النازعات آية ۱
وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا ۙ
طاہر القادری:
ان (فرشتوں) کی قَسم جو (کافروں کی جان ان کے جسموں کے ایک ایک انگ میں سے) نہایت سختی سے کھینچ لاتے ہیں۔ (یا:- توانائی کی ان لہروں کی قَسم جو مادہ کے اندر گھس کر کیمیائی جوڑوں کو سختی سے توڑ پھوڑ دیتی ہیں)،
English Sahih:
By those [angels] who extract with violence
1 Abul A'ala Maududi
قسم ہے اُن (فرشتوں کی) جو ڈوب کر کھینچتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
قسم ان کی کہ سختی سے جان کھینچیں
3 Ahmed Ali
جورڑوں میں گھس کر نکالنے والوں کی قسم ہے
4 Ahsanul Bayan
ڈوب کر سختی سے کھنچنے والوں کی قسم (١)
١۔١ نَزْع کے معنی سختی سے کھنچنا، غَرْقًا ڈوب کر، یہ جان نکالنے والے فرشتوں کی صفت ہے فرشتے کافروں کی جان، نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور جسم کے اندر ڈوب کر۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
ڈوب کر سختی سے کھینچنے والوں کی قسم!
7 Muhammad Hussain Najafi
قَسم ہے ان (فرشتوں) کی جو (جسم میں ڈوب کر) سختی سے (جان) کھینچتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
قسم ہے ان کی جو ڈوب کر کھینچ لینے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، قسم ہے ان فرشتوں کی جو کفار کی روح کو ڈوب کر سختی سے کھینچنے والے ہیں، قسم ہے ان فرشتوں کی جو نرمی سے مسلمانوں کی (روح) کو نکالنے والے ہیں یعنی روح کو آسانی کے ساتھ نکالنے والے ہیں، قسم ہے ان فرشتوں کی جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمان میں تیزی سے تیرنے والے ہیں یعنی نازل ہوتے ہیں، پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو مومنین کی روحوں کو لے کر جنت کی طرف سبقت کرنے والے ہیں، پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو دنیاوی معاملات کی تدبیر کرتے ہیں یعنی اس کی تدبیر کو لے کر نازل ہوتے ہیں، ان قسموں کا جواب محذوف ہے اور وہ لتبعثن یا کفار مکۃ ہے، (اے کفار مکہ ! تم کو ضرور اٹھایا جائے گا) اور یہی یوم ترجف الراجفۃ میں عامل ہے، جس دن ہلا ڈالے گا ہلا ڈالنے والی (یعنی نفخہ اولیٰ ، اس کی وجہ سے ہر چیز کانپنے لگے گی، یعنی ہر شیء متزلزل ہوجائے گی (قیامت کو) اسی صفت سے متصف کیا گیا ہے جو اس سے پیدا ہوگی، اور اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا پڑے گا یعنی دوسرا نفخہ، اور دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہوگا، اور جملہ راجفۃ سے حال ہے، (روز قیامت میں) دونوں نفخوں و غیرہما کی گنجائش ہوگی، لہٰذا روز قیامت کا اس بعث کے لئے ظرف بننا صحیح ہے جو نفخہ ٔ ثانیہ کے بعد واقع ہوگا، بہت سے دل ہوں گے جو اس دن خوف کی وجہ سے کانپ رہے ہوں گے یعنی اضطراب کی وجہ سے خوف زدہ ہوں گے ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی اس ہولناکی کی وجہ سے جس کو وہ دیکھ رہی ہوں گی، پست ہوں گی، یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم پہلی حالت میں واپس لائے جائیں گے یعنی یہ قلب و نظر والے (کفار مکہ) استہزاء اور انکار بعث کے طور پر کہتے ہیں (کیا ہم پہلی حالت میں واپس لائے جائیں گے) یعنی کیا ہم مرنے کے بعد لوٹائے جائیں گے اور حافرہ اول امر کا نام ہے، اسی سے رجع فلان فی حافرتہ ہے (یعنی فلاں شخص اپنے سابقہ حال پر آگیا) یہ اس وقت بولتے ہیں جب اسی طرف لوٹ جائے جہاں سے آیا تھا، کیا اس وقت جب کہ ہم بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے اور ایک قرأت میں ناخرۃ ہے بمعنی بوسیدہ، ریزہ ریزہ، زندہ کئے جائیں گے کہتے ہیں پھر تو یہ ہمارا حیات کی طرف لوٹنا بڑے گھاٹے کا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس یہ یعنی نفخہ ٔ ثانیہ ایک آواز ہوگی جس کے بعد بعث ہوگی جب وہ پھونک دی جائے گی تو اچانک پوری مخلوق زندہ ہو کر سطح زمین پر آجائے گی حالانکہ وہ مردے تھے زمین کے نیچے، کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! موسیٰ کا قصہ پہنچا ہے (حدیث) اذناداہ میں عامل ہے (نہ کہ اتک) جب کہ ان کو ان کے رب نے مقدس، میدان طویٰ میں پکارا (طوی) ایک وادی کا نام ہے، تنوین کے ساتھ اور بغیر تنوین کے، تو فرمایا کہ تم فرعون کے پاس جائو کہ اس نے سرکشی اختیار کر رکھی ہے یعنی کفر میں حد سے تجاوز کر گیا ہے، اس سے کہو کہ کیا تیری چاہت ہے کہ میں تجھ کو ایسی چیز کی دعوت دوں جس سے تو پاک ہوجائے ؟ ایک قرأت میں (تزکی) میں زا کی تشدید کے ساتھ ہے، تزکی کی تاء ثانیہ کو اصل میں زاء میں ادغام کر کے، یعنی شرک سے پاک ہوجائے، اس طریقہ سے کہ تو لا الہ الا اللہ کی شہادت دے اور یہ کہ میں تجھے تیری رب کی راہ دکھائوں کہ تو اس سے ڈرنے لگے، یعنی دلیل کے ساتھ اس کی معرفت کی طرف تیری رہنمائی کروں پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو نو نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی دکھائی اور وہ ید بیضاء یا عصاء کی نشانی ہے، مگر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی پھر (اس نے) ایمان سے روگردانی کی اور فساد فی الارض کے لئے دوڑ دھوپ کرنے لگا، پھر اس نے جادوگروں اور اپنے لشکر کو جمع کیا اور پکار کر کہا میں تمہارا بڑا رب ہوں مجھ سے بڑا کوئی رب نہیں ہے، پھر اللہ نے اس کو غرق آب کے ذریعہ ہلاک کر کے آخری کلمہ اور پہلے کلمے کے عذاب میں پکڑ لیا یعنی آخری کلمہ سے پہلے کلمے کے عذاب میں (اور وہ پہلا کلمہ) ” ما علمت لکم من الہ غیری “ ہے اور ان دونوں کلموں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ تھا بیشک اس (مذکور) میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : النازعات (ض) نزع سے اسم فاعل جمع مونث، کھینچ کر نکالنے والیاں، یہاں طائفۃ کے معنی میں ملائکہ مراد ہیں۔
قولہ : غرقا یہ حذف زوائد کے ساتھ مصدر ہے ای اغراقا اپنے عامل النازعات کے معنی میں ہونے کی وجہ سے مفعول مطلق ہے جیسے قمت وقوفا، یا قعدت جلوسا، یا حال ہے ای ذوات اغراق، اغرق فی الشیء اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی معاملہ میں انتہائی حد کو پہنچ جائے۔
قولہ : الناشطات (ض) نشطا سے اسم فعل جمع مؤنث، کھولنے والیاں، سہولت کرنے والیاں، نشط فی العمل اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی چیز میں سہولت اور جلدی کرتے ہیں، نشطا اور اس کے ما بعد سب اپنے عوامل کی تاکید کرنے والے مصادر ہیں۔
قولہ : ای تنزل بتدبیرہ اس اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ تدبیر کی نسبت ملائکہ کی جانب اسناد مجازی کے طور پر ہے، اصل مدبر اللہ تعالیٰ ہیں، اسی کے حکم سے ملائکہ تدبیر کرتے ہیں۔
قولہ : لتبعثن یا کفار مکۃ یہ مذکورہ قسموں کا جواب ہے، کفار مکہ کی تخصیص صرف اس لئے ہے کہ وہ بعث کے منکر ہیں ورنہ بعث مومن و کافر سب کے لئے ہے۔
قولہ : فالیوم واسع للنفختین یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ یوم ترجف الرجفۃ سے نفخہ ٔ اولی مراد ہے، جو کہ موت کا سبب ہوگا تو پھر وہ لتبعثن مقدر کا ظرف کس طرح ہوسکتا ہے، اس لئے کہ بعث تو نفخہ ٔ ثانیہ کے وقت ہوگا۔
جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ وہ دن اتنا بڑا ہوگا کہ اس میں دونوں نفخوں کی گنجائش ہوگی اگرچہ دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا، چالیس سال کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی دن چالیس سال کے برابر ہوگا، فصح ظرفیتہ للبعث یعنی یوم کا بعث مقدر کے لئے ظرف واقع ہونا صحیح ہے۔
قولہ : تتبعھا الرادفۃ، رادفۃ کے معنی ہیں متصلاً بعد میں آنے والا، نفخہ ٔ ثانیہ چونکہ اولیٰ کے بعد واقع ہوگا ان کے درمیان اور کوئی شئی حائل نہ ہوگی اسی وجہ سے نفخہ ٔ ثانیہ کو رادفہ کہا گیا ہے۔
قولہ : قلوب یومئذ و اجفۃ، قلوب مبتداء ہے اور ابصارھا اس کی خبر ہے۔
سوال : قلوب نکرہ ہے اس کا مبتداء بننا صحیح نہیں ہے ؟
جواب : واجفۃ، قلوب کی صفت مخصصہ ہے جس کی وجہ سے نکرہ کا مبتدا بننا صحیح ہے، یعنی واجفۃ، یومئذ اپنے ظرف سے مل کر قلوب کی صفت ہے ابصارھا میں ھا ضمیرقلوب کی طرف راجع ہے اور قلوب کا مضاف محذوف ہے، ای ابصار اصحاب القلوب خاشعۃ۔
ترکیب : قلوب موصوف یومئذ، واجفۃ کا ظرف مقدم، واجفۃ اپنے ظرف مقدم سے مل کر قلوب کی صفت، موصوف صفت سے مل کر مبتداء، ابصارھا مبتدا ثانی، خاشعۃ اس کی خبر، مبتداء خبر سے مل کر جملہ ہو کر مبتداء اول کی خبر ہے۔
قولہ : فی الحافرۃ ای الی الحافرۃ، فی بمعنی الی اور حافرہ بمعنی حیات۔
قولہ : ء اذا کنا عظاما نخرۃ، اذا کا عامل محذف ہے جس پر مردودون دلالت کر رہا ہے، ایء اذا کنا عظامابالیۃ نرد و نبعث۔
قولہ : نخرۃ یہ نخر العظم سے ماخوذ ہے بوسیدہ اور کھوکھلی ہڈی کو کہتے ہیں۔
قولہ : قالوا تلک، تلک مبتداء ہے اور اس کا مشار الیہ رجعۃ ہے، کرۃ بمعنی رجعۃ موصوف ہے، خاسرۃ صفت، موصوف صفت سے مل کر مبتداء کی خبر ہے۔
قولہ : خاسرۃ اس کی تفسیر ذات خسران سے کر کے ایک سوال مقدر کے جواب کی طرف اشارہ کردیا۔
سوال : خاسرۃ کا حمل کرۃ پر درست نہیں ہے ؟
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ خاسرۃ، ذات خسران کے معنی میں ہے، یا خاسرۃ سے اصحاب خسران مراد ہیں، اور اسناد مجازی ہے جیسا کہ ربحت تجارتھم میں اسناد مجازی ہے۔
قولہ : فاذا نفخت اس عبارت کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ فاذا ھم بالساھرۃ شرط محذوف کی جزاء ہے۔
قولہ : فقال، ای فقال تعالیٰ ۔
قولہ : بالتنوین و ترکہ، یعنی طوی اگر مکان کے معنی میں ہو تو منصرف ہونے کی وجہ سے منون ہوگا اور اگر بقعۃ کے معنی میں ہو تو غیر منصرف ہونے کی وجہ سے غیر منون ہوگا۔
قولہ : نکال الآخرۃ، آخرۃ سے مراد بعد والا کلمہ ہے جو کہ ” انا ربکم الاعلیٰ “ ہے اور اولیٰ سے مراد پہلا کلمہ ہے اور وہ ” ما علمت لکم من الہ غیر “ ہے اور بعض حضرات نے اولیٰ سے عذاب غرق اور آخرۃ سے عذاب حرق مراد لیا ہے۔ (واللہ اعلم) ۔
تفسیر و تشریح
والنازعات غرقا، نازعات، نزع سے مشتق ہے اس کے معنی کسی چیز کو کھینچ کر نکالنے کے ہیں، اور غرقا اس کی تاکید ہے اس لئے کہ غرق اور اغراق کے معنی پوری طاقت صرف کرنے کے ہیں ” اغرق النازع “ اس وقت بولتے ہیں جب کمان کھینچنے والا کمان کھینچے کھینچنے میں پورا زور لگا دے، یہ جان نکالنے والے فرشتوں کی صفت ہے، فرشتے کافروں کی جان نہایت سختی سے نکالتے ہیں، اور اس سختی کا تعلق روح سے ہوتا ہے اگر کسی کافر یا مجرم کی جان بظاہر آسانی سے نکلتی معلوم ہو تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی روح کو سختی سے نہیں نکالا گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
مکرم فرشتوں اور ان کے افعال کی کھائی ہوئی یہ قسمیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے ان کی کامل اطاعت اور اس کو نافذ کرنے میں ان کی سرعت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ جس امر پر قسم کھائی گئی ہے وہ جزا اور قیامت ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد قیامت کے احوال بیان کیے گئے ہیں ۔ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ جس پر قسم کھائی گئی ہے اور جس کی قسم کھائی ہے وہ دونوں ایک ہوں، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر اس لیے قسم کھائی ہے کہ ان پر ایمان لانا، ایمان کے چھ ارکان میں سے ایک رکن ہے ، نیز یہ کہ یہاں ان کے افعال کا ذکر کرنا اس جزا کو متضمن ہے جس کا انتظام موت کے وقت ، موت سے پہلے یا موت کے بعد فرشتے کرتے ہیں ، اس لیے فرمایا: ﴿وَالنّٰزِعٰتِ غَرْقًا﴾ ” ان کی قسم ! جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں۔ “ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو طاقت کے ساتھ روح قبض کرتے ہیں اور روح قبض کرنے میں مبالغہ کرتے ہیں یہاں تک کہ روح نکل جاتی ہے اور اسے اس کے عمل کی جزا دی جاتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
qasam hai unn ( farishton ) ki jo ( kafiron ki rooh ) sakhti say kheenchtay hain ,
12 Tafsir Ibn Kathir
فرشتے موت اور ستارے
اس سے مراد فرشتے ہیں جو بعض لوگوں کی روحوں کو سختی سے گھسیٹتے ہیں اور بعض روحوں کو بہت آسانی سے نکالتے ہیں جیسے کسی کے بند کھول دیئے جائیں، کفار کی روحیں کھینچی جاتی ہیں پھر بند کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم میں ڈبو دیئے جاتے ہیں، یہ ذکر موت کے وقت کا ہے، بعض کہتے ہیں والنازعات غرقاً سے مراد موت ہے، بعض کہتے ہیں، دونوں پہلی آیتوں سے مطلب ستارے ہیں، بعض کہتے ہیں مراد سخت لڑائی کرنے والے ہیں، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے، یعنی روح نکالنے والے فرشتے، اسی طرح تیسری آیت کی نسبت بھی یہ تینوں تفسیریں مروی ہیں یعنی فرشتے موت اور ستارے۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں مراد کشتیاں ہیں، اسی طرح سابقات کی تفسیر میں بھی تینوں قول ہیں، معنی یہ ہیں کہ ایمان اور تصدیق کی طرف آگے بڑھنے والے، عطا فرماتے ہیں مجاہدین کے گھوڑے مراد ہیں، پھر حکم اللہ کی تعمیل تدبیر سے کرنے والے اس سے مراد بھی فرشتے ہیں، جیسے حضرت علی وغیرہ کا قول ہے، آسمان سے زین کی طرف اللہ عز و جل کے حکم سے تدبیر کرتے ہیں، امام ابن جریر نے ان اقوال میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، کانپنے والی کے کانپنے اور اس کے پیچھے آنے والی کے پیچھے آنے سے مراد دونوں نفخہ ہیں، پہلے نفخہ کا بیان اس آیت میں بھی ہے (یوم ترجف الارض والجبال) جس دن زمین اور پہاڑ کپکپا جائیں گے، دوسرے نفخہ کا بیان اس آیت میں ہے (وحملت الارض والجبال فدکتا دکتہ واحدۃ) اور زمین اور پہاڑ اٹھا لئے جائیں گے، پھر دونوں ایک ہی دفعہ چور چور کردیئے جائیں گے، مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کا پنے والی آئے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے آنے والی ہوگی یعنی موت اپنے ساتھ اپنی آفتوں کو لئے ہوئے آئے گی، ایک شخص نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں اپنے وظیفہ کا تمام وقت آپ پر درود پڑھنے میں گزاروں تو ؟ آپ نے فرمایا پھر تو اللہ تعالیٰ تجھے دنیا اور آخرت کے تمام غم و رنج سے بچا لے گا۔ ترمذی میں ہے کہ وہ تہائی رات گزرنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوتے اور فرماتے لوگو اللہ کو یاد کرو کپکانے والی آرہی ہے پھر اس کے پیچھے ہی اور آرہی ہے، موت اپنے ساتھ کی تمام آفات کو لئے ہوئے چلی آرہی ہے، اس دن بہت سے دل ڈر رہے ہوں گے، ایسے لوگوں کی نگاہیں ذلت و حقارت کے ساتھ پست ہوں گی کیونکہ وہ اپنے گناہوں اور اللہ کے عذاب کا معائنہ کرچکے ہیں، مشرکین جو روز قیامت کے منکر تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا قبروں میں جانے کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے ؟ وہ آج اپنی اس زندگی کو رسوائی اور برائی کے ساتھ آنکھوں سے دیکھ لیں گے، حافرۃ کہتے ہیں قبروں کو بھی، یعنی قبروں میں چلے جانے کے بعد جسم کے ریزے ریزے ہوجانے کے بعد، جسم اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے اور کھوکھلی ہوجانے کے بعد بھی کیا ہم زندہ کئے جائیں گے ؟ پھر تو یہ دو بار کی زندگی خسارے اور گھاٹے والی ہوگی، کفار قریش کا یہ مقولہ تھا، حافرۃ کے معنی موت کے بعد کی زندگی کے بھی مروی ہیں اور جہنم کا نام بھی ہے اس کے نام بہت سے ہیں جیسے جحیم، سقر، جہنم، ہاویہ، حافرہ، لظی، حطمہ وغیرہ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس چیز کو یہ بڑی بھاری، ان ہونی اور ناممکن سمجھے ہوئے ہیں وہ ہماری قدرت کاملہ کے ماتحت ایک ادنیٰ سی بات ہے، ادھر ایک آواز دی ادھر سب زندہ ہو کر ایک میدان میں جمع ہوگئے، یعنی اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو حکم دے گا وہ صور پھونک دیں گے بس ان کے صور پھونکتے ہی تمام اگلے پچھلے جی اٹھیں گے اور اللہ کے سامنے ایک ہی میدان میں کھڑے ہوجائیں گے، جیسے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52 ) 17 ۔ الإسراء :52) ، جس دن وہ تمہیں پکارے گا اور تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور جان لو گے کہ بہت ہی کم ٹھہرے اور جگہ فرمایا آیت ( وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ 50) 54 ۔ القمر :50) ہمارا حکم بس ایسا ایک بارگی ہوجائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا اور جگہ ہے آیت (وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 77) 16 ۔ النحل :77) امر قیامت مثل آنکھ جھپکنے کے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ صرف ایک آواز ہی کی دیر ہے اس دن پروردگار سخت غضبناک ہوگا، یہ آواز بھی غصہ کے ساتھ ہوگی، یہ آخری نفخہ ہے جس کے پھونکے جانے کے بعد ہی تمام لوگ زمین کے اوپر آجائیں گے، حالانکہ اس سے پہلے نیچے تھے، ساھرہ روئے زمین کو کہتے ہیں اور سیدھے صاف میدان کو بھی کہتے ہیں، ثوری کہتے ہیں مراد اس سے شام کی زمین ہے، عثمان بن ابو العالیہ کا قول ہے مراد بیت المقدس کی زمین ہے۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں بیت المقدس کے ایک طرف یہ ایک پہاڑ ہے، قتادہ کہتے ہیں جہنم کو بھی ساھرہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ اقوال سب کے سب غریب ہیں، ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی روئے زمین کے سب لوگ زمین پر جمع ہوجائیں گے، جو سفید ہوگی اور بالکل صاف اور خالی ہوگی جیسے میدے کی روٹی ہوتی ہے اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 48 ۔ ) 14 ۔ ابراھیم :48) ، یعنی جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین ہوگی اور آسمان بھی بدل جائیں گا اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ واحد وقہار کے روبرو ہوجائے گی اور جگہ ہے لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ انہیں میرا رب ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور زمین بالکل ہموار میدان بن جائے گی جس میں کوئی موڑ توڑ ہوگا، نہ اونچی نیچی جگہ اور جگہ ہے ہم پہاڑوں کو چلنے والا کردیں گے اور زمین صاف ظاہر ہوجائے گی، غرض ایک بالکل نئی زمین ہوگی جس پر نہ کبھی کوئی خطا ہوئی نہ قتل و گناہ۔