اس روز بہت سے منہ رونق دار ہونگے وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ، ناضرۃ بمعنی ترو تازہ یعنی اس روز کچھ چہرے ہشاش بشاش اور تروتازہ ہوں گے، یہ چہرے اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے، اس سے ثابت ہوا کہ آخرت میں اہل جنت کو حق تعالیٰ کا دیدار بچشم سرنصیب ہوگا، اس پر اہل سنت والجماعت و فقہاء کا اجماع ہے، صرف معتزلہ اور خوارج منکر ہیں اور ان کے انکار کی وجہ فلسفیانہ موشگافیاں اور شبہات ہیں کہ آنکھ سے دیکھنے کے لئے دیکھنے والے اور جس کو دیکھا جائے ان دونوں کے درمیان مسافت کے لئے جو شرائط ہیں، خالق اور مخلوق کے درمیان ان کا تحقق نہیں ہوسکتا۔ اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کی رویت و زیارت ان سب شرائط سے بےنیاز ہوگی نہ کسی جہت سے اس کا تعلق اور نہ کسی سمت سے اس کو ربط اور نہ کسی ہیئت و صورت سے اس کو سروکار روایات حدیث سے یہ مضمون بڑی صراحت و وضاحت سے ثابت ہے، بخاری شریف کی روات ہے ” انکم سترون ربکم عیانا “ تم اپنے رب کو کھلم کھلا دیکھو گے، مسلم و ترمذی میں حضرت صہیب (رض) کی روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں مزید کچھ عطا کروں ؟ وہ عرض کریں گے : کیا آپ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کردیئے ؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کردیا ؟ اور کیا آپ نے ہمیں جہنم سے بچا نہیں لیا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ پردہ ہٹا دے گا اس وقت ان لوگوں کو جو کچھ انعامات ملے تھے ان میں سے کوئی بھی انہیں اس سے زیادہ محبوب نہہو گا کہ وہ اپنے رب کی دیدار سے مشرف ہوں، اور یہی وہ مزید انعام ہے جس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے ” للذین احسنوا الحسنی و زیادۃ “ بخاری و مسلم کی ایک دوسری روایت میں حضرت ابو سعید خدری (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا ہم قیامت کے روز اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہیں سورج اور چاند دیکھنے میں کوئی دقت ہوتی ہے جب کہ درمیان میں بادل بھی نہ ہو ؟ لوگوں نے عرض کیا : نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسی طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے۔ اسی مضمون سے ملتی جلتی اور کئی روایتیں ہیں جن سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں حق تعالیٰ کا دیدار ہوگا، لیکن دیدار کی کیفیت اللہ کو معلوم ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے اہل آخرت کے احوال اور ان میں تفاوت کو بیان کرتے ہوئے ان امور کا ذکر کیا ہے جو آخرت کی ترجیح کی طرف دعوت دیتے ہیں ، چنانچہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والوں کے بارے میں فرمایا :﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ﴾ اس دن کئی چہرے حسین اور خوبصورت ہوں گے، ان کے دلوں کی نعمت، نفوس کی مسرت اور ارواح کی لذت کے باعث ان کے چہروں پر رونق اور نور ہوگا۔