الاعراف آية ۱۱
وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ ۗ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا)، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا،
English Sahih:
And We have certainly created you, [O mankind], and given you [human] form. Then We said to the angels, "Prostrate to Adam"; so they prostrated, except for Iblees. He was not of those who prostrated.
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس، یہ سجدہ کرنے والوں میں نہ ہوا،
3 Ahmed Ali
او رہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو پھر سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا
4 Ahsanul Bayan
اور ہم نے تم کو پیدا کیا (١) پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔
۔١ خَلَقْنَاکُمْ میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے لیکن مراد ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم ہی نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے سجدہ کرو تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا
6 Muhammad Junagarhi
اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو سو سب نے سجده کیا بجز ابلیس کے، وه سجده کرنے والوں میں شامل نہ ہوا
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک ہم نے تمہاری تخلیق کا آغاز کیا اور پھر تمہاری صورت گری کی اس کے بعد فرشتوں سے کہا کہ آدم(ع) کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے تم سب کو پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں مقرر کیں -اس کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں تو سب نے سجدہ کرلیا صرف ابلیس نے انکار کردیا اور وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا
9 Tafsir Jalalayn
اور ہمیں نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت و شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو۔ تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس۔ کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا۔
آیت نمبر ١١ تا ٢٥
ترجمہ : اور ہم نے تم کو یعنی تمہارے دادا آدم کو پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں یعنی تمہاری صورتیں اس حال میں بنائیں کہ تم آدم (علیہ السلام) کی پشت میں تھے، پھر ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو، جھک کر سجدہ تعظیمی، تو سب نے سجدہ کیا بجز ابو الجن ابلیس کے اور وہ فرشتوں کے درمیان بودوباش رکھتا تھا، اور وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کس چیز نے تجھ کو سجدہ کرنے سے روکا جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا، لا، زائدہ ہے، (تو) کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں (اسلئے کہ) تو نے مجھے آگ سے اور اسکو مٹی سے پیدا کیا، حق تعالیٰ نے فرمایا تو جنت سے اتر اور کہا گیا ہے کہ آسمانوں سے اتر، تجھ کو کوئی حق نہیں کہ تو آسمانوں (یا جنت) میں رہ کر تکبر کرے، لہٰذا تو اس سے نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے، (ابلیس) نے کہا مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن لوگ اٹھائے جائیں حق تعالیٰ نے فرمایا تجھے مہلت ہے، اور دوسری آیت میں ہے وقت مقرر تک یعنی نفخہ اولیٰ تک، تو (ابلیس) نے کہا قسم ہے مجھے تیرے اغوا کرنے کی باء قسم کے لئے ہے میں ان کے یعنی بنی آدم کیلئے تیری سیدھی راہ پر (یعنی) اس راہ پر جو تجھ تک پہنچانے والی ہے بیٹھوں گا، اور اس کا جواب لَاَقْعُدنَّ ہے، پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے یعنی ہر جہت سے ان کو راہ راست پر چلنے سے روکوں گا ابن عباس نے فرمایا لوگوں کے اوپر سے آنی کی استطاعت نہیں رکھتا تاکہ وہ بندے اور اللہ کی رحمت کے درمیان حائل نہ ہوجائے اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گذار (یعنی) مومن نہ پائیں گے اللہ نے فرمایا تو یہاں سے معیوب مغضوب مردود ہو کر نکل جا، انسانوں میں سے جو تیری پیروی کرے گا اور لام ابتداء ہے یا قسم کی تمہید کے لئے ہے (یعنی قسم محذوف پر دلالت کرنے کے لئے) وہ لَاملئنَّ ہے، میں تم سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا، یعنی تجھ سے مع تیری ذریت کے اور انسانوں سے (جہنم کو بھر دوں گا) اس میں حاضر کو غائب پر غلبہ دیا گیا ہے، اور جملہ (لأملئنَّ ) میں مَنْ شرطیہ کی جزاء کے معنی ہیں، یعنی جو تیری اتباع کرے گا میں اس کو عذاب دوں گا، اور (اللہ نے) فرمایا اے آدم تم اور تمہاری بیوی حواء مد کے ساتھ (انت) اُسکن کے اندر ضمیر مستر کی تاکید ہے تاکہ اس پر عطف کیا جاسکے، جنت میں رہو، جہاں سے جس چیز کو تمہارا جی چاہے کھاؤ اور کھانے کی نیت سے اس درخت کے قریب بھی مت جانا اور وہ شجر گندم ہے ورنہ تو تمہارا شمار ظالموں میں ہوجائیگا، پھر شیطان ابلیس نے ان دونوں کو بہکایا تاکہ ان دونوں کی شرم گاہوں کو جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ظاہر کر دے (وُوْرِی) المواراۃ سے فُوعِلَ کے وزن پر ماضی مجہول ہے اور کہا تم دونوں کو اس درخت سے دور کرنے کی بجز اس کے کوئی وجہ نہیں کہ اس کو تمہارا فرشتہ ہوجانا ناپسند ہے اور (ملِکین) کا لام کے کسرہ کے ساتھ (بھی) پڑھا گیا ہے یا یہ کہ تم دونوں ہمیشہ کے لئے جنتی ہوجاؤ اسلئے کہ یہ (خلود) اس کے کھانے کے لئے لازم ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے (ھَلْ اَدُلُّک علی شجرۃ الخلد وَمُلکٍ لا یبلیٰ ) اور ان دونوں کے روبرو اللہ کی قسم کھائی کہ میں اس معاملہ میں یقیناً تم دونوں کا خیر خواہ ہوں سو ان دونوں کو ان کے مقام سے فریب کے ذریعہ نیچے لے آیا، ان دونوں نے جب درخت کو چکھا یعنی اس کا پھل کھایا تو دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھل گئیں، یعنی ان میں ہر ایک کی قبل اور دوسرے کی قبل اور اس کی دبر ظاہر ہوگئی، اور دونوں کی شرمگاہوں کا سوأۃ نام رکھا اسلئے کہ شرمگاہ کا کھل جانا صاحب شرمگاہ کو رنجیدہ کرتا ہے، اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتوں کو چپکانے لگے، یعنی دونوں نے اپنی شرمگاہوں پر پتوں کو چپکانا شروع کردیا، تاکہ ان کے ذریعہ ستر پوشی کریں، اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے کھلی عداوت والا ہے، یہ استفہام تقریری ہے دونوں نے کہا اے رب ہم نے معصیت کے ذریعہ اپنے اوپر ظلم کیا، اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہمارے اوپر رحم نہ کرے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے اللہ نے حکم دیا اے آدم و حواء تم مع اپنی ذریت کے جس پر تم مشتمل ہو نیچے اتر و تمہاری ذریت میں سے بعض بعض کی دشمن ہوگی بعض کے بعض پر ظلم کرنے کی وجہ سے، اور تمہارے لئے زمین جائے سکونت ہے اور ایک مدت تک (اس میں) نفع حاصل کرنا ہے تم مدت العمر وہیں رہو گے، فرمایا تمہیں زمین ہی پر زندگی بسر کرنی ہے اور وہیں مرنا ہے اور زندہ کرکے تمہیں وہیں سے نکالا جائیگا (تخرجون) میں معروف و مجہول دونوں ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ای اباکم آدم۔ سوال : خلقنٰکم میں خطاب بنی آدم کو ہے جس سے معلوم ہوتا ہے خلق و تصویر کا تعلق بنی آدم سے ہے حالانکہ خلقنٰکم کی تفسیر اَیْ اَباکم آدم سے معلوم ہوتا ہے کہ خلق و تصویر کا تعلق آدم (علیہ السلام) سے ہے۔
جواب : یہ ہے کہ چونکہ آگے ملائکہ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آدم کو سجدہ کریں اگر خلقنٰکم میں کُم سے مراد آدم (علیہ السلام) نہ ہوں تو تخلیق اور امر بالسجدہ میں مطابقت باقی نہیں نہ رہے گی یعنی تخلیق بیان ہو رہی ہے ذریۃً کی اور اس کا انعام دیا جا رہا ہے آدم (علیہ السلام) کو اسی شبہ کو دور کرنے کے لئے مضاف محذوف ماننے کی ضرورت پیش آئی۔
قولہ : کَانَ بَیْنَ المَلاَئِکَۃِ ۔ سوال : اس عبارت کے اضافہ کا کیا مقصد ہے ؟
جواب : مذکورہ اضافہ کا مقصد اِلاَّ ابلیس کے استثناء کو درست قرار دینا ہے۔
سوال : اِلاَّ ابلیس ہی سے ابلیس کا سجدہ نہ کرنا مفہوم ہو رہا ہے پھر لم یکن من الساجدین کہنے سے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : اِلاَّ ابلیس سے مطلق سجدہ کی نفی مفہوم نہیں ہوتی بلکہ صرف بوقت حکم سجدہ کی نفی مفہوم ہو رہی ہے ممکن ہے کہ اس وقت سجدہ نہ کیا ہو مگر بعد میں کرلیا ہو، جب لم یکن من الساجدین کا اضافہ ہوگیا تو اس سے مطلق سجدہ کی نفی ہوگئی یعنی ابلیس نے نہ بوقت حکم سجدہ کیا اور نہ بعد میں۔
قولہ : زائدۃ، یعنی اَلاَّ میں لا زائدہ ہے ورنہ تو مطلب ہوگا سجدہ کرنے سے منع کیا اسلئے کہ نفی النفی اثبات ہوتا ہے حالانکہ یہ مقصد نہیں
قولہ : أَخِّرْنِی، انظرنی کی تفسیر اَخِّرنی سے کرکے اشارہ کردیا کہ، انظرنی بمعنی انتظار ہے نہ کہ بمعنی رؤیت ورنہ تو معنی فاسد ہوجائیں
شبہ : شبہ یہ ہے کہ ابلیس نے انظرنی الی یوم یُبْعَثُوْنَ کہہ کر نفخہ ثانیہ تک زندہ رہنے کی اجازت طلب کی اور اس کے بعد موت نہیں اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اِنَّکَ مِنَ المُنظرین کہہ کر ابلیس کی درخواست منظور فرمالی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابلیس موت سے محفوظ ہوگیا اس پر موت طاری نہیں ہوگی اسلئے کہ نفخہ اولی سے پوری کائنات پر فنا طاری ہوگی اور نفخہ ثانیہ سے پوری کائنات زندہ ہوجائے گی چونکہ ابلیس نے نفخہ ثانیہ تک زندہ رہنے کی اجازت طلب کی تھی جو کہ منظور بھی ہوگئی اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کے قول انک مِنَ المنظرین سے یہی مفہوم ہے۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ اِنّکَ مِنَ المنظرین سے اگرچہ مطلقاً ابلیس کی درخواست کو قبول کرنا معلوم ہوتا ہے مگر دوسری آیت میں معلوم ہوتا ہے کہ مراد نفخہ اولی ہے جو کہ نفخہ فنا ہے لہٰذا معلوم ہوگیا کہ ابلیس بھی فنا ہونے والوں میں شامل ہوگا۔
قولہ : مَذْؤمًا بالھمزۃ بمعنی معیوباً ایک قراءت میں مذمومًا بھی ہے۔ قولہ : وَاللام للابتداء لَمَنْ تبعکَ میں لام ابتدائیہ تاکید کیلئے ہے۔
قولہ : وفِی الْجُمْلَۃِ مَعْنَی الْجَزَاءِ یہ اضافہ اس سوال کا جواب ہے کہ لَمَنْ تبِعَکَ شرط بغیر جزاء کے ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ جملہ لاملئنَّ قائم مقام جزاء ہے لہٰذا شرط بدون الجزاء کا اعتراض ختم ہوگیا۔
سوال : مذکورہ جملہ کو قائم مقام جملہ جزاء قرار دینے کے بجائے جزاء قرار کیوں نہیں دیا ؟
جواب : جملہ فعلیہ جب جزاء واقع ہوتا ہے تو اس پر لام داخل نہیں ہوتا اور یہاں لام داخل ہے اسی لئے اس جملہ کو جزاء قرار دینے کے بجائے قائم مقام جزاء قرار دیا ہے۔ (ترویح الارواح)
قولہ : اَوْ موطئۃً للقسم یعنی لام قسم محذوف پر دلالت کرنے کیلئے ہے اور وہ لاَ ملئنَّ الخ ہے ای اقسم لا ملئنَّ الخ۔
قولہ : وُوْرِیَ (بروزن) فُوْعِلَ مِنَ الموارۃ، اس میں ایک سوال مقدر کے جواب کی طرف اشارہ ہے۔
سوال : جب اول کلمہ میں دو داؤ جمع ہوجاتے ہیں اور ان میں اول مضموم ہو تو اول کو ہمزہ سے بدلنا واجب ہوتا ہے جیسا کہ وُوَیْصِلٌ میں جو کہ واضِلٌ کی تصغیر ہے پہلے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر اُوَیْصِلٌ کردیا۔
جواب : یہ قاعدہ ان دو واؤ میں ہے جو متحرک ہوں تاکہ چقل کو کم کیا جاسکے، اور یہاں ثانی واؤ ساکنہ ہے لہٰذا یہاں یہ قاعدہ جاری نہ ہوگا
قولہ : حطّھما، یہ تفسیر لازم معنی کو بیان کرنے کیلئے ہے اسلئے کہ تدلیہ ارسال الشئ من اعلی الی اسفل کو کہتے ہیں۔
قولہ : ای آَدْمُ و حَوَّاءُ بما اشتَمَلْتُمَا الخ، یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ اھبطوا جمع کا صیغہ ہے حالانکہ اس کے مخاطب آدم (علیہ السلام) و حواء صرف دو فرد ہیں لہٰذا اِھْبطا ہونا چاہیے تھا، جواب کا حاصل یہ ہے کہ مراد حضرت آدم و حواء مع انکی ذریت ہیں لہٰذا کوئی شبہ نہیں
تفسیر و تشریح
ولقد خلقنٰکم، خلَقنٰکم میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے مگر مراد اس سے ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں حضرت آدم چونکہ اپنی پوری ذریت پر مشتمل ہیں اور ابو البشر ہیں اسی وجہ سے جمع کی ضمیر سے خطاب فرمایا، اخفش نے کہا ہے کہ ثمَّ صورنا کم میں ثم بمعنی واؤ ہے، اَلاَّ تسجدَ میں لا زائدہ ہے ای اَنْ تسجدَ ، (تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکا، یا عبارت محذوف ہے یعنی تجھے کس چیز نے اس بات پر مجبور کیا کہ تو سجدہ نہ کرے (ابن کثیر، فتح القدیر) اور کہا گیا ہے کہ مَنَعَ بمعنی قال ہے الی من قال لک ان لا تسجد اور کہا گیا ہے کہ مَنَعَ بمعنی دعا ہے ای ما دَعٰک اِلیٰ اَن لاتسجد، شیطان فرشتوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود قرآن کی صراحت کے مطابق جنات میں سے تھا (الکہف) لیکن آسمان پر فرشتوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس سجدہ کے حکم میں شامل تھا جو اللہ نے فرشتوں کو دیا تھا اسی لئے اس سے سجدہ نہ کرنے پر باز پرس ہوئی، اگر وہ اس حکم میں شامل نہ ہوتا تو اس سے باز پرس نہ ہوتی اور نہ وہ راندہ درگاہ ہوتا۔
انسانی تخلیق کا قرآنی نظریہ : مذکورہ آیت سے تخلیق ابو البشر کی جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے پہلے ابو البشر کی تخلیق کا منصوبہ بنایا، اور مادہ آفرینش تیار کیا، پھر اس مادہ کو انسانی صورت بخشی، پھر جب ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے انسان وجود میں آگیا تو اس کو سجدہ کرنے کے لئیے فرشتوں کو حکم دیا، اس آیت کی یہ تشریح خود قرآن مجید میں دوسرے مقام پر بیان کی گئی ہے، مثلاً سورة ص میں ہے، ” اِذ قال رَبُّکَ للملئِکۃ اِنی خالق بشراً من طین فاِذَا سَوّیتہٗ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ سٰجدین “ اس آیت میں وہی تین مراتب ایک دوسرے انداز میں بیان کئے گئے ہیں، یعنی پہلے مٹی سے ایک بشر کی تخلیق پھر اس کی شکل و صورت اور اعضاء میں تسویہ و اعتدال قائم کرنا پھر اس کے اندر اپنی روح پھونکنا اگرچہ تخلیق انسانی کے اس آغاز کو اس کی تفصیلی کیفیت کے ساتھ کما حقہ ہمارے لئے سمجھنا مشکل ہے، اور نہ ہم اس حقیقت کا پوری طرح ادراک کرسکتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید انسانیت کے آغاز کی کیفیت ان نظریات کے خلاف بیان کرتا ہے جو موجودہ زمانہ میں ڈارون کے متبعین نظریہ ارتقاء کو سائنس کے نام پر پیش کرتے ہیں، ان نظریات کی رو سے انسان غیر انسانی یا نیم انسانی حالت کے مختلف مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے، اور اس ارتقاء کے طویل خط میں کہیں کوئی نقطہ خاص نظر نہیں آتا کہ جہاں سے غیر انسانی حالت کو ختم قرار دیکر نوع انسانی کا نقطہ آغاز تسلیم کیا جائے، اس کے برخلاف قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت کا آغاز خالص انسانیت سے ہوا، اس کی تاریخ قطعاً کسی غیر انسانی تاریخ سے کوئی رشتہ نہیں رکھتی وہ اول روز سے انسان بنایا گیا تھا اور خدا نے کامل انسانی شعور کے ساتھ اس کی ارضی زندگی کی ابتداء کی تھی۔
ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی حقیقت : اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ قرآنی تصور انسان چاہے اخلاقی حیثیت سے کتنا ہی بلند ہو مگر محض اس تخیل کی خاطر ایسے نظریہ کو کس طرح رد کیا جاسکتا ہے کہ جو سائنٹفک دلائل سے ثابت ہے، لیکن جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع ڈارونی نظریہ ارتقاء سائنٹفک دلائل سے ثابت ہوچکا ہے ؟ سائنس سے محض سرسری واقفیت رکھنے والا تو بیشک اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ ڈارونی نظریہ ایک ثابت شدہ حقیقت بن چکا ہے، لیکن محققین اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ الفاظ کے لمبے چوڑے دعوؤں اور ہڈیوں کے عجیب و غریب ڈھانچوں کے باوجود ابھی تک یہ صرف ایک نظریہ ہی ہے، اور اس کے جن دلائل کو غلطی سے دلائل ثبوت کہا جاتا ہے وہ دراصل محض دلائل امکان ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ بنی آدم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ﴾ ” اور ہم نے تمہیں پیدا کیا“ یعنی تمہارے جد امجد آدم کی اصل اور اس کے مادے کی تخلیق کی، جس سے تم سب پیدا کئے گئے ﴿ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ﴾” پھر تمہاری صورت شکل بنائی۔“ پھر ہم نے تمہیں بہترین صورت اور بہترین قامت عطا کی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے جس سے اس کی باطنی صورت کی تکمیل ہوئی، پھر باعزت فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کے اکرام و احترام اور اس کی فضیلت کے اعتراف کے طور پر اسے سجدہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی ﴿فَسَجَدُوا﴾” پس انہوں نے سجدہ کیا۔“ یعنی تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ﴿إِلَّا إِبْلِيسَ ﴾ مگر ابلیس نے تکبر اور خودپسندی کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney tumhen peda kiya , phir tumhari soorat banai , phir farishton say kaha kay : Adam ko sajda kero . chunacheh sabb ney sajda kiya , siwaye iblees kay . woh sajda kernay walon mein shamil naa huwa .
12 Tafsir Ibn Kathir
ابلیس، آدم (علیہ السلام) اور نسل آدم
انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدام کا حسد کیا۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو اسی واقعہ کا ذکر آیت (وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 28) 15 ۔ الحجر) میں بھی ہے۔ حضرت آدم کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا انسانی صورت عطا فرمائی پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کیلئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاؤ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا اس واقعہ کو سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر (رح) نے بھی پسند فرمایا ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ میں پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی۔ لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ حضرت آدام (علیہ السلام) کے لئے ہی ہوا تھا۔ جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لئے ہوا کہ حضرت آدم تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت (وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى ۭ كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ۭ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ 57) 2 ۔ البقرة) اسی کی نظیر ہے یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو حضور کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر، لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گذار ہونا چاہئے تھا اس لئے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی۔ یہاں یہ بات واضح ہے اس کے بالکل برعکس آیت (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْن 12) 23 ۔ المؤمنون) ہے کہ مراد آدم ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انان ہے نہ کہ معین۔ واللہ اعلم۔