القیامہ آية ۱
لَاۤ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِۙ
طاہر القادری:
میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی،
English Sahih:
I swear by the Day of Resurrection
1 Abul A'ala Maududi
نہیں، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی
2 Ahmed Raza Khan
روزِ قیامت کی قسم! یاد فرماتا ہوں،
3 Ahmed Ali
قیامت کے دن کی قسم ہے
4 Ahsanul Bayan
میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی (١)۔
١۔١ میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں، قیامت کے دن کی قسم کھانے کا مقصد اس کی اہمیت اور عظمت کو واضح کرنا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ہم کو روز قیامت کی قسم
6 Muhammad Junagarhi
میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی
7 Muhammad Hussain Najafi
نہیں! میں قَسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
میں روزِ قیامت کی قسم کھاتا ہوں
9 Tafsir Jalalayn
ہم کو روز قیامت کی قسم۔
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، (لا اقسم) میں لا زائدہ ہے، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی اور قسم کھاتا ہوں بہت ملامت کرنے والے نفس کی کہ جو خود کو ملامت کرے، باوجود یکہ وہ نیکی کرنے میں جدوجہد کرتا ہے، اور جواب قسم محذوف ہے، یعنی تم کو ضرور زندہ کیا جائے گا، (اس حذف پر) ایحسب الانسان الخ دلالت کرتا ہے، کیا یہ کافر انسان یہ سمجھتا ہے کہ بعث اور حیات کے لئے ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کریں گے ؟ کیوں نہیں ! ہم ان کو ضرور جمع کریں گے ہم ان کے جمع کرنے پر قادر ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر بھی قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کردیں (بنان) انگلیاں، یعنی ہم اس کی ہڈیوں کو چھوٹا ہونے کے باوجود اس حالت پر لوٹا دیں گے جس حالت پر وہ تھیں، تو بڑی ہڈیوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ بلکہ انسان یہ چاہتا ہے کہ آنے والی قیامت کو جھٹلا دے، لام زائدہ ہے اور اس کا نصب ان مقدرہ کی وجہ سے ہے، اس پر یسال ایان یوم القیامۃ دلالت کرتا ہے، وہ استہزاء اور تکذیب کے طور پر، سوال کرتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا ؟ پس جب کہ نگاہیں خیرہ ہوجائیں گی (چندھیا جائیں گی) برق راء کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ ہے یعنی مدہوش و متحیر ہوجائیں گی جب کہ وہ ان چیزوں کو دیکھے گا جن کی وہ تکذیب کیا کرتا تھا، اور چاند بےنور ہوجائے گا (یعنی) تاریک ہوجائے گا، اور اس کی روشنی ختم ہوجائے گی، اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے بایں طور کہ دونوں مغرب سے طلوع ہوں گے، یا دونوں کی روشنی ختم ہوجائے گی، اور ایسا قیامت کے دن ہوگا، اس دن انسان کہے گا آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟ ہرگز نہیں ! یہ فرار کی تردید ہے، کوئی پناہ گاہ نہیں، یعنی ایسا کوئی ٹھکانہ نہیں کہ جس میں وہ پناہ لے سکے، آج تو تیرے پروردگار ہی کی طرف فرارگاہ ہے (یعنی) مخلوق کا ٹھکانہ ہے، لہٰذا ان کا حساب لیا جائے گا اور ان کو صلہ دیا جائے گا اس انسان کو اگلے پچھلے سب اعمال سے آگاہ کردیا جائے گا یعنی اس کا اول عمل بھی اور آخر عمل بھی بتلا دیا جائے گا بلکہ انسان خود اپنے نفس پر شاہد ہوگا، اس کے اعضاء اس کے اعمال کی گواہی دیں گے، بصیرۃ (میں) ھا مبالغہ کے لئے ہے لہٰذا اس کی جزاء کا واقع ہونا ضروری ہے، اگرچہ کتنے ہی حیلے بہانے پیش کرے، معاذیرۃ، معذرۃ کی جمع غیر قیاسی ہے، یعنی اگرچہ ہر قسم کے حیلے بہانے پیش کرے گا مگر قبول نہیں کئے جائیں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم اس کو ضرور آگاہ کردیں گے (اے نبی ! ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھنے کے لئے جبرئیل (علیہ السلام) کے اس سے فارغ ہونے سے پہلے اپنی زبان کو قرآن کے فوت ہونے کے اندیشہ کے پیش نظر عجلت کرتے ہوئے حرکت نہ دیجئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینے میں اس کا جمع کرنا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے یعنی اس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر جاری کرنا (ہمارے ذمہ ہے) پس جبرئیل (علیہ السلام) کی قرأت کے ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سنیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی قرأت کی سماعت فرمائیں چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اول) سنتے پھر اس کو پڑھتے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھانے کے لئے اس کا واضح کردینا ہمارے ذمہ ہے اس آیت اور سابقہ آیت کے درمیان مناسبت یہ ہے کہ وہ آیت خدا کی آیتوں سے اعراض (کے مضمون) پر مشتمل ہے اور یہ آیت اللہ کے آیتوں کی حفاظت کی طرف سبقت (کے مضمون پر) مشتمل ہے (گویا کہ دونوں آیتوں میں علاقہ ٔ تضاد ہے لہٰذا دونوں آیتیں بےربط نہیں ہیں) ہرگز ایسا نہیں ! کلا بمعنی الا استفتاح کے لئے ہے، بلکہ تم دنیا کو محبوب رکھتے ہو، دونوں فعلوں میں یاء اور تاء کے ساتھ اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو، کہ اس کے لئے عمل نہیں کرتے، اس دن یعنی قیامت کے دن بہت سے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے یعنی آخرت میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہوں گے اور بہت سے چہرے اس روز بدرونق (اداس) بگڑے ہوئے ہوں گے یقین کرتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑنے والا معاملہ کیا جائے گا یعنی ایسی مصیبت نازل کی جائے گی کہ کمر کے منکوں کو توڑ کر رکھ دے گی، ہرگز ایسا نہیں ! کلا بمعنی الا ہے، جب روح حلق کی ہڈیوں (ہنسلی) تک پہنچے گی اور کہا جائے گا اور کہنے والے وہ ہوں گے جو اس (مرنے والے) کے آس پاس ہوں گے، کیا کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے ؟ کہ اس پر جھاڑ پھونک کرے، تاکہ اس کو شفاء ہوجائے، اور جس شخص کی روح حلق میں پہنچے گی وہ یقین کرلے گا کہ یہ دنیا کو ترک کرنے کا وقت ہے اور موت کے وقت پنڈلیاں آپس میں لپٹ جائیں گی یا دنیا کو چھوڑنے کی تکلیف آخرت میں داخل ہونے کی تکلیف سے لپٹ جائے گی، آج تیرے پروردگار کی طرف چلنا ہے مساق بمعنی سوق ہے اور یہ اذا میں عامل پر دلالت کرتا ہے یعنی یہ ہیں، جب روح حلق میں پہنچے گی تو اس کو اس کے رب کے حکم کی طرف لے جایا جائے گا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : لا اقسم، لا قسم پر زائدہ ہے، اور یہ کلام عرب میں نظم و نثر میں کثیر الوقوع ہے، قال امرئو القیس ؎
ولا وابیک ابنۃ العامری لا یدعی القوم انی افر
اور کہا گیا ہے کہ لا نافیہ ہے، مقصد دعویٰ خصم کو رد کرنا ہے، یہاں لا منکرین بعث پر رد کرنے کے لئے لایا گیا ہے، گویا کہ کہا ” لیس الامر کما زعموا اقسم الخ “ اور جیسا کہ کہا جاتا ” لا واللہ “
قولہ : الن نجمع، ان مخففہ عن الثقیلہ ہے اس کا اسم ضمیر شان محذوف ہے، ای انہ اور لن اور اس کا مدخول ان کی خبر ہے، ان اپنے اسم و خبر سے مل کر جملہ ہو کر حسب کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے، (الن) میں ہمزہ اور لام کے درمیان نون نہیں ہے، یہ رسم مصحف کے طور پر ہے۔
قولہ : قادرین یہ فعل مقدر نجمعھا کی ضمیر فاعل سے حال ہے۔
قولہ : برق البصر، برق میں د قرأتیں ہیں، راء کے کسرہ کے ساتھ اور فتحہ کے ساتھ، کسرہ کی صورت میں متحیر اور خیرہ ہونے کے معنی ہیں اور فتحہ کی صورت میں دھش کے معنی ہیں، مفسر علام نے دونوں معنی کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
قولہ : یقول الانسان یہ اذا کا جواب ہے۔
قولہ : بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ، بل الانسان مبتداء ہے بصیرۃ خبر، یہاں انسان سے مراد جوارح (اعضاء) ہیں جو کہ جمع ہے لہٰذا مطابقت موجود ہے مفسر علام نے تنطق جوارحہ کہہ کر اس جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
دوسرا جواب : دوسرے جواب کا حاصل یہ ہے کہ بصیرۃ میں تاء مبالغہ کی ہے نہ کہ تانیث کی، لہٰذا کوئی اعتراض ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قولہ : ما قبلت منہ مفسر علام نے اس عبارت کا اضافہ کر کے اشارہ کردیا کہ ولو القی میں لو شرطیہ ہے اور ما قبلت اس کی جزاء مقدر ہے۔
قولہ : انہ، ای النازل بہ۔
تفسیر و تشریح
لا اقسم، کلام کی ابتداء، ” نہیں “ سے کرنا خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے سے کوئی بات چل رہی تھی جس کی تردید میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اور اگلے مضمون سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وہ کیا بات تھی جس کی تردید مقصود ہے، اور وہ قیامت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں تھی جس کا اہل مکہ انکار کر رہے تھے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کا مذاق بھی اڑا رہے تھے۔
قرآن کریم نے نفس انسانی کی تین قسموں کا ذکر کیا ہے، (١) ایک وہ نفس جو انسان کو برائیوں پر اکساتا ہے اس کا نام ” نفس امارہ “ ہے، (٢) وہ نفس جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بری نیت رکھنے پر نادم ہوتا ہے اور خود کو اس پر ملامت کرتا ہے، اس کا نام ” نفس لوامہ “ ہے، اسی کو آج کل کی اصطلاح میں ضمیر کہتے ہیں، (٣) وہ نفس جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑنے پر اطمینان محسوس کرتا ہے اس کا نام ” نفس مطمئنہ “ ہے۔
حسن بصری (رح) تعالیٰ نے ” نفس لوامہ “ کی تفسیر ” نفس مؤمنہ “ سے کی ہے اور فرمایا واللہ مومن تو ہمیشہ اور ہرحال میں اپنے نفس کو ملامت ہی کرتا رہتا ہے، سیئات پر ملامت تو ظاہر ہی ہے، حسنات اور نیک کاموں میں بھی وہ بہ مقابلہ شان حق سبحانہ کے، کمی اور کو تایہ محسوس کرتا ہے کیونکہ حق عبادت پورا ادا کرنا تو کسی کے بس کی بات نہیں ہے اس لئے ادائے حق میں کوتاہی اس کے پیش نظر رہتی ہے اس پر وہ ملامت کرتا رہتا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ﴾ ” میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔“ (لآ) یہاں نافیہ ہے نہ زائدہ، اسے صرف استفتاح اور مابعد کلام کے اہتمام کے لیے لایا گیا ہے، قسم کے ساتھ کثرت سے اس کولانے کی بنا پر استفتاح کے لیے اس کا استعمال نادر نہیں ہے، اگرچہ اس کو استفتاح کلام کے لیے وضع نہیں کیا گیا۔ اس مقام پر جس چیز کی قسم کھائی گئی ہے ، وہی ہے جس پر قسم کھائی گئی ہے اور وہ ہے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا۔ لوگوں کو ان کی قبروں سے زندہ کرکے اٹھایا جائے گا ، پھر (اللہ تعالیٰ کے حضور ) ان کو کھڑا کیا جائے گا اور وہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔
11 Mufti Taqi Usmani
mein qasam khata hun qayamat kay din ki ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ہم سب اپنے اعمال کا خود آئینہ ہیں
یہ کئی دفعہ بیان ہوچکا ہے کہ جس چیز پر قسم کھائی جائے اگر وہ رد کرنے کی چیز ہو تو قسم سے پہلے لا کا کلمہ نفی کی تائید کے لئے لانا جائز ہوتا ہے یہاں قیامت کے ہونے پر اور جاہلوں کے اس قول کی تردید پر قیامت نہ ہوگی قسم کھائی جا رہی ہے تو فرماتا ہے قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے ملامت کرنے والی جان کی، حضرت حسن تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے، حسن اور اعرج کی قرأت آیت ( لَآ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ ۙ ) 75 ۔ القیامة :1) ہے اس سے بھی حضرت حسن کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ حضرت قتادہ کا فرمان ہے، ابن عباس اور سعید بن جبیر سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر کا مختار قول بھی یہی ہے۔ یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے، نفس لوامہ کی تفسیر میں حضرت حسن بصری (رح) سے مروی ہے کہ اس سے مراد مومن کا نفس ہے وہ ہر وقت اپنے تئیں ملامت ہی کرتا رہتا ہے کہ یوں کیوں کہہ دیا ؟ یہ کیوں کھالیا ؟ یہ خیال دل میں کیوں آیا ؟ ہاں فاسق فاجر غافل ہوتا ہے اسے کیا پڑی جو اپنے نفس کو روکے، یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہوجانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے، یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنادیں گے۔ ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنادیں، امام ابن جریر فرماتے ہیں یعنی دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کردیتے، آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ (قادرین) حال ہے (نجمع) سے یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں۔ ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے، امیدیں باندھے ہوئے ہے، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کر تو لوں توبہ بھی ہوجائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے، اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جو یوم حساب کا منکر ہے، ابن زید بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہوگی، اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 48) 10 ۔ یونس :48) ، کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتادو کہ قیامت کب آئے گی ؟ ان سے کہہ دے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ جب آنکھیں پتھرا جائیں گی، جیسے اور جگہ ہے آیت (لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۚ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاۗءٌ 43ۭ ) 14 ۔ ابراھیم :43) ، یعنی پلکیں جھپکیں گی نہیں بلکہ رعب و دہشت خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھتے رہیں گے، برق کی دوسری قرأت برق بھی ہے، معنی قریب قریب ہیں اور چاند کی روشنی بالکل جاتی رہے گی اور سورج چاند جمع کردیئے جائیں گے یعنی دونوں کو بےنور کر کے لپیٹ لیا جائے گا، جیسے فرمایا آیت ( اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ۽) 81 ۔ التکوير :1) حضرت ابن مسعود کی قرأت میں (وجمیع بین الشمس والقمر) ہے، انسان جب یہ پریشانی شدت ہول گھبراہٹ اور انتظام عالم کی یہ خطرناک حالت دیکھے گا تو بھاگا جائے گا اور کہے گا کہ جائے پناہ یعنی بھاگنے کی جگہ کہاں ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ملے گا کہ کوئی پناہ نہیں رب کے سامنے اور اس کے پاس ٹھہرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں، جیسے اور جگہ ہے آیت (مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ 47) 42 ۔ الشوری :47) یعنی آج نہ تو کوئی جائے پناہ ہے نہ ایسی جگہ کہ وہاں جا کر تم انجان اور بےپہچان بن جاؤ، آج ہر شخص کو اس کے اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے اعمال سے مطلع کیا جائے گا، جیسے فرمان ہے آیت (وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا 49 ) 18 ۔ الكهف :49) جو کیا تھا، موجود پالیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا۔ انسان اپنے آپ کو بخوبی جانتا ہے اپنے اعمال کا خود آئینہ ہے گو انکار کرے اور عذر معذرت پیش کرتا پھرے، جیسے فرمان ہے آیت ( اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا 14ۭ ) 17 ۔ الإسراء :14) اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور اپنے تئیں آپ ہی جانچ لے، اس کے کان آنکھ، پاؤں اور دیگر اعضاء ہی اس پر شہادت دینے کافی ہیں، لیکن افسوس کہ یہ دوسروں کے عیبوں اور نقصانوں کو دیکھتا ہے اور اپنے کیڑے چننے سے غافل ہے، کہا جاتا ہے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے اے ابن آدم تو دوسروں کی آنکھوں کا تو تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی تجھے دکھائی نہیں دیتا ؟ قیامت کے دن چاہے انسان فضول بہانے بنائے گا اور جھوٹی دلیلیں دے گا بیکار عذر پیش کرے گا مگر ایک بھی قبول نہ کیا جائے گا۔ اس آیت کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ پردے ڈالے۔ اہل یمن پردے کو عذر کہتے ہیں، لیکن صحیح معنی اوپر والے ہیں جیسے اور جگہ ہے کہ کوئی معقول عذر نہ پا کر اپنے شرک کا سر سے انکار ہی کردیں گے کہ اللہ کی قسم ہم مشرک تھے ہی نہیں اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کھا کر سچا ہونا چاہیں گے جیسے دنیا میں تمہارے سامنے ان کی حالت ہے لیکن اللہ پر تو ان کا جھوٹ ظاہر ہے چاہے کتنا ہی وہ اپنی تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں، غرض عذر معذرت انہیں قیامت کے دن کچھ کار آمد نہ ہوگا، جیسے اور جگہ فرماتا ہے آیت ( يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ 52) 40 ۔ غافر :52) ظالموں کو ان کی معذرت کچھ کام نہ آئے گی یہ تو اپنے شکر کے ساتھ اپنی تمام بداعمالیوں کا بھی انکار کردیں گے لیکن بےسود ہوگا۔