جب تم (مدینہ کی جانب) وادی کے قریبی کنارے پر تھے اور وہ (کفّار دوسری جانب) دور والے کنارے پر تھے اور (تجارتی) قافلہ تم سے نیچے تھا، اور اگر تم آپس میں (جنگ کے لئے) کوئی وعدہ کر لیتے تو ضرور (اپنے) وعدہ سے مختلف (وقتوں میں) پہنچتے لیکن (اللہ نے تمہیں بغیر وعدہ ایک ہی وقت پر جمع فرما دیا) یہ اس لئے (ہوا) کہ اللہ اس کام کو پورا فرما دے جو ہو کر رہنے والا تھا تاکہ جس شخص کو مرنا ہے وہ حجت (تمام ہونے) سے مرے اور جسے جینا ہے وہ حجت (تمام ہونے) سے جئے (یعنی ہر کسی کے سامنے اسلام اور رسول برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت پر حجت قائم ہو جائے)، اور بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے،
English Sahih:
[Remember] when you were on the near side of the valley, and they were on the farther side, and the caravan was lower [in position] than you. If you had made an appointment [to meet], you would have missed the appointment. But [it was] so that Allah might accomplish a matter already destined – that those who perished [through disbelief] would perish upon evidence and those who lived [in faith] would live upon evidence; and indeed, Allah is Hearing and Knowing.
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دُوسری جانب پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل) کی طرف تھا اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرارداد ہو چکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کر جاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظہُور میں لے آئے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
جب تم نالے کے کنا رے تھے اور کافر پرلے کنا رے اور قا فلہ تم سے ترائی میں اور اگر تم آپس میں کوئی وعدہ کرتے تو ضرور وقت پر برابر نہ پہنچتے لیکن یہ اس لیے کہ اللہ پورا کرے جو کام ہونا ہے کہ جو ہلاک ہو دلیل سے ہلاک ہو اور جو جئے دلیل سے جئے اور بیشک اللہ ضرور سنتا جانتا ہے،
3 Ahmed Ali
جس وقت تم درلے کنارے پر تھے اور وہ پرلےکنارے پر اور قافلہ تم سے نیچے اتر گیا تھا اور اگرتم آپس میں وعدہ کرتے تو ایک ساتھ وعدہ پر نہ پہنچتے لیکن الله کو ایک کام کرنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ جو ہلاک وہ اتمام حجت کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ اتمام حجت کے بعد زندہ رہے اور بے شک الله سننے والا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
جب کہ تم پاس والے کنارے پر تھے اور وہ دور والے کنارے پر تھے (١) اور قافلہ تم سے نیچے تھا (٢) اگر تم آپس میں وعدے کرتے تو یقیناً تم وقت معین پر پہنچنے میں مختلف ہو جاتے (٣) لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو اور جو زندہ رہے، وہ بھی دلیل پر (حق پہچان کر) زندہ رہے (٤) بیشک اللہ بہت سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
٤٢۔١ دُنْیَاسے مراد وہ کنارہ جو مدینہ شہر کے قریب تھا۔ قصویٰ کہتے ہیں دور کو۔ کافر اس کنارے پر تھے جو مدینہ سے دور تھا۔ ٤٢۔٢ اس سے مراد تجارتی قافلہ ہے جو حضرت ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مکہ جا رہا تھا اور جسے حاصل کرنے کے لئے ہی دراصل مسلمان اس طرف آئے تھے۔ یہ پہاڑ سے بہت دور مغرب کی طرف نشیب میں تھا، جب کہ بدر کا مقام، جہاں جنگ ہوئی، بلندی پر تھا۔ ٤٢۔٣ یعنی اگر جنگ کے لئے باقاعدہ دن اور تاریخ کا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ یا اعلان ہوتا تو ممکن بلکہ یقین تھا کہ کوئی فریق لڑائی کئے بغیر ہی پسپائی اختیار کر لیتا لیکن چونکہ اس جنگ کا ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا اس لئے ایسے اسباب پیدا کر دیئے گئے کہ دونوں فریق بدر کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابل بغیر پیشگی وعدہ وعید کے، صف آرا ہوجائیں۔ ٤٢۔٤ یہ علت ہے اللہ کی اس تقدیری مشیت کی جس کے تحت بدر میں فریقین کا اجتماع ہوا، تاکہ جو ایمان پر زندہ رہے تو وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اسے یقین ہو کہ اسلام حق ہے کیونکہ اس کی حقانیت کا مشاہدہ وہ بدر میں کر چکا ہے اور جو کفر کے ساتھ ہلاک ہو تو بھی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کیونکہ اس پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ مشرکین کا راستہ گمراہی اور باطل کا راستہ ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جس وقت تم (مدینے سے) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نیچے (اتر گیا) تھا۔ اور اگر تم (جنگ کے لیے) آپس میں قرارداد کرلیتے تو وقت معین (پر جمع ہونے) میں تقدیم وتاخیر ہو جاتی۔ لیکن خدا کو منظور تھا کہ جو کام ہو کر رہنے والا تھا اسے کر ہی ڈالے تاکہ جو مرے بصیرت پر (یعنی یقین جان کر) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر (یعنی حق پہچان کر) جیتا رہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ خدا سنتا جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
جب کہ تم پاس والے کنارے پر تھے اور وه دور والے کنارے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے تھا۔ اگر تم آپس میں وعدے کرتے تو یقیناً تم وقت معین پر پہنچنے میں مختلف ہو جاتے۔ لیکن اللہ کو تو ایک کام کر ہی ڈالنا تھا جو مقرر ہو چکا تھا تاکہ جو ہلاک ہو، دلیل پر (یعنی یقین جان کر) ہلاک ہو اور جو زنده رہے، وه بھی دلیل پر (حق پہچان کر) زنده رہے۔ بیشک اللہ بہت سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
جس وقت تم قریب کے ناکہ پر تھے اور وہ دور کے ناکہ پر اور قافلہ تم سے ادھر نیچے (ساحل سمندر پر) تھا اگر تم ایک دوسرے سے وقت مقرر بھی کر لیتے تو بھی تم میں اختلاف ہو جاتا۔ لیکن خدا نے تو اس بات کو پورا کرنا تھا جو (مڈبھیڑ) ہونے والی تھی۔ تاکہ جو ہلاک ہو وہ اتمامِ حجت کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے تو وہ بھی اتمام حجت کے بعد زندہ رہے بے شک اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جب کہ تم وادی کے قریبی محاذ پر تھے اور وہ لوگ دور والے محاذ پر تھے اور قافلہ تم سے نشیب میں تھا اور اگر تم پہلے سے جہاد کے وعدہ پر نکلتے تو یقینا اس کے خلاف کرتے لیکن خدا ہونے والے امر کا فیصلہ کرنا چاہتا تھا تاکہ جو ہلاک ہو وہ دلیل کے ساتھ اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل کے ساتھ اور اللہ سب کی سننے والا اور سب کے حال هدل کا جاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
جس وقت تم (مدینے سے) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نیچے (اتر گیا) تھا اور اگر تم (جنگ کے لئے) آپس میں قرارداد کرلیتے تو وقت معین (پر جمع ہونے) میں تقدیم و تاخیر ہوجاتی۔ لیکن خدا کو منظور تھا کہ جو کام ہو کر رہنے والا تھا اسے ہی کر ڈالے۔ تاکہ جو مرے بصیرت پر (یعنی یقین جان کر) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر (یعنی حق پہچان کر) جیتا رہے اور کچھ شک نہیں کہ خدا سنتا جانتا ہے۔ اِذاَنتم با لعدوة الدنیا وھم بالعدوة القصویٰ ، عُدوة میں عین پر تینوں اعراب ہیں اس کے معنی ہیں ایک جانب، دُنیا ادنی سے بنا ہے جس کے معنی ہیں قریب تر، آخرت کے مقابلہ میں اس دنیا کو دنیا اس لئے کہتے ہیں کہ یہ آخرت کے مقابلہ میں قریب تر ہے، اور قصویٰ ، اقصیٰ سے ہے اس کے معنی ہیں بعید تر۔ لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلْکَ عن بینة الخ یعنی علی وجہ البصیرت یہ بات ثابت ہوجانے کے جو زندہ رہا اس کو زندہ ہی رہنا چاہیے تھا اور جو ہلاک ہوا اسے ہلاک ہی ہونا چاہیے تھا، یہاں زندہ رہنے اور مرنے والوں سے افراد مراد نہیں ہیں، بلکہ اسلام اور کفر مراد ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہاں موت وحیات سے اس کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں، بلکہ معنوی موت وحیات یا ہلاکت و نجات مراد ہے معنوی حیات اسلام و ایمان ہے اور موت، شرک و کفر۔ اس آیت میں محاذ جنگ کا نقشہ بتایا گیا ہے مسلمان عدوة الدنیا کے پاس تھے اور کفار عدوة القصویٰ کے پاس، مسلمانوں کا مقام میدان کے اس کنارہ پر تھا جو مدینہ سے قریب تھا اور کفار کا پڑاؤ میدان کے دوسرے کنارہ پر جو مدینہ سے بعید تھا، اور ابوسفیان کا تجارتی قافلہ جس کی وجہ سے یہ جہاد کھڑا کیا گیا تھا وہ کفار کے لشکر سے قریب اور مسلمانوں کے لشکر کی زد سے باہر تین میل کے فاصلہ پر سمندر کے کنارے کنارے چل رہا تھا، اس نقشہ جنگ کے بیان سے مقصد یہ بتلانا ہے کہ جنگی اعتبار سے مسلمان بالکل بےموقع غلط جگہ پر ٹھہرے تھے جہاں سے دشمن پر قابو پانے بلکہ اپنی جان بچانے کا بھی کوئی امکان بظاہر نہیں آتا تھا۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا ﴾ ” جس وقت تم قریب کے ناکے پر تھے“ یعنی جب تم مدینہ سے قریب ترین وادی میں تھے۔ ﴿ وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ ﴾ ” اور وہ (کفار) مدینہ سے بعید ترین وادی میں تھے“ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں گروہوں کو ایک ہی وادی میں جمع کردیا ﴿وَالرَّكْبُ ﴾ ” اور قافلہ“ یعنی وہ تجارتی قافلہ جس کے تعاقب میں تم نکلے تھے، مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ کچھ اور ہی تھا ﴿أَسْفَلَ مِنكُمْ ﴾ ” تم سے نیچے کی طرف تھا“ یعنی وہ ساحل کے ساتھ ساتھ تھا۔ ﴿وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ ﴾ ” اور اگر تم آپس میں قرارداد کرلیتے“ اگر تم نے اور کفار نے اس حال میں اور اس وصف کے ساتھ ایک دوسرے سے وعدہ کیا ہوتا ﴿لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ﴾ ” تو نہ پہنچتے وعدے پر ایک ساتھ“ یعنی مقررہ میعاد میں تقدیم و تاخیر یا جگہ کے انتخاب وغیرہ میں کسی عارضہ کی بناء پر تم میں اختلاف واقع ہوجاتا جو تمہیں میعاد مقررہ پر پہنچنے سے روک دیتا۔ ﴿وَلَـٰكِن ﴾ ”اور لیکن“ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس حال میں اکٹھا کردیا۔ ﴿ لِّيَقْضِيَ اللَّـهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ﴾ ” تاکہ اللہ اس امر کو پورا کرے (جو روز ازل سے مقرر ہے) جس کا واقع ہونا لابدی ہے۔‘‘ ﴿ لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ ﴾ ” تاکہ مرے جس کو مرنا ہے دلیل کے وا ہونے کے بعد“ تاکہ معاند حق کے خلاف حجت اور دلیل قائم ہوجائے کہ اگر وہ کفر اختیار کرے تو پوری بصیرت کے ساتھ اختیار کرے اور اس کے بطلان کا اسے پورا یقین ہو اور یوں اللہ کے حضور پیش کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی عذر نہ ہو۔ ﴿وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ﴾ ” اور زندہ رہے جس کو جینا ہے دلیل کے واضح ہونے کے بعد“ تاکہ اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں پر جو حق کے دلائل واضح کئے ہیں اس کی بناء پر اہل ایمان کے یقین اور بصیرت میں اضافہ ہو۔ یہ دلائل و براہین عقل مندوں کے لئے یاد دہانی ہے۔ ﴿وَإِنَّ اللَّـهَ لَسَمِيعٌ ﴾ ” بے شک اللہ سننے والا ہے“ تمام آوازوں کو، زبانوں کے اختلاف اور مخلوق کی مختلف حاجات کے باوجود ﴿عَلِيمٌ ﴾ ” جاننے والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری اعمال، ضمیر میں چھپی ہوئی نیتوں اور بھیدوں، غائب اور حاضر ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh waqt yaad kero jab tum log wadi kay qareeb walay kinaray per thay , aur woh log door walay kinaray per , aur qafla tum say neechay ki taraf . aur agar tum pehlay say ( larraee ka ) waqt aapas mein tey kertay to waqt tey kernay mein tumharay darmiyan zaroor ikhtilaf hojata , lekin yeh waqiaa ( kay pehlay say tey kiye baghair lashkar takra gaye ) iss liye huwa kay jo kaam ho ker rehna tha , Allah ussay poora ker dikhaye , takay jissay barbad hona ho , woh wazeh daleel dekh ker barbad ho , aur jissay zinda rehna ho woh wazeh daleel dekh ker zinda rahey , aur Allah her baat sunney wala , her cheez janney wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر کے ذریعے ایمان کو کفر سے ممتاز کر دیا فرماتا ہے کہ اس دن تم وادی الدینا میں تھے جو مدینے شریف سے قریب ہے اور مشرک لوگ مکہ کی جانب مدینے کی دور کی وادی میں تھے اور ابو سفیان اور اس کا قافلہ تجارتی اسباب سمیت نیچے کی جانب دریا کی طرف تھا اگر تم کفار قریش سے جنگ کا ارادہ پہلے سے کرتے تو یقینا تم میں اختلاف پڑتا کہ لڑائی کہاں ہو ؟ یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ اگر تم لوگ آپس میں طے کر کے جنگ کے لئے تیار ہوتے اور پھر تمہیں ان کی کثرت تعداد اور کثرت اسباب معلوم ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ ارادے پست ہوجاتے۔ اس لئے قدرت نے پہلے سے طے کئے بغیر دونوں جماعتوں کو اچانک ملا دیا کہ اللہ کا یہ ارادہ پورا ہوجائے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بلندی حاصل ہو اور شرک اور مشرکوں کو پستی ملے پس جو کرنا تھا اللہ پاک کر گذرا۔ چناچہ کعب کی حدیث میں ہے کہ حضور اور مسلمان تو صرف قافلے کے ارادے سے ہی نکلے تھے اللہ نے دشمن سے مڈبھیڑ کرادی بغیر کسی تقرر کے اور بغیر کسی جنگی تیاری کے۔ ابو سفیان ملک شام سے قافلہ لے کر چلا ابو جہل اسے مسلمانوں سے بچانے کیلئے مکہ سے نکلا۔ قافلہ دوسرے راستے سے نکل گیا اور مسلمانوں اور کافروں کی جنگ ہوگئی اس سے پہلے دونوں ایک دوسرے سے بیخبر تھے ایک دوسرے کو خصوصاً پانی لانے والوں کو دیکھ کر انہیں ان کا اور انہیں ان کا علم ہوا۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حضور برابر اپنے ارادے سے جا رہے تھے صفراء کے قریب پہنچ کر سیس بن عمرو اور عدی بن ابو الزعباء جہنی کو ابو سفیان کا پتہ چلانے کیلئے بھیجا ان دونوں نے بدر کے میدان میں پہنچ کر بطحا کے ایک ٹیلے پر اپنی سواریاں بٹھائیں اور پانی کے لئے نکلے۔ راستے میں دو لڑکیوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا ایک دوسری سے کہتی ہے تو میرا قرضہ کیوں ادا نہیں کرتی ؟ اس نے کہا جلدی نہ کر کل یا پرسوں یہاں قافلہ آنے والا ہے میں تجھے تیرا حق دے دوں گی۔ مجدیٰ بن عمرو بیچ میں بول اٹھا اور کہا یہ سچ کہتی ہے اسے ان دونوں صحابیوں نے سن لیا اپنے اونٹ کسے اور فوراً خدمت نبوی میں جا کر آپ کو خبر دی۔ ادھر ابو سفیان اپنے قافلے سے پہلے یہاں اکیلا پہنچا اور مجدی بن عمرو سے کہا کہ اس کنویں پر تم نے کسی کو دیکھا ؟ اس نے کہا نہیں البتہ دو سوار آئے تھے اپنے اونٹ اور ٹیلے پر بٹھائے اپنی مشک میں پانی بھر اور چل دئیے۔ یہ سن کر یہ اس جگہ پہنچا مینگنیاں لیں اور انہیں توڑا اور کھجوروں کی گھٹلیاں ان میں پا کر کہنے لگا واللہ یہ مدنی لوگ ہیں وہیں سے واپس اپنے قافلے میں پہنچا اور راستہ بدل کر سمندر کے کنارے چل دیا جب اسے اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو اس نے اپنا قاصد قریشیوں کو بھیجا کہ اللہ نے تمہارے قافلے مال اور آدمیوں کو بچا لیا تم لوٹ جاؤ یہ سن کر ابو جہل نے کہا نہیں جب یہاں تک ہم آ چکے ہیں تو ہم بدر تک ضرور جائیں گے یہاں ایک بازار لگا کرتا تھا۔ وہاں ہم تین روز ٹھہریں گے وہاں اونٹ ذبح کریں گے۔ شرابیں پئیں گے کباب بنائیں گے تاکہ عرب میں ہماری دھوم مچ جائے اور ہر ایک کو ہماری بہادری اور بےجگری معلوم ہو اور وہ ہمیشہ ہم سے خوف زدہ رہیں۔ لیکن اخنس بن شریق نے کہا کہ بنو زہرہ کے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال محفوظ کردیئے تم کو چاہئے کہ اب واپس چلے جاؤ۔ اس کے قبیلے نے اس کی مان لی یہ لوگ اور بنو عدی لوٹ گئے۔ بدر کے قریب پہنچ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت زبیر بن عوام کو خبر لانے کے لئے بھیجا چند اور صحابہ کو بھی ان کے ساتھ کردیا انہیں بنوسعید بن عاص کا اور بنو حجاج کا غلام کنویں پر مل گیا دونوں کو گرفتار کرلیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا اس وقت آپ نماز میں تھے صحابہ نے ان سے سوال کرنا شروع کیا کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا قریش کے سقے ہیں انہوں نے ہمیں پانی لانے کیلئے بھیجا تھا۔ صحابہ کا خیال تھا کہ یہ ابو سفیان کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے ان پر سختی شروع کی آخر گھبرا کر انہوں نے کہہ دیا کہ ہم ابو سفیان کے قافلے کے ہیں تب انہیں چھوڑا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ سچ بولتے رہے تم انہیں مارتے پیٹتے رہے اور جب انہوں نے جھوٹ کہا تم نے چھوڑ دیا واللہ یہ سچے ہیں یہ قریش کے غلام ہیں ہاں جی بتاؤ قریش کا لشکر کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا وادی قصویٰ کے اس طرف ٹیلے کے پیچھے۔ آپ نے فرمایا وہ تعداد میں کتنے ہیں ؟ انہوں نے کہا بہت ہیں آپ نے فرمایا آخر کتنے ایک ؟ انہوں نے کہا تعداد تو ہمیں معلوم نہیں آپ نے فرمایا اچھا یہ بتاسکتے ہو ہر روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ایک دن نو ایک دن دس۔ آپ نے فرمایا پھر وہ نو سو سے ایک ہزار تک ہیں۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ ان میں سرداران قریش میں سے کون کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو البختری بن ہشام، حکیم بن حزام، نوفل، طعیمہ بن عدی، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود، ابو جہل، امیہ بن خلف، منبہ بن حجاج، سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدود۔ یہ سن کر آپ نے صحابہ سے فرمایا لو مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف ڈال دیئے ہیں۔ بدر کے دن جب دونوں جماعتوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو حضرت سعد بن معاذ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لئے ایک جھونپڑی بنادیں آپ وہاں رہیں ہم اپنے جانوروں کو یہیں بٹھا کر میدان میں جا کو دیں اگر فتح ہوئی تو الحمد اللہ یہی مطلوب ہے ورنہ آپ ہمارے جانوروں پر سوار ہو کر انہیں اپنے ساتھ لے کر ہماری قوم کے ان حضرات کے پاس چلے جائیں جو مدینہ شریف میں ہیں وہ ہم سے زیادہ آپ سے محبت رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ ہرگز آپ کا ساتھ نہ چھوڑتے آپ کی مدد کے لئے آپ کے ہم رکاب نکل کھڑے ہوتے۔ حضور نے ان کے اس مشورے کی قدر کی انہیں دعا دی اور اس ڈیرے میں آپ ٹھہر گئے آپ کے ساتھ صرف حضرت ابوبکر تھے اور کوئی نہ تھا۔ صبح ہوتے ہی قریشیوں کے لشکر ٹیلے کے پیچھے سے آتے ہوئے نمودار ہوئے انہیں دیکھ کر آپ نے جناب باری میں دعا کی کہ باری تعالیٰ یہ فخر و غرور کے ساتھ تجھ سے لڑانے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کیلئے آ رہے ہیں۔ باری تعالیٰ تو انہیں پست و ذلیل کر۔ اس آیت کے آخری جملے کی تفسیر سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ یہ اس لئے کہ کفر کرنے والے دلیل ربانی دیکھ لیں گو کفر ہی پر رہیں اور ایمان والے بھی دلیل کے ساتھ ایمان لائیں۔ یعنی آمادگی اور بغیر شرط وقرار داد کے اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مشرکوں کا یہاں اچانک آمنا سامنا کرا دیا کہ حقانیت کو باطل پر غلبہ دے کر حق کو مکمل طور پر ظاہر کر دے اس طرح کہ کسی کو شک شبہ باقی نہ رہے۔ اب جو کفر پر رہے وہ بھی کفر کو کفر سمجھ کے رہے اور جو ایمان والا ہوجائے وہ دلیل دیکھ کر ایمان دار بنے ایمان ہی دلوں کی زندگی ہے اور کفر ہی اصلی ہلاکت ہے۔ جیسے فرمان قرآن ہے ( آیت اومن کان میتا فاحییناہ الخ، ) یعنی وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے جلا دیا اور اس کے لئے نور بنادیا کہ اس کی روشنی میں وہ لوگوں میں چل پھر رہا ہے۔ تہمت کے قصہ میں حضرت عائشہ کے الفاظ ہیں کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوگیا یعنی بہتان میں حصہ لیا اللہ تعالیٰ تمہارے تضرع وزاری اور تمہاری دعا و استغفار اور فریاد و مناجات کا سننے والا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم اہل حق ہو تم مستحق امداد ہو تم اس قابل ہو کر تمہیں کافروں اور مشرکوں پر غلبہ دیا جائے۔