Skip to main content

وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ ۗ لَمْ يَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ

And certainly
وَلَقَدْ
اور البتہ تحقیق
We created you
خَلَقْنَٰكُمْ
پیدا کیا ہم نے تم کو
then
ثُمَّ
پھر
We fashioned you
صَوَّرْنَٰكُمْ
صورت بنائی ہم نے تمہاری
Then
ثُمَّ
پھر
We said
قُلْنَا
کہا ہم نے
to the Angels
لِلْمَلَٰٓئِكَةِ
فرشتوں کو
"Prostrate
ٱسْجُدُوا۟
سجدہ کرو
to Adam"
لِءَادَمَ
آدم کے لئے
So they prostrated
فَسَجَدُوٓا۟
تو انہوں نے سجدہ کیا
except
إِلَّآ
سوائے
Iblees
إِبْلِيسَ
ابلیس کے
Not
لَمْ
نہ
he was
يَكُن
تھا وہ
of
مِّنَ
سے
those who prostrated
ٱلسَّٰجِدِينَ
ان ( سے) جو سجدہ کرنے والے ہیں / سجدہ کرنے والوں میں سے

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا

English Sahih:

And We have certainly created you, [O mankind], and given you [human] form. Then We said to the angels, "Prostrate to Adam"; so they prostrated, except for Iblees. He was not of those who prostrated.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کی، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدمؑ کو سجدہ کرو اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور بیشک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس، یہ سجدہ کرنے والوں میں نہ ہوا،

احمد علی Ahmed Ali

او رہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں بنائیں پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو پھر سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور ہم نے تم کو پیدا کیا (١) پھر ہم نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔

۔١ خَلَقْنَاکُمْ میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے لیکن مراد ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور ہم ہی نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے سجدہ کرو تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو سو سب نے سجده کیا بجز ابلیس کے، وه سجده کرنے والوں میں شامل نہ ہوا

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بے شک ہم نے تمہاری تخلیق کا آغاز کیا اور پھر تمہاری صورت گری کی اس کے بعد فرشتوں سے کہا کہ آدم(ع) کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ تھا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور ہم نے تم سب کو پیدا کیا پھر تمہاری صورتیں مقرر کیں -اس کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں تو سب نے سجدہ کرلیا صرف ابلیس نے انکار کردیا اور وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور بیشک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم (علیہ السلام) کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا)، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ابلیس، آدم (علیہ السلام) اور نسل آدم
انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدام کا حسد کیا۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو اسی واقعہ کا ذکر آیت (وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ 28) 15 ۔ الحجر) میں بھی ہے۔ حضرت آدم کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا انسانی صورت عطا فرمائی پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کیلئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاؤ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا اس واقعہ کو سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر (رح) نے بھی پسند فرمایا ہے۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ میں پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی۔ لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ حضرت آدام (علیہ السلام) کے لئے ہی ہوا تھا۔ جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لئے ہوا کہ حضرت آدم تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت (وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى ۭ كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ ۭ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ 57) 2 ۔ البقرة) اسی کی نظیر ہے یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو حضور کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر، لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گذار ہونا چاہئے تھا اس لئے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی۔ یہاں یہ بات واضح ہے اس کے بالکل برعکس آیت (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْن 12) 23 ۔ المؤمنون) ہے کہ مراد آدم ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انان ہے نہ کہ معین۔ واللہ اعلم۔