الاعراف آية ۱۴۸
وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ ۗ اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَكَانُوْا ظٰلِمِيْنَ
طاہر القادری:
اور موسٰی (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا لیا (جو) ایک جسم تھا، اس کی آواز گائے کی تھی، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ہی انہیں راستہ دکھا سکتا ہے۔ انہوں نے اسی کو (معبود) بنا لیا اور وہ ظالم تھے،
English Sahih:
And the people of Moses made, after [his departure], from their ornaments a calf – an image having a lowing sound. Did they not see that it could neither speak to them nor guide them to a way? They took it [for worship], and they were wrongdoers.
1 Abul A'ala Maududi
موسیٰؑ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی کیا اُنہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے؟ مگر پھر بھی اُنہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے
2 Ahmed Raza Khan
اور موسیٰ کے بعد اس کی قوم اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا بیٹھی بے جان کا دھڑ گائے کی طرف آواز کرتا، کیا نہ دیکھا کہ وہ ان سے نہ بات کرتا ہے اور نہ انہیں کچھ راہ بتائے اسے لیا اور وہ ظالم تھے
3 Ahmed Ali
اور موسیٰ کی قوم نے اس کے بعد اپنے زیوروں سے بچھڑا بنا لیا ایک جسم تھا جس میں گائے کی آواز تھی کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات بھی نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں راہ بتاتا ہے اسے معبود بنا لیا اور وہ ظالم تھے
4 Ahsanul Bayan
اور موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ کوئی راہ بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا (١)
١٤٨۔١ موسیٰ علیہ السلام جب چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر گئے تو پیچھے سے سامری نامی شخص نے سونے کے زیورات اکھٹے کرکے ایک بچھڑا تیار کیا جس میں اس نے جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹی بھی، جو اس نے سنبھال کر رکھی تھی شامل کردی، جس میں اللہ نے زندگی کی تاثیر رکھی تھی جس کی وجہ سے بچھڑا کچھ کچھ بیل کی آواز نکالتا تھا (گو واضح کلام کرنے اور راہنمائی کرنے سے عاجز تھا جیسا کہ قرآن کے الفاظ واضح کر رہے ہیں، اسمیں اختلاف ہے کہ فی الواقع گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا، یا تھا وہ سونے کا ہی، لیکن کسی طریقے سے اس میں ہوا داخل ہوتی تو گائے، بیل کی سی آواز اس میں سے نکلتی۔ (ابن کثیر) اس آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ تمہارا معبود تو یہ ہے، موسیٰ علیہ السلام بھول گئے ہیں اور وہ معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور قوم موسیٰ نے موسیٰ کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا (وہ) ایک جسم (تھا) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی۔ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے۔ اس کو انہوں نے (معبود) بنالیا اور (اپنے حق میں) ظلم کیا
6 Muhammad Junagarhi
اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وه ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ ان کو کوئی راه بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور موسیٰ کی قوم نے ان کے (کوہِ طور پر چلے جانے کے) بعد اپنے زیوروں سے (ان کو گلا کر) ایک بچھڑے کا پتلا بنا لیا جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا انہوں نے اتنا بھی نہ دیکھا (نہ سوچا) کہ وہ نہ ان سے بات کرتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کی راہنمائی کر سکتا ہے پھر بھی انہوں نے اسے (معبود) بنا لیا اور وہ (اپنے اوپر) سخت ظلم کرنے والے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور موسٰی علیھ السّلامکی قوم نے ان کے بعد اپنے زیورات سے گوسالہ کا مجسمہ بنایا جس میں آواز بھی تھی کیاان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ وہ نہ بات کرنے کے لائق ہے اور نہ کوئی راستہ دکھا سکتا ہے انہوں نے اسے خدا بنالیا اور وہ لوگ واقعاظلم کرنے والے تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور قوم موسیٰ نے موسیٰ کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا (وہ) ایک جسم (تھا) جس میں سے بیل کی آوازیں نکلتی تھی۔ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ انکو راستہ دکھا سکتا ہے ؟ اسکو انہوں نے (معبود) بنا لیا اور (اپنے حق میں) ظلم کیا۔
آیت نمبر ١٤٨ تا ١٥١
ترجمہ : اور موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) نے موسیٰ کے مناجات کیلئے جانے کے بعد ان زیورات سے جن کو وہ فرعون کی قوم (قبطیوں) سے شادی کے بہانے عاریۃً لے آئے تھے، پھر وہ ان ہی کے پاس رہ گئے تھے، گوشت پوست (خون) کے بچھڑے کا ایک پتلا (معبود) سامری نے ان کیلئے اس زیور کا بنادیا، جَسَدًا، عجلاً سے بدل ہے معنی میں گوشت اور خون کے ہے اس کی بیل کے جیسی آواز تھی جو سنی جاتی تھی، اس طرح قلب ماہیت پتلے کے منہ میں اس مٹی کے ڈالنے کی وجہ سے ہوگئی جس کو سامری نے جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے لے لیا تھا، اس مٹی کا اثر زندگی ہر اس شئ پر ظاہر ہوتا تھا، جس میں وہ ڈالدی جاتی، اتخذ کا مفعول محذوف ہے اور وہ اِلٰھاً ہے، کیا انھیں نظر نہیں آتا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے ؟ نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے اس کو کس طرح معبود بنایا جاسکتا ہے، مگر پھر بھی انہوں نے اس کو معبود بنا لیا، اس کو معبود بنا کر بڑی ناانصافی کا کام کیا، اور جب وہ بچھڑے کی بندگی پر نادم ہوئے اور ان کی سمجھ میں آگیا کہ وہ درحقیقت اس کی وجہ سے گمراہ ہوگئے ہیں اور یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واپس آنے کے بعد ہوا، تو کہنے لگے، اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم یقیناً زیاں کاروں میں ہوجائیں گے، اور (ادھر) جب موسیٰ (علیہ السلام) ان پر غصے اور شدید غم میں بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے تو ان سے فرمایا تم لوگوں نے میرے بعد بہت بری جانشینی کی، تمہاری یہ جانشینی کہ تم شرک میں مبتلا ہوئے کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوسکا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرلیتے ؟ اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں، (یعنی) خدا کے لئے غصہ میں تورات کی تختیاں (ایک طرف رکھ دیں) جو ٹوٹ گئیں، اور اپنے بھائی کے سر کے بال دائیں ہاتھ سے اور ان کی داڑھی بائیں ہاتھ سے پکڑ کر غصہ میں اپنی طرف کھینچتے (ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے بھائی ان لوگوں نے مجھے کمزور پایا (یعنی مجھے دبا لیا) اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر ڈالیں پس تم اپنی طرف سے میری توہین کرکے دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دو ، اور مجھ کو بچھڑے کی بندگی کرنے کی وجہ سے مواخذہ میں ظالم لوگوں میں شمار نہ فرمائیں، (موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب میں نے اپنے بھائی کے ساتھ کیا اسے معاف فرما اور میرے بھائی کو معاف فرما، دعاء میں اپنے بھائی کو ان کو خوش کرنے اور دشمنوں کی خوشی کو دفع کرنے کیلئے شریک کرلیا، اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : حُلِیِّھم، حُلِیُّ ، حَلْیٌ کی جمع ہے، جیسا کہ ثُدِیٌّ ثَدْیٌ کی جمع ہے، حُلِیٌّ اصل میں حُلُوْیٌ تھا، واو اور یاء ایک جگہ جمع ہوئے ساکن واؤ کو یاء کو یاء میں ادغام کردیا، اور یاء کی رعایت سے لام کے ضمہ کو کسرہ سے بدل دیا، حُلِیٌّ ہوگیا۔
قولہ : صَاغَہٗ لھم السامریُ ، سامریُ صاغ کا فاعل ہے اور ہٗ ضمیر عجلاً کی طرف راجع ہے لھم کی ضمیر قوم کی طرف راجع ہے اور منہ کی ضمیر سونے کے زیورات کی طرف راجع ہے، مطلب یہ ہے کہ سامری نے سونے کے زیورات سے قوم بنی اسرائیل کیلئے ایک بچھڑا ڈھال دیا۔ تنبیہ : جلالین کے نسخوں میں صَاغہٗ کے بجائے صَاغَھُمْ ہے جو زلت قلم معلوم ہوتی۔
قولہ : جسداً ، بَدَلٌ۔ سوال : عَجَلاً کا بدل جسدًا لانے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟
جواب : اس بدل سے یہ شبہ دور کر ہوسکتا ہے عجل نقش علی الحائط کے طور پر بنایا ہو اور جب اس کا بدل جسدًا آگیا تو معلوم ہوا گیا پتلا بنایا تھا نہ کی نقش بر دیوار۔
قولہ : لحمًا ودمًا اس میں اشارہ ہے کہ یہ بچھڑا حقیقی بچھڑے کے مانند گوشت پوست اور خون وغیرہ سے مرکب تھا، (مگر یہ تفسیر مرجوع ہے) ۔
قولہ : ومَفْعُولُ اِتَّخَذَ الثَّانِی مَحْذُوْفٌ ای اِلٰھاً اس میں اشارہ ہے کہ اتخذ بمعنی صَنَعَ نہیں ہے کہ ایک مفعول پر اقتصار جائز ہو اسلئے کہ مطلق صنع اس کو معبود بنائے بغیر سزائے مذکور کا مستحق نہیں ہوسکتا لہٰذا اخذ کا مفعول ثانی جو کہ الٰھا ہے محذوف ہے۔
قولہ : ای نَدِمُوْا، ولَمَّا سُقِطَ فِیْ اَیْدِیھم، محاورہ میں اس کے معنی نادم ہونے کے ہیں، سُقِطَ فِیْ اَیْدِیھم، ای ندموا، (جوھری) تَقُوْلُ ، العرب لکل نادم علی امر، قد سُقِطَ فی یدہٖ (معالم) ۔
قولہ : بئسَ خلافۃً یہ بئسَما میں ما نکرہ کی تمیز ہے۔
قولہ : خ۔ فْتُمُوْنِی ھَا۔ سوال : ھا، مقدر ماننے کی کیا ضرورت ہے ؟
جواب : یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ ما، موصولہ یا موصوفہ ہے اور خلفتمونی اس کا صلہ یا صفت ہے حالانکہ صلہ اور صفت جب جملہ ہو تو عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے، ھا، مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ عائد محذوف ہے۔
قولہ : خِلاَفَتُکُم ھٰذِہٖ ، یہ مخصوص بالذم محذوف ہے۔
قولہ : غضبًا لربّہ یہ غضب ممنوع سے اعتذار ہے، یعنی مطلقاً غضب ممنوع ہے مگر اللہ کیلئے عداوت محبوب ہے کہا جاتا ہے الحب فی اللہ والبغض فی اللہ خدا ہی کیلئے محبت اور خدا ہی کے لئے عداوت۔
قولہ : ذِکْرُھَا اَعْطفُ لِقَلْبِہٖ ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ، یا بن اُمّ ، سے معلوم ہوتا ہے حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی نہیں ہیں، حالانکہ دونوں حقیقی بھائی ہیں، اس کا جواب دیا کہ ماں جائے کہنا دل کو زیادہ نرم کرنے والا ہے بہ نسبت اس کے عکس کے یعنی یا ابن ام میں زیادہ قربت و شفقت معلوم ہوتی ہے بہ نسبت یا بن ابی کے۔
تفسیر و تشریح
واتخذ قوم۔۔۔۔ لہ خوار، یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خدا کی طلبی پر کوہ سینا پر گئے ہوئے تھے، اور حضرت موسیٰ تیس دن میں واپسی کا وعدہ کرکے گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مزید دس دن کا اضافہ فرما دیا، قوم بنی اسرائیل پہاڑ کی تلیٹی میں میدان راحہ میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ابھی موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور ہی پر تھے کہ پیچھے سامری نامی ایک شخص نے جسکا نام بھی موسیٰ تھا اور منافق تھا قوم کا سونا جمع کرکے ایک زرین گؤ سالہ بنا لیا جس میں اس نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے سم کے نیچے کی مٹی ڈالدی، اس معبود زریں کی یہ کیفیت تھی یہ وہ محض ایک جسد تھا بےجان، ایک قالب تھا بےروح، ایک جسم تھا نے حیات، اس سے ایک آواز نکلتی تھی بچھڑے کی آواز کے مشابہ، کہتے ہیں کہ اس مٹی کے اثر سے اس میں کچھ حیات کے آثار نمودار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے وہ بھیں بھیں کرنے لگا تھا، نہ اس میں حس تھی اور نہ حرکت، ایسی آواز تو مٹی کے کھلونوں میں بھی معمولی صنعت گری سے پیدا ہوجاتی ہے، آجکل صنعتی اور تکنیکی دور میں تو کھلونے نہ صرف مختلف قسم کی آواز نکلالتے ہیں بلکہ عجیب و غریب حرکت بھی کرتے اور چلتے پھرتے ہیں مطلب یہ کہ وہ زرین بچھڑا واقعی جاندار نہیں تھا بعض محققین نے اسکی صراحت کی ہے
کان۔۔۔۔۔ منہ صوت (معالم) بعض مفسرین نے یہاں ایک بحث یہ چھیڑ دی ہے کہ یہ بچھڑا حرکت بھی کرتا تھا یا نہیں اللہ جزائے خیر عطا فرمائے صاحب روح المعانی کو کہ انہوں نے یہ خوب لکھ دیا کہ لیست ہذہ المسئلہ من المہمات، یہ سرے سے کوئی اہم بات ہی نہیں، سامری نے اس بچھڑے کے ذریعہ بنی اسرائیل کو گمراہ کردیا اور قوم کو یہ سمجھا دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں اور معبود یہاں آگیا ہے۔
سقط فی ایدیھم، یہ عربی محاورہ ہے اس کے معنی نادم ہونا ہے، یہ ندامت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی کے بعد ہوئی، جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو زجر و توبیخ کی جیسا کہ سورة توبہ میں ہے یہاں اسے مقدم اس لئے کردیا گیا ہے کہ ان کا فعل اور قول جمع ہوجائے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے آکر دیکھا کہ قوم گؤ سالہ پرستی میں لگی ہوئی ہے تو سخٹ غضبناک ہوئے، گو بنی اسرائیل کے گمراہ ہوجانے کی خبر بذریعہ وحی پہاڑہی پر دیدی گئی تھی، مگر جب اپنی نظروں سے قوم کی گمراہی کو دیکھا تو دینی غیرت اور ایمانی حرارت بھڑک اٹھی اور بےخودی کی کیفیت میں تورات کی تختیاں جو کوہ طور سے اپنے ہمراہ لائے تھے عجلت میں اس طور پر رکھیں کہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا کہ انہوں نے نیچے پھینک دیں، جس کے لئے قرآن نے القیٰ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی ڈال دینے کے ہیں اور اگر ڈال بھی دیں ہوں تو اس میں بےادبی کی کوئی بات نہیں اسلئے کہ وہ واقعہ دینی حمیت اور غیرت کی وجہ سے بےخودی اور بےاختیاری کے عالم میں پیش آیا۔
فائدہ : حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے لیکن یہاں حضرت ہارون (علیہ السلام) نے ماں جائے اسلئے کہا کہ اس لفظ میں پیار اور نرمی کا پہلو زیادہ ہے۔
حضرت ہارون (علیہ السلام) کا عذر : حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنا یہ عذر پیش کیا جس کی وجہ سے وہ اپنی قوم کو شرک میں مبتلا ہونے سے باز رکھنے میں ناکام رہے، حضرت ہارون (علیہ السلام) فرماتے ہیں، اے میرے پیارے ماں جائے بھائی میری بات تو سن لیجئے، میں نے تو اپنی والی بہت کوششیں کی لیکن یہ ظالم و سرکش جب خدا کے خلاف گردن کشی میں باک نہیں رکھتے ؟ تو میری پرواہ کب کرتے ؟ میری ایک نہ چلی اور جب میں نے زیادہ روک ٹوک کرنی چاہی تو بغاوت پر آمادہ ہوگئے، میری جان
بچ گئی یہی بہت ہے۔
توریت میں حضرت ہارون (علیہ السلام) پر گو سالہ سازی کا الزام : کہاں عصمت انبیاء کا یہ قرآنی مقام اور کہاں توریت کی تصریحات کہ اس بت پرستی کے بانی اور باعث ہی معاذ اللہ حضرت ہارون (علیہ السلام) تھے۔
قرآن کی براءت : یہاں قرآن نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ایک بہت بڑے الزام سے براءت کی ہے جس کو یہود نے زبردستی حضرت ہارون (علیہ السلام) پر چسپاں کر رکھا تھا بائبل میں بچھڑے کی پرستش کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے۔
جو موسیٰ کو پہاڑ سے اترنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بےصبر ہو کر حضرت ہارون سے کہا کہ ہمارے لئے ایک معبود بنادو اور حضرت ہارون نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنادیا، جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اٹھے کہ اے بنی اسرائیل یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال لایا ہے پھر حضرت ہارون نے اس کیلئے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کرکے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں۔ (خروج باب ٣٢ آیت ١۔ ٦)
قرآن مجید میں متعدد جگہ پر اس غلط بیانی کی تردید کی گئی ہے۔ یہاں بھی گؤسالہ سازی اور گؤسالہ پرستی کی نسبت بنی اسرائیل کی طرف کرتے ہوئے فرمایا ” وَاتخذ قوم موسیٰ من حلیھم عجلاً جسدًا لَہٗ خُوار “۔
بظاہر یہ بات بڑی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل جن لوگوں کو پیغمبر مانتے ہیں ان میں کسی کو انہوں نے داغدار کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے اور دماغ بھی ایسے سخت لگائے ہیں جو اخلاق و شریعت کی نگاہ میں بدترین جرائم شمار ہوتے ہیں مثلاً شرک، جادوگری، زنا، جھوٹ، دغا بازی اور ایسے دوسرے شدید معاصی جن سے آلودہ ہونا پیغمبر تو درکنار ایک معمولی مومن اور شریف انسان کے لئے بھی سخت شرمناک ہے، یہ بات بجائے خود بڑی عجیب ہے لیکن بنی اسرائیل کی اخلاقی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت اس قوم کے معاملہ میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے یہ قوم جب اخلاقی و مذہبی انحطاط میں مبتلا ہوئی اور عوام سے گزر کر ان کے خواص تک کہ حتی کہ علماء و مشائخ اور دینی منصب داروں کو بھی گمراہیوں اور بداخلاقیوں کا سیلاب بہالے گیا تو ان کے مجرم ضمیر نے اپنی اس حالت کیلئے عذر تراشنے شروع کئے اور اسی سلسلہ میں انہوں نے وہ تمام جرائم جو خود کرتے تھے انبیاء (علیہ السلام) کی طرف منسوب کر ڈالے تاکہ یہ کہا جاسکے کہ جب نبی تک ان چیزوں سے نہ بچ سکے تو بھلا اور کون بچ سکتا ہے، اس معاملہ میں یہودیوں کا حال ہندؤں سے ملتا جلتا ہے ہندؤں میں بھی جب اخلاقی انحطاط انتہاء کو پہنچ گیا تو وہ لڑیچر تیار ہوا جس میں دیوی دیوتاؤں کی، رشیوں، مینوں اور اوتاروں کی، غرض جو بلند کردار آئیڈیل (نمونے) قوم کے سامنے ہوسکتے تھے ان سب کی زندگیاں بداخلاقی کے تارکول سے سیاہ کر ڈالی گئیں تاکہ یہ کہا جاسکے کہ جب ایسی ایسی عظیم ہستیاں ان قبائح میں مبتلا ہوسکتی ہیں تو بھلا ہم معمولی انسان ان میں مبتلا ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا ﴾ ” اور بنا لیا موسیٰ کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیور سے بچھڑا، ایک بدن“۔ بچھڑے کے اس بات کو سامری نے بنایا تھا۔ اس نے فرشتے کے نشان قدم سے مٹھی بھر مٹی لے کر بچھڑے کے بت پر ڈال دی۔﴿لَّهُ خُوَارٌ﴾” اس کی آواز تھی۔“ اس میں سے بچھڑے کی آواز آنے لگے۔ بنی اسرائیل نے اس کو معبود بنا لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے۔
سامری نے کہا ” یہ تمہارا اور موسیٰ کا معبود ہے، موسیٰ اسے بھول گیا ہے اور اسے تلاش کرتا پھر رہا ہے۔“۔۔۔ یہ ان کی سفاہت اور قلت بصیرت کی علامت تھی ان پر زمین اور آسمانوں کے پروردگار اور ایک بچھڑے کے درمیان کیسے اشتباہ واقع ہوگیا۔ بچھڑا تو کمزور ترین مخلوق ہے؟ اسی لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس بچھڑے کے اندر ایسی صفات ذاتی یا صفات فعلی موجود نہیں ہیں جو اس کے معبود ہونے کے استحقاق کو ثابت کرتی ہوں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ ﴾ ” کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ ان سے بات بھی نہیں کرتا“ یعنی کلام کرنے سے محرومی ایک بہت بڑا نقص ہے، وہ خود اس حیوان سے زیادہ کامل حالت کے مالک ہیں جو بولنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ﴿وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا﴾” اور نہیں بتلاتا ان کو راستہ“ یعنی وہ کسی دینی طریقے کی طرف ان کی راہنمائی نہیں کرسکتا اور نہ انہیں کوئی دنیاوی فائدہ عطا کرسکتا ہے۔
انسانی عقل و فطرت میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی ایسی ہستی کو خدا بنانا جو کلام نہیں کرسکتی جو کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتی، سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ﴾” انہوں نے اس کو معبود بنا لیا اور وہ ظالم تھے“ کیونکہ انہوں نے ایسی ہستی کی عبادت کی جو عبادت کی مستحق نہ تھی، انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتا ہے، تو وہ تمام خصائص الٰہیہ کا منکر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ کلام نہ کرنا اس ہستی کے الہ ہونے کی عدم صلاحیت پر دلیل ہے جو کلام نہیں کرسکتی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur musa ki qoam ney unn kay janey kay baad apney zewaron say aik bachrra bana liya ( bachrra kiya tha-? ) aik bey jaan jism jiss say bail ki si aawaz nikalti thi ! bhala kiya unhon ney itna bhi nahi dekha kay woh naa unn say baat ker-sakta hai , aur naa unhen koi raasta bata sakta hai-? ( magar ) ussay mabood bana liya , aur ( khud apni janon kay liye ) zalim ban bethay .
12 Tafsir Ibn Kathir
بنی اسرائیل کا بچھڑے کو پوجنا
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ کے وعدے کے مطابق تورات لینے گئے ادھر فرعونیوں کے جو زیور بنی اسرائیل کے پاس رہ گئے تھے سامری نے انہیں جمع کیا اور اپنے پاس سے اس میں خاک کی مٹھی ڈال دی جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کی ٹاپ تلے سے اس نے اٹھالی تھی اللہ کی قدرت سے وہ سونا گل کر مثل ایک گائے کے جسم کے ہوگیا اور چونکہ کھو کھلا تھا اس میں سے آواز بھی آنے لگی اور وہ بالکل ہو بہو گائے کی سی آواز تھی۔ اس نے بنی اسرائیل کو بہکا کر اس کی عبادت کرانی شروع کردی بہت سے لوگ اسے پوجنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے طور پر حضرت موسیٰ کو اس فتنے کی خبر دی۔ یہ بچھڑا یا تو سچ مچ خون گوشت کا بن گیا تھا یا سونے کا ہی تھا مگر شکل گائے کی تھی یہ اللہ ہی جانے۔ بنی اسرائیل تو آواز سنتے ہی ناچنے لگے اور اس پر ریجھ گئے۔ سامری نے کہہ دیا کہ اللہ تو یہی ہے موسیٰ بھول گئے ہیں۔ انہیں اتنی بھی تمیز نہ آئی کہ وہ اللہ تو کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور کسی نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتا۔ اس بچھڑے کو اس اللہ کو چھوڑ کر پوجو جو سب کا مالک اور سب کا خالق ہے۔ اس کی وجہ سوائے اندھے پن اور بےعقلی کے اور کیا ہوسکتی ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا کردیتی ہے پھر جب اس محبت میں کمی آئی آنکھیں کھلیں تو اپنے اس فعل پر نادم ہونے لگے اور یقین کرلیا کہ واقعی ہم گمراہ ہوگئے تو اللہ سے بخشش مانگنے لگے۔ ایک قرأت میں تغفر تے سے بھی ہے۔ جان گئے کہ اگر معافی نہ ملی تو بڑے نقصان سے دو جار ہوجائیں گے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے جھکے اور التجا کرنے لگے۔