نوح آية ۲۱
قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّهُمْ عَصَوْنِىْ وَاتَّبَعُوْا مَنْ لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهٗ وَوَلَدُهٗۤ اِلَّا خَسَارًا ۚ
طاہر القادری:
نوح (علیہ السلام)نے عرض کیا: اے میرے رب! انہوں نے میری نافرمانی کی اور اُس (سرکش رؤساء کے طبقے) کی پیروی کرتے رہے جس کے مال و دولت اور اولاد نے انہیں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں بڑھایا،
English Sahih:
Noah said, "My Lord, indeed they have disobeyed me and followed him whose wealth and children will not increase him except in loss.
1 Abul A'ala Maududi
نوحؑ نے کہا، "میرے رب، اُنہوں نے میری بات رد کر دی اور اُن (رئیسوں) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پا کر اور زیادہ نامراد ہو گئے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
نوح نے عرض کی، اے میرے رب! انہوں نے میری نافرمانی کی اور ایسے کے پیچھے ہولیے جیسے اس کے مال اور اولاد نے نقصان ہی بڑھایا
3 Ahmed Ali
نوح نے کہا اے میرے رب بے شک انہوں نے میرا کہنا نہ مانا اور اس کو مانا جس کو اس کے مال اور اولاد نے نقصان کے سوا کچھ بھی فائد نہں دیا
4 Ahsanul Bayan
نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! ان لوگوں نے میری تو نافرمانی کی اور ایسوں کی فرمانبرداری کی جن کے مال و اولاد نے (یقیناً) نقصان ہی میں بڑھایا ہے (١)
٢١۔١ لوگ میری نافرمانی پر اڑے ہوئے ہیں اور میری دعوت پر لبیک نہیں کہہ رہے۔ یعنی ان کے اپنے بڑوں اور صاحب ثروت ہی کی پیروی کی جن کے مال و اولاد نے انہیں دنیا اور آخرت کے خسارے میں ہی بڑھایا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اس کے بعد) نوح نے عرض کی کہ میرے پروردگار! یہ لوگ میرے کہنے پر نہیں چلے اور ایسوں کے تابع ہوئے جن کو ان کے مال اور اولاد نے نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہیں دیا
6 Muhammad Junagarhi
نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! ان لوگوں نے میری تو نافرمانی کی اور ایسوں کی فرمانبرداری کی جن کے مال واوﻻد نے ان کو (یقیناً) نقصان ہی میں بڑھایا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
نوح(ع) نے(بارگاہِ خداوندی میں) عرض کیا اے میرے پروردگار ان لوگوں نے میری نافرمانی کی ہے اور ان (بڑے) لوگوں کی پیروی کی ہے جن کے مال و اولاد نے ان کے خسارے میں اضافہ کیا ہے (اور کوئی فائدہ نہیں پہنچایا)۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور نوح نے کہا کہ پروردگار ان لوگوں نے میری نافرمانی کی ہے اور اس کا اتباع کرلیا ہے جو مال و اولاد میں سوائے گھاٹے کے کچھ نہیں دے سکتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اسکے بعد) نوح نے عرض کی کہ اے میرے پروردگار یہ لوگ میرے کہنے پر نہیں چلے اور ایسوں کے تابع ہوئے ہیں جن کو انکے مال اور اولاد نے نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہیں دیا
ترجمہ : نوح بن لامک بن متوشلخ بن احنوخ واسم امہ شمخی بروزن سکری (علیہ السلام) نے عرض کیا اے پروردگار ! ان لوگوں نے میری نافرمانی کی اور کمزور طبقے اور فقراء نے ان لوگوں کی اطاعت کی کہ جن کے عال و اولاد نے سرکشی اور کفر کے اعتبار سے ان کو نقصان ہی پہنچایا، جو ایسے رئیس ہیں کہ جن کے اوپر ان چیزوں کا انعام فرمایا، ولد وائو کے ضمہ اور لام کے سکون اور دونوں کے فتحہ کے ساتھ (ولد) اور اول کہا گیا ہے کہ ولد (بفتحھما) کی جمع ہے جیسا کہ خشب، خشب کی جمع ہے، اور کہا گیا کہ جمع کے معنی میں ہے جیسا کہ بخل اور بخل اور ان لوگوں نے بڑا تکبر کیا اسی طریقہ پر کہ انہوں نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی، اور ان کو اور ان کے پیروکاروں کو ایذا پہنچائی انہوں نے کمزور طبقے کے لوگوں سے کہا تم اپنے معبودوں کو مت چھوڑنا اور ود کو نہ چھوڑنا وائو کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو اور نہ … چھوڑنا، یہ ان کے بتوں کے نام ہیں اور ان لوگوں نے ان بتوں کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا اس طریقہ پر کہ ان لوگوں کو ان بتوں کی بندگی کرنے کا حکم دیا (الٰہی ! ) تو ان لوگوں کی گمراہی اور بڑھا دے یہ عطف ہے قداضلوا پر اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے لئے یہ بددعاء اس وقت کی کہ جب بذریعہ وحی ان کو یہ معلوم ہوگیا کہ تیری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے علاوہ اور کوئی ایمان لانے والا نہیں، ان لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے طوفان میں غرق کردیا گیا ما زائدہ ہے، ایک قرأت میں خطیناتھم ہے ہمزہ کے ساتھ، اور جہنم میں پہنچا دیا گیا اور اللہ کے سوا انہوں نے اپنا کوئی مددگار نہ بنایا کہ جو ان سے عذاب کو روک سکے اور نوح (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! تو روئے زمین پر کوئی بسنے والا نہ چھوڑ یعنی گمان میں آنے والا مطلب یہ کہ کسی کو نہ چھوڑا اگر تو ان کو چھوڑ دے گا تو یقینا یہ تیرے (دیگر) بندوں کو بھی گمراہ کردیں گے اور فاجروں اور کافروں ہی کو جنم دیں گے یعنی ان لوگوں کو جو کفر و فسق ہی کریں گے، اور آپ نے یہ بدعاء آپ کے پاس وحی آنے کے بعد کی۔ اے میرے پروردگار ! تو میرے والدین کو کہ دونوں مومن تھے اور ہر اس شخص کو جو مومن ہو کر میرے گھر میں میری مسجد میں داخل ہو اور قیامت تک آنے والے مومنین و مومنات کو بخش دے اور کافروں کو سوائے ہلاکت کے اور کسی چیز میں نہ بڑھا چناچہ وہ سب لوگ ہلاک کردیئے گئے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : بذلک، ای بالمال والولد۔
قولہ : والاول ای ولد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ولد کی جمع ہے جیسا کہ خشب، خشب کی جمع اور کہا گیا ہے کہ … نہیں ہے البتہ معنی میں جمع کے ہے جیسا کہ بخل، بخل کے معنی میں ہے۔
قولہ : ود مرد کی شکل کے ایک بت کا نام ہے، سواع عورت کی شکل کے ایک بت کا نام ہے، یغوث شیر کی شکل کے … کا نام ہے، یغوق گھوڑے کی شکل کے بت کا نام ہے، نسر کرگس کی شکل کے بت کا نام ہے۔
تفسیر و تشریح
قال نوح رب انھم عصونی (الآیۃ) یعنی میری نافرمانی پر اڑے رہے میری ایک سن کر نہ دی اور مالداروں سرداروں کی پیروی کی کہ جن کو ان کے مال و اولاد نے سوائے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں دیا بلکہ سراسر نقصان میں رہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿قَالَ نُوحٌ ﴾ نوح علیہ السلام نے اپنے رب کے حضور شکوہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ ان کے اندر اس کلام اور وعظ ونصیحت نے کوئی فائدہ نہیں دیا ﴿رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي ﴾ اے میرے رب ! انہوں نے ان تمام امور میں میری نافرمانی کی ہے جن کا میں نے ان کو حکم دیا ۔ ﴿وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا﴾ یعنی انہوں نے خیرخواہی کرنے اور بھلائی کی طرف راہ نمائی کرنے والے رسول کی نافرمانی کی اور ان بڑے لوگوں اور اشراف کی پیروی کی جن کو ان کے مال اور اولاد نے خسارے میں ڈالا، یعنی ان کو ہلاکت میں مبتلا کیا اور منافع سے محروم کردیا ، تب اس شخص کا کیا حال ہوگا جس نے ان کی اطاعت کی اور ان کے احکام پر عمل کیا؟
11 Mufti Taqi Usmani
nooh ney kaha : aey meray perwerdigar ! haqeeqat yeh hai kay inn logon ney mera kehna nahi maana , aur unn ( sardaron ) kay peechay chal parray jinn ko unn kay maal aur aulad ney nuqsan phonchaney kay siwa kuch nahi diya ,
12 Tafsir Ibn Kathir
نوح (علیہ السلام) کی بارگاہ الٰہی میں روداد غم
حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی گزشتہ شکایتوں کے ساتھ ہی جناب باری تعالیٰ میں اپنی قوم کے لوگوں کی اس روش کو بھی بیان کیا کہ میری پکار کو جو ان کے لئے سراسر نفع بخش تھی انہوں نے کان تک نہ لگایا ہاں اپنے مالداروں اور بےفکروں کی مان لی جو تیرے امر سے بالکل غافل تھے اور مال و اولاد کے پیچھے مست تھی، گو فی الواقع وہ مال و اولاد بھی ان کے لئے سراسر و بال جان تھی، کیونکہ ان کی وجہ سے وہ پھولتے تھے اور اللہ کو بھولتے تھے اور زیادہ نقصان میں اترتے جاتے تھے (ولدہ) کی دوسری قرأت (ولدہ) بھی ہے اور ان رئیسوں نے جو مال و جاہ والے تھے ان سے بڑی مکاری کی۔ (کُبَّارِ ) اور (کِبَّار) دونوں معنی میں کبیر کے ہیں یعنی بہت بڑا۔ قیامت کے دن بھی یہ لوگ یہیں کہیں گے کہ تم دن رات مکاری سے ہمیں کفر و شرک کا حکم کرتے رہے اور انہی بڑوں نے ان چھوٹوں سے کہا کہ اپنے ان بتوں کو جنہیں تم پوجتے رہے ہرگز نہ چھوڑنا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قوم نوح کے بتوں کو کفار عرب نے لے لیا دومتہ الجندل میں قبیلہ کلب ود کو پوجتے تھے، ہذیل قبیلہ سواع کا پرستار تھا اور قبیلہ مراد پھر قبیلہ بنو غطیف جو صرف کے رہنے والے تھے یہ شہر سبا بستی کے پاس ہے یغوث کی پوجا کرتا تھا، ہملان قبیلہ یعقوب کا پجاری تھا، آل ذی کلاع کا قبیلہ حمیر نسر بت کا ماننے والا تھا، یہ سب بت دراصل قوم نوح کے صالح بزرگ اولیاء اللہ لوگ تھے ان کے انتقال کے بعد شیطان نے اس زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈالی کہ ان بزرگوں کی عبادت گاہوں میں ان کی کوئی یادگار قائم کریں، چناچہ انہوں نے وہاں نشان بنا دیئے اور ہر بزرگ کے نام پر انہیں مشہور کیا جب تک یہ لوگ زندہ رہے تب تک تو اس جگہ کی پرستش نہ ہوئی لیکن ان نشانات اور یادگار قائم کرنے والے لوگوں کو مرجانے کے بعد اور علم کے اٹھ جانے کے بعد جو لوگ آئے جہالت کی وجہ سے انہوں نے باقاعدہ ان جگہوں کی اور ان ناموں کی پوجا پاٹ شروع کردی۔ حضرت عکرمہ حضرت ضحاک حضرت قتادہ حضرت ابن اسحاق بھی یہی فرماتے ہیں۔ حضرت محمد بنی قیس فرماتے ہیں یہ بزرگ عابد، اللہ والے، اولیاء اللہ، حضرت آدم، اور حضرت نوح کے سچے تابع فرمان صالح لوگ تھے جن کی پیروی اور لوگ بھی کرتے تھے جب یہ مرگئے تو ان کے مقتدیوں نے کہا کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنالیں تو ہمیں عبادت میں خوب دلچسپی رہے گی اور ان بزرگوں کی صورتیں دیکھ کر شوق عبادت بڑھتا رہے گا چناچہ ایسا ہی کیا جب یہ لوگ بھی مر کھپ گئے اور ان کی نسلیں آئیں تو شیطان نے انہیں یہ گھٹی پلائی کہ تمہارے بڑے ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے اور انہیں سے بارش وغیرہ مانگتے تھے چناچہ انہوں نے اب باقاعدہ ان بزرگوں کی تصویروں کی پرستش شروع کردی، حافظ ابن عساکر (رح) حضرت شیث (علیہ السلام) کے قصے میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا حضرت آدم (علیہ السلام) کے چالیس بچے تھے بیس لڑکے بیس لڑکیاں ان میں سے جن کی بڑی عمریں ہوئیں ان میں ہابیل، قابیل، صالح اور عبدالرحمٰن تھے جن کا پہلا نام عبدالحارث تھا اور ود تھا جنہیں شیث اور ہبتہ اللہ بھی کہا جاتا ہے۔ تمام بھائیوں نے سرداری انہیں کو دے رکھی تھی۔ ان کی اولاد یہ چاروں تھے یعنی سواع، یغوث، یعوق اور نسر۔ حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی بیماری کی قوت ان کی اولاد ود، یغوث، یعوق، سواع اور نسر تھی۔ ود ان سب میں بڑا اور سب سے نیک سلوک کرنے والا تھا۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابو جعفر (رح) نماز پڑھ رہے تھے اور لوگوں نے زید بن مہلب کا ذکر کیا آپ نے فارغ ہو کر فرمایا سنو وہ وہاں قتل کیا گیا جہاں اب سے پہلے غیر اللہ کی پرستش ہوئی واقعہ یہ ہوا کہ ایک دیندار ولی اللہ مسلمان جسے لوگ بہت چاہتے تھے اور بڑے معتقد تھے وہ مرگیا، یہ لوگ مجاور بن کر اس کی قبر پر بیٹھ گئے اور رونا پیٹنا اور اسے یاد کرنا شروع کیا اور بڑے بےچین اور مصیبت زدہ ہوگئے ابلیس لعین نے یہ دیکھ کر انسانی صورت میں ان کے پاس آ کر ان سے کہا کہ اس بزرگ کی یادگار کیوں قائم نہیں کرلیتے ؟ جو ہر وقت تمہارے سامنے رہے اور تم اسے نہ بھولو سب نے اس رائے کو پسند کیا ابلیس نے اس بزرگ کی تصویر بنا کر ان کے پاس کھڑی کردی جسے دیکھ دیکھ کر یہ لوگ اسے یاد کرتے تھے اور اس کی عبادت کے تذکرے رہتے تھے، جب وہ سب اس میں شمغول ہوگئے تو ابلیس نے کہا تم سب کو یہاں آنا پڑتا ہے اس لئے یہ بہتر ہوگا کہ میں اس کی بہت سی تصویریں بنا دوں تم انہیں اپنے اپنے گھروں میں ہی رکھ لو وہ اس پر بھی راضی ہوئے اور یہ بھی ہوگیا، اب تک صرف یہ تصویریں اور یہ بت بطور یادگار کے ہی تھے مگر ان کی دوسری پشت میں جا کر براہ راست ان ہی کی عبادت ہونے لگی اصل واقعہ سب فراموش کر گئے اور اپنے باپ دادا کو بھی ان کی عبادت کرنے والا سمجھ کر خود بھی بت پرستی میں مشغول ہوگئے، ان کا نام ود تھا اور یہی پہلا وہ بت ہے جس کی پوجا اللہ کے سوا کی گئی۔ انہوں نے بہت مخلوق کو گمراہ کیا اس وقت سے لے کر اب تک عرب عجم میں اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش شروع ہوگئی اور اللہ کی مخلوق بہک گئی، چناچہ خلیل اللہ (علیہ السلام) اپنی دعا میں عرض کرتے ہیں میرے رب مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ یا الٰہی انہوں نے اکثر مخلوق کو بےراہ کردیا۔ پھر حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کے لئے بد دعا کرتے ہیں کیونکہ ان کی سرکشی ضد اور عداوت حق خوب ملاحظہ فرما چکے تھے تو کہتے ہیں کہ الٰہی انہیں گمراہی میں اور بڑھا دے، جیسے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور فرعونیوں کے لئے بد دعا کی تھی کہ پروردگار ان کے مال تباہ کر دے اور ان کے دل سخت کر دے انہیں ایمان لانا نصیب نہ ہو جب تک کہ درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں، چناچہ دعاء نوح قبول ہوتی ہے اور قوم نوح بہ سبب اپنی تکذیب کے غرق کردی جاتی ہے۔