الانفال آية ۵۸
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰى سَوَاۤءٍ ۗ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْخَاۤٮِٕنِيْنَ
طاہر القادری:
اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا،
English Sahih:
If you [have reason to] fear from a people betrayal, throw [their treaty] back to them, [putting you] on equal terms. Indeed, Allah does not like traitors.
1 Abul A'ala Maududi
اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر تم کسی قوم سے دغا کا اندیشہ کرو تو ان کا عہد ان کی طرف پھینک دو برابری پر بیشک دغا والے اللہ کو پسند نہیں،
3 Ahmed Ali
اور اگر تمہیں کسی قوم سے دغابازی کا ڈر ہو تو ان کا عہد ان کی طرف پھینک دو ایسی طرح پر کہ تم اور وہ برابر ہو جاؤ بے شک الله دغا بازوں کو پسند نہیں کرتا
4 Ahsanul Bayan
اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہد نامہ توڑ دے (١) اللہ تعالٰی خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا (٢)۔
٥٨۔١ خیانت سے مراد ہے معاہد قوم سے نقص عہد کا خطرہ، اور (برابری کی حالت میں) کا مطلب ہے کہ انہیں با قاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لا علمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔
٥٨۔٢ یعنی یہ نقص عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت معاویہ اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کر دیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہو تے ہی رومیوں پر حملہ کر دیا جائے اور عمر بن عبسہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ایک حدیث رسول بیان فرمائی اور اسے معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیا جس پر حضرت معاویہ نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر تم کو کسی قوم سے دغا بازی کا خوف ہو تو (ان کا عہد) انہیں کی طرف پھینک دو (اور) برابر (کا جواب دو) کچھ شک نہیں کہ خدا دغابازوں کو دوست نہیں رکھتا
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر تجھے کسی قوم کی خیانت کا ڈر ہو تو برابری کی حالت میں ان کا عہدنامہ توڑ دے، اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر آپ کو کسی جماعت کی طرف سے خیانت (عہد شکنی کا) اندیشہ ہو تو پھر ان کا معاہدہ اس طرح ان کی طرف پھینک دیں کہ معاملہ برابر ہو جائے۔ بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر کسی قوم سے کسی خیانت یا بدعہدی کا خطرہ ہے تو آپ بھی ان کے عہد کو ان کی طرف پھینک دیں کہ اللہ خیانت کاروں کو دوست نہیں رکھتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر تم کو کسی قوم سے دغا بازی کا خوف ہو تو (ان کا عہد) انہیں کی طرف پھینک دو (اور) برابر (کا جواب دو ) کچھ شک نہیں کہ خدا دغابازوں کو دوست نہیں رکھتا۔
معاہدہ صلح کو ختم کرنے کی صورت : وَاِمّا تخافنَّ مِن قوم خیانة فانبذ الیھم عَلیٰ سَوائ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنگ و صلح کے قانون کی ایک اہم دفعہ بتلائی ہے جس میں معاہدہ کی پابندی کی خاص اہمیت کے ساتھ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت معاہدہ کے دوسرے فریق کی طرف خیانت یعنی عہد شکنی کا خطرہ پیدا ہوجائے تو یہ ضروری نہیں کہ ہم معاہدہ کی پابندی کو بدستور قائم رکھیں لیکن یہ بھی جائز نہیں کہ معاہدہ کو علی الاعلان ختم کئے بغیر ہم فریق ثانی کے خلاف کوئی اقدام کریں، بلکہ صحیح صورت یہ ہے کہ فریق مخالف صاف صاف بتادیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا، تاکہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو ہے ویسا ہی اس کو بھی اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے، اسی فرمان الہٰی کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام کی بین الاقوامی معاہدہ صلح کا یہ اصول قرار دیا تھا کہ \&\& مَنْ کانَ بَیْنَہ \& و بین قوم عھد فلا یحلن عقدہ \& حتی ینقضی امدةھا اور ینبذ الیھم علی سوائ \&\& (جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اسے چاہیے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے ورنہ تو ان کے عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے) مطلب یہ ہے کہ جس قوم کے ساتھ معاہدہ صلح ہوچکا ہے اس کے مقابلہ میں کوئی جنگی اقدام کرنا خیانت میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اگرچہ یہ خیانت دشمن کافروں ہی کے حق میں کی جائے وہ بھی جائز نہیں یہ ہے اسلام کا عدل و انصاف کہ خیانت کرنے والے دشمن کے بھی حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور مسلمانوں کو ان کے مقابلہ میں اس کا پابند کیا جاتا ہے کہ عہد کو واپسی کرنے سے پہلے کوئی تیاری بھی ان کے خلاف نہ کریں۔ (مظھری)
ایفائے عہد کا ایک عجیب واقعہ : ابوداؤد، ترمذی، نسانی، امام احمد بن حنبل نے سلیم بن عامر کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت امیر معاویہ کا ایک قوم یعنی رومیوں سے ایک خاص مدت تک کیلئے نا جنگ معاہدہ تھا، معاہدہ کی میعاد ختم ہونے کے قریب تھی حضرت معاویہ (رض) نے ارادہ فرمایا کہ اس معاہدہ کے ایام میں اپنا لشکر اور سامان جنگ رومی قوم کے قریب پہنچا دیں تاکہ معاہدہ کی میعاد ختم ہوتے ہی دشمن پر اچانک حملہ کردیں مگر عین اس وقت جب حضرت امیر معاویہ کا لشکر اس طرفروانہ ہورہا تھا کہ ایک عمر رسیدہ شخص گھوڑے پر سوار بڑے زور سے یہ نعرہ لگا رہا ہے \&\& اللہ اکبر اللہ اکبر وفائً لا غدراً \&\& اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم کو معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے اسکی خلاف ورزی نہ کرنی چاہیے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اگر کسی قوم سے صلح یا نا جنگ معاہدہ ہوجائے تو چاہیے کہ ان کے خلاف نہ کوئی گرہ کھولیں اور نہ بایدھیں، حضرت امیر معاویہ (رض) کو اسکی اطلاع دی گئی دیکھا تو اعلان کرنے والے حضرت عمر بن عبسہ صحابی تھے، حضرت امیر معاویہ نے فوراً ہی اپنی فوج کو واپس بلالیا۔
بلا اعلان حملہ کرنے کی اجازت کی صورت : یہاں یہ بات بھی جان لینی ضروری ہے کہ اسلامی قانون صرف ایک صورت میں بلا اعلان حملہ کرنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ صورت وہ ہے کہ فریق مخالف علی الا علان معاہدہ کو توڑ چکا ہو اور اس نے ہمارے خلاف صریح طور پر معاندانہ کاروائی کی ہو، اس صورت میں یہ ضروری نہیں رہتا کہ ہم اسے آیت مذکورہ بالا کے مطابق نسخ معاہدہ کی اطلاع دیں بلکہ ہمیں اس کے خلاف بلا اعلان جنگی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے، فقہاء اسلام نے یہ استثنائی حکم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فعل سے نکالا ہے کہ قریش نے جب بنی خزاعہ کے معاملہ میں صلح حدیبیہ کو علانیہ توڑ دیا تو آپ نے پھر انھیں فسخ معاہدہ کی اطلاع کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی، بلکہ بلا اعلان مکہ پر چڑھائی کردی، لیکن اگر ہم کسی موقع پر اس قاعدہ استثنائی سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ تمام حالات ہمارے پیش نظر رہیں جن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کاروائی کی تھیں۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور کسی قوم کے درمیان جنگ نہ کرنے کا عہد اور میثاق ہو اور آپ کو اس قوم کی طرف سے خیانت اور بدعہدی کا خدشہ ہو، یعنی ان کی طرف سے معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کے بغیر، ایسے قرائن و احوال ہوں جو عہد میں ان کی خیانت پر دلالت کرتے ہوں ﴿ فَانبِذْ إِلَيْهِمْ ﴾ ” تو انہی کی طرف پھینک دیں“ ان کا عہد، یعنی ان کی طرف پھینک دیں اور ان کو اطلاع دے دیں کہ آپ کے درمیان اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ﴿عَلَىٰ سَوَاءٍ ﴾ ” تاکہ تم اور وہ برابر ہوجاؤ“ یعنی معاہدہ ٹوٹنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم اور ان کا علم مساوی ہو، آپ کے لئے جائز نہیں کہ آپ ان کے ساتھ بدعہدی کریں یا کوئی ایسی کوشش کریں کہ موجبات عہد اس سے مانع ہوں جب تک کہ آپ ان کو اس کے بارے میں آگاہ نہ کردیں ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ ﴾ ” بے شک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں سے سخت ناراض ہوتا ہے۔ اس لئے معاملے کا واضح ہونا نہایت ضروری ہے جو تمہیں خیانت سے بری کر دے۔
یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جب ان کی خیانت متحقق ہوجائے تو ان کی طرف معاہدہ پھینکنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ان کی طرف سے کوئی اخفا نہیں رہا، بلکہ ان کی بدعہدی معلوم ہوچکی ہے، علاوہ ازیں اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں نیز اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ ﴾ ” برابر“ اور یہاں ان کی بدعہدی سب کو معلوم ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ اگر ان کی طرف سے کسی خیانت کا خدشہ نہ ہو’ یعنی ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہ پائی جاتی ہو جو ان کی خیانت پر دلالت کرتی ہو، تو عہد کو ان کی طرف پھینکنا جائز نہیں، بلکہ اس معاہدے کو مدت مقررہ تک پورا کرنا واجب ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar tumhen kissi qoam say bad-ehadi ka andesha ho to tum woh moahida unn ki taraf saaf seedhay tareeqay say phenk do . yaad rakho kay Allah badd ehadi kernay walon ko pasand nahi kerta .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ خائنوں کو پسند نہیں فرماتا
ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی اگر کسی سے تمہارا عہد و پیمان ہو اور تمہیں خوف ہو کہ یہ بدعہدی اور وعدہ خلافی کریں گے تو تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ برابری کی حالت میں عہد نامہ توڑ دو اور انہیں اطلاع کردو تاکہ وہ بھی صلح کے خیال میں نہ رہیں۔ کچھ دن پہلے ہی سے انہیں خبر دو ۔ اللہ خیانت کو ناپسند فرماتا ہے کافروں سے بھی تم خیانت نہ کرو۔ مسند احمد میں ہے کہ امیر معاویہ نے لشکریوں کی روم کی سرحد کی طرف پیش قدمی شروع کی کہ مدت صلح ختم ہوتے ہی ان پر اچانک حملہ کردیں تو ایک شیخ اپنی سواری پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ وعدہ وفائی کرو، عذر درست نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جب کسی قوم سے عہد و پیمان ہوجائیں تو نہ کوئی گرہ کھولو نہ باندھو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ جوئے یا انہیں اطلاع دے کر عہد نامہ چاک نہ ہوجائے۔ جب یہ بات حضرت معاویہ کو پہنچی تو آپ نے اسی وقت فوج کو واپسی کا حکم دے دیا۔ یہ شیخ حضرت عمرو بن عنبسہ تھے۔ حضرت سلمان فارسی نے ایک شہر کے قلعے کے پاس پہنچ کر اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم مجھے بلاؤ میں تمہیں بلاؤں گا جیسے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انہیں بلاتے دیکھا ہے۔ پھر فرمایا میں بھی انہیں میں سے ایک شخص تھا پس مجھے اللہ عزوجل نے اسلام کی ہدایت کی اگر تم بھی مسلمان ہوجاؤ تو جو ہمارا حق ہے وہی تمہارا حق ہوگا اور جو ہم پر ہے تم پر بھی وہی ہوگا اور اگر تم اس نہیں مانتے تو ذلت کے ساتھ تمہیں جزیہ دینا ہوگا اسے بھی قبول نہ کرو تو ہم تمہیں ابھی سے مطلع کرتے ہیں جب کہ ہم تم برابری کی حالت میں ہیں اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں رکھتا۔ تین دن تک انہیں اسی طرح دعوت دی آخر چوتھے روز صبح ہی حملہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مدد فرمائی۔