رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا ۚ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
اُس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں کا اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں
English Sahih:
[From] the Lord of the heavens and the earth and whatever is between them, the Most Merciful. They possess not from Him [authority for] speech.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
اُس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں کا اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
وہ جو رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے رحمن کہ اس سے بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے
احمد علی Ahmed Ali
جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بڑامہربان کہ وہ اس سے بات نہیں کر سکیں گے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
(اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے والا ہے۔ کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا (١)
٣٧۔١ یعنی اس کی عظمت، ہیبت اور جلالت اتنی ہوگی کہ ابتداء اس سے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوگی، اسی لئے اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کے لئے لب کشائی نہیں کر سکے گا۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
وہ جو آسمانوں اور زمین اور جو ان دونوں میں ہے سب کا مالک ہے بڑا مہربان کسی کو اس سے بات کرنے کا یارا نہیں ہوگا
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
(اس رب کی طرف سے ملے گا جو کہ) آسمانوں کا اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پروردگار ہے اور بڑی بخشش کرنے واﻻ ہے۔ کسی کو اس سے بات چیت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
یعنی وہ ربِ رحمان کی طرف سے جو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا پروردگار (اور مالک) ہے (جس کی ہیبت سے) لوگوں کو اس سے بات کرنے کایارا نہیں ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ آسمان و زمین اوران کے مابین کاپروردگار رحمٰن ہے جس کے سامنے کسی کو بات کرنے کا یارا نہیں ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
(وہ) آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے (سب) کا پروردگار ہے، بڑی ہی رحمت والا ہے (مگر روزِ قیامت اس کے رعب و جلال کا عالم یہ ہوگا کہ) اس سے بات کرنے کا (مخلوقات میں سے) کسی کو (بھی) یارا نہ ہوگا،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
روح الامین (علیہ السلام)
اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جلال کی خبر دے رہا ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوق کا پالنے پوسنے والا ہے، وہ رحمان ہے، جس کے رحم نے تمام چیزوں کو گھیر لیا ہے، جب تک اس کی اجازت نہ ہو کوئی اس کے سامنے لب نہیں ہلا سکتا، جیسے اور جگہ ہے آیت (مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ\025\05 ) 2 ۔ البقرة ;255) یعنی کون ہے جو اس کی اجازت بغیر اس کی سی صورتوں والے ہیں کھاتے پیتے ہیں نہ وہ فرشتے ہیں نہ انسان، یا مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، حضرت جبرائیل کو اور جگہ بھی روح کہا گیا ہے، ارشاد ہے آیت ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ\019\03ۙ ) 26 ۔ الشعراء ;193) ، اسے امانت دار روح نے تیرے دل پر اتارا ہے تاکہ تو ڈرانے والا بن جائے، یہاں مراد سے یقینا حضرت جبرائیل ہیں حضرت مقاتل فرماتے ہیں کہ تمام فرشتوں سے بزرگ، اللہ کے مقرب اور وحی لے کر آنے والے بھی ہیں، یا مراد روح سے قرآن ہے، اس کی دلیل میں یہ آیت پیش کی جاسکتی ہے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا 52ۙ ) 42 ۔ الشوری ;52) یعنی ہم نے اپنے حکم سے تیری طرف روح اتاری یہاں روح سے مراد قرآن ہے، چھٹا قول یہ ہے کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو تمام مخلوق کے برابر ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ فرشتہ تمام فرشتوں سے بہت بڑا ہے، حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ یہ روح نامی فرشتہ چوتھے آسمان میں ہے، تمام آسمانوں کل پہاڑوں اور سب فرشتوں سے بڑا ہے، ہر دن بارہ ہزار تسبیحات پڑھتا ہے ہر ایک تسبیح سے ایک ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے، قیامت کے دن وہ اکیلا ایک صف بن کر آئے گا۔ لیکن یہ قول بہت ہی غریب ہے، طبرانی میں حدیث ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ فرشتوں میں ایک فرشتہ وہ بھی ہے کہ اگر اسے حکم ہو کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کو لقمہ بنا لے تو وہ ایک لقمہ میں سب کو لے لے اس کی تسبیح یہ ہے سبحانک حیث کنت اللہ تو جہاں کہیں بھی ہے پاک ہے یہ حدیث بھی بہت غریب ہے بلکہ اس کے فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونے میں بھی کلام ہے، ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہو، اور بھی بنی اسرائیل سے لیا ہوا، واللہ اعلم۔ امام ابن جریر نے یہ سب اقوال وارد کئے ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ میرے نزدیک ان تمام اقوال میں سے بہتر قول یہ ہے کہ یہاں روح سے مراد کل انسان ہیں واللہ اعلم پھر فرمایا صرف وہی اس دن بات کرسکے گا جسے وہ رحمٰن اجازت دے جیسے فرمایا آیت ( يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ\010\05 ) 11 ۔ ھود ;105) یعنی جس دن وہ وقت آئے گا کوئی نفس بغیر اس کی اجازت کے کلام بھی نہیں کرسکے گا صحیح حدیث میں بھی ہے کہ اس دن سوائے رسولوں کے کوئی بات نہ کرسکے گا، پھر فرمایا کہ اس کی بات بھی ٹھیک ٹھاک ہو، سب سے زیادہ حق بات لا الہ الا اللہ ہے، پھر فرمایا کہ یہ دن حق ہے یقیناً آنے والا ہے، جو چاہے اپنے رب کے پاس اپنے لوٹنے کی جگہ اور وہ راستہ بنا لے جس پر چل کر وہ اس کے پاس سیدھا جا پہنچے، ہم نے تمہیں بالکل قریب آئی ہوئی آفت سے آگاہ کردیا ہے، آنے والی چیز تو آگئی ہوئی سمجھنی چاہئے، اس دن نئے پرانے چھوٹے بڑے اچھے برے کل اعمال انسان کے سامنے ہوں گے جیسے فرمایا آیت (ووجدوا ما عملوا حاضرا جو کیا اسے سامنے پالیں گے اور جگہ ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13ۭ ) 75 ۔ القیامة ;13) ہر انسان کو اس کے اگلے پچھلے اعمال سے متنبہ کیا جائے گا، اس دن کافر آرزو کرے گا کاش کہ وہ مٹی ہوتا پیدا ہی نہ کیا جاتا وجود میں ہی نہ آتا، اللہ کے عذاب کو آنکھ سے دیکھ لے گا اپنی بدکاریاں سامنے ہوں گی جو پاک فرشتوں کے منصب ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہیں، پس ایک معنی تو یہ ہوئے کہ دنیا میں ہی مٹی ہونے کی یعنی پیدا نہ ہونے کی آرزو کرے گا، دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب جانوروں کا فیصلہ ہوگا اور ان کے قصاص دلوائے جائیں گے یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگ والی بکری نے مارا ہوگا تو اس سے بھی بدلہ دلوایا جائے گا پھر ان سے کہا جائے گا کہ مٹی ہوجاؤ چناچہ وہ مٹی ہوجائیں گے، اس وقت یہ کافر انسان بھی کہے گا کہ ہائے کاش میں بھی حیوان ہوتا اور اب مٹی بن جاتا حضور کی لمبی حدیث میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے اور حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمرو سے بھی یہی مروی ہے، الحمد اللہ سورة نباء کی تفسیم ختم ہوئی۔