اور (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلاتِ جنگ کی) قوت مہیا کر رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی) اس (دفاعی تیاری) سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو ڈراتے رہو اور ان کے سوا دوسروں کو بھی جن (کی چھپی دشمنی) کو تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے، اور تم جو کچھ (بھی) اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم سے ناانصافی نہ کی جائے گی،
English Sahih:
And prepare against them whatever you are able of power and of steeds of war by which you may terrify the enemy of Allah and your enemy and others besides them whom you do not know [but] whom Allah knows. And whatever you spend in the cause of Allah will be fully repaid to you, and you will not be wronged.
1 Abul A'ala Maududi
اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا
2 Ahmed Raza Khan
اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمہیں پورا دیا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہو گے،
3 Ahmed Ali
اور ان سے لڑنے کے لیے جو کچھ (سپاہیانہ) قوت سے پلے ہوئے گھوڑوں سے جمع کر سکو سو تیار رکھو کہ اس سے الله کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور ان کےسوا دوسروں پر جنہیں تم نہیں جانتے الله انہیں جانتا ہے ہیبت پڑے اور الله کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گےتمہیں (اس کا ثواب) پورا ملے گا اور تم سے بے انصافی نہیں ہو گی
4 Ahsanul Bayan
تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی (١) کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔
٦٠۔١ فُوَّۃِ کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یعنی تیر اندازی کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار تھا اور نہایت اہم فن تھا جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ آیت سے وَاضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی جنگی اہمیت اور افادیت و ضرورت باقی نہیں رہی اس لئے (وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ) 8۔ الانفال;60) کے تحت آجکل کے جنگی ہتھیار (مثلًا میزائل،ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔ اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا ذرا نقصان نہیں کیا جائے گا
6 Muhammad Junagarhi
تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زده رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راه میں صرف کرو گے وه تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے مسلمانو!) تم جس قدر استطاعت رکھتے ہو ان (کفار) کے لئے قوت و طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو۔ تاکہ تم اس (جنگی تیاری) سے خدا کے دشمن اور اپنے دشمن کو اور ان کھلے دشمنوں کے علاوہ دوسرے لوگوں (منافقوں) کو خوفزدہ کر سکو۔ جن کو تم نہیں جانتے البتہ اللہ ان کو جانتا ہے اور تم جو کچھ اللہ کی راہ (جہاد) میں خرچ کروگے تمہیں اس کا پورا پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کسی طرح ظلم نہیں کیا جائے گا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن -اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے سب کو خوفزدہ کردو اور جو کچھ بھی راہ هخدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور جہاں تک ہو سکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لئے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائیگا۔ اور تمہارا ذرا نقصان نہ کیا جائیگا۔ وَآخرین من دونھم، لا تعلمونھم اللہ یعلمھم، اس آیت میں اشارہ ہے ان کافروں کے علاوہ جن سے تمہارا سابقہ پڑتا رہتا ہے ان کے علاوہ اور بھی قومیں ہیں جو تمہارے علم میں نہیں، مگر اللہ کے علم میں ہیں کہ کبھی ان سے تمہاری مڈبھیڑ ہوگی اس میں مجوسی اور روم کی مسیحی قومیں تو شامل ہیں ہی ان کے علاوہ قیامت تک آنیوالی تمام صیہونی قومیں بھی شامل ہیں۔ حضرت تھانوی (رح) تعالیٰ کی رائے گرامی : حضرت نے فرمایا ان آیتوں میں جو تدابیر حرب و سیاست بتائی گئی ہیں ان سے صاف دلالت اس امر پر رہی ہے کہ یہ سیاسی تدبیریں بڑے سے بڑے کمالات باطنی کے بھی منافی نہیں، جیسا کہ غالی و ناقص صوفیہ نے خیال کیا ہے۔ (ماجدی) اتفاق فی سبیل اللہ : وَمَا تُنْفِقُوا مِن شیئٍ فی سبیل اللہ الخ نفس کو مال خرچ کرنے میں تنگی اور بخل کی ایک بڑی وجہ اس خیال سے پیدا ہوتی ہے کہ یہ مال ضائع ہورہا ہے اور اسکے معاوضہ میں کچھ حاصل نہ ہوگا، اس آیت نے اس خیال کی جڑ ہی کاٹ دی، اور اطمینان دلایا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کا مال ضائع نہ جائیگا بلکہ وہاں (آخرت) میں پہنچ کر اس سے کہیں زیادہ اجر پائیں گے۔
10 Tafsir as-Saadi
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں سے فرمایا: ﴿وَأَعِدُّوا ﴾ ” اور تیار کرو تم“ یعنی اپنے کفار دشمنوں کے لئے تیار کرو جو تمہیں ہلاک کرنے اور تمہارے دین کے ابطال کے درپے رہتے ہیں۔ ﴿مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ ﴾ ”اپنی طاقت بھر قوت‘‘ یعنی قوت عقلیہ، قوت بدنیہ اور مختلف انواع کا اسلحہ، جو دشمن کے خلاف جنگ میں تمہاری مدد کرے۔کفار کے خلاف اس تیاری میں وہ تمام صنعتیں آجاتی ہیں جن سے اسلحہ اور آلات حرب بنائے جاتے ہیں، مثلاً توپیں، مشین گنیں،بندوقیں، جنگی طیارے، بری اور بحری سواریاں، دفاعی قلعہ بندیاں،مورچے اور دیگر دفاعی آلات حرب وغیرہ۔ نیز حکمت عملی اور سیاست کاری میں مہارت پیدا کرنا،جس کے ذریعے سے وہ آگے بڑھ سکیں اور دشمن کے شر سے اپنا دفاع کرسکیں۔ نشانہ بازی، شجاعت اور جنگی منصوبہ سازی کی تعلیم حاصل کرنا۔ اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (( َلاَ اِنّ َالْقُوّة َالرّمَيُ )) ” سن لو ! قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔‘‘ [صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ، باب فضل الرمی۔۔۔الخ ‘حدیث:1917]کیونکہ عہد رسالت میں تیراندازی، جنگ کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ نیز ان گاڑیوں کی تیاری، جو جنگ میں نقل و حمل کے کام آتی ہیں، جنگی استعداد میں شمار ہوتی ہیں۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ ﴾ ” اور گھوڑوں کو تیار رکھ کر، کہ اس سے دھاک بٹھاؤ تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر“ اس حکم کی علت، اس زمانے میں بھی موجود ہے اور وہ ہے دشمنوں کو مرعوب رکھنا۔ حکم کا دارومدار علت پر ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں ایسے آلات اور سامان حرب موجود ہوں جن کے ذریعے سے دشمن کو مذکورہ چیزوں سے زیادہ خوف زدہ رکھا جاسکتا ہو۔۔۔ یعنی گاڑیاں اور ہوائی طیارے جو جنگ میں کام آتے ہیں اور جن کی ضرب بھی کاری ہے۔۔۔ تو ان کو حاصل کرکے ان کے ذریعے سے جنگی استعداد بڑھانا فرض ہے۔ حتیٰ کہ اگر اس سامان حرب کو صنعت کی تعلیم حاصل کئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو یہ تعلیم حاصل کرنا بھی فرض ہوگا، کیونکہ فقہی قاعدہ ہے ( مَالَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلاَّ بِہ فَھُوَ وَاجِبٌ )’’جس کے بغیر واجب کی تکمیل ممکن نہ ہو تو وہ بھی واجب ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ﴿ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ ﴾ میں ” تمہارے دشمن“ سے مراد وہ ہیں جن کے بارے میں تم جانتے ہو کہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ ﴿وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ ﴾ ” اور دوسروں کو ان کے سوا، جن کو تم نہیں جانتے“ یعنی جن کے بارے میں تمہیں معلوم نہیں جو اس وقت کے بعد جب اللہ تم سے مخاطب ہے، تمہارے ساتھ لڑائی کریں گے۔ ﴿اللَّـهُ يَعْلَمُهُمْ﴾ ” اللہ ان کو جانتا ہے۔‘‘ پس اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے خلاف تیار رہنے کا حکم دیا ہے۔ دشمن کے خلاف جنگ میں جو چیز سب سے زیادہ مدد دیتی ہے وہ ہے کفار کے خلاف جہاد میں مال خرچ کرنا’ اس لئے اللہ تعالیٰ نے جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ﴾ ” اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں“ خواہ یہ قلیل ہو یا کثیر ﴿يُوَفَّ إِلَيْكُمْ ﴾ ” وہ پورا پورا تمہیں دیا جائے گا“ یعنی قیامت کے روز اس کا اجر کئی گنا کرکے ادا کیا جائے گا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کئے گئے مال کا ثواب سات سو گنا تک، بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا کردیا جائے گا۔ ﴿وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴾ ” اور تمہاری حق تلفی نہ ہوگی۔‘‘ یعنی تمہارے لئے اس کے اجرو ثواب میں کچھ بھی کمی نہ کی جائے گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( musalmano ! ) jiss qadar taqat aur ghorron ki jitni chaoniyan tum say ban parren , unn say muqablay kay liye tayyar kero , jinn kay zariye tum Allah kay dushman aur apney ( mojooda ) dushman per bhi heybat taari ker-sako-? , aur inn kay ilawa doosron per bhi jinhen abhi tum nahi jantay , ( magar ) Allah unhen janta hai . aur Allah kay raastay mein tum jo kuch kharch kero gay , woh tumhen poora poora dey diya jaye ga , aur tumharay liye koi kami nahi ki jaye gi .