الاعراف آية ۱۷۲
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِىْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۗ قَالُوْا بَلٰى ۛ شَهِدْنَا ۛ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ ۙ
طاہر القادری:
اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں! (تو ہی ہمارا رب ہے،) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے،
English Sahih:
And [mention] when your Lord took from the children of Adam – from their loins – their descendants and made them testify of themselves, [saying to them], "Am I not your Lord?" They said, "Yes, we have testified." [This] – lest you should say on the Day of Resurrection, "Indeed, we were of this unaware."
1 Abul A'ala Maududi
اور اے نبی، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا "کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟" انہوں نے کہا "ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں" یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ "ہم تو اس بات سے بے خبر تھے،"
2 Ahmed Raza Khan
اور اے محبوب! یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا، کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی
3 Ahmed Ali
اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان کی جانوں پر اقرار کرایا کہ میں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے کہا ہاں ہے ہم اقرار کرتے ہیں کبھی قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہمیں تو اس کی خبر نہیں تھی
4 Ahsanul Bayan
اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ (١) تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بےخبر تھے۔
١٧٢۔١ یہ عہد حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ان کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد سے لیا گیا۔ اس کی تفصیل ایک حدیث میں اس طرح آتی ہے ' عرفہ والے دن نعمان جگہ میں اللہ تعالٰی نے اصلاب آدم سے عہد (میثاق) لیا۔ پس آدم کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد کو نکالا اور اس کو اپنے سامنے پھیلا دیا اور ان سے پوچھا، ' کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ' سب نے کہا ' کیوں نہیں ' ہم سب رب ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ امام شوکانی اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں واسنادہ لامطعن فیہ (فتح القدیر) اس کی سند میں کوئی طعن نہیں نیز امام شوکانی فرماتے ہیں۔ یہ عالم ذر کہلاتا ہے اس کی یہی تفسیر صحیح اور حق ہے جس سے عدول اور کسی اور مفہوم کی طرف جاناصحیح نہیں ہے کیونکہ یہ مرفوع حدیث اور آثار صحابہ سے ثابت ہے اور اسے مجاز پر بھی محمول کرناجائز نہیں ہے۔ بہرحال اللہ کی ربوبیت کی یہ گواہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ اسی مفہوم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ جس طرح جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے اس کا ناک کان کٹا نہیں ہوتا۔ اور صحیح مسلم کی روایت ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنیف (اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونے والا) پیدا کیا ہے۔ پس شیطان ان کو ان کے دین (فطری) سے گمراہ کردیتا ہے۔ الحدیث۔ یہ فطرت یادین فطرت یہی رب کی توحید اور اس کی نازل کردہ شریعت ہے جو اب اسلام کی صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) ۔ یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن (کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی
6 Muhammad Junagarhi
اور جب آپ کے رب نے اوﻻد آدم کی پشت سے ان کی اوﻻد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواه بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا (جو نسلاً بعد نسل پیدا ہونے والی تھی) اور ان کو خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا ہاں بے شک ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا پروردگار ہے (یہ کاروائی اس لئے کی تھی کہ) کہیں تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب تمھارے پروردگار نے فرزند ان آدم علیھ السّلامکی پشتوں سے انکی ذرّیت کو لے کر انھیںخود ان کے اوپر گواہ بناکر سوال کیا کہ کیا میں تمھارا خدا نہیں ہوں تو سب نے کہا بیشک ہم اس کے گواہ ہیں -یہ عہد اس لئے لیا کہ روز هقیامت یہ نہ کہہ سکو کہ ہم اس عہد سے غافل تھے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم سے یعنی ان کی پیٹھوں سے انکی اولاد نکالی تو ان سے خود ان کے مقابلے میں اقرار کرا لیا (یعنی ان سے پوچھا کہ) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں ؟ ہم گواہ ہیں (کہ تو ہمارا پروردگار ہے) یہ اقرار اس لیے کرایا تھا کہ قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔
آیت نمبر ١٧٢ تا ١٨١
ترجمہ : اور یاد کرو اس وقت کو کہ تیرے رب نے جب اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا، مَنْ ظُھُوْرِھم اپنے ماقبل (من بنی آدم) سے اعادہ جار کے ساتھ بدل ہے بایں طور کہ وادی نعمان میں عرفہ کے دن بعض کو بعض کی پشت سے صلب آدم سے چیونٹی کی شکل میں نکالا نسلاً بعد نسل اس کے مطابق کہ جس طرح پیدا ہوں گے اور اپنی ربوبیت پر ان کیلئے دلائل قائم کئے اور ان کے اندر عقل کو ترتیب دیا، اور خود ان کو ان کے اوپر شاہد بنایا (اللہ) نے فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا بیشک آپ ہمارے رب ہیں اور یہ گواہ بنانے کا کام اس لئے کیا تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس توحید سے بیخبر تھے یعنی ہمیں اس کا علم نہیں تھا، یا یہ نہ کہنے لگو کی شرک تو ہم سے پہلے ہمارے آباء نے کیا تھا دونوں جگہ یاء اور تاء کے ساتھ، (یاء کی صورت میں) کفار مراد ہوں گے، اور ہم تو بعد کون کی ذریت سے پیدا ہوئے جس کی وجہ سے ہم نے ان کی اقتداء کی پھر کیا آپ ہمیں ان کے قصور کی پاداش میں سزا دیتے ہیں جو ہمارے آباء میں سے غلط کار لوگوں نے شرک کی بنیاد ڈال کر کیا مطلب یہ ہے کہ ان کو اپنی ذات پر گواہ بنانے کے بعد اس قسم کا احتجاج ممکن نہ رہے گا اور صاحب معجزہ (نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی زبانی یاد دلانا خود ان کے دلوں میں یاد رہنے کے قائم مقام ہے اور ہم اسی طرح نشانیاں واضح طور پر بیان کرتے ہیں جیسا کہ ہم نے عہد الست کو بیان کیا تاکہ ان میں غور و فکر کریں تاکہ وہ کفر سے باز آجائیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود کو اس شخص کی خبر سناؤ جس کو ہم نے اپنی نشانیاں (کرامات) عطا کی تھیں تو وہ کفر کی وجہ سے ان کرامات سے نکل گیا جس طرح سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے اور وہ علماء بنی اسرائیل میں سے بلعم بن باعورا تھا، اس سے درخواست کی گئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کیلئے بددعاء کر دے اور اس کو کچھ ہدیہ بھی دیا گیا چناچہ اس نے بددعاء کردی مگر وہ بددعاء اسی پر پلٹ گئی، اور اس کی زبان نکل کر اس کے سینے پر لٹک گئی، پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا چناچہ اس کا پالیا اور اس کا دوست بن گیا، تو وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہوگیا، اگر ہم چاہتے تو ان آیات کی بدولت اسے اعلیٰ درجات پر فائز کردیتے اس طریقہ پر کہ اس کو عمل کی توفیق عطا کردیتے، مگر وہ پستی، یعنی دنیا کی طرف جھک کر رہ گیا، اور اس کی طرف مائل ہوگیا اور خواہشات کی طرف بلانے میں اپنی خواہش کی پیروی کی تو ہم نے بھی اس کو پست (ذلیل) کردیا، تو اس کی مثال اس کتے جیسے ہوگئی کہ اگر تو دھتکار کے ذریعہ اس پر سختی کرے تو زبان لٹکائے رہے، اور اگر تو چھوڑ دے تب بھی زبان لٹکائے رہے، کتے کے علاوہ کسی جانور میں یہ خاصیت نہیں ہے اور دونوں شرطیہ جملے حال ہیں یعنی لاھثاً ذلیلا، حال یہ کہ وہ زبان لٹکائے ہرحال میں ذلیل ہے اور مقصد پستی اور ذلت میں تشبیہ دینا ہے (اور) قرینہ فاء ہے جو کہ مشعر ہے اپنے مابعد کے ماقبل پر جو کہ دنیا کی طرف میلان اور خواہش کی اتباع ہے، مرتب ہونے کی وجہ سے اس کے قول ذلک المثل کے قرینہ سے، یہ مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، تو آپ یہود کو قصے سنائیے تاکہ ان میں غور و فکر کریں اور ایمان لے آئیں، اور ان لوگوں کی مثال جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا بری مثال ہے، وہ لوگ تکذیب کی وجہ سے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اللہ جس کو ہدایت کرتا ہے وہی ہدایت یافتہ ہے، اور کس کو بےراہ کرے وہی زیاں کاروں میں سے ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بہت سے جن و انس کو جہنم کیلئے پیدا کیا ہے ان کے ایسے قلوب ہیں کہ ان سے حق کو سمجھتے نہیں ہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل کو عبرت کی نظر سے دیکھتے نہیں ہیں، اور ان کے کان ہیں مگر ان کے ذریعہ وہ آیات کو اور نصیحتوں کو تدبر اور نصیحت کیلئے سنتے نہیں ہیں یہ لوگ نہ سمجھنے اور نہ دیکھنے اور نہ سننے میں جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں اسلئے کہ جانور اپنے منافع کو طلب کرتا ہے اور مضرت رساں چیزوں سے (دور) بھاگتا ہے، اور یہ لوگو تو عناد کی وجہ سے جہنم کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں اور اللہ کے ننانویں اچھے اچھے نام ہیں جو حدیث میں وارد ہوئے ہیں، حُسْنیٰ اَحْسَنُ کی مؤنث ہے، لہٰذا اس کو ان ہی ناموں سے پکارو اور ان کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں کجروی اختیار کرتے ہیں یہ الْحَدَ اور لَحَدَ سے مشتق ہے اس طور پر کہ انہوں نے اللہ کے ناموں سے اپنے معبودوں کے نام بنالئے ہیں، مثلاً لات، اللہ سے اور العزّٰی، عزیز سے اور منات مَنّان سے عنقریب آخرت میں وہ اس کا بدلہ پا کر رہیں گے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں، یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے کا ہے، اور ہماری مخلوق میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتی ہے اور وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بَدَلُ اشتمالٍ مما قبلہ، یعنی من ظھورھم، بنی آدَمَ سے بدل الاشتمال ہے، یہ قول کو اشی کی اتباع میں ہے، صاحب کشاف نے کہا ہے کہ بدل البعض عن الکل ہے، اور یہی ظاہر ہے، جیسا کہ ضربت زیداً ظھرَہ، اس کو کسی نے بدل الاشتمال نہیں کہا ہے، تقدیر عبارت یہ ہوگی ” وَاذِا اَخَذَ ربُّکَ من ظھور بنی آدم “۔
قولہ : مِنْ صُلْبِ بَعْضٍ مَنْ صُلْبِ آدَمَ ، من صلب بعض موصوف ہے اور من صلب آدم صفت ہے، یعنی نکالا ذریت کو صلب بعض سے جو کہ صلب آدم ہے۔
قولہ : نسلاً بعد نسلٍ ، یعنی اسی ترتیب سے دنیا میں ظہور ہونے والا تھا، یعنی اول حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے آدم کی بلاواسطہ ذریت کو نکالا اور پھر ذریت آدم کی پشت سے ان کی ذریت کو نکالا۔
قولہ : قال، لفظ قال کو اس وجہ سے مقدر مانا کہ بلا ضرورت التفات عن الغیبت الی التکلم لازم نہ آئے۔
قولہ : اَنْتَ رَبُّنَا، یہ اضافہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے کہ بلیٰ ، قالوا کا مقولہ ہے اور مقولہ کیلئے جملہ ہونا ضروری ہے چہ جائیکہ بلیٰ ، حرف مقولہ واقع ہو، جواب یہ ہے کہ عبارت میں حذف ہے تقدیر عبارت یہ ہے بلیٰ انت ربنا، لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں۔
قولہ : والاشھادُ ، لِاشْھَادُ اور لام کی تقدیر سے اشارہ کردیا کہ ان تقولوا، شَھِدْنا کا مفعول لہ ہے۔ (تسھیل)
قولہ : شھِدْنا، اس میں تین احتمال ہیں، (١) یہ کہ ملائکہ کا کلام ہو کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے ذریت آدم کے اقرار پر گواہ بنایا ہو، اس صورت میں وقف بلیٰ پر ہوگا، (٢) یہ بھی احتمال ہے کہ ذریت کا کلام ہو اس صورت میں معنی ہوں گے ہم نے اس کا اقرار کیا، شہادت دی، اس صورت میں بلیٰ پر وقف درست نہ ہوگا بلکہ شھدنا پر ہوگا، (٣) اللہ تعالیٰ کا کلام ہو، ای شھدنا علیٰ اقرار کم کراھۃ ان تقولوا، اولِئلاَّ تقولوا، یعنی ہم نے تم سے اس لئے اقرار لیا تاکہ تم لاعلمی کا عذر نہ کرسکو یا اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ تم لاعلمی کا عذر کرو۔
قولہ : المَعْنٰی لا یُمْکِنُھُمْ الاِحْتِجَاجُ بذلک مطلب یہ ہے کہ ذریت آدم سے اقرار لینے کے بعد انکے پاس لاعلمی اور غفلت کا عذر باقی نہیں رہے گا وہ یہ نہ کہہ سکیں گے، یا الہٰ العلمین اس عہد و میثاق کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں تھا جس کی وجہ سے ہم غفلت میں رہے
قولہ : وَالتَذْکِیْرَ بہ عَلیٰ لِسَان صَاحِب المُعْجِزَۃِ قائمٌ مَقَامَ ذِکْرِہٖ فی النُفُوْسِ یہ عبارت ایک سوال کا مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ روز ازل میں لیا ہوا اقرار دنیا میں آنے کے بعد نسیا منسیا ہوگیا اب کسی کو بھی عہد اَلَسْت یاد نہیں ہے تو ایسے عہد سے کیا فائدہ کہ جو یاد ہی نہ ہو اور نہ اس کی وجہ سے مؤاخذہ ہی ہونا چاہیے۔
جواب : اس بھولے ہوئے عہد الست کو ہی یاد دلانے کیلئے انبیاء کرام کو مبعوث کیا جاتا ہے جو مسلسل اس عہد کو یاد دلاتے رہتے ہیں، لہٰذا اب عدم مؤاخذہ کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
قولہ ؛ التَذْکِیْرُ مُبْتَدَأ ہے اور قائم مقام ذکرہ فی النفوس اس کی خبر ہے۔
قولہ : سَکَنَ ، اس میں اشارہ ہے کہ اَخْلَدَ ، خلود سے مشتق نہیں ہے جس کے معنی دوام کے ہیں بلکہ اَخْلَدَ بمعنی مال ہے، اَخْلَدَ الی الارض، ای مال اِلَیْھا۔
قولہ : فی دعائہٖ الیھا ای دعاء الھویٰ ایّاہ، یعنی خواہش نفس نے بلعام کو دنیا کی طرف بلایا، اس میں مصدر مضاف فاعل ہے۔
قولہ : فَوَضعْنَاہ، ای ذلَّلْناہ۔
قولہ : اَوْ اِنْ تَتْرُکُہٗ ، بعض نسخوں میں انْ ، چھوٹا ہوا ہے جو کہ کاتب کا سہو ہے، مفسر علام نے، اِنْ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ اس کا عطف تحمل پر ہے نہ کہ اِنْ تحمِلْ پر لہٰذا تتر کہ کا جزم ظاہر ہوگیا۔
قولہ : جُمْلَتَا الشَرْطِ حَالٌ، یعنی معطوف اور معطوف علیہ دونوں جملے حال ہیں مطلب یہ ہے کہ کتا ہرحال میں لاھث رہتا ہے خواہ حالت شدت ہو یا راحت۔
تفسیر وتشریح
عالم اروح میں عہدالست : جیسا کہ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے موقع پر پیش آیا تھا اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کرکے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرایا گیا تھا اور زمین پر انسانی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اسی طرح نسل آدم کو بھی جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی اللہ تعالیٰ نے وجود و شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا تھا اور ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار و شہادت لی تھی، اول حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے بلا واسطہ پیدا ہونے والی ذریت کو نکالا اور ان سی عہد الست لیا اس کے بعد آدم کی ذریت کی پشت سے اس کے بعد ان کی پشت سے علی ہذا القیاس تا قیامت نسلا بعد نسل، پیدا ہونے والی ذریت کو نکالا اور ان سے اپنی ربوبیت کا عہد لیا اور اس عہد پر خود ملائکہ کو اور پوری کا ئنات کو گواہ بنایا اس کی تفصیل ایک روایت میں اس طرح آئی ہے کہ وادی نعمان میں عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ نے ذریت آدم سے عہد و میثاق لیا، آدم کی پشت سے ان کی ہو نیوالی تمام اولاد کو نکالا اور ان کو اپنے سامنے پھیلایا اور ان سے پوچھا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا ” بلی شھدنا “۔ (مسند احمد، حاکم)
10 Tafsir as-Saadi
یعنی انسانوں کی صلبوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان کے درمیان قرن بعد قرن سلسلہ تناسل وتوالد جاری ہوا۔ ﴿وَ﴾” اور“ جب ان کو ان کی ماؤں کے بطنوں اور ان کے آباؤ کی صلبوں سے نکالا ﴿أَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ ” اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ یعنی ان کی فطرت میں اپنے رب ہونے، ان کا خالق و مالک ہونے کا اقرار ودیعت کر کے اپنی ربوبیت کے اثبات کا اقرار کروایا۔ ﴿قَالُوا بَلَىٰ ﴾ ” انہوں نے کہا ہاں ! ہم نے اقرار کیا“۔۔۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا ہے۔ پس ہر شخص کو دین حنیف پر تخلیق کیا گیا ہے۔ مگر عقل پر عقائد فاسدہ کے غلبہ کی وجہ سے کبھی کبھی فطرت میں تغیر و تبدیل واقع ہوجاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ﴾ ” وہ کہنے لگے کیوں نہیں ہم گواہ ہیں کہ قیامت کے دن کہیں یوں نہ کہنے لگو کہ ہم کو تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔“ یعنی ہم نے تمہارا امتحان لیا حتیٰ کہ تم نے اس بات کا اقرار کیا، جو تمہارے نزدیک ثابت ہے کہ اللہ تمہارا رب ہے اور ہم نے یہ امتحان اس لئے کہ کہیں تم قیامت کے روز انکار نہ کر دو اور کسی بھی چیز کا اقرار نہ کرو اور یہ دعویٰ کرنے لگو کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم نہیں ہوئی اور اس بارے میں تمہارے پاس کوئی علم نہ تھا بلکہ اس بارے میں تم بالکل لاعلم اور غافل تھے۔ پس آج تمہاری حجت منقطع ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی حجت تم پر قائم ہوگئی۔ یا تم ایک اور حجت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey Rasool ! logon ko woh waqt yaad dilao ) jab tumharay perwerdigar ney Adam kay beton ki pusht say unn ki sari aulad ko nikala tha , aur unn ko khud apney oopper gawah banaya tha , ( aur poocha tha kay : ) kiya mein tumhara rab nahi hun-? sabb ney jawab diya tha kay : kiyon nahi-? hum sabb iss baat ki gawahi detay hain . ( aur yeh iqrar hum ney iss liye liya tha ) takay tum qayamat kay din yeh naa keh sako kay : hum to iss baat say bey khabar thay .
12 Tafsir Ibn Kathir
ہر روح نے اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق مانا
اولاد آدم سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ان کی پیٹھوں سے روز اول میں نکالیں۔ پھر ان سب سے اس بات کا اقرار لیا کہ رب، خالق، مالک، معبود صرف وہی ہے۔ اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پیدا کیا۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی ناممکن ہے، بخاری و مسلم میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس دین پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں، حدیث قدسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو موحد و مخلص پیدا کیا پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کردیں۔ قبیلہ بن سعد کے ایک صحابی حضرت اسود بن سریع فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چار غزوے کئے لوگوں نے لڑنے والے کفار کے قتل کے بعد ان کے بجوں کو بھی پکڑ لیا جب آپ کو اس کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا لوگ ان بچوں کو کیوں پکڑ رہے ہیں ؟ کسی نے کہا حضور وہ بھی تو مشرکوں کے ہی بچے ہیں ؟ فرمایا سنو تم میں سے بہتر لوگ مشرکین کی اولاد میں ہیں یاد رکھو ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر زبان چلنے پر اس کے ماں باپ یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم دینے لگتے ہیں۔ اس کے راوی حضرت حسن فرماتے ہیں اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے (ابن جریر) اس اقرار کے بارے میں کئی ایک حدیثیں مروی ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن دوزخی سے کہا جائے گا اگر تمام دنیا تیری ہو تو کیا تو خوش ہے کہ اسے اپنے فدئیے میں دے کر میرے عذابوں سے آج بچ جائے ؟ وہ کہے گا ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو اس سے بہت ہی ہلکے درجے کی چیز تجھ سے طلب کی تھی اور اس کا وعدہ بھی تجھ سے لے لیا تھا کہ میرے سوا تو کسی اور کی عبادت نہ کرے لیکن تو عہد توڑے بغیر نہ رہا اور دوسرے کو میرا شریک عبادت ٹھہرایا۔ مسند میں ہے نعمان نامی میدان میں اللہ تعالیٰ نے پشت آدم میں سے عرفے کے دن ان کی تمام اولاد ظاہر فرمائی سب کو اس کے سامنے پھیلا دیا اور فرمایا کہ میں تم سب کا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا ہاں ہم گواہ ہیں پھر آپ نے مبطلون تک تلاوت فرمائی۔ یہ روایت موقوف ابن عباس سے بھی مروی ہے واللہ اعلم۔ اس وقت لوگ چیونٹیوں کی طرح تھے اور تر زمین پر تھے۔ حضرت ضحاک بن مزاحم کے جھ دن کی عمر کے صاحبزادے کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا جابر اسے دفن کر کے اس کا منہ کفن سے کھول دینا اور گرہ بھی کھول دینا کیونکہ میرا یہ بچہ بٹھا دیا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا جابر نے حکم کی بجا آوری کی، پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے بجے سے کیا سوال ہوگا اور کون سوال کرے گا ؟ فرمایا اس میثاق کے بارے میں جو صلب آدم میں لیا گیا ہے سوال کیا جائے گا۔ میں نے پوچھا وہ میثاق کیا ہے ؟ فرمایا میں نے حضرت ابن عباس سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو جتنے انسان قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں سب کی روحیں آگئیں اللہ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ اسی کی عبادت کریں گے اس کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے خود ان کے رزق کا کفیل بنا پھر انہیں صلب آدم میں لوٹا دیا۔ پس یہ سب قیامت سے پہلے ہی پہلے پیدا ہوں گے۔ جس نے اس وعدے کو پورا کیا اور اپنی زندگی میں اس پر قائم رہا اسے وہ وعدہ نفع دے گا اور جس نے اپنی زندگی میں اس کی خلاف ورزی کی اسے پہلے کا وعدہ کجھ فائدہ نہ دے گا۔ بچپن میں ہی جو مرگیا وہ میثاق اول پر اور فطرت پر مرا۔ ان آثار سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث کا موقوف ہونا ہی اکثر اور زیادہ ثبوت والا ہے۔ ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بنی آدم کی پیٹھ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ایسی نکلایں جیسے کنگھی بالوں میں سے نکلتی ہے ان سے اپنی ربوبیت کا سوال کیا انہوں نے اقرار کیا فرشتوں نے شہادت دی اس لئے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اس سے غفلت کا بہانہ نہ کریں۔ حضرت عمر (رض) سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا یہی سوال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوا تھا تو آپ نے میرے سنتے ہوئے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے حضرت آدم کو پیدا کیا اپنے داہنے ہاتھ سے ان کی پیٹھ کو چھوا اس سے اولاد نکلی فرمایا میں نے انہیں جہنم کیلئے پیدا کیا ہے یہ جہنمیوں کے اعمال کریں گے تو آپ سے سوال ہوا کہ پھر عمل کس گنتی میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو جنتی ہے اس سے مرتے دم تک جنتیوں کے ہی اعمال سرزد ہوں گے اور جنت میں جائیں گے ہاں جو جہنم کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس سے وہی اعمال سرزد ہوں گے انہی پر مرے گا اور جہنم میں داخل ہوگا (ابوداؤد) اور حدیث میں ہے کہ اولاد آدم کو نکال کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور رکھ کر حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ تیری اولاد ہے ان میں سے ایک کے ماتھے کی چمک کو حضرت آدم کے سامنے پیش کیا حضرت نے پوچھا کہ یا اللہ یہ کون ہیں ؟ فرمایا یہ تیری اولاد میں سے بہت دور جا کر ہیں ان کا نام داؤد ہے پوچھا ان کی عمر کیا ہے ؟ فرمایا ساٹھ سال کہا یا اللہ چالیس سال میری عمر میں سے ان کی عمر میں زیادہ کر پس جب حضرت آدم کی روح کو قبض کرنے کیلئے فرشتہ آیا تو آپ نے فرمایا میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں، فرشتے نے کہا آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے یہ چالیس سال اپنے بچے حضرت داؤد کو ہبہ کردیئے ہیں۔ بات یہ ہے چونکہ آدم نے انکار کیا تو ان کی اولاد بھی انکار کی عادی ہے آدم خود بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی ہے آدم نے خطا کی ان کی اولاد بھی خطا کرتی ہے، یہ حدیث ترمذی میں ہے امام ترمذی اسے حسن صحیح لکھتے ہیں اور روایت میں ہے کہ جب آدم (علیہ السلام) نے دیکھا کہ کوئی ان میں جذامی ہے کوئی کوڑھی ہے کوئی اندھا ہے کوئی بیمار ہے تو پوچھا کہ یا اللہ اس میں کیا مصلحت ہے ؟ فرمایا یہ کہ میرا شکریہ کیا جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ یا اللہ ان میں یہ زیادہ روشن اور نورانی چہروں والے کون ہیں ؟ فرمایا یہ انبیاء ہیں۔ کسی شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں یہ ہمارا ذاتی عمل ہے یا کہ فیصل شدہ ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو ان کی پیٹھوں سے نکالا انہیں گواہ بنایا پھر اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا یہ جنتی ہیں اور یہ جہنمی۔ پس اہل جنت پر تو نیک کام آسان ہوتے ہیں اور دوزخیوں پر برے کام آسان ہوتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور قضیہ ختم کیا تو جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملنے والا ہے انہیں اپنی داہنی مٹھی میں لیا اور بائیں والوں کو بائیں مٹھی میں لیا پھر فرمایا اے دائیں طرف والو انہوں نے کہا لبیک وسعد یک فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا ہاں پھر سب کو ملا دیا کسی نے پوچھا یہ کیوں کیا ؟ فرمایا اس لئے کہ ان کے لئے اور اعمال ہیں جنہیں یہ کرنے والے ہیں یہ تو صرف اس لئے کہلوایا گیا ہے کہ انہیں یہ عذر نہ رہے کہ ہم اس سے غافل تھے۔ پھر سب کو صلب آدم میں لوٹا دیا۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں اس میدان میں اس دن سب کو جمع کیا، صورتیں دیں، بولنے کی طاقت دی، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں، ساتوں زمینوں اور حضرت آدم کو گواہ بنایا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں سب نے جواب میں کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے تو ہی ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں۔ پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا اب جو حضرت آدم (علیہ السلام) نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر غریب اور اس کے سوا مختلف قسم کے لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت کے ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لئے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے۔ آپ نے دیکھا کہ ان میں اللہ کے پیغمبر بھی ہیں ان سے پھر علیحدہ ایک اور میثاق لیا گیا جس کا بیان آیت ( وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا ۙ ) 33 ۔ الأحزاب :7) ، میں ہے۔ اسی عام میثاق کا بیان آیت (فطرۃ اللہ) میں ہے اسی لئے فرمان ہے آیت (ھذا نذیر من النزر الا ولی) اسی کا بیان اس آیت میں ہے (وما وجدنا لا کثرھم من عھد) ( مسند احمد) حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت سعید بن جبیر، حضرت حسن، حضرت قتادہ، حضرت سدی اور بہت سے سلف سے ان احادیث کے مطابق اقوال مروی ہیں جن سب کے وارد کرنے سے بہت طول ہوجائے گا ماحصل سب کا یہی ہے جو ہم نے بیان کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو آپ کی پیٹھ سے نکالا جنتی دوزخی الگ الگ کئے اور وہیں ان کو اپنے رب ہونے پر گواہ کرلیا یہ جن دو احادیث میں ہے وہ دونوں مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہیں اسی لئے سلف و خلف میں اس بات کے قائل گذرے ہیں کہ اس سے مراد فطرت پر پیدا کرنے ہے جیسے کہ مرفوع اور صحیح احادیث میں وارد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت (من بنی آدم) فرمایا اور آیت (من ظھور ھم) کہا ورنہ من آدم اور من ظھرہ ہوتا۔ ان کی نسلیں اس روز نکالی گئیں جو کہ یکے بعد دیگرے مختلف قرنوں میں ہونے والی تھیں۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ ۭ اِنَّ رَبَّكَ سَرِيْعُ الْعِقَابِ ڮوَاِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ\016\05 ) 6 ۔ الانعام :165) اللہ ہی نے تمہیں زمین میں دوسروں کا جانشین کیا ہے اور جگہ ہے وہی تمہیں زمین کے خلیفہ بنا رہا ہے اور آیت میں ہے جیسے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد میں کیا۔ الغرض حال و قال سے سب نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا۔ شہادت قولی ہوتی ہے جیسے آیت (شھدنا علی انفسانا) میں اور شہادت کبھی حال سے ہوتی ہے جیسے آیت ( مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بالْكُفْرِ ۭاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ 17) 9 ۔ التوبہ :17) میں یعنی ان کا حال ان کے کفر کی کھلی اور کافی شہادت ہے اس طرح کی آیت (وانہ علی ذالک لشھید) ہے۔ اسی طرح سوال بھی کبھی زبان سے ہوتا ہے کبھی حال سے۔ جیسے فرمان ہے ( وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ 34 ) 14 ۔ ابراھیم :34) اس نیت میں تمہارے کا منہ مانگا دیا۔ کہتی ہیں کہ اس بات پر یہ دلیل بھی ہے کہ ان کے شرک کرنے پر یہ حجت ان کے خلاف پیش کی۔ پس اگر یہ واقع میں ہوا ہوتا جیسا کہ ایک قول ہے تو چاہئے تھا کہ ہر ایک کو یاد ہوتا تاکہ اس پر حجت رہے۔ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ فرمان رسول سے خبر پالینا کافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو رسولوں کو ہی نہیں مانتے وہ رسولوں کی دی ہوئی خبروں کو کب صحیح جانتے ہیں ؟ حالانکہ قرآن کریم نے رسولوں کی تکذیب کے علاوہ خود اس شہادت کو مستقل دلیل ٹھہرایا ہے پس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے۔ اسی لئے فرماتا ہے کہ یہ اس لئے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟ پھر تفصیل وار آیات کے بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آجانا ممکن ہوجاتا ہے۔