الاعراف آية ۵۴
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِىْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِىْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِۗ يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۗ اَلَا لَـهُ الْخَـلْقُ وَالْاَمْرُ ۗ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ
طاہر القادری:
بیشک تمہارا رب اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی کائنات) کو چھ مدتوں (یعنی چھ اَدوار) میں پیدا فرمایا پھر (اپنی شان کے مطابق) عرش پر استواء (یعنی اس کائنات میں اپنے حکم و اقتدار کے نظام کا اجراء) فرمایا۔ وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔ خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔ اﷲ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کی (تدریجاً) پرورش فرمانے والا ہے،
English Sahih:
Indeed, your Lord is Allah, who created the heavens and earth in six days and then established Himself above the Throne. He covers the night with the day, [another night] chasing it rapidly; and [He created] the sun, the moon, and the stars, subjected by His command. Unquestionably, His is the creation and the command; blessed is Allah, Lord of the worlds.
1 Abul A'ala Maududi
در حقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوا جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں خبردار رہو! اُسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے بڑا با برکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار
2 Ahmed Raza Khan
بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے رات دن کو ایک دوسرے سے ڈھانکتا ہے کہ جلد اس کے پیچھے لگا آتا ہے اور سورج اور چاند اور تاروں کو بنایا سب اس کے حکم کے دبے ہوئے، سن لو اسی کے ہاتھ ہے پیدا کرنا اور حکم دینا، بڑی برکت والا ہے اللہ رب سارے جہان کا،
3 Ahmed Ali
بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے
4 Ahsanul Bayan
بیشک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھہ روز میں پیدا کیا ہے (١) پھر عرش پر قائم ہوا (٢) وہ رات سے دن ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے (٣) اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔
٥٤۔١ یہ چھ دن اتوار، پیر، منگل، بدھ، جمعرات اور جمعہ ہیں۔ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، ہفتے والے دن کہتے ہیں کوئی تخلیق نہیں ہوئی، اسی لئے اس کو یوم البست کہا جاتا ہے، کیونکہ سبت کے معنی ہیں قطع (کاٹنے) کے ہیں یعنی اس دن تخلیق کا کام قطع ہوگیا۔ پھر اس دن سے کیا مراد ہے؟ ہماری دنیا کا دن، جو طلوع شمس سے شروع ہوتا ہے اور غروب شمس پر ختم ہو جاتا ہے۔ یا یہ دن ہزار سال کے برابر ہے؟ جس طرح کہ اللہ کے یہاں کے دن کی گنتی ہے، یا جس طرح قیامت کے دن کے بارے میں آتا ہے۔ بظاہر یہ دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو اس وقت سورج چاند کا یہ نظام ہی نہیں تھا، آسمان اور زمین کی تخلیق کے بعد ہی یہ نظام قائم ہوا دوسرے یہ عالم بالا کا واقعہ ہے جس کو دنیا سے کوئی نسبت نہیں ہے، اس لئے اس دن کی اصل حقیقت اللہ تعالٰی ہی بہتر جانتا ہے، ہم قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالٰی تو کُنْ سے سب کچھ پیدا کر سکتا تھا، اس کے باوجود اس نے ہرچیز کو الگ الگ درجہ بدرجہ سلسلہ وار بنایا اس کی بھی اصل حکمت اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے تاہم بعض علماء نے اس کی ایک حکمت لوگوں کو آرام، وقار اور تدریج (سلسلہ وار) کے ساتھ کام کرنے کا سبق دینا بتلائی ہے۔ وَا للّٰہُ اَعْلَم
٥٤۔٢ یعنی اللہ تعالٰی عرش پر مستقر ( ّٹھہرا) ہے۔ لیکن کس طرح، کس کیفیت کے ساتھ، اسے ہم بیان نہیں کرسکتے کسی کے ساتھ تشبیہ ہی دے سکتے ہیں۔ نعیم بن حماد کا قول ہے ' جو اللہ کی تخلیق کے ساتھ تشبیہ دے اس نے بھی کفر کیا اور جس نے اللہ کی اپنے بارے میں بیان کردہ کسی بات کا انکار کیا، اس نے بھی کفر کیا ' اور اللہ کے بارے میں اس کی یا اس کے رسول کی بیان بات کو بیان کرنا، تشبیہ نہیں ہے۔ اس لئے جو باتیں اللہ تعالٰی کے بارے میں نص(قطعی حکم) سے ثابت ہیں، ان پر بلا تاویل اور بلا کیف و تشبیہ پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ (ابن کثیر)
٥٤۔٣ حثیثا کے معنی ہیں نہایت تیزی سے اور مطلب ہے کہ ایک کے بعد دوسرا فورا آجاتا ہے یعنی دن کی روشنی آتی ہے تو رات کی تاریکی فوراً غائب ہو جاتی ہے اور رات آتی ہے تو دن کا اجالا ختم ہو جاتا ہے اور سب دور و نزدیک سیاہی چھا جاتی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ وہی رات کو دن کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا سب اس کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی (اسی کا ہے) ۔ یہ خدا رب العالمین بڑی برکت والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا ہے، پھر عرش پر قائم ہوا۔ وه شب سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وه شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑی خوبیوں سے بھرا ہوا ہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک تمہارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر عرش کی جانب متوجہ ہوا (اور کائنات کے اقتدارِ اعلیٰ پر قابض ہوا) جو رات سے دن کو ڈھانپ لیتا ہے۔ کہ اسے تیزی کے ساتھ جا پکڑتی ہے۔ اور جس نے سورج، چاند اور ستاروں کو پیدا کیا۔ کہ وہ سب طبعی طور پر اس کے حکم کے تابع ہیں خبردار! پیدا کرنا اور حکم دینا اس سے مخصوص ہے۔ بابرکت ہے اللہ جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بیشک تمہارا پروردگار وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اور اس کے بعد عرش پر اپنا اقتدار قائم کیا ہے وہ رات کو دن پر ڈھانپ دیتاہے اور رات تیزی سے اس کے پیچھے دوڑا کرتی ہے اور آفتاب و ماہتاب اور ستارے سب اسی کے حکم کے تابع ہیں اسی کے لئے خلق بھی ہے اور امر بھی وہ نہایت ہی صاحب هبرکت اللہ ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر ٹھہرا۔ وہی دن کو رات کا لباس پہناتا ہے کہ وہ اس کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔ اور اسی نے سورج چاند اور ستاروں کو پیدا کیا۔ سب اسی کے حکم کے مطابق کام میں لگے ہوئے ہیں۔ دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے یہ خدائے رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔
آیت نمبر ٥٤ تا ٥٨
ترجمہ : درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو دنیا کے دنوں کی مقدار کے اعتبار سے چھ دنوں میں پیدا فرمایا، اسلئے کہ اس وقت سورج نہیں تھا، اگر وہ چاہتا تو ایک لمحہ میں پیدا کردیتا، اور ایک لمحہ میں پیدا نہ کرنا لوگوں کو عجلت نہ کرنے کی تعلیم دینے کیلئے ہے، پھر (اپنے) تخت شاہی پر جلوہ فرما ہوا (عرش) لغت میں تخت شاہی کو کہتے ہیں، تخت پر جلوہ فرمائی سے مراد اس کی شایان شان جلوہ فرمائی ہے، وہ شب و روز کو ایک دوسرے سے اس طرح چھپا دیتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کئے جو اس کے حکم کے تابع ہیں (تینوں پر) نصب ہے سمٰوات پر عطف کرتے ہوئے، اور رفع ہے مبتداء ہونے کی وجہ سے خبر اس کی مسخراتٌ ہے خبردار رہو ! تمام مخلوق اسی کی ہے اور بالکلیہ اسی کا امر ہے اللہ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، تم اپنے رب کو گڑ گڑاتے ہوئے چپکے چپکے پکارو بیشک اللہ تعالیٰ بےاحتیاطی کے ساتھ زور زور سے دعاء میں حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا شرک و معاصی کے ذریعہ زمین میں فساد برپا نہ کرو، رسول کی بعثت کے ذریعہ اس کی اصلاح کرنے کے بعد، اس کی سزا اور رحمت کی امیاد و بیم کے ساتھ اس کو پکارو، بیشک اللہ کی رحمت نیک کردار فرماں بردار لوگوں کے قریب ہے اور (لفظ) قریب کو جو کہ رحمت کا مخبربہ ہے اللہ کی طرف رحمت کی اضافت کی وجہ سے مذکر لایا گیا ہے اور وہ اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لئے ہوئے بھیجتا ہے یعنی بارش کے آگے آگے پھیلتی ہوئی، اور ایک قراءت میں شین کے سکون کے ساتھ بطور تخفیف کے اور دوسری قراءت میں شین کے سکون اور ونون کے فتحہ کے ساتھ بطور مصدر کے اور تیسری قراءت میں شین کے سکون اور بجائے نون کے باء کے ضمہ کے ساتھ یعنی خوشخبری دینے والی، اور پہلے کا مفرد نَشُوْر بروزن رسول ہے اور دوسرے کا بشیرٌ ہے، پھر جب ہوائیں پانی سے بھرے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی مردہ (خشک) زمین کی طرف ہانک لیجاتے ہیں اس میں غیبت سے التفات ہے جس میں کوئی گھاس پھونس نہیں ہوتی، اس کو زندہ (سبز) کرنے کیلئے، پھر ہم اس زمین میں پانی برساتے ہیں پھر ہم اس پانی کے ذریعہ ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو ان کی قبروں سے زندہ کرکے نکالیں گے، تاکہ تم سبق لو اور ایمان لے آؤ اور جو زمین اچھی ہوتی ہے (شور نہیں ہوتی) تو اس سے اپنے رب کے حکم سے خوب پیداوار ہوتی ہے یہ مومن کی مثال ہے کہ وہ نصیحت سنتا ہے پھر اس سے نفع اٹھاتا ہے اور جس زمین کی مٹی خراب ہوتی ہے اس سے خراب پیداوار کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا (اور وہ بھی) بڑی مشقت کے ساتھ، اور یہ کافر کی مثال ہے، اسی طرح جیسا کہ ہم نے مذکورہ مثال بیان کی اللہ کا شکر ادا کرنے والی قوموں کیلئے مثال بیان کرتے ہیں تو وہ ایمان لے آتے ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اِسْتِوَاءً یَلِیْقُ بہ، اس میں اشارہ ہے کہ استویٰ علی العرش متشابہات میں سے ہے اس کی حقیقی مراد اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یُغشی، ای یغطّی، چھا جانا، چھا لینا، اسی سے ہے غَشِیَتْہُ الحُمّٰی، اس کو بخار آگیا۔
قولہ : حثیثًا، یہ حثٌ سے مشتق ہے اور یہ طلباً مصفر محذوف کی صفت ہے۔
قولہ : بالتَشَدُّقِ ، ای اظھار الفصاحۃ بالتکلف، تَشَدَّق، بتکلف فصاحب ظاہر کرنے کیلئے باچھیں کھولنا، تشَدَّق بالکلام وفیہ، بغیر احتیاط کے ہر قسم کی باتیں کرنا۔
قولہ : وتَذْکِیْرُ قَرِیْبِ الْمُخْبَرِ بِہ عَنْ رَحْمَۃٍ لاِضَافَتِھا الَی اللہِ ، مذکورہ عبارت کا اضافہ ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : رحمۃ اللہ، اِنَّ کا اسم ہے اور قریبٌ اسکی خبر ہے، اسم مؤنث ہے اور خبر مذکر ہے دونوں میں مطابقت نہیں ہے قریبۃ ہونا چاہئے
جواب : رحمۃ اللہ، میں مضاف الیہ یعنی لفظ اللہ کی رعایت کی وجہ سے مذکر لائے ہیں، یعنی مضاف کو مضاف الیہ کا حکم دیدیا ہے، دیگر ائمہ لغت والا عراب نے اس کے مختلف جوابات دئیے ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔ (١) زجاج نے کہا کہ رحمۃ عفوغفران کے معنی میں ہونے کی وجہ سے رحمٌ کے معنی میں ہے، نحاس نے اس تاویل کو پسند کیا ہے، (٢) نضر بن شمیل نے کہا ہے کہ رحمۃ مصدر بمعنی ترجم ہے، (٣) اخفش سعید نے کہا ہے کہ رحمۃ سے مطر مراد ہے، (٤) بعض حضرات نے کہا ہے کہ رحمۃ چونکہ مؤنث غیر حقیقی ہے لہٰذا مذکر و مؤنث دونوں طرح استعمال ہوسکتا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی)
قولہ : اَقَلّت ای حملت و رفعت اس کا ماخذ اشتقاق اقلال ہے۔ قولہ : نکدًا، ای الذی لاخیر فیہ، او الذی اشتدَّ وعَسَرَ ۔
قولہ : ثقالا۔ سوال : ثقالاً کو جمع لانے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : اسلئے کہ سحابا معنی سحابۃ کی جمع ہے اسلئے کہ معنی میں سحائب کے ہیں۔
تفسیر و تشریح
ان ربکم اللہ۔۔۔۔۔۔ ستہ ایام (الآیۃ) یہ چھ دن، اتوار، پیر، منگل، بدھ، جمعرات اور جمہ ہیں، جمعہ ہی کے دن حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی، کہتے ہیں کہ ہفتہ کے روز کوئی تخلیق نہیں ہوئی، اسلئے اسے یوم السبت کہا جاتا ہے، اسلئے کہ سبت کے معنی قطع کے ہیں یعنی اس روز تخلیق کا کام قطع ہوگیا۔
قرآن میں بیان کردہ دن سے کیا مراد ہے ؟ ہماری دنیا کا دن جس کی ابتداء طلوع شمس اور انتہاء غروب شمس سے ہوتی ہے یا یہ دن ہزار سال کے برابر ہے جیسا کہ روز قیامت ہوگا، بظاہر دوسری صورت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک تو اس وقت نظام شمسی موجود نہیں تھا آسمان و زمین کی تخلیق کے بعد یہ نظام قائم ہوا، دوسری بات یہ کہ عالم بالا کا واقعہ ہے اس کو دنیا سے کوئی نسبت نہیں ہے، اسلئے اس دن کی اصل حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے اس بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی بات کہنا مشکل ہے، علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ لفظ ” کن “ سے آن واحد میں سب کچھ پیدا کرسکتا ہے اس کے باوجود اس نے ہر چیز کو الگ الگ تدریج کے ساتھ بنایا اس کی بھی اصل حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے تاہم علماء نے اس کی ایک حکمت لوگوں کو وقار اور تدریج کے ساتھ کام کرنے کا سبق دینا بتلائی ہے اور حدیث پاک میں بھی عجلت کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی گئی ہے۔ استواء کے معنی علو اور استقرار کے ہیں سلف نے بلا کیف و بلاتشبیہ یہی معنی مراد لئے ہیں لیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں ہے، حضرت امام مالک (رح) تعالیٰ سے کسی نے استواء کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا، استواء کے معنی معلوم نہیں مگر کیفیت نامعلوم ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ واضح کرتا ہے کہ وہ اکیلا رب معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے : ﴿إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّـهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ﴾” بے شک تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو“ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، زمین و آسمان کی وسعت، ان کی عظمت، ان کے محکم ہونے، ان کے مہارت کے ساتھ بنے ہوئے اور ان کی انوکھی تخلیق کے باوصف ﴿ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ﴾ ” چھ دن میں“ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ پہلا دن اتوار تھا اور آخری دن جمعہ تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق پوری کردی اور ان کے اندر اپنے تمام امور ودیعت کردیئے۔ ﴿اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ﴾ ” وہ عرش پر جا ٹھہرا۔“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ عرش عظیم پر مستوی ہوا اور عرش عظیم تمام آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے، سب پر محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ عرش عظیم پر اس طرح مستوی ہوا جس طرح اس کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی سلطنت کے لائق ہے۔ پس وہ عرش پر مستوی ہوا، اس کا اقتدار تمام ممالک کو شامل ہے، اس نے اپنے تمام احکام تکوینی اور احکام دینی جاری فرمائے۔ بنابریں فرمایا : ﴿يُغْشِي اللَّيْلَ ﴾ ” اڑھاتا ہے وہ رات کو“ ﴿ النَّهَارَ﴾ ” دن پر“ یعنی اندھیری رات روشن دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور زمین پر اندھیرا چھا جاتا ہے، انسان آرام کرتے ہیں اور مخلوقات اپنے اپنے مسکنوں میں دن بھر کے آنے جانے اور تھکاوٹ سے آرام پاتے ہیں۔ ﴿ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا﴾” کہ وہ اس کے پیچھے لگا آتا ہے دوڑتا ہوا“ جب رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور یہ گردش لیل و نہار ہمیشہ جاری رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کی بساط لپیٹ دے گا اور بندے اس جہان فانی سے دوسرے جہان میں منتقل ہوجائیں گے۔﴿وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ﴾ ” اور پیدا کئے سورج، چاند اور تارے، تابع دار اپنے (اللہ) کے حکم کے“ یعنی سورج، چاند اور ستارے اس کی تسخیر و تدبیر سے مسخر ہیں، جو اس کے اوصاف کمال کی دلیل ہے۔ پس ان کی تخلیق اور ان کا اتنا بڑا ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ پر اور اس کائنات کا محکم، مضبوط اور منظم ہونا اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر دلالت کرتا ہے اور سورج، چاند اور ستاروں میں جو ضروری اور بعض دیگر فوائد اور مصالح رکھے گئے ہیں، وہ اس کے بے کراں علم اور بے پایاں رحمت پر دلیل ہیں۔ نیز اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ وہی معبود برحق ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ﴾”اسی کے لئے ہے پیدا کرنا بھی اور حکم بھی۔“ یعنی وہی تخلیق کا مالک ہے جس سے تمام مخلوقات مخلوق علوی، مخلوق سفلی، ان کے اعیان، اوصاف اور افعال صادر ہوتے ہیں اور امر کا بھی مالک ہے جو شریعت و نبوت کو متضمن ہے۔ پس ” تخلیق“ اس کے احکام کونی و قدری کو اور ” امر“ احکام دینی و شرعی کو متضمن ہے اور احکام جزا کا اجراء دار بقا میں ہوگا ﴿ تَبَارَكَ اللَّـهُ ﴾ یعنی وہ بلند اور عظمت والا ہے اس کی بھلائی اور احسان بہت زیادہ ہے، وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اپنی عظمت اوصاف اور کمال صفات کی بنا پر بہت بابرکت ہے اور مخلوق کو بے پایاں بھلائی اور بے شمار نیکی سے نواز کر دوسروں کو بھی برکت عطا کرتا ہے۔ پس اس کائنات میں جو برکات نظر آتی ہیں وہ اس کی رحمت کے آثار ہیں۔ بنابریں فرمایا : ﴿تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ ” بڑا بابرکت ہے اللہ جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔“ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی صفت عظمت و جلال کا ذکر فرمایا جو عقل مندوں کی اس حقیقت کی طرف راہ نمائی کرتی ہے کہ تمام حوائج میں وہی اکیلا معبود مقصود ہے۔ تو اب اس چیز کا حکم دیا جو اس حقیقت پر مترتب ہوتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
yaqeenan tumhara perwerdigar woh Allah hai jiss ney saray aasman aur zameen cheh din mein banaye , phir uss ney arsh per istawa farmaya . woh din ko raat ki chadar urrha deta hai , jo tez raftari say chalti hoi uss ko aa-dabochti hai . aur uss ney sooraj aur chaand taray peda kiye hain jo sabb uss kay hukum kay aagay raam hain . yaad rakho kay peda kerna aur hukum dena sabb ussi/issi ka kaam hai . bari barkat wala hai Allah jo tamam jahano ka perwerdigar hai !
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا
بہت سی آیتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ آسمان و زمین اور کل مخلوق اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں بنائی ہے یعنی اتوار سے جمعہ تک۔ جمعہ کے دن ساری مخلوق پیدا ہوچکی۔ اسی دن حضرت آدم پیدا ہوئے یا تو یہ دن دنیا کے معمولی دنوں کے برابر ہی تھے جیسے کہ آیت کے ظاہری الفاظ سے فی الفور سمجھا جاتا ہے یا ہر دن ایک ہزار سال کا تھا جیسے کہ حضرت مجاہد کا قول ہے اور حضرت امام احمد بن حنبل کا فرمان ہے اور بروایت ضحاک ابن عباس کا قول ہے۔ ہفتہ کے دن کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوئی۔ اسی لئے اس کا نام عربی میں (یوم السبت) ہے (سبت) کے معنی قطع کرنے ختم کرنے کے ہیں۔ ہاں مسند احمد نسائی اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے کہ اللہ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن اور درختوں کو پیر کے دن اور برائیوں کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن اور جانوروں کو جمعرات کے دن اور آدم کو جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں عصر سے لے کر مغرب تک۔ حضور نے حضرت ابوہریرہ کا ہاتھ پکڑ کر یہ گنوایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات دن تک پیدائش کا سلسلہ جاری رہا حالانکہ قرآن میں موجود ہے کہ چھ دن میں پیدائش ختم ہوئی۔ اسی وجہ سے امام بخاری (رح) وغیرہ زبردست حفاظ حدیث نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ عبارت حضرت ابوہریرہ نے کعب احبار سے لی ہے فرمان رسول نہیں ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا۔ اس پر لوگوں نے بہت کچھ چہ میگوئیاں کی ہیں۔ جنہیں تفصیل سے بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ اس مقام میں سلف صالحین کی روش اختیار کی جائے۔ جیسے امام مالک، امام اوزاعی، امام ثوری، امام لیث، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ وغیرہ ائمہ سلف وخلف رحمہم اللہ۔ ان سب بزرگان دین کا مذہب یہی تھا کہ جیسی یہ آیت ہے اسی طرح اسے رکھا جائے بغیر کیفیت کے، بغیر تشبیہ کے اور بغیر مہمل چھوڑنے کے، ہاں مشبہین کے ذہنوں میں جو چیز آرہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ پاک اور بہت دور ہے اللہ کے مشابہ اس کی مخلوق میں سے کوئی نہیں۔ فرمان ہے آیت ( لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ 11 ) 42 ۔ الشوری:11) اس کے مثل کوئی نہیں اور وہ سننے دیکھنے والا ہے۔ بلکہ حقیقت یہی ہے جو ائمہ کرام رحمتہ اللہ علیہم نے فرمائی ہے انہی میں سے حضرت نعیم بن حماد خزاعی (رح) ہیں۔ آپ حضرات امام بخاری کے استاد ہیں فرماتے ہیں جو شخص اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دے وہ کافر ہے اور جو شخص اللہ کے اس وصف سے انکار کرے جو اس نے اپنی ذات پاک کیلئے بیان فرمایا ہے وہ بھی کافر ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اوصاف ذات باری تعالیٰ جل شانہ کے بیان فرمائے ہیں ان میں ہرگز تشبیہ نہیں۔ پس صحیح ہدایت کے راستے پر وہی ہے جو آثار صحیحہ اور اخبار صریحہ سے جو اوصاف رب العزت وحدہ لاشریک لہ کے ثابت ہیں انہیں اسی طرح جانے جو اللہ کی جلالت شان کے شیان ہے اور ہر عیب و نقصان سے اپنے رب کو پاک اور مبرا و منزہ سمجھے۔ پھر فرمان ہے کہ رات کا اندھیرا دن کے اجالے سے اور دن کا اجالا رات کے اندھیرے سے دور ہوجاتا ہے، ہر ایک دوسرے کے پیچھے لپکا چلا آتا ہے یہ گیا وہ آیا وہ گیا یہ آیا۔ جیسے فرمایا آیت (وایتہ لھم الیل) الخ، ان کے سمجھنے کیلئے ہماری ایک نشانی رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں جس سے یہ اندھیرے میں آجاتے ہیں۔ سورج اپنے ٹھکانے کی طرف برابر جا رہا ہے یہ ہے اندازہ اللہ کا مقرر کیا ہوا جو غالب اور باعلم ہے۔ ہم نے چاند کی بھی منزلیں ٹھہرا دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہو کر رہ جاتا ہے۔ نہ آفتاب ماہتاب سے آگے نکل سکتا ہے نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے۔ سب کے سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں۔ رات دن میں کوئی فاصلہ نہیں ایک کا جانا ہی دوسرے کا آجانا ہے ہر ایک دوسرے کے برابر پیچھے ہے آیت (والشمس والقمر والنجوم) کو بعض نے پیش سے بھی پڑھا ہے۔ معنی مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب برابر ہے۔ یہ سب اللہ کے زیر فرمان، اس کے ماتحت اور اس کے ارادے میں ہیں۔ ملک اور تصرف اسی کا ہے۔ وہ برکتوں والا اور تمام جہان کا پالنے والا ہے۔ فرمان ہے آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا 61) 25 ۔ الفرقان :61) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جس کسی نے کسی نیک پر اللہ کی حمد نہ کی بلکہ اپنے نفس کو سراہا اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال غارت ہوئے اور جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ نے کچھ اختیارات اپنے بندوں کو بھی دیئے ہیں اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمایا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے آیت (اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54) 7 ۔ الاعراف :54) (ابن جریر) ایک مرفوع دعا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ بھی مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے دعا (اللھم لک الملک کلہ ولک الحمد کلہ والیک یرجع الامر کلہ اسألک من الخیر کلہ واعوذ بک من الشر کلہ) یا اللہ سارا ملک تیرا ہی ہے سب حمد تیرے لئے ہی ہے سب کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں میں تجھ سے تمام بھلائیاں طلب کرتا ہوں اور ساری برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔