الاعراف آية ۵۹
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۗ اِنِّىْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ
طاہر القادری:
بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے کہا: اے میری قوم (کے لوگو!) تم اﷲ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، یقیناً مجھے تمہارے اوپر ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف آتا ہے،
English Sahih:
We had certainly sent Noah to his people, and he said, "O my people, worship Allah; you have no deity other than Him. Indeed, I fear for you the punishment of a tremendous Day."
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا "اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں"
2 Ahmed Raza Khan
بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا میری قوم اللہ کو پوجو اسکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بیشک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے
3 Ahmed Ali
بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا پس اس نے کہا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں
4 Ahsanul Bayan
ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے (ان سے کہا) اے میری برادری کے لوگو خدا کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا (بہت ہی) ڈر ہے
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا توانہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود ہونے کے قابل نہیں، مجھ کو تمہارے لئے ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا۔ تو انہوں نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی اللہ نہیں ہے۔ یقینا مجھے تمہاری نسبت ایک بڑے سخت دن (قیامت) کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یقینا ہم نے نوح علیھ السّلامکو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم والو اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی خدا نہیں ہے. میں تمہارے بارے میں عذاب عظیم سے ڈرتا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تو انہوں نے اس کو کہا اے میری برادری کے لوگوں خدا کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا بہت ہی ڈر ہے۔
آیت نمبر ٥٩ تا ٦٤
ترجمہ : قسمیہ بات ہے ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم، تم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں (لَقَدْ ) قسم محذوف کا جواب ہے (غیرہ) کے جر کے ساتھ اِلٰہ کی صفت ہے اور رفع، (اِلٰہ) کے محل سے بدل ہونے کی وجہ سے ہے اگر تم اس کے علاوہ کسی اور کی بندگی کرو گے تو مجھے تمہارے حق میں بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے اور وہ بڑا دن قیامت کا دن ہے، ان کی قوم کے سرداروں نے کہا ہم تم کو صریح غلطی پر دیکھتے ہیں انہوں نے جواب دیا میں کسی گمراہی میں نہیں ہوں ضلالت ضلال سے عام ہے، ضلالت کی نفی ضلال کی نفی سے ابلغ ہے، بلکہ میں رب العلمین کا رسول ہوں، تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں (اُبَلِغُ ) تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے، اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں یعنی تمہارا بھلا چاہتا ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تم کو معلوم نہیں، کیا تم تکذیب کرتے ہو اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تمہارے ہی ایک آدمی کے ذریعہ نصیحت آگئی تاکہ تم کو عذاب سے ڈرائے اگر تم ایمان نہ لائے اور تاکہ اللہ (کے عذاب) سے ڈرجاؤ اور تاکہ تقویٰ کی وجہ سے تم پر رحم کیا جائے مگر وہ لوگ ان کی تکذیب ہی کرتے رہے تو ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے ڈوبنے سے بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہم نے ان کو طوفان کے ذریعہ غرق کردیا یقیناً وہ لوگ حق سے اندھے تھے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : جوابُ قسم محذوف، اس اضافہ سے اشارہ کردیا کہ لَقَدْ میں لام جواب قسم پر داخل ہے۔
قولہ : والرَفْعِ بَدَلٌ مِنْ مَحَلِہٖ تقدیر عبارت یہ ہے، مالکم الہٌ من زائدہ ہے اِلہٌ مبتداء ہے اور لکم خبر مقدم ہے۔
قولہ : ھِیَ اَعمُّ مِنَ الضَلَالِ فنَفْیُھا اَبْلَغُ مِنْ نَفْیِہٖ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اِنَّا لنَراکَ فی ضلٰل مبین، کہہ کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی جانب ہر قسم کی ضلالت کی نسبت کی، اس کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے لیس بی ضلالۃ کہہ کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی جانب ہر قسم کی گمراہی کی نفی کی بلکہ ولکنّی رسول من رب العلمین، کہہ کر یہ دعویٰ بھی کردیا کہ میں اللہ رب العٰلمین کی جانب سے عزو شرف کے سب سے بڑا مرتبہ پر جو کہ مرتبہ رسالت ہے فائز ہوں۔
الضلالۃ۔۔۔۔ الضلال، اسلئے کہ ضلالۃ وحدت غیر معینہ پر دلالت کرتی ہے اور فرد غیر معین کی نفی عام ہے بخلاف ضلال کے کہ یہ مصدر ہے جو واحد تثنیہ جمع کو شامل ہے، مصدر کی نفی سے یہ ضروری نہیں کی بالیقین عام کی نفی ہوجائے، مطلب یہ ہے کہ ضلالۃ کی نفی ضلال کی نفی کو مستلزم ہے ولا بالعکس اسلئے کہ عام کی نفی خاص کی نفی کو مستلزم ہوتی ہے نہ کہ اس کا عکس اور لیس بی ضلالۃ، نکرہ تحت النفی کی وجی سے عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔
قولہ : بھَا، ای بالتقویٰ ۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : سورة اعراف کے شروع سے یہاں تک اصول اسلام، توحید، رسالت، آخرت کا مختلف عنوانات سے اثبات اور لوگوں کو اتباع کی ترغیب اور اس کی مخالفت پر وعید و ترہیب اور اس کے ضمن میں شیطان کے مکرو فریب کا بیان تھا، اب یہاں سے آخر سورت تک چند انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات اور ان کی امتوں کا ذکر ہے، اس رکوع میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی امت کے حالات و مقالات مذکور ہیں۔ سلسلہ انبیاء میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں لیکن ان کے زمانہ میں کفر و ضلالت کا مقابلہ نہ تھا نیز ان کی شریعت میں زیادہ تر زمین کی آبادکاری اور انسانی ضروریات کے احکام تھے، کفر و شرک کا مقابلہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہوا اور رسالت و شریعت کے اعتبار سے وہ سب سے پہلے رسول ہیں، اس وقت دنیا میں جو انسانی آبادی ہے یہ سب حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء سفینہ کی ذریت میں سے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قصص الانبیاء کا آغاز بھی حضرت نوح (علیہ السلام) ہی سے کیا گیا ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ اور ان کی قوم کی غرق آبی اور کشتی والوں کی نجات کی پوری تفصیل سورة نوح اور سورة ھود میں بیان ہوئی ہے، اختصار کے ساتھ اس کا بیان مندرجہ ذیل ہے۔
نوح (علیہ السلام) کا مختصر قصہ : قرآن کریم کے اشارات اور بائبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم جس سرزمین پر رہتی تھی جس کو آج عراق کے نام سے جانا جاتا ہے بابل کے آثار قدیمہ میں بائبل سے قدیم ترکتبات ملے ہیں، ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے، اس کے علاوہ جو روایات کردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانہ سے نسلاً بعد نسل چلی آرہی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی اسی علاقہ میں کسی جگہ ٹھہری تھی، موصل کے شمال میں جزیرہ ابن عمر کے آس پاس آرمینیہ کی سرحد پر کوہ اراراط کے نواح میں نوح (علیہ السلام) کے مختلف آثار کی نشاندہی اب بھی کی جاتی ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) کا زمانہ : حضرت نوح (علیہ السلام) بن لامک قدیم ترین انبیاء میں سے ہیں صحیح صحیح زمانہ کی تعیین تو دشوار ہے بعض اندازوں کے مطابق ان کا زمانہ ٢٩٤٨ ق م تا ١٩٥٨ ق م سمجھئے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم عراق میں آباد تھی تورات کی کتاب پیدائش میں ان کا مفصل ذکر باب ٥ سے باب ٩ تک آیا ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) سے حضرت آدم (علیہ السلام) تک حسب روایت توریت کل نو پشتوں کا فاصلہ ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان مشابہت : قرآن نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان جس معاملہ اور مکالمہ کا ذکر کیا ہے، بعینہٖ ایسا ہی معاملہ مکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آرہا تھا، جو پیغام حضرت نوح (علیہ السلام) کا تھا وہی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تھا، ان کے علاوہ دیگر انبیاء کے جو قصے بیان ہوئے ہیں ان میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ ہر نبی کی قوم کا رویہ اہل مکہ کے رویہ سے اور ہر نبی کی تقریر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقریر سے ہو بہو مشابہ ہے، اس سے قرآن یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ انسانی گمراہی ہر زمانہ میں بنیادی طور پر ایک ہی طرح کی رہی ہے اور خدا کے بھیجے ہوئے معلموں کی دعوت بھی ہر عہد اور ہر سر زمین میں یکساں رہی ہے، اور لوگوں کا انجام بھی ٹھیک ایک جیسا ہوا ہے۔
حضرت نوح (علیہ السلام) سے کچھ پہلے تک تمام لوگ اسلام پر قائم چلے آرہے تھے، سب سے پہلے توحید سے انحراف اس طرح آیا کہ اس قوم کے صالح افراد فوت ہوگئے تو ان کے عقیدت مندوں نے ان پر سجدہ گاہیں قائم کردیں اور ان کی تصویریں بھی آویزاں کرلیں ان کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح ان صالحین کی یاد سے وہ بھی اللہ کا ذکر کریں گے اور ذکر الہٰی میں ان کے طریقہ پر چلیں گے، وقت گزرنے پر ان تصویروں کے مجسمے بنالئے اس کے کچھ عرصہ کے بعد ان تصویروں نے بتوں کی شکل اختیار کرلی اور لوگوں نے ان کی پوچا پاٹ شروع کردی، اور قوم کے یہ صالحین ود، سواع، یعوق، یغوث اور نسر معبود بن گئے، ان حالات میں نوح (علیہ السلام) کو معبوث فرمایا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی لیکن تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی نے آپ کی تبلیغ کا اثر قبول نہ کیا، آخر اہل ایمان کے سوا سب کو غرق کردیا گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل میں سے ایک اچھا حصہ ذکر فرمایا، تو اب اس کی تائید میں انبیائے کرام کا، جو اس کی توحید کے داعی تھے اور اس رویے کا جو ان کی امتوں کے منکرین توحید کی طرف سے پیش آیا، اسے بیان فرما رہا ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیسے اہل توحید کی تائید فرمائی اور انبیاء و مرسلین سے عناد رکھنے والوں اور ان کی اطاعت نہ کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔۔۔ اور کیسے انبیاء و مرسلین کی دعوت ایک ہی دین اور ایک ہی عقیدہ پر متفق تھی۔ چنانچہ نوح جو اولین رسول ہیں، کے بارے میں فرمایا :﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ﴾” ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔“ حضرت نوح علیہ السلام کفار کو اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے جبکہ وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ﴿فَقَالَ﴾ نوح علیہ السلام نے ان سے فرمایا : ﴿ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ ﴾ ” اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔“ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ ﴿مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ﴾ ” اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں“ کیونکہ وہی خالق و رازق اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اس کے سوا ہر چیز مخلوق اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر و تصرف کے تحت ہے اور کسی معاملے میں اسے کوئی اختیار نہیں۔ پھر انہیں عدم اطاعت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴾ ” میں ڈرتا ہوں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے“ یہ ان کے لئے نوح کی خیر خواہی اور شفقت ہے کہ وہ ان کے بارے میں ابدی عذاب اور دائمی بدبختی سے خائف ہیں جیسے ان کے بھائی دیگر انبیا و مرسلین مخلوق پر ان کے ماں باپ سے زیادہ شفقت رکھتے تھے۔
11 Mufti Taqi Usmani
hum ney nooh ko unn ki qoam kay paas bheja . chunacheh unhon ney kaha : aey meri qoam kay logo ! Allah ki ibadat kero , uss kay siwa tumhara koi mabood nahi hai . yaqeen jano mujhay sakht andesha hai kay tum per aik zabardast din ka azab naa aa-khara ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
پھر تذکرہ انبیاء
چونکہ سورت کے شروع میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہوا تھا پھر اس کے متعلقات بیان ہوئے اور اس کے متصل اور بیانات فرما کر اب پھر اور انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات کے بیان کا آغاز ہوا اور پے در پے ان کے بیانات ہوئے سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر ہوا کیونکہ آدم (علیہ السلام) کے بعد سب سے پہلے پیغمبر اہل زمین کی طرف آپ ہی آئے تھے۔ آپ نوح بن ملک بن مقوشلخ بن اخنوخ (یعنی ادریس (علیہ السلام) یہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا) بن برد بن مہلیل بن قنین بن یانشن بن شیث بن آدم (علیہ السلام) ۔ ائمہ نسب جیسے امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے آپ کا نسب نامہ اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں حضرت نوح جیسا کوئی اور نبی امت کی طرف سے ستایا نہیں گیا۔ ہاں انبیاء قتل ضرور کئے گئے۔ انہیں نوح اسی لئے کہا گیا کہ یہ اپنے نفس کا رونا بہت روتے تھے۔ حضرت آدم اور حضرت نوح کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گذرے تھے۔ اصنام پرستی کا رواج اسی طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہوگئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنالیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنالیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لئے کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کو پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لئے۔ ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر وغیرہ۔ جب بت پرستی کا رواج ہوگیا، اللہ نے اپنے رسول حضرت نوح کو بھیجا آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو۔ قوم نوح کے بڑوں نے، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے حضرت نوح کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا رہے ہو۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے۔ قرآن میں ہے کہ جب یہ بدکار ان نیک کاروں کو دیکھتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ تو بہکے ہوئے ہیں۔ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو ان سے پہلے ہم نہ مان لیتے ؟ یہ تو بات ہی غلط اور جھوٹ ہے۔ حضرت نوح نبی (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں۔ تمہارا خیر خواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے۔ ہر رسول مبلغ، فصیح، بلیغ، ناصح، خیر خواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کرسکتا۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو تم میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے ؟ سب نے کہا ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کردی تھی اور حق رسالت ادا کردیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یا اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو شاہد رہ، یا اللہ تو گواہ رہ۔