الانفال آية ۴۵
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ،
English Sahih:
O you who have believed, when you encounter a company [from the enemy forces], stand firm and remember Allah much that you may be successful.
1 Abul A'ala Maududi
اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! جب کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کی یاد بہت کرو کہ تم مراد کو پہنچو،
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! جب کسی فوج سے ملو تو ثابت قدم رہو اور الله کو بہت یاد کرو تاکہ تم نجات پاؤ
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کی یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو (١)
٤٥۔١ اب مسلمانوں کو لڑائی کے وہ آداب بتائے جا رہے ہیں جن کو دشمن کے مقابلے کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات ثبات قدمی اور استقلال ہے، کیونکہ اس کے بغیر میدان جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں ہے تاہم اس سے تحرف اور تحیز کی وہ دونوں صورتیں مستشنٰی ہوں گی جن کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ثبات قدمی کے لئے بھی تحرف یا تحیز ناگزیر ہوتا ہے۔ دوسری ہدایت یہ ہے یہ کہ اللہ تعالٰی کو کثرت سے یاد کرو۔ تاکہ مسلمان اگر تھوڑے ہوں تو اللہ کی مدد کے طالب رہیں اور اللہ بھی کثرت ذکر کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ رہے اور اگر مسلمان تعداد میں زیادہ ہوں تو کثرت کی وجہ سے ان کے اندر عجب اور غرور پیدا نہ ہو، بلکہ اصل توجہ اللہ کی امداد پر ہی رہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ﺛابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! جب کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو ثابت قدم رہا کرو۔ اور اللہ کو یاد کرو۔ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو جب کسی گروہ سے مقابلہ کرو تو ثبات هقدم سے کام لو اور اللہ کو بہت یاد کرو کہ شاید اسی طرح کامیابی حاصل کرلو
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو۔
آیت نمبر ٤٥ تا ٤٨
ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تمہاری کسی کافر جماعت سے مڈ بھیڑ ہوجائے تو ان سے قتال کے لئے ثابت قدم رہو، بزدلی نہ دکھاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور اس سے نصرت کی دعاء کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ تو تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، تمہاری شوکت و طاقت جاتی رہے گی، صبر سے کام لو، یقینا اللہ نصرت و اعانت کے ذریعہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان جیسے نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اپنے قافلے کو بچانے کے لئے اتراتے ہوئے لوگوں کو (شان و سامان) دکھاتے ہوئے نکلے تھے، اور قافلے کے بچ نکلنے کے بعد وہ لوٹ کر نہیں آئے ( جب ان سے کہا گیا کہ واپس چلو) تو انہوں نے کہا ہم اس وقت تک واپس نہیں ہوں گے جب تک کہ (میدان بدر) شراب نوشی نہ کرلیں، اور اونٹوں کو ذبح نہ کرلیں، اور گانے بجانے والی لونڈیاں گا بجانہ لیں، اور لوگ ہماری بہادری کی تعریف نہ کریں اور وہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکتے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس کا علمی احاطہ لئے ہوئے ہے (تعملون) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، اللہ اس کا ضرور صلہ دے گا، اس وقت کو یاد کرو جب شیطان ابلیس نے ان کی نظروں میں ان کے اعمال کو خوشنما کرکے دکھایا تھا بایں صورت کہ مسلمانوں سے بھڑ جانے پر ان کو اس وقت ہمت دلائی جب ان کو دشمن بنی بکر سے بغاوت کا اندیشہ ہوا، اور ان سے کہا کہ آج تم پر کوئی غالب آنیوالا نہیں، اور کنانہ (بنی بکر) کی طرف سے میں تمہارا مددگار ہوں، اور ابلیس ان کے پاس اس علاقہ کے سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں آیا تھا، اور دونوں جماعتوں (یعنی) مسلمانوں اور کافروں کا مقابلہ ہوا، اور ابلیس نے فرشتوں کو دیکھا تو بھاگتے ہوئے الٹے پاؤں پھر گیا، اور ابلیس کا ہاتھ حارث بن ہشام کے ہاتھ میں تھا اور جب مشرکوں نے ابلیس سے کہا کیا تم ہم کو اس حالت میں چھوڑتے ہو ؟ تو ابلیس نے جواب دیا میں تمہاری مدد سے بری (معذور) ہوں، اس لئے کہ میں فرشتوں کو دیکھ رہا ہوں جن کو تم نہیں دیکھ رہے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے یہ کہ وہ مجھے ہلاک کردے گا، اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : فِئَةً ، فِئة بمعنی جماعت یہ اسم جمع ہے اس کا لفظاً کوئی واحد نہیں ہے (جمع) فئات .
قولہ : قُوَّتُکُم ودَوْلَتُکُم لفظ ریح قوة اور دولة کے لئے مستعار ہے، دَوْلة بمعنی حرب و غلبہ استعمال ہوتا ہے دِوَل، دُولَة، دال کے ضمّہ کے ساتھ بمعنی مال، اس کی جمع دُوَل، دال کے ضمہ کے ساتھ۔
قولہ : وتَضْرِبَ علینا، القُیَّانُ ضرب العودو الطنبور، طبلہ و ستار بجانا۔
قولہ : القُیّان، (واحد) قَیْنَة، الجواری المغنیات گانیوالی باندیاں۔
قولہ : بَدْرٍ ، اس کا تعلق سابق تینوں افعال کے ساتھ ہے۔
قولہ : فَیَتَسَاَمعَ بذلک ای فَیَثْنَوْ ا علیھم بالشجاعة، یعنی ان کی بہادری کی تعریف کریں۔
تفسیر وتشریح
جنگی آداب و ہدایات : یا ایُّھا الّذِیْنَ آمنوا اِذَا لقیتم فئةً ، مسلمانوں کو جنگ کے سلسلہ میں پانچ ہدایتیں دی جارہی ہیں، اور وہ آداب بتائے جارہے ہیں جن کو مقابلہ کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے سب سے پہلی ہدایت جو کہ فتح و کامرانی کا نشان ہے یہ کہ دشمن سے مقابلہ کے وقت ثابت قدمی اور استقلال ہے کیونکہ اس کے بغیر میدان جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں ہے تاہم اس سے تحرف و تحیز کی دونوں صورتیں مستثیٰ ہوں گی جن کی وضاحت سابق میں گذر چکی ہے کیونکہ بعض دفعہ ثابت قدمی کے لئے تحرّف یا تحیز نا گزیر ہوتا ہے، دوسری ہدایت یہ کہ اللہ کی طرف کثرت سے متوجہ رہے اور اگر مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو تو کثرت کی وجہ سے ان کے اندر عجب و غرور پیدا نہ ہو بلکہ اصل توجہ اللہ کی امداد پر رہے، تیسری ہدایت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے ظاہر بات ہے کہ ان نازک حالات میں اللہ اور رسول کی اطاعت نہایت ضروری ہے اگرچہ اطاعت ہرحال میں ضروری ہے مگر میدان جنگ میں اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے ایسے موقع ہر تھوڑی سی نافرمانی بھی اللہ کی مدد سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے، چوتھی ہدایت یہ کہ آپس میں اختلاف نہ کرو اس سے تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا \&\& لوگوں دشمن سے مڈبھیڑ کی آرزو نہ کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو تاہم جب کبھی دشمن سے مقابلہ کی نوبت آہی جائے تو صبر سے کام لو (یعنی جم کر لڑو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے \&\&۔ (صحیح بخاری کتاب الجھاد)
10 Tafsir as-Saadi
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً ﴾ ” اے ایمان والو ! جب ملو تم کسی گروہ کو“ یعنی کفار کا گروہ جو تمہارے ساتھ جنگ کرتا ہے ﴿ فَاثْبُتُوا ﴾ ” تو ثابت قدم رہو۔‘‘ یعنی کفار کے خلاف جنگ میں ثابت قدم رہو، صبرے سے کام لو اور اس عظیم نیکی میں جس کا انجام عزت و نصرت ہے، اپنے آپ کو قابو میں رکھو اور اس بارے میں کثرت ذکر سے مدد لو۔ ﴿ لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ ” تاکہ تم فلاح پاؤ“ یعنی شاید تم وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاؤ جو تمہارا مطلوب و منشاء ہے، یعنی دشمنوں کے مقابلے میں فتح و نصرت۔ پس صبر، ثابت قدمی اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت، فتح و نصرت کے سب سے بڑے اسباب ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jab tumhara kissi giroh say muqabla hojaye to sabit qadam raho , aur Allah ka kasrat say ziker kero , takay tumhen kamiyabi hasil ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
جہاد کے وقت کثرت سے اللہ کا ذکر
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو لڑائی کی کامیابی کی تدبیر اور دشمن کے مقابلے کے وقت شجاعت کا سبق سکھا رہا ہے ایک غزوے میں رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورج ڈھلنے کے بعد کھڑے ہو کر فرمایا ! لوگو دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہو لیکن جب دشمنوں سے مقابلہ ہوجائے تو استقلال رکھو اور یقین مانو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے سچی کتاب کے نازل فرمانے والے اے بادلوں کے چلانے والے اور لشکروں کو ہزیمت دینے والے اللہ ان کافروں کو شکست دے اور ان پر ہماری مدد فرما (بخاری مسلم) عبدالرزاق کی روایت میں ہے کہ دشمن کے مقابلے کی تمنا نہ کرو اور مقابلے کے وقت ثابت قدمی اور اولوالعزمی دکھاؤ گو وہ چیخیں چلائیں لیکن تم خاموش رہا کرو۔ طبرانی میں ہے تین وقت ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو خاموشی پسند ہے \0\01 تلاوت قرآن کے وقت \0\02 جہاد کے وقت اور \0\03 جنازے کے وقت۔ ایک اور حدیث میں ہے کامل بندہ وہ ہے جو دشمن کے مقابلے کے وقت میرا ذکر کرتا رہے یعنی اس حال میں بھی میرے ذکر کو مجھ سے دعا کرنے اور فریاد کرنے کو ترک نہ کرے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں لڑائی کے دوران یعنی جب تلوار چلتی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر فرض رکھا ہے۔ حضرت عطا (رح) کا قول ہے کہ چپ رہنا اور ذکر اللہ کرنا لڑائی کے وقت بھی واجب ہے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ تو جریج نے آپ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ کی یاد بلند آواز سے کریں ؟ آپ نے فرمایا ہاں کعب احبار فرماتے ہیں قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر اللہ سے زیادہ محبوب اللہ کے نزدیک اور کوئی چیز نہیں۔ اس میں بھی اولیٰ وہ ہے جس کا حکم لوگوں کو نماز میں کیا گیا ہے اور جہاد میں کیا تم نہیں دیکھتے ؟ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بوقت جہاد بھی اپنے ذکر کا حکم فرمایا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ شاعر کہتا ہے کہ عین جنگ وجدال کے وقت بھی میرے دل میں تیری یاد ہوتی ہے۔ عنترہ کہتا ہے نیزوں اور تلواروں کے شپاشپ چلتے ہوئے بھی میں تجھے یاد کرتا رہتا ہوں۔ پس آیت میں جناب باری نے دشمنوں کے مقابلے کے وقت میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور صبر و استقامت کا حکم دیا کہ نامرد، بزدل اور ڈرپوک نہ بنو اللہ کو یاد کرو اسے نہ بھولو۔ اس سے فریاد کرو اس سے دعائیں کرو اسی پر بھروسہ رکھو اس سے مدد طلب کرو۔ یہی کامیابی کے گر ہیں۔ اس وقت بھی اللہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو ہاتھ سے نہ جانے دو وہ جو فرمائیں بجا لاؤ جن سے روکیں رک جاؤ آپس میں جھگڑے اور اختلاف نہ پھیلاؤ ورنہ ذلیل ہوجاؤ گے بزدلی جم جائے گی ہوا اکھڑ جائے گی۔ قوت اور تیزی جاتی رہے گی اقبال اور ترقی رک جائے گی۔ دیکھو صبر کا دامن نہ چھوڑو اور یقین رکھو کہ صابروں کے ساتھ خود اللہ ہوتا ہے۔ صحابہ کرام ان احکام میں ایسے پورے اترے کہ ان کی مثال اگلوں میں بھی نہیں پیچھے والوں کا تو ذکر ہی کیا ہے ؟ یہی شجاعت یہی اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی صبر و استقلال تھا جس کے باعث مدد ربانی شامل حال رہی اور بہت ہی کم مدت میں باوجود تعداد اور اسباب کی کمی کے مشرق و مغرب کو فتح کرلیا نہ صرف لوگوں کے ملکوں کے ہی مالک بنے بلکہ ان کے دلوں کو بھی فتح کر کے اللہ کی طرف لگا دیا۔ رومیوں اور فارسیوں کو ترکوں اور صقلیہ کو بربریوں اور حبشیوں کو سوڈانیوں اور قبطیوں کو غرض دنیا کے گوروں کالوں کو مغلوب کرلیا اللہ کے کلمہ کو بلند کیا دین حق کو پھیلایا اور اسلامی حکومت کو دنیا کے کونے کونے میں جما دیا اللہ ان سے خوش رہے اور انہیں بھی خوش رکھے۔ خیال تو کرو کہ تیس سال میں دنیا کا نقشہ بدل دیا تاریخ کا ورق پلٹ دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارا بھی انہی کی جماعت میں حشر کرے وہ کریم و وھاب ہے۔