا ہو۔ اگر کسی امر کا عزم فرماتے تو ان کو نظر انداز کرکے ان پر اپنی رائے نہیں تھوپتے تھے بلکہ ان کے ساتھ مشاورت کرکے ان کی رائے لیتے تھے، ان کے اچھے کام کو قبول کرلیتے اور برائی کرنے والے سے درگزر کرتے تھے، کسی ہم نشین کے ساتھ معاشرت کرتے تو کامل ترین اور بہترین طریقے سے معاشرت کرتے ، آپ کبھی اپنی پیشانی پر بل ڈالتے نہ آپ کبھی کوئی سخت بات کہتے، نہ آپ اس سے منہ موڑتے، نہ آپ اس کی زبان کی لغزش پر گرفت کرتے اور نہ اس کی طرف سے کسی سخت رویے پر مؤاخذہ فرماتے بلکہ اس کے ساتھ انتہائی حسن سلوک سے پیش آتے اور اسے انتہائی حد تک برداشت کرتے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلندترین مقام پر فائز فرمایا اور آپ کے دشمن آپ کی طرف منسوب کرتے تھے کہ آپ مجنون اور دیوانے ہیں تو فرمایا : ﴿ فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ ﴾ ” پس عنقریب آپ دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے ۔“اور یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ ہدایت یافتہ، اپنے لیے اور دوسروں کے لیے سب سے زیادہ کامل ہیں، نیز یہ بھی واضح ہوگیا کہ آپ کے دشمن، لوگوں میں سب سے زیادہ گمراہ اور سب سے زیادہ شر پسند ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے بندوں کو فتنے میں ڈالا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے بھٹکا دیا۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا علم کافی ہے، وہی محاسبہ کرنے والا اور جزا دینے والا ہے۔ اور ﴿ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴾ ” وہ اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھے راستے پر چل رہے ہیں۔“ اس میں گمراہ لوگوں کے لیے تہدید اور ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے وعدہ ہے، نیز اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کا بیان ہے کہ وہ اس شخص کو ہدایت سے نوازتا ہے جو ہدایت کے لائق ہوتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Noon ( aey payghumber ! ) qasam hai qalam ki , aur uss cheez ki jo woh likh rahey hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
نون وغیرہ جیسے حروف ہجا کا مفصل بیان سورة بقرہ کے شروع میں گذر چکا ہے اس لئے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں، کہا گیا ہے کہ یہاں ان سے مراد وہ بڑی مچھلی ہے جو ایک محیط عالم پانی پر ہے جو ساتوں زمینوں کو اٹھائے ہوئے ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ اس نے کہا کیا لکھوں ؟ فرمایا تقدیر لکھ ڈال پس اس دن سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس پر قلم جاری ہوگیا پھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی پیدا کی اور پانی کے بخارات بلند کئے، جس سے آسمان بنے اور زمین کو اس مچھلی کی پیٹھ پر رکھا مچھلی نے حرکت کی جس سے زمین بھی ہلنے لگی پس زمین پر پہاڑ گاڑ کر اسے مضبوط اور ساکن کردیا، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی (ابن ابی حاتم) مطلب یہ ہے کہ یہاں " ن " سے مراد یہ مچھلی ہے، طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو اور مچھلی کو پیدا کیا قلم نے دریافت کیا میں کیا لکھوں ؟ حکم ہوا ہر وہ چیز جو قیامت تک ہونے والی ہے پھر آپ نے پہلی آیت کی تلاوت کی، پس نون سے مراد یہ مچھلی ہے اور قلم سے مراد یہ قلم ہے، ابن عساکر کی حدیث میں ہے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا پھر نون یعنی دوات کو پھر قلم سے فرمایا لکھ اس نے پوچھا کیا ؟ فرمایا جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے عمل، رزق عمر، موت وغیرہ، پس قلم نے سب کچھ لکھ لیا۔ اس آیت میں یہی مراد ہے، پھر قلم پر مہر لگا دی اب وہ قیامت تک نہ چلے گا، پھر عقل کو پیدا کیا اور فرمایا مجھے اپنی عزت کی قسم اپنے دوستوں میں تو میں تجھے کمال تک پہنچاؤں گا اور اپنے دشمنوں میں تجھے ناقص رکھوں گا، مجاہد فرماتے ہیں یہ مشہور تھا کہ نون سے مراد وہ مچھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے، بغوی وغیرہ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مچھلی کی پیٹھ پر ایک چٹان ہے جس کی موٹائی آسمان و زمین کے برابر ہے اس پر ایک بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں اس کی پیٹھ پر ساتوں زمینیں اور ان پر تمام مخلوق ہے، واللہ اعلم اور تعجب تو یہ ہے کہ ان بعض مفسرین نے اس حدیث کو بھی انہی معنی پر محمول کیا ہے جو مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کو خبر ملی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آگئے ہیں تو وہ آپ کے پاس آئے اور بہت کچھ سوالات کئے کہا کہ میں وہ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں جنہیں نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا بتایئے قیامت کے پہلی نشانی کیا ہے ؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے ؟ اور کیا وجہ ہے کہ کبھی بچہ اپنے باپ کی صورت میں ہوتا ہے کبھی ماں کی صورت پر ؟حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ باتیں ابھی ابھی جبرائیل نے مجھے بتادیں، ابن سلام کہنے لگے فرشتوں میں سے یہی فرشتہ ہے جو یہودیوں کا دشمن ہے، آپ نے فرمایا سنو ! قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ کا نکلنا ہے جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور جنتیوں کا پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی کی زیادتی ہے اور مرد کا پانی عورت کے پانی پر سابق آجائے تو لڑکا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت کر جائے تو وہی کھینچ لیتی ہے، دوسری حدیث میں اتنی زیادتی ہے کہ پوچھا جنتیوں کے اس کھانے کے بعد انہیں کیا ملے گا فرمایا جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت میں چرتا چگتا رہا تھا، پوچھا انہیں پانی کونسا ملے گا ؟ فرمایا سلسبیل نامی نہر کا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد " ن " سے نور کی تختی ہے ایک مرسل غریب حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اس سے مراد نور کی تختی اور نور کا حکم ہے جو قیامت تک کے حال پر چل چکا ہے، ابن جریج فرماتے ہیں مجھے خبر دی گئی ہے کہ یہ نورانی قلم سو سال کی طولانی رکھتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ " ن " سے مراد دولت ہے اور قلم سے مراد قلم ہے، حسن اور قتادہ بھی یہی فرماتے ہیں، ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ مروی ہے جو ابن ابی حاتم میں ہے کہ اللہ نے نون کو پیدا کیا اور وہ دوات ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نون یعنی دوات کو پیدا کیا اور قلم کو پیدا کیا، پھر فرمایا " لکھ " اس نے پوچھا " کیا لکھوں ؟ " فرمایا " لکھ " اس نے پوچھا " کیا لکھوں ؟ " جو قیامت تک ہونے والا ہے، اعمال خواہ نیک ہوں خواہ بد، روزی خواہ حلال ہو خواہ حرام، پھر یہ بھی کہ کونسی چیز دنیا میں کب جائے گی کس قدر رہے گی، کیسے نکلے گی، پھر اللہ تعالیٰ نے بندوں پر محافظ رشتے مقرر کئے اور کتاب پر داروغے مقرر کئے، محافظ فرشتے ہر دن ان کے عمل خازن فرشتوں سے دریافت کر کے لکھ لیتے ہیں جب رزق ختم ہوجاتا ہے عمر پوری ہوجاتی ہے اجل آپہنچتی ہے تو محافظ فرشتے داروغہ فرشتوں کے پاس آ کر پوچھتے ہیں کہ بتاؤ آج کے دن کیا سامان ہے ؟ وہ کہتے ہیں بس اس شخص کے لئے ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں رہا یہ سن کر یہ فرشتے نیچے اترتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ مرگیا اس بیان کے بعد حضرت ابن عباس نے فرمایا تم تو عرب ہو کیا تم نے قرآن میں محافظ فرشتوں کی بابت یہ نہیں پڑھا آیت (اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ 29) 45 ۔ الجاثية :29) مطلب یہ ہے کہ ہم تمہارے اعمال کو اصل سے نقل کرلیا کرتے تھے۔ یہ تو تھا لفظ " ن " کے متعلق بیان، اب قلم کی نسبت سنئے۔ بظاہر مراد یہاں عام قلم ہے جس سے لکھا جاتا ہے جیسے اور جگہ فرمان عالیشان ہے آیت ( الَّذِيْ عَلَّمَ بالْقَلَمِ ۙ ) 96 ۔ العلق :4) یعنی اس اللہ نے قلم سے لکھنا سکھایا، پس اس کی قسم کھا کر اس بات پر آگاہی کی جاتی ہے کہ مخلوق پر میری ایک نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے انہیں لکھنا سکھایا جس سے علوم تک ان کے رسائی ہو سکے، اس لئے اس کے بعد فرمایا آیت ( نۗ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ ۙ ) 68 ۔ القلم :1) یعنی اس چیز کی قسم جو لکھتے ہیں، حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر یہ بھی مروی ہے کہ اس چیز کی جو جانتے ہیں، سدی فرماتے ہیں مراد اس سے فرشتوں کا لکھنا ہے جو بندوں کے اعمال لکھتے ہیں اور مفسرین کہتے ہیں اس سے مراد وہ قلم ہے جو قدرتی طور پر چلا اور تقدیریں لکھیں آسمان و زمین کی پیدائش سے چالیس ہزار سال پہلے اور اس قول کی دلیل میں یہ جماعت وہ حدیثیں وارد کرتی ہے جو قلم کے ذکر میں مروی ہیں، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر لکھا گیا۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی تو بحمد اللہ دیوانہ نہیں جیسے کہ تیری قوم کے جاہل منکرین حق کہتے ہیں بلکہ تیرے لئے اجر عظیم ہے اور ثواب بےپایاں ہے جو نہ ختم ہو نہ ٹوٹے نہ کٹے کیونکہ تو نے حق رسالت ادا کردیا ہے اور ہماری راہ میں سخت سے سخت مصیبتیں جھیلی ہیں ہم تجھے بےحساب بدلہ دیں گے، تو بہت بڑے خلق پر ہے یعنی دین اسلام پر اور بہترین ادب پر ہے، حضرت عائشہ سے اخلاق نبوی کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتی ہیں کہ آپ کا خلق قرآن تھا، سعید فرماتے ہیں یعنی جیسے کہ قرآن میں ہے اور حدیث میں ہے کہ صدیقہ نے پوچھا کہ کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا، سائل حضرت سعید بن ہشام نے کہا ہاں پڑھا ہے آپ نے فرمایا بس تو آپ کا خلق قرآن کریم تھا، مسلم میں یہ حدیث پوری ہے جسے ہم سورة مزمل کی تفسیر میں بیان کریں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ بنو سواد کے ایک شخص نے حضرت عائشہ سے یہی سوال کیا تھا تو آپ نے یہی فرما کر پھر آیت ( وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ ) 68 ۔ القلم :4) پڑھی اس نے کہا کوئی ایک آدھ واقعہ تو بیان کیجئے ام المومنین (رض) نے فرمایا سنو ! ایک مرتبہ میں نے بھی آپ کے لئے کھانا پکایا اور حضرت حفصہ نے بھی، میں نے اپنی لونڈی سے کہا دیکھ اگر میرے کھانے سے پہلے حضرت حفصہ کے ہاں کا کھانا آجائے تو تو برتن گرا دینا چناچہ اس نے یہی کیا اور برتن بھی ٹوٹ گیا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بکھرے ہوئے کھانے کو سمیٹنے لگے اور فرمایا اس برتن کے بدلے ثابت برتن تم دو واللہ اور کچھ ڈانٹا ڈپٹا نہیں (مسند احمد) مطلب اس حدیث کا جو کئی طرق سے مختلف الفاظ میں کئی کتابوں میں ہے یہ ہے کہ ایک تو آپ کی جبلت اور پیدائش میں ہی اللہ نے پسندیدہ اخلاق بہترین خصلتیں اور پاکیزہ عادتیں رکھی تھیں دوسرے آپ کا عمل قرآن کریم پر ایسا تھا کہ گویا احکام قرآن کا مجسم عملی نمونہ ہیں، ہر حکم کو بجا لانے اور ہر نہی سے رک جانے میں آپ کی حالت یہ تھی کہ گویا قرآن میں جو کچھ ہے وہ آپ کی عادتوں اور آپ کے کریمانہ اخلاق کا بیان ہے۔ حضرت انس (رض) کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دس سال تک خدمت کی لیکن کسی دن آپ نے مجھے اف تک نہیں کہا کسی کرنے کے کام کو نہ کروں یا نہ کرنے کے کام کر گزروں تو بھی ڈانٹ ڈپٹ تو کجا اتنا بھی نہ فرماتے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ خوش خلق تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہ تو ریشم ہے نہ کوئی اور چیز۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پسینہ سے زیادہ خوشبو والی چیز میں نے تو کوئی نہیں سونگھی نہ مشک اور نہ عطر (بخاری و مسلم) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت براء فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ خلیق تھے آپ کا قد نہ تو بہت لانبا تھا نہ آپ پست قامت تھے، اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں، شمائل ترمذی میں حضرت عائشہ سے روایات ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے نہ تو کبھی کسی خادم یا غلام کو مارا نہ بیوی بچوں کو نہ کسی اور کو، ہاں اللہ کی راہ کا جہاد الگ چیز ہے، جب کبھی دو کاموں میں آپ کو اختیار دیا جاتا تو آپ اسے پسند کرتے جو زیادہ آسان ہوتا ہاں یہ اور بات ہے کہ اس میں کچھ گناہ ہو تو آپ اس سے بہت دور ہوجاتے، کبھی بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی اللہ کی حرمتوں کو توڑتا ہو تو تو آپ اللہ کے احکام جاری کرنے کے لئے ضرور انتقام لیتے، مسند امد میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں میں بہترین اخلاق اور پاکیزہ ترین عادتوں کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اور آپ کے مخالف اور منکر ابھی ابھی جان لیں گے کہ دراصل بہکا ہوا اور گمراہ کون تھا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت ( سَيَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْاَشِرُ 26) 54 ۔ القمر :26) انہیں ابھی کل ہی معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا اور شیخی باز کون تھا ؟ جیسے اور جگہ ہے آیت (وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 24) 34 ۔ سبأ :24) ہم یا تم ہدایت پر ہیں ایک کھلی گمراہی پر حضرات ابن عباس فرماتے ہیں یعنی یہ حقیقت قیامت کے دن کھل جائے گی، آپ سے مروی ہے کہ (مفتون) مجنون کو کہتے ہیں مجاہد وغیرہ کا بھی یہی قول ہے، قتادہ وغیرہ فرماتے ہیں یعنی کون شیطان سے نزدیک تر ہے ؟ (مفتون) کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ جو حق سے بہک جائے اور گمراہ ہوجائے (ایکم) پر (ب) کو اس لئے داخل کیا گیا ہے کہ دلالت ہوجائے کہ آیت ( فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ ۙ ) 68 ۔ القلم :5) میں تضمین فعل ہے تو تقدیری عبارت کو ملا کر ترجمہ یوں ہوجائے گا کہ تو بھی اور وہ بھی عنقریب جان لیں گے اور تو بھی اور وہ سب بھی بہت جلدی (مفتون) کی خبر دے دیں گے واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کہ تم میں سے بہکنے والے اور راہ راست والے سب اللہ پر ظاہر ہیں اسے خوب معلوم ہے کہ راہ راست سے کس کا قدم پھسل گیا ہے۔