اب اللہ نے تم سے (اپنے حکم کا بوجھ) ہلکا کر دیا اسے معلوم ہے کہ تم میں (کسی قدر) کمزوری ہے سو (اب تخفیف کے بعد حکم یہ ہے کہ) اگر تم میں سے (ایک) سو (آدمی) ثابت قدم رہنے والے ہوں (تو) وہ دو سو (کفار) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے (ایک) ہزار ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار (کافروں) پر غالب آئیں گے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (یہ مومنوں کے لئے ہدف ہے کہ میدانِ جہاد میں ان کے جذبۂ ایمانی کا اثر کم سے کم یہ ہونا چاہیئے)،
English Sahih:
Now, Allah has lightened [the hardship] for you, and He knows that among you is weakness. So if there are from you one hundred [who are] steadfast, they will overcome two hundred. And if there are among you a thousand, they will overcome two thousand by permission of Allah. And Allah is with the steadfast.
1 Abul A'ala Maududi
اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے، اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اب اللہ نے تم پر سے تخفیف فرمائی اور اسے علم کہ تم کمزو ر ہو تو اگر تم میں سو صبر والے ہوں د و سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں کے ہزار ہوں تو دو ہزار پر غالب ہوں گے اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے،
3 Ahmed Ali
اب الله نےتم سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کر لیا کہ تم میں کس قدر کمزوری ہے پس اگر تم سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئيں گے اور اگر ہرار ہوں گے تو الله کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئيں گے اور الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
4 Ahsanul Bayan
اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے، پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہونگے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے (١) اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (٢)
٦٦۔١ پچھلا حکم صحابہ رضی اللہ عنہم پر گراں گزرا، کیونکہ اس کا مطلب تھا ایک مسلمان دس کافروں کے لئے بیس دو سو کے لئے اور سو ایک ہزار کے لئے کافی ہیں اور کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہو تو جہاد فرض اور اس سے گریز ناجائز ہے، چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس میں تخفیف فرما کر ایک اور دس کا تناسب کم کرکے ایک اور دو کا تناسب کر دیا (صحیح بخاری)، تفسیر سورہ الا نفال، اب اس تناسب پر جہاد ضروری اور اس سے کم پر غیر ضروری ہے۔ ٦٦۔٢ یہ کہہ کر صبر و ثبات قدمی کی اہمیت بیان فرما دی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کا اہتمام ضروری ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کرلیا کہ (ابھی) تم میں کسی قدر کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو خدا کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اور خدا ثابت قدم رہنے والوں کا مدد گار ہے
6 Muhammad Junagarhi
اچھا اب اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرتاہے، وه خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے، پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وه دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو وه اللہ کے حکم سے دو ہزار پرغالب رہیں گے، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اب خدا نے تم پر بوجھ ہلکا کر دیا اور اسے معلوم ہوگیا کہ تم میں کمزوری ہے۔ تو اب اگر تم میں سے ایک سو صابر (ثابت قدم) ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں گے۔ اور اللہ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اب اللہ نے تمہارا بار ہلکا کردیا ہے اور اس نے دیکھ لیا ہے کہ تم میں کمزوری پائی جاتی ہے تو اگرتم میں سو بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو بحکم خدا دو ہزار پر غالب آجائیں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
9 Tafsir Jalalayn
اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا اور معلوم کرلیا کہ (ابھی) تم میں کسی قدر کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے، اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو خدا کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اور خدا ثابت قدم رہنے والوں کا مددگار ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
چنانچہ فرمایا : ﴿الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ﴾ ” اب بوجھ ہلکا کردیا اللہ نے تم پر سے اور جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے۔‘‘ اسی لئے اللہ کی رحمت اور اس کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس حکم میں تخفیف کردی جائے، چنانچہ اب اگر تم میں سے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں، تو وہ دو سو پر اور اگر ہزار ہوں تو وہ دو ہزار پر غالب ہوں گے۔ ﴿وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ ” اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور تائید کے ذریعے سے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان آیات کریمہ کا اسلوب اگرچہ اہل ایمان کے بارے میں خبر کا ہے کہ جب وہ اس معینہ تعداد تک پہنچتے ہیں تو وہ مقابلے میں کفار کی مذکورہ تعداد پر غالب آجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو شجاعت ایمانی سے نوازا ہے، مگر اس کا معنی اور حقیقی منشا امر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پہلے حکم دیا کہ ایک مومن کو (میدان جنگ میں) دس کافروں کے مقابلے سے فرار نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح دس مومنوں کو سو کافروں اور سومومنوں کو ہزار کافروں کے مقابلے سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ پھر اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے سے دوگنا کفار کے مقابلے سے فرار نہ ہوں۔ اگر کفار کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا جائز ہے، مگر دو امور اس کی تردید کرتے ہیں۔ 1۔ یہ حکم خبر کے اسلوب میں ہے اور خبر کا اصول یہ ہے کہ یہ اپنے باب کے مطابق استعمال ہوتی ہے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر اور امر واقع کی خبر دینا ہے۔ 2۔ اس عدد مذکور کو صبر کی قید کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ یعنی انہوں نے صبر کو مشق کے ذریعے سے اپنی عادت بنا لیا ہو۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ صابر نہ ہوں تو ان کے لئے فرار جائز ہے خواہ کافران سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ اس صورت میں ہے جب نقصان پہنچنے کا اندیشہ غالب ہو، جیسا کہ حکمت الٰہیہ کا تقاضا ہے۔ پہلے نکتے کا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ ﴾۔۔۔ سے لے کر ﴿مَعَ الصَّابِرِينَ ﴾ تک۔۔۔ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امر لازم اور حتمی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس تعداد میں تخفیف فرما دی۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت کریمہ کا پیرا یہ اگرچہ خبر کا ہے،مگر اس سے مراد امر ہے۔ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکم کو خبر کے پیرائے میں بیان کرنے میں ایک انوکھا نکتہ پنہاں ہے، جو امر کے اسلوب میں ہرگز نہ پایا جاتا۔۔۔ اور وہ یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے دلوں کے لئے تقویت اور بشارت ہےکہ وہ عنقریب کافروں پر غالب آئیں گے۔ دوسرے نکتے کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو صبر کی صفت سے مقید کرنا درحقیقت ان کو صبر کی ترغیب دینا ہے۔ یعنی تمہارے لئے مناسب یہ ہے کہ تم وہ تمام اسباب اختیار کرو جو صبر کے موجب ہیں۔ جب وہ صبر کا التزام کرتے ہیں تو تمام اسباب ایمانی اور اسباب مادی اس امر کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں، جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے۔۔۔ یعنی اہل ایمان کی قلیل تعداد کو فتح و نصرت سے نوازنا۔
11 Mufti Taqi Usmani
loa abb Allah ney tum say bojh halka kerdiya , aur uss kay ilm mein hai kay tumharay andar kuch kamzori hai . lehaza ( abb hukum yeh hai kay ) agar tumharay sabit qadam rehney walay so aadmi hon to woh do so per ghalib aajayen gay , aur agar tumharay aik hazar aadmi hon to woh Allah kay hukum say do hazar per ghalib aajayen gay , aur Allah sabit qadam rehney walon kay sath hai .